Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Sab Kuch Yaqeen Hai

Sab Kuch Yaqeen Hai

یقین کیساتھ اللہ اور شک کا ساتھی شیطان، یاد رہے کہ گمانوں کے لشکر میں یقین کا ثبات ایسے ہی، جیسے یزیدی فوج کے سامنے حسینؓ کا ایمان ۔

قرآن میں 28 مرتبہ یقین پربات ہوئی جبکہ 99 مرتبہ لفظ یقین آیا، کہا گیا ’’ یقین رکھو اللہ کاو عدہ سچااور یقین والوں کیلئے تو زمین پر بہت سی نشانیاں‘‘فرمایا گیا ’’ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کیلئے دردناک عذاب ‘‘اور بتایا گیا ’’ اللہ پر یقین رکھنے والوں کیلئے اللہ کارساز،مددگار، مہربان اور محبت کرنے والا ‘‘۔ نبی ؐ کا فرمان’’ یقین کے ساتھ تھوڑا سا کام بہتر ،اُس بہت سے ،جو بے یقینی سے کیاجائے‘‘۔ حضرت علیؓ کہیں ’’دل کی روشنی یقین ،روح کی نصیحت یقین ،دین کی درستگی یقین ، زہد کا پھل یقین ، عقلمند کی چادر یقین اور علم کا کمال یقین ‘‘، امام غزالی ؒ کے مطابق ’’ یقین تاریکی میں روشنی کا گلاب، یقین دولتِ لازوال کا معراجِ کمال اور یقین کو نہ کوئی ڈرا سکے اور یقین کو نہ کوئی لبھا سکے‘‘۔ صاحبو! جیسے اسلام کا ماخذ تسلیم اور تسلیم کی بنیاد یقین ، ویسے ہی یقین کی ضد شک اور یقین کا گھُن وسوسہ ، ویسے تو یقین کی 3 قسمیں، علم الیقین ، عین الیقین اورحق الیقین لیکن سلطان باہوؒ نے مزید دو اور بتا دیں ، پہلی مراۃ الیقین اور دوسری مخ الیقین ، واصف علی واصف کا کہنا ’’ یقین فقر میں داخل نہ ہوتو تذبذب کا شکار اور یقین کو تذبذب سے بچائے شب بیداری اور وسیع مشاہدہ ‘‘۔ دوستو! اگر یقین نہ ہو تو قدم قدم پہ قدم لڑکھڑاجا ئیں ،یقین نہ ہوتو زندگی سوالوں ، گمانوں اور وسوسوں میں گھری رہے ، یقین نہ ہوتو ذہنوں کے چور دروازے کھل جائیں، یقین نہ ہو تو حاصل بھی لاحاصل اوریقین نہ ہو توپھر بے یقینی اور بے یقینی تووہ وبا کہ علامہ اقبالؒ کہہ اُٹھیں !

سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار

غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

یہ بھی علامہ کا ہی کہنا کہ ’’یقینِ محکم عمل پیہم ‘‘مطلب اگریقینِ محکم نہ ہو تو پھر عمل کسی کام کا نہیں ، اگر گھر میں چراغاں اور دل میں تاریکی تو کوئی فائدہ نہیں ، کوئی لاکھ صبح سے شام تک لاالہ الا اللہ کہتا رہے مگر یقین نہ ہوتو نتیجہ صفر اور اگر کوئی ایک بار یقین کے ساتھ سرجھکالے تو کشتی پار، کتاب اللہ میں مزید ارشاد ہو’’میرے بندوں کو یقین کہ وہ مجھ سے مانگ کر محروم نہیں رہتے ،تم کامل یقین والوں میں سے ہوجاؤ اور سن لو کہ یقین والے خود سے طاقتور پر غلبہ پالیں ‘‘۔

قارئین کرام !آج سائنس اور فلسفے نے بے یقینی کو ایسی ہوا دے رکھی کہ کثرتِ مال کے اندر تنگی حال موجود، جو انسان کبھی ایک آقا کا غلام ہوا کرتا تھا آج کئی آقاؤں کا غلام اور حالت یہ کہ ایک طرف گلی گلی اور محلے محلے مایا پرستی ،ہوس پرستی اور خود پرستی کی آتشِ نمرود تو دہک رہی لیکن دوسری طرف ابراہیم ؑ سا یقین ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ، آج چند لمحوں کے غور کے بعد ہی یہ معلوم پڑجائے کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ، یہ ایک اللہ کو مان کر کئی خداؤں کی پرستش ، یہ فرقوں اور خانوں میں بٹا دین ، یہ اقتدار کیلئے مذہب کا استعمال،یہ کفر کے فتوے،یہ بہتان والزام بھرے جھگڑے،یہ سچ اور جھوٹ میں بھٹکتی مخلوق ،یہ طرح طرح کی بحثیں اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ صاحبو! شبہات کی یہ سب دلدلیں ، گمانوں کی یہ سب چالیں اور یہ سب وسوسے، صرف اس لیئے کہ ہماری زندگیوں سے یقین غائب ہو اور جب یقین غائب تو پھر بندہ دوائی کو صحت او رصحت کو زندگی کا دوام سمجھ بیٹھے اوریوں کسی قذافی،کسی حسنی مبارک اور کسی صدام کو یاد ہی نہ رہے کہ ایک مقر ر شدہ قیام کے بعد فرعون رہا نہ موسیٰ ؑ اور حسینؓ رہے نہ یزید۔

لیکن وہاں یہ سب کون سمجھے گا کہ جہاں یہ بھی بھلادیاگیا کہ سرمایۂ یقین ہر سرمائے سے بہتر ، جہاں ہر جائز وناجائز طریقے سے مال کماکر لوگ بڑے یقین سے کہہ رہے ہوں کہ’’ ھذا من فضل ربی ‘‘ اور جہاں غاصب و ظالم بخشش کے یقین کیساتھ احرام باندھے اللہ کے گھر میں ملیں ،گو کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ ’’اللہ کا حکم نہ مان کر اللہ کے روبروہونا ایسے ہی جیسے اللہ کے دوبدوہونا‘‘ ،لیکن پھر بھی یہ سب دیکھ کر محروم اور مسکین یہ سوچنے پرمجبور کہ یہ غربت اور یہ آزمائش صرف اُس کے لیئے ہی کیوں اور جب کسی ذہن میں ’’کیوں ‘‘آجائے تو پھر وہ چور دروازے کھلیں کہ بالآخر بندہ نہ صرف اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے بلکہ اسی مایوسی میں وہ یقین کی دولت بھی گنوا بیٹھے،لیکن کاش یہ سب مان لیتے کہ یہاں کوئی چاہے جتنی دولت بھی کما لے یا یہاں چاہے کوئی کتنا تنگدست ہی کیوں نہ ہو ، ایکدن سب کو سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا اور کاش سب یہ جان جاتے کہ جس نبی ؐ پر اللہ درودبھیجے اس نبی ؐ کو بھی یتیمی اور غریبی سے گذرنا پڑا ، رات کی تاریکی میں گھر چھوڑنا پڑا اور طائف اور اُحد میں زخمی ہونا پڑا لیکن ہر مشکل کا ثابت قدمی سے مقابلہ کر کے حضورؐ یہ درس دے گئے کہ بالآخر کامیابی صاحبِ یقین کے ہی قدم چومے اور یقین محفوظ ہو تو پھر رحمتیں ہی رحمتیں ۔

دوستو! یقین کے بنا ایمان صفر اور یقین کے بغیر عقیدہ زیرو ، یہ یقین ہی کہ ابراہیم ؑ بلا خوف وخطر آگ میں کود جائیں ، یہ یقین ہی کہ اللہ کی رضا کیلئے اسماعیل ؑ سرجھکا دیں ،یہ یقین ہی کہ مچھلی کے پیٹ میں یونس ؑ کے ہاتھ دعا کیلئے اُٹھیں ، یہ یقین ہی کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر پورے قریش کو پہاڑی پر بلاکر محمدؐ صدائے حق بلند کریں ،یہ یقین ہی کہ آپؐ سے کچھ کہے سنے بغیر حضرت ابوبکرؓ سفرِ معراج کی صداقت کی گواہی دیدیں ، یہ یقین ہی کہ تلواروں کے سائے میں حضرت علیؓ بڑے سکون سے حضورؐ کے بستر پر سوجائیں ، یہ یقین ہی کہ کافروں کو غارکے منہ پر کھڑے دیکھ کر حضورؐ بڑے اطمینان سے یہ فرما دیں کہ ’’فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘، یہ یقین ہی کہ قبلہ بدلنے کا سن کر عین نماز میں سب صحابہؓ قبلہ اول سے قبلہ دوئم کی طرف منہ کر لیں اور یہ یقین ہی کہ شراب حرام ہونے کا سن کر منہ کے قریب پہنچے جام پھینک دیئے جائیں ، یقین کیجیئے لاالہ الا اللہ سے محمد رسول اللہ تک اور بدر سے کربلا تک اگر کچھ تھا تو وہ یقین ، لہذا دنیا وآخرت میں کامیابی کیلئے یہ ضروری کہ ہر شک کا گلا گھونٹ کر یقین کو اپنا لیا جائے کیونکہ یقین کے ساتھ اللہ اور شک کا ساتھی شیطان، یاد رہے کہ گمانوں کے لشکر میں یقین کا ثبات ایسے ہی جیسے یزیدی فوج کے سامنے حسینؓ کا ایمان ۔