Monday, 18 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Quaid e Azam Aur Kashmir

    Quaid e Azam Aur Kashmir

    قائداعظم محمد علی جناح پر گفتگو کرنا اور وہ بھی کشمیر کے تناظر میں ایک سعادت اور اعزاز سے کم نہیں۔ غالباً قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ وہ واحد مورخ ہیں، جنہوں نے چند جملوں میں قائد کی شخصیت اور کردار سمویا۔ لکھتے ہیں:دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں، جوتاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے۔ والپرٹ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔

    والپرٹ کو چھوڑیں!یاد آیا کہ نواب بہادر یار جنگ کہا کرتے تھے:جناح، جناح نہیں خدا کی رحمت ہے جو ہم گنہگار مسلمانوں پر آسمان سے اتری۔

    قائداعظم صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے ہی رہنما نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے بھی بہی خوا ہ تھے۔ ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کے متشکل ہونے سے قبل شروع ہوتاہے۔ مورخ جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ وہ غالباً 1926 اور1928درمیان راولپنڈی کے راستے سری نگر تشریف لے گئے۔ ان کی بیگم محترمہ رتن بائی بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دوران سفر قائدا عظم نے اپنی گاڑی خود چلائی اور کشمیر کی پر بہار فضاؤں نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا۔ اس سفر کی روداد تاریخ میں کہیں گم ہوگئی۔

    1936میں قائداعظم اگرچہ سری نگر سیر وسیاحت ہی کی غرض سے آئے لیکن شیخ عبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ انہوں نے پہلی پیشی پر ہی مقدمہ جیت لیا۔ صدیوں سے پسے ہوئے کشمیریوں نے ان کی شخصیت میں ایک عظیم رہنما کی جھلک دیکھی، جس نے چند برسوں بعد اس خطے کا سب سے بڑا لیڈر ہونا تھا۔ اسی دورے میں مسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سری نگر کی پتھرمسجد میں میلاد کے جلسہ کی صدارت بھی کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے جدوجہد کاذکر کیا۔

    قائداعظم نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کو یقین دلایا: مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند جو اپنے عوام کی آزادی کے لئے چوبیس گھنٹے جدوجہد کرتا ہے لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیرمقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔

    شیخ عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ تال میل کی انہیں خبر تھی۔ چنانچہ انہوں نے مسلم کانفرنس کو ہدایت کی کہ وہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ شیخ عبداللہ بہت مقبول لیڈر تھے مگر ان کی رائے مسلم دھارے سے جدا ہورہی تھی۔ وہ کانگریس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کی بھرپور پشت پناہی شروع کی۔ اسی سمے ہندوستان میں جاری سیاسی اور نظریاتی کشمکش سرزمین کشمیر پر بھی منتقل ہو ئی اور اب تک یہ لڑائی تھم نہ سکی۔

    1944ء میں چودھری غلام عباس نے قائداعظم سے دہلی میں طویل ملاقات کی۔ قائداعظم نے انہیں بھرپورتعاون کا یقین دلایا۔ چودھری غلام عباس مرحوم اپنی کتاب کشمکش میں لکھتے ہیں: اس ملاقات سے لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان بالخصوص حضرت قائداعظم اور میرے مابین جو اخلاقی اور روحانی رشتہ قائم ہوا۔ اس سے ہمارے ارادے اور حوصلے زیادہ مضبوط ہو ئے۔

    قائداعظم تیسری اور آخری مرتبہ1944ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک اٹھارہ کلو میڑ کا فاصلہ انہوں نے کھلی کار میں طے کیا۔ چودھری غلام عباس ان کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب کشمکش میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا:

    جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب، سج دھج اوراہتمام سے آراستہ کیاگیا تھا کہ ایسی تیاری مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔ استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی جو عمومی طور پر اپنے جذبات چھپا کررکھتے تھے نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔

    اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔

    شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے قائداعظم کے اعزاز میں سری نگر کے پرتاب پارک میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ انجانی خوشی قائداعظم کے چہرے سے عیاں تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے میرا ایسا استقبال کیا کہ بادشاہ بھی اس پر فخر کرسکتاہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے سے قائداعظم کہاں چونکتے تھے۔ کہا یہ میرا نہیں بلکہ مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔ سری نگر میں قیام کے دوران شیخ عبداللہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی انہوں نے بہت کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں یا کانگریس کے جال میں پھنسیں۔ افسوس! شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کو ایک صفحے پر لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

    شیخ عبداللہ پر بھارتی قوم پرستی کا بھوت سوارہوچکا تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنا وزن مسلم کانفرنس کے پلڑے میں ڈال دیا۔ شیخ عبداللہ قائداعظم کے خلاف سرعام گفتگو کرنے لگے اور پنڈت نہرو کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنے لگے۔ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:میں چودھری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندوستان کے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے۔ ان الفاظ سے قائداعظم کی کشمیریوں سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

    قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔ وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالہ کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروں سے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلہ کا کوئی پرامن حل نکل آئے۔ ممتاز مورخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے مابعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجہ ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجہ بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لئے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔

    اکتوبر 1947 کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجہ کے اصل ارادوں کا پتہ لگانے اور نیشنل کانفرنس کے راہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریبا چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے سری نگر سے ایک ٹیلیگرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ مہاراجہ پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے تجویزدی کہ: پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہئے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ 13 ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے، جہاں گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی حیات میں گورنر جنرل ہاؤس میں خورشید کی اسامی خالی رہی۔ خورشید کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انہوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے۔

    ستمبر1947 کے آخر میں شیخ عبداللہ کو پراسرار طور پرجیل سے رہاکردیا گیا۔ آخری کوشش کے طور پر ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی وفد حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ سری نگر روانہ کیا گیا تاکہ شیخ عبداللہ کو ہندوستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کرسکے۔ میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور اس وقت کے ایسوسی اینڈ پریس آف پاکستان کے منیجر ملک تاج الدین اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سری نگر پہنچے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتش چنار میں ڈاکٹر تاثیر جنہیں پاکستان میں لوگ عمومی طور ایم ڈی تاثیر کہتے ہیں اور وہ سلمان تاثیر کے والد تھے جو پنجاب کے گورنر بھی رہے ہیں، کے ساتھ تبادلہ خیال کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے مابین تعلقات کار کو ازسر نواستوارکیا جائے اور ماضی کی کشیدگی کو دفن کردیا جائے۔ تاثیر کے ساتھ مذاکرات میں شیخ عبداللہ دوٹوک موقف اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ غالباً پاکستان کی اعلی قیادت سے ٹھوس یقین دہانی چاہتے ہیں۔

    تاثیر اوران کے درمیان طے پایا کہ فی الحال شیخ عبداللہ کے معتمد خاص خواجہ غلام محمد صادق حکومت پاکستان سے مذاکرات کریں بعدازاں شیخ عبداللہ خود قائداعظم سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔ پاکستان سے بات چیت کے نتائج کا انتظار کیے بغیر شیخ عبداللہ اچانک دہلی چلے گئے۔ ہوائی اڈے پر وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شیخ عبداللہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وہ وزیراعظم کے خاص مہمان کے طور پر دہلی میں ٹھہرائے گئے۔ جہاں انہوں نے بھارت سے الحاق کے طریق کار کو حتمی شکل دینا تھی۔ پاکستان کواندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کا اعلان کرنا تھا۔ پاکستان ان کے عزائم اور چالوں کو بھانپ چکاتھا۔ چنانچہ لاہور میں غلام محمد صادق کو کسی نے گھا س نہ ڈالی۔ چودھری محمد علی جو 1947 میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب "ظہور پاکستان" میں لکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو پندرہ اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ لیکن مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔

    کشمیر کے مستقبل کو پرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی جسے ضائع کردیا گیا۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بقدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالاخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوشحالی کو یرغمال بنادیا۔ اب حال یہ ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ 27اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پرکشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔

    گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڑ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوئی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدور ہوجاتا۔ جنرل گریسی نے بہانہ کیا کہ وہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا کیونکہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترکہ کمانڈر انچیف ہیں۔ ٹھیک چھ ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں۔ اسی ہی کی سفارش پر مئی 1948پاکستانی فورسز نے آزادجموں وکشمیر کا دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔ چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں کہ چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچ تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔

    فاروق عبداللہ نے گزشتہ برس پانچ اگست کے بعدقائد اعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب بصیرت رہبر تھے جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندوستان میں محفوظ نہیں۔ آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انہیں یاد آتی ہیں لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔ فاروق عبداللہ کے رونے دھونے نے مجھے دیا دلایا کہ شیخ عبداللہ نے دہلی کی ا ورنگ زیب روڑ پر قائداعظم کی رہائش پر ہونے والی ایک گفتگو کو دلچسپ پیرائے میں آتش چنار میں قلمبند کیا ہے۔ شیخ عبداللہ لکھتے ہیں: میں نے جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں لیکن حق یہ ہے کہ انہوں نے کمالِ صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمائش کے انداز میں کہنے لگے:میں آپ کے باپ کی مانند ہوں اور میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔

    میں نے زندگی بھر ہندؤوں کو اپنانے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے۔ محقق اور مورخ عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں:دس ستمبر 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ غالباً اسی دن جناح پر بیہوشی کا غلبہ ہوا۔ اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے۔ کشمیر۔۔۔ انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو۔۔۔ آئین۔۔۔ میں اسے مکمل کروں گا۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ مہاجرین۔۔۔ انھیں ہر ممکن۔۔۔ مدد دو۔۔۔ پاکستان۔۔۔