Monday, 18 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Pakistan Mein Qaumi Zabanon Ki Badhaali

    Pakistan Mein Qaumi Zabanon Ki Badhaali

    21فروری کوہر سال دنیا بھر میں مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے، ملک میں کبھی اردو اور بنگالی کی جنگ اور اب اردو اور انگریزی کا تنازعہ، درمیان میں " زمین کے حقیقی فرزندوں " (Sons of the soil) کی قومی اور مادری زبانیں کہیں کونے میں پڑی توجہ کی منتظر ہیں، حالانکہ پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کا لباس، رسم و رواج، ثقافت و تہذیب، موسیقی اور زبانیں بھی بہت خوبصورت ہیں۔

    بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے اس سر زمین پر موجود حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے ابھی تک انکاری ہیں۔ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہ عجوبے موجود ہیں کہ "فارسی پاکستان میں کسی کی زبان نہیں لیکن پاکستان کا قومی ترانہ فارسی میں ہے، پاکستان میں اردو شاید پانچ چھ لاکھ لکھنو اور یو پی سے آنے والوں کی زبان ہے لیکن اس کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا ہے، انگریزی بھی کسی کی زبان نہیں لیکن اس کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، شیروانی پاکستان میں بسنے والے کسی قوم کا لباس نہیں لیکن اس کو پاکستان کے قومی لباس کا درجہ دیا گیا ہے۔

    پاکستان کے کسی علاقے میں سوٹ استعمال نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں یہ سرکاری لباس ہے، ہمارے رہنما اور حکمران لاکھوں روپے کے کوٹ پتلون گرمی میں بھی پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں، یہ احساس کمتری کی انتہا ہے، حالانکہ وزیر اعظم اور دیگر رہنماء شلوار قمیص میں بہت خوبصورت اور بارعب لگتے ہیں، شلوار قمیص اور واسکٹ ہمارا قومی لباس ہونا چاہیے۔

    یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں رہنے والی قومیتوں کا لباس، ثقافتیں، رسم و رواج، موسیقی اور زبانیں بہت خوبصورت ہیں لیکن ان کو کبھی توجہ نہیں دی گئی، ان کو ہمیشہ نظریہ پاکستان اور حب الوطنی کے خلاف سمجھا گیا، حالانکہ کسی ملک کا اصل نظریہ وہ ہوتا ہے، جس کو وہاں کے باشندے تسلیم کرتے ہوں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ "اردو پاکستان کی قومی زبان نہیں ہے یہ رابطے کی زبان ہو سکتی ہے"۔ ستم ظریفی یہ کہ مذہبی پارٹیاں اردو کے بجائے عربی کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

    1948میں حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، اس اعلان کے خلاف مشرقی پاکستان میں تحریک شروع ہوئی، بنگالیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اردو کسی قوم کی زبان نہیں ہے اور یہ کہ ملک کی 55فی صد آبادی کی زبان بنگالی ہے، دوسری بڑی زبان پنجابی، اس کے بعد سندھی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں، اصولاً تو ملک کی سب سے بڑی زبان کو قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے، اسی طرح پنچابی، سندھی، پشتو اور بلوچی قومی زبانیں قرا ر دی جائیں، چونکہ یہ قومیتیں ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتیں اور آپس میں رابطہ مشکل ہوتا ہے اس لیے اردو کو رابطے کی زبان کا درجہ دیا جائے، بین الاقوامی رابطے کی زبان انگریزی ہی ٹھیک ہے۔

    اس تحریک نے شدت پکڑی اور21فروری 1952کو بنگالی زبان کی تحریک کے حق میں ڈھاکہ میں طلباء، مزدور وں، دانشوروں اور عوام کا بہت بڑا جلوس نکلا۔ اس تحریک کی یاد میں ہر سال 21فروری کو تقریبات منائی جاتی ہیں اور اس طرح یہ دن بنگالی قوم پرستی کا مظہر بن گیا، اس تحریک کے بطن سے بنگالی قومی تحریک ابھری جس نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1999میں اقوام متحدہ نے اس دن کو مادری زبانوں کا دن قرار دیا۔

    پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور اس کا آئین وفاقی ہے، یہاں پر پانچ بڑی قومیتیں آباد ہیں۔ پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچی اور سرائیکی پاکستان میں بسنے والی بڑی قومیتیں ہیں۔ قوم چونکہ ایک طویل عرصے میں بنتی ہیں، اسی فارمولے کے تحت پاکستان کے ارد گرد ایرانی، افغانی، ہندوستانی اور چینی، قومی خصوصیات کی حامل ہیں ’ کیونکہ یہ ہزاروں برس سے موجود ہیں، پاکستان ابھی تک قوم نہیں بنا بلکہ اس عمل سے گزر رہا ہے، سینٹرل ایشیائی تہذیب کی حامل قومیتوں "پختون اور بلوچ" اور گنگا جمنی تہذیب کی حامل قومیتوں "پنجابی اور سندھی" کو ملا کر ایک نیا ملک 68 سال قبل وجود میں آیا تھا، ابھی تو یہ قومیتیں ایک قوم بننے کا سفر شروع کرچکی ہیں، شاید تاریخ کے کسی مرحلے پر یہ ملک ایک قوم بن جائے، کرد صدیوں کے بعد بھی ایرانی، عراقی اور ترک قوموں کا حصہ نہ بن سکے، اس لیے اس حقیقت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کہ پاکستان یک قومی ریاست نہیں ہے بلکہ ایک کثیر القومی ریاست ہے۔

    افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے 1972میں بھی پشتو کے بجائے اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا اور اب بھی پانچ سال حکومت میں رہنے کے باوجود پشتو زبان اور تاریخ کی کوئی خدمت نہیں کی، سرکاری اسکولوں میں پشتو نام کی کوئی زبا ن نہیں پڑھائی جاتی، انگلش میڈیم اسکولوں کے طلباء کو تو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ پشتو روئے زمین پر بسنے والے چھ کروڑ افراد پر مشتمل ایک عظیم قوم کی عظیم زبان ہے۔ پختونوں میں ارب پتی سرمایہ دار موجودہیں لیکن تین پنجابی بھائیوں نے پاکستان کا پہلا پشتو ٹی وی چینل شروع کیا، اکثر پختون رہنماؤں کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اردو کی ترویج کے لیے "مقتدرہ قومی زبان "کا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے توکیا پشتو زبان کے لیے اسی طرح کا ادارہ قائم نہیں ہوسکتا تھا؟