غرناطہ سے باہر آنسوؤں کی وہ پہاڑی ہے جہاں کھڑے ہو کر سپین کے آخری مسلمان بادشاہ ابو عبداللہ محمد نے الحمرا کی طرف دیکھا اور وہ اپنے آنسو نہ سنبھال سکا، میں تین بار اس پہاڑی پر چڑھا اور تین بار وہاں سے الحمرا دیکھنے کی کوشش کی لیکن میں وہ جگہ تلاش نہ کر سکا جہاں سے ابو عبداللہ محمد نے اپنی ڈوبتی سلطنت دیکھی اور وہ ننگی سخت زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
میں ہر بار وہاں جاتا ہوں، جگہ بدل بدل کر الحمرا کی طرف دیکھتا ہوں مگر مجھے وہ زاویہ، وہ اینگل نہیں ملتا جہاں سے ابو عبداللہ نے نیچے گہرائیوں کی طرف جھانکا، میں شاید وہ جگہ کبھی تلاش نہ کر سکوں کیونکہ میں ابو عبداللہ محمد نہیں ہوں، میں الحمرا کی جنت ارضی کا مالک بھی نہیں ہوں، مجھ سے میرا ہسپانیہ بھی نہیں چھنا اور میں جلاوطن بھی نہیں ہوا، میں سیاح ہوں اور سیاحوں کو وہ زاویئے، وہ اینگل کبھی نہیں ملتے جو سخت دل بادشاہوں کی آنکھوں کو رونے پر مجبور کر دیتے ہیں، رونے کیلئے احساس زیاں چاہیے اور سیاح اس احساس سے آزاد ہوتے ہیں، ابو عبداللہ محمد اس پہاڑی سے ایک بار گزرا، وہ اس پر ایک ہی بار ٹھہرا، اس نے ایک ہی بار پیچھے مڑ کر دیکھااور اس کی آنکھوں نے ایک ہی بار آنسوؤں کے ذائقے چکھے مگر وہ پہاڑی اور اس کی اترائیوں، درختوں کے جھنڈوں اور ہزاروں سال پرانی چٹانوں میں گم اس زاویئے نے اس ایک بار میں آب حیات پی لیا، وہ ابد ہوگیا اور دنیا میں اب جب تک الحمرا جیسے محلات کے مقیم بدلتے رہیں گے، جب تک غرناطہ جیسے شہر فتح ہوتے رہیں گے اور جب تک ہسپانیہ جیسے ملک حکمرانوں کی نالائقی سے تاریخ کے قبرستانوں میں گم ہوتے رہیں گے
آنسوؤں کی پہاڑی اس وقت تک قائم رہے گی، لوگ اس وقت تک اس پہاڑی پر آتے اور ابو عبداللہ محمد کے آنسوؤں کے نشان تلاش کرتے رہیں گے، بادشاہوں کی نالائقیوں کا تاوان الحمرا جیسے محل اور آنسوؤں کی پہاڑیاں ادا کرتی ہیں اور غرناطہ کی وہ پہاڑی صدیوں سے یہ قرض چکا رہی ہے اور میں جب بھی غرناطہ جاتا ہوں، میں اس پہاڑی پر ضرور چڑھتا ہوں اور وہاں سے سبزے میں چھپے سفید الحمرا کو کھوجنے کی کوشش کرتا ہوں
اور ہر بار، جی ہاں ہر بار مجھے اپنے کندھوں پر مادر ملکہ کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے، ابو عبداللہ محمد، ہسپانیہ کے آخری پارہ صفت، نالائق اور کوتاہ فہم کی بدنصیب ماں کا ہاتھ جس نے بیٹے کو گھوڑے سے اترتے، زمین پر بیٹھتے اور پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو اس کے اندر کی زخمی عورت بھڑک اٹھی، اس نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دکھ میں بھیگی آواز میں کہا بدنصیب بادشاہ تم جس سلطنت کو مردوں کی طرح بچا نہیں سکے
عورتوں کی طرح اب اس کیلئے آنسو نہ بہاؤ اور اس فقرے کے ساتھ ہی وہ ملکہ، اس کا فقرہ، بادشاہ کے آنسو اور وہ بدنصیب پہاڑی تاریخ کا حصہ بن گئی اور ہر سال ہزاروں سیاح تاریخ کی سسکیوں سے بھیگا یہ فقرہ سننے غرناطہ جاتے ہیں، الحمرا کے بہشتی باغات دیکھتے ہیں، شاہ کی شاہانہ آرام گاہ دیکھتے ہیں، "کنگ چیمبر" میں پانی کا تالاب اور سنگی شیر دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اس پہاڑی کی طرف نکل جاتے ہیں
جہاں سے بدنصیب بادشاہ کے خاندان نے غرناطہ کی آخری شام کو ڈھلتے ہوئے، یورپ کی سب سے بڑی مسلم سلطنت کو تاریخ کی گرد میں گم ہوتے ہوئے اور عبرت کو ضرب المثل بنتے دیکھا تھا، جہاں سے مسلم تاریخ نے یوٹرن لیا اور اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئی۔ کاش جنرل ریٹائر شاہد عزیز سمیت ہمارے ملک کے تمام موجودہ اور سابق بادشاہ آنسوؤں کی یہ ہسپانوی پہاڑی دیکھ لیں، کاش انہوں نے ایک بار جی ہاں ایک بار تاریخ کی چاپ سنی ہوتی
تو شاید یہ لوگ بھی ابو عبداللہ محمد جیسی غلطیاں نہ کرتے، یہ اس ملک کو غلطیوں کی کتاب نہ بناتے، میں آج کل جنرل شاہد عزیز کی کتاب " یہ خاموشی کہاں تک" پڑھ رہا ہوں، جنرل شاہد عزیز اس وقت آئی ایس آئی کے ڈی جی اینالیسز تھے جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کارگل آپریشن لانچ کیا، جنرل شاہد عزیز بعد ازاں چیف آف جنرل سٹاف بنے، یہ کور کمانڈرلاہور بھی رہے اور یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب کے چیئرمین بھی بنے۔
جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کارگل ایک ایسا ناکام آپریشن تھا جس کی وجہ سے پاکستان آرمی بھی بدنام ہوئی اور پاکستان بھی جنگ کے دھانے پر پہنچ گیا، جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا یہ آپریشن جنرل پرویز مشرف کا برین چائلڈ تھا اور ان کے علاوہ جنرل عزیز، جنرل جاوید حسن اور جنرل محمود کو اس آپریشن کے بارے میں اطلاع تھی جبکہ یہ باقی فوج سے خفیہ رکھا گیا۔
جنرل شاہد عزیز کے بقول چار جرنیلوں کی غلطی کی وجہ سے پاکستان فوج کے سینکڑوں جوان شہید ہو گئے، میں سب سے پہلے جنرل شاہد عزیز کی اس کتاب کو سراہنا چاہتا ہوں کیونکہ شاہد عزیز پہلے جرنیل ہیں جنہوں نے انگریزی کی بجائے اردو میں کتاب لکھی، جرنیل عموماً انگریزی میں کتاب لکھتے ہیں اور برسوں بعد اس کا لولہ لنگڑا ترجمہ مارکیٹ میں آتا ہے، دوسرا شاہد عزیز پہلے جنرل ہیں جنہوں نے فوجی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا
جبکہ ہمارے سابق جنرل آج تک 1971ء کی جنگ کو بھی کامیابی قرار دے رہے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں 1971ء کا سانحہ فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھا مگران دونوں خوبیوں کے باوجود مجھے جنرل شاہد عزیز آنسوؤں کی پہاڑی پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور میرا دل چاہتا ہے میں ان سے عرض کروں آپ جس سلطنت کی مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکتے، آپ اس کیلئے اب عورتوں کی طرح آنسو نہ بہائیں۔ ہمیں یہ حقیقت ماننا ہوگی
ہماری اشرافیہ ابو عبداللہ محمد ہے، یہ ریاست کی نوکری نہیں کرتی، یہ اپنے سینئرز، اپنے باس اور اپنے سامنے چڑھتے سورجوں کے ملازم ہوتے ہیں اور یہ اپنے باس کو خوش کرنے کیلئے اپنا تن، من اور دھن قربان کر دیتے ہیں، کارگل غلط تھا تو جنرل شاہد عزیز جیسے لوگوں کو جنرل پرویز مشرف کو روکنا چاہیے تھا، جنرل مشرف نہ رکتے تو انہیں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا چاہیے تھا، اگر یہ آپریشن ناکامی تھا
تو جنرل شاہد عزیز جیسے عہدیداروں کو جنرل پرویز مشرف کے احتساب، ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا، ہم آخر کب تک تاریخ کے کچرے پر سفید میز پوش بچھاتے رہیں گے، ہم کب تک سینئرز کی خواہشوں کے غلام رہیں گے، سچ اگر وقت پر نہ بولا جائے تو یہ غداری ہوتا ہے اور اگر مکا لڑائی کے دوران استعمال نہ ہو تو یہ بے وقوفی ہوتا ہے اور ہم بے وقوف بھی ہیں اور تاریخ کے غدار بھی۔
جنرل شاہد عزیز اور ان کے کولیگز جنرل پرویز مشرف کو کارگل آپریشن سے روک سکتے تھے، یہ سیاسی حکومت کو اعتماد میں لے سکتے تھے، یہ کور کمانڈرز کی میٹنگ میں معاملہ اٹھا سکتے تھے، یہ فوجی قواعد میں تبدیلی کرکے آرمی چیف کو پابند کر سکتے تھے، فوج اس وقت تک کوئی آپریشن نہیں کرے گی جب تک حکومت اور کور کمانڈرز اس کی اجازت نہ دیں اور فوج پوری طرح اس کی تیاری نہ کر لے لیکن جنرل شاہد عزیز ہوں۔
ان سے قبل جنرل ضیاء الحق کے رفقائے کار جنرل چشتی، جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل فضل حق ہوں، ان سے قبل جنرل یحییٰ خان کے وفادار جرنیلوں اور ان سے قبل جنرل ایوب خان کے "یس سر" ہوں کسی جنرل نے اپنے باس کے سامنے منہ نہیں کھولا، یہ اپنی نوکری کو اپنا خدا بنا کر بیٹھے رہے اور یوں ملک کا ہر آپریشن، ہر جنگ شروع میں کامیاب اور آخر میں کارگل ثابت ہوتی رہی۔
ہر مارشل لاء پر مٹھائی بٹی اور مارشل لاء کے آخر میں پاکستان پولرائزیشن کا شکار ہوا، ملک ٹوٹا، ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن آئی اور ملک دہشت گردی کا شکار ہوا، نوکری بازی کا یہ کلچر صرف فوج تک محدود نہیں، یہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی حکومتوں کا حصہ بھی ہے، وہاں بھی دو، دو، تین تین سیاسی جرنیل فیصلہ کرتے ہیں اور قوم ان کا خمیازہ بھگتتی ہے اور تاریخ میں ہر سال آنسوؤں کی کسی نئی پہاڑی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہماری صفوں سے ہر سال ایک نیا عبداللہ محمد باہر نکلتا ہے اور پوری قوم کو رونے پر مجبور کر دیتا ہے، میں آج یہ نہیں سمجھ سکا اگر ہمارے پاس ضمیر ہے اور اگر یہ زندہ ہے تو پھر یہ اس وقت کیوں نہیں بولتا، یہ اس وقت اپنے زندہ ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیتا جب اس کی ضرورت ہوتی ہے، جب دو تین جنرل مل کر کارگل جیسے آپریشن لانچ کر دیتے ہیں یا جنرل یحییٰ بنگالیوں کو سبق سیکھانے کا حکم دیتا ہے۔
یہ کیسا ضمیر ہے جو اونچی آواز میں سانس لینے کیلئے فرعون کے مرنے کا انتظار کرتا ہے، ہم اگر من حیث القوم زندہ ہیں تو پھر جنرل شاہد عزیز جیسے لوگوں کو اس وقت بولنا چاہیے جب فرعون اپنی انا کی تسکین کیلئے فوجوں کو سمندر میں اترنے کا حکم دے رہے ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں آنسوؤں کی پہاڑیاں بنتی رہیں گی، ہم ان پہاڑیوں پر بیٹھ کر روتے رہیں گے اور تاریخ ہم سے یہ شکوہ کرتی رہے گی
" آپ لوگ جس سلطنت کو مردوں کی طرح نہیں بچا سکے آپ اب اس کیلئے عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہا رہے ہیں" یہ تاریخ ہے جنرل صاحب اور تاریخ اور سیلاب کا پانی صرف رونے سے نہیں روکتا، اس کیلئے پشتے بنانے پڑتے ہیں، اپنی انا، نوکری، عہدے اور جان کے پشتے ورنہ دوسری صورت میں آنسوؤں کی پہاڑیاں بنتی ہیں اور نسلیں ان پہاڑیوں پر بیٹھ کر اپنے اباؤ اجداد کا سیاپا کرتی ہیں۔