آپ ہندوستان میں انگریزوں کی تاریخ ملاحظہ کیجیے، پر تگالی 1434ء میں انڈیا آئے، ہالینڈ کے تاجروں نے 1605ء میں ہندوستان میں قدم رکھا اور برطانوی تاجروں نے 1612ء میں یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا دفتر کھولا، فرانسیسی اور ڈنمارک کے بزنس مین ان کے بعد ہندوستان آئے لیکن یہ لیٹ ہو جانے کی وجہ سے یہاں قدم نہ جما سکے، یورپی باشندے برصغیر آ گئے لیکن یہاں کی گرمی، گرد، ہیضے اور انفرا سٹرکچر کی کمی نے انھیں بہت جلد پریشان کر دیا، ہندوستان میں آٹھ ماہ گرمی پڑتی تھی۔
حبس کے موسم میں سانس تک لینا دشوار ہوتا تھا، آندھیاں بھی آتی تھیں اور گرد کے طوفان بھی اٹھتے تھے، برسات میں ہیضہ پھوٹتا تھا اور لاکھ لاکھ زندگیاں لے جاتا تھا، انفراسٹرکچر کی حالت یہ تھی ہندوستان میں کوئی ایسی ہائی وے نہیں تھی جو پورے ملک کو آپس میں ملاتی ہو، پورے ہندوستان میں کوئی پل نہیں تھا، پورے برصغیر میں کوئی پختہ سڑک نہیں تھی، پورے ہندوستان میں اسکولوں، اسپتالوں اور ڈاک کا کوئی مربوط نظام نہیں تھا، ہندوستان کی حکومت پنجاب، دہلی، گجرات اور بنگال تک محدود تھی، ملک کا ساٹھ فیصد علاقہ خودمختار تھا، ان علاقوں کے حکمران راجے کہلاتے تھے۔
بادشاہ کو ان راجوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا لیکن یہ جس دن تخت کو چیلنج کر دیتے، مغلوں کی فوج آتی تھی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپس چلی جاتی تھی، ہندوستان ایسا کیوں تھا؟ اس کی واحد وجہ دفاع تھا، یہ گرم موسم اور یہ کمزور انفراسٹرکچر دراصل ہندوستان کا ڈیفنس تھا، ہندوستان پر ہزاروں سال سے حملے ہو رہے تھے، مشرقی یورپ، سینٹرل ایشیا، ایران، ترکی اور منگولیا سے لشکر آتے تھے، برصغیر کوفتح کرتے تھے لیکن جلد ہی گرمی، گرد اور ہیضے کی وجہ سے واپس بھاگ جاتے تھے۔
سڑکوں اور پلوں کی کم یابی بھی دفاع تھی، درہ خیبر سے دلی تک راستے میں دس چھوٹے بڑے دریا آتے تھے، دریاؤں میں پانچ ماہ طغیانی رہتی تھی چنانچہ حملہ آور کے پاس کناروں پر رکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا، حملہ آور بار بار رکنے کی وجہ سے تھک جاتے تھے، یہ تھکاوٹ آگے چل کر ان کی شکست کی وجہ بن جاتی تھی، آپ ہندوستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، ہندوستان کی دس ہزار سال کی تاریخ میں مون سون میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی اور اگرکوئی طالع آزما یہ غلطی کر بیٹھا تو اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، حملہ آور فوجیں مون سون کے سیلابوں کے بعد کشتیوں کے پل بناتی تھیں۔
یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا کیونکہ ہاتھیوں، گھوڑوں، توپوں اور لاکھ لاکھ فوجیوں کو کشتیوں کے پلوں سے گزارنا آسان نہیں ہوتا تھا، آج بھی دریائے جہلم، چناب اور راوی میں ایسی درجنوں توپیں مدفون ہیں جو کشتیوں کے پل بیٹھ جانے کی وجہ سے پانی کا رزق بن گئیں، ہندوستان کی تاریخ میں شیر شاہ سوری پہلا بادشاہ تھا جس نے بنگال سے پشاور، لاہور سے ملتان اور دہلی سے راجپوتانے تک تین بڑی شاہراہیں بنوائیں، یہ سڑکیں صرف سڑکیں نہیں تھیں، یہ پورا ہندوستان تھیں کیونکہ یہ سڑکیں جہاں جہاں گئیں وہ علاقہ ہندوستان بن گیا اور یہ سڑکیں جہاں ختم ہوگئیں وہاں ہندوستان بھی ختم ہو گیا لیکن ان سڑکوں پر بھی پل نہیں تھے، یہ دریا کے ایک پاٹ پر ختم ہو جاتی تھیں اور دوسرے پاٹ سے دوبارہ شروع ہو جاتی تھیں۔
مسافر گھوڑوں سمیت کشتیوں کے ذریعے دریا پار کرتے تھے، انگریز آیا، ہندوستان دیکھا تو وہ ماضی میں سینٹرل گورنمنٹس نہ ہونے کی وجہ سمجھ گیا، وہ جان گیا " ہم جب تک ہندوستان کو آپس میں نہیں جوڑیں گے، ہم مضبوط حکومت نہیں بنا سکیں گے" چنانچہ انگریزنے ہندوستان میں انفراسٹرکچر بچھانا شروع کر دیا، اس نے پورے ہندوستان کو سڑکوں، پلوں، ریل، ٹیلی فون، ڈاک، ٹیلی گراف اور ریڈیو سے جوڑ دیا، ہندوستان میں پہلا پل انگریز نے بنوایا، پہلی اسفالٹ روڈ انگریز نے بنوائی اور ریل کا نظام بھی انگریز ہی نے تشکیل دیا، انگریز کی سڑک، ریل اور ٹیلی فون نے پورے ہندوستان کو ملا دیا اور یہ ملاپ انگریز کی مضبوط حکومت کی بنیاد بنا، انگریز سڑک سے محبت کرتا تھا لیکن ہم سڑک، پل اور کھمبے کے خلاف تھے۔
کیوں؟ کیونکہ ہم ہندوستانی سڑک، ریل اور کھمبے کو غلامی کا طوق سمجھتے تھے، کیوں؟ کیونکہ ہم نے ہزاروں سال پلوں اور سڑکوں کے بغیر زندگی گزاری تھی، پلوں اور سڑکوں کی یہ کمی ہمارا جنگی دفاع تھی چنانچہ ہم نفسیاتی طور پر انفراسٹرکچر کے خلاف تھے، آپ ہندوستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ہندوستان کی ساری تحریکیں سڑکیں توڑتیں، پل گراتیں، ریل کی پٹڑیاں اکھاڑتیں، فون اور بجلی کے کھمبے گراتیں، ڈاک خانوں، ٹیلی گراف آفسز اور انفراسٹرکچر کے ذمے دار محکموں کو آگ لگاتی نظر آئیں گی، ملک میں آج بھی جب احتجاج ہوتا ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں؟ لوگ سڑک، پل اور پٹڑی توڑتے ہیں، یہ سرکاری گاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں، یہ سرکاری دفتروں پر ہلہ بولتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم آج بھی انفراسٹرکچر کے خلاف ہیں، ہم جسمانی طور پر آزاد ہو چکے ہیں لیکن ہم نفسیاتی طور پر آج بھی غلام ہیں۔
آپ کسی دن ایک دلچسپ ریسرچ کیجیے، آپ پاکستان کی تاریخ کی دس بڑی مخالفتوں کا ڈیٹا نکالیے، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، ہماری دس کی دس مخالفتیں ترقی اور انفراسٹرکچر سے متعلق تھیں، ہم لوگ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے آمروں کو حکمران مان لیں گے لیکن ہم کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے، ہم طالبان اور داعش کے خلاف جلوس نہیں نکالیں گے لیکن ہم موٹروے کی مخالفت میں سڑک پر لیٹ جائیں گے، ہم بلدیاتی الیکشن میں ایک دوسرے کی کھل کر مخالفت کریں گے۔
ہم ایک دوسرے کے خلاف قتل کی ایف آئی آر بھی درج کرائیں گے لیکن ہم پاک چین اقتصادی راہ داری کی مخالفت میں اکٹھے ہو جائیں گے، ہم پچاس پچاس سال قبائلی لڑائیاں لڑیں گے لیکن گیس کی سینٹرل پائپ لائین اڑانے، بجلی کی مین ٹرانسمیشن لائین توڑنے، گوادر پورٹ بنانے والے چینی انجینئرز کو قتل کرنے اور صوبوں کو آپس میں ملانے والی ہائی ویز روکنے کے لیے اکٹھے بیٹھ جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ ہم آج بھی نفسیاتی طور پر اس دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں پل، سڑک اور پٹڑی کا نہ ہونا دفاع تھا۔
ہم آج بھی گھوڑوں، خچروں اور ہاتھیوں کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ ہماری وہ نفسیات ہے جس کی وجہ سے ہم آج "میٹرو بس" جیسے منصوبوں کے بھی خلاف ہیں، ہم انھیں عیاشی سمجھتے ہیں، ہم اگر چند لمحوں کے لیے تعصب کی عینک اتار دیں، ہم چند لمحوں کے لیے ماضی میں پیوست نفسیات کی ٹوپی بھی اتار دیں تو مجھے یقین ہے ہم میٹرو بس منصوبے پر میاں شہباز شریف کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے، ہم ان کو سیلوٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
یہ درست ہے پنجاب کے حالات آئیڈیل نہیں ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر ہونا چاہیے، اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں پر بھی توجہ ہونی چاہیے اور سرکاری اداروں کی ری سٹرکچرنگ بھی ہونی چاہیے لیکن آپ اگر ان تمام خامیوں کے باوجود پنجاب کا تقابل باقی تین صوبوں سے کریں تو آپ کو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا، آپ چند دن کراچی میں رہیں، آپ چند دن اندرون سندھ میں گزاریں، آپ بلوچستان کا چکر لگائیں اور آپ خیبر پختونخواہ کے تین بڑے شہروں کا دورہ کریں اور آپ اس کے بعد لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد یا سیالکوٹ جائیں، آپ کو واضح فرق نظر آئے گا، اس فرق کا کریڈٹ بہرحال میاں شہباز شریف کو جائے گا۔
آپ میٹرو کی مثال ہی لے لیجیے، میاں شہباز شریف نے شدید مخالفت کے باوجود10 فروری 2013ء کو لاہور میں میٹروبس سروس چلائی، میں بھی اس منصوبے کا مخالف تھا لیکن میں دو ماہ قبل لاہور گیا، میں نے ٹکٹ لی اور میٹروبس میں سوار ہو گیا، میں گجومتہ سے شاہدرہ تک گیا، آپ یقین کریں یہ سفر شانداربھی تھا آرام دہ بھی، میرے دائیں بائیں بیٹھے لوگ جھولیاں پھیلا کر میاں شہباز شریف کو دعائیں دے رہے تھے، کل راولپنڈی اسلام آباد میں بھی میٹرو بس سروس شروع ہو گئی، میں نے اس میٹرو میں بھی سفر کیا، یہ میٹرو بھی"نیا پاکستان" ہے، آپ بھی میٹرومیں 23کلومیٹر کا سفر کریں، مجھے یقین ہے آپ بھی میاں شہباز شریف کی تعریف پر مجبور ہو جائیں گے، حنیف عباسی میٹرو منصوبے کے چیئرمین ہیں۔
میں نے اس شخص کو دن رات کام کرتے دیکھا، یہ2013ء میں الیکشن ہارگئے لیکن انھوں نے ہار کے باوجود راولپنڈی کے عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا، آپ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے لے کر میٹروبس تک حنیف عباسی کی محنت دیکھئے، آپ ان کی تعریف پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔ میٹرو بس جیسے منصوبے ترقی کے استعارے ہوتے ہیں، ہم عوام کو ایسی ترقی سے محروم رکھ کر ترقی نہیں کر سکیں گے، ہم نے آگے بڑھنا ہے تو پھر ہمیں انفراسٹرکچر پر توجہ دینا ہو گی، امریکا اگرآج امریکا ہے، برطانیہ برطانیہ، فرانس فرانس، جاپان جاپان اور چین اگر چین ہے تو یہ انفراسٹرکچر کا کمال ہے، آپ کے پاس اگر انفراسٹرکچر نہیں ہو گا تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوجائیں آپ ترقی یافتہ نہیں کہلا سکیں گے۔
آپ لائبیریا کی مثال لیجیے، دنیا کے مہنگے ترین ہیرے لائبیریا سے نکلتے ہیں لیکن یہ بکتے پیرس میں ہیں، آپ نے کبھی سوچا لائبیریا لائبیریا کیوں ہے اور پیرس پیرس کیوں؟ یہ فرق انفراسٹرکچر کا فرق ہے، لائبیریا دنیا کے مہنگے ترین ہیروں کا مالک ہونے کے باوجود غریب ہے اور پیرس لائبیریا کے ہیرے بیچ کر امیر ہو گیا، کیوں؟ کیونکہ فرانس انفراسٹرکچر میں آگے ہے، لائبیریا اس وقت تک لائبیریا رہے گا یہ جب تک فرانس جیسا انفرا سٹرکچر نہیں بناتا، ہمارے خطے میں شیر شاہ سوری نے پہلی سڑک بنائی، انگریزوں نے پہلا روڈ نیٹ ورک تشکیل دیا، صدر ایوب خان نے پاکستان میں سڑکوں کا پہلا جال بچھایا اوراب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سڑکوں، پلوں اور میٹروز پر کام کر رہے ہیں۔
ہم نے سوری کی مخالفت بھی کی، انگریزوں کی بھی، ایوب خان کی بھی اور اب میاں برادران کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، آپ کو یاد ہو گا قوم نے 1990ء کی دہائی میں موٹروے کی کتنی مخالفت کی لیکن آج قوم موٹروے کو ملک کا سب سے بڑا اثاثہ قرار دے رہی ہے، مجھے یقین ہے ہم کل لاہور اور راولپنڈی کی میٹرو کی تعریف بھی کریں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ ہماری عادت ہے، ہم مینگنیوں کے بغیر کسی کو دودھ کا پیالہ پیش نہیں کرتے۔
ہم اس معاملے میں ثابت قدم ہیں، ہمیں اب بہرحال یہ روایات بدلنا ہوں گی، ہمیں دل بڑا کرنا ہو گا، ہمیں کام کرنے والوں کا احسان بھی ماننا ہو گا، ہمیں ان کی تعریف کرنی ہو گی، ہمیں تاریخ سے ضرور سیکھنا ہوگا، میری دوسرے صوبوں کی قیادت سے بھی درخواست ہے، آپ بھی مہربانی کریں، آپ بھی کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں میٹرو سروس شروع کریں تاکہ عام لوگوں کو سہولت ملے اور یہ آپ کے لیے بھی جھولیاں پھیلا کر دعا کریں۔
ترقی آج کے انسان کا حق ہے اور ہمیں یہ حق انھیں جلد سے جلد دینا ہوگا۔