Friday, 22 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ab Taali Nahi Baje Gi

Ab Taali Nahi Baje Gi

شیخ رشید میں تین خوبیاں ہیں، یہ پسپا نہیں ہوتے یعنی "گیو اپ" نہیں کرتے، یہ راولپنڈی شہر کے بلاشرکت غیرے مالک ہوتے تھے، یہ جس کھمبے پر ہاتھ رکھ دیتے تھے لوگ اس کھمبے کو چومنا شروع کر دیتے تھے لیکن پھر شیخ رشید اسی شہر میں اچھوت بن گئے، لوگ لال حویلی کو نفرت سے دیکھ کر گزرنے لگے اور شیخ رشید پر جنازوں تک میں شرکت پر پابندی لگ گئی، راولپنڈی کے شہریوں نے ان کی دو بار ضمانت ضبط کرا دی لیکن اس افسوسناک انجام کے باوجود شیخ رشید سیاست سے مایوس نہیں ہوئے، یہ سیاسی میدان میں ڈٹے رہے اور اپنے وقت کا انتظار کرتے رہے، شیخ رشید کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ " گیو اپ" کر جاتا اور لون تیل کی دکان کھول لیتا، دوسری خوبی شیخ رشید کو بولنا آتا ہے۔

یہ رونق لگانے کے ماہر ہیں، یہ آج بھی تقریر کے ذریعے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں، یہ ٹیلی ویژن اسکرین اور مائیک کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں 2008ء میں عوام نے جب انھیں بری طرح مسترد کر دیا تھا تو شیخ رشید نے ٹیلی ویژن چینلز کو اپنا اکھاڑہ بنا لیا اور عوام کو آہستہ آہستہ اپنے لفظوں، اپنے فقروں کے جال میں پھانستے چلے گئے، لوگ شیخ رشید کو دیکھنے لگے، پروگرام کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا رہا اور یوں شیخ رشید کی مارکیٹ بڑھتی رہی، یہاں تک کہ شیخ رشید کی سیاست دوبارہ زندہ ہو گئی اور یہ لیاقت باغ کو التحریر اسکوائر بنانے میں مصروف ہو گئے اور تیسری شیخ رشید سیاست کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں، یہ جانتے ہیں پیپلز پارٹی کا وقت کب اسٹارٹ ہوا۔

میاں برادران کب پاپولر ہوئے اور عمران خان نے کس وقت ان دونوں جماعتوں میں ڈنٹ ڈال دیا چنانچہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف تینوں سے فائدہ اٹھاتے رہے، یہ جانتے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف تینوں راولپنڈی سے الیکشن جیت سکتی ہیں لیکن انھیں کوئی فیس نہیں مل سکتا اور وفاقی دارالحکومت اور جی ایچ کیو کی قربت کی وجہ سے ان جماعتوں کو راولپنڈی سے شیخ رشید جیسا کوئی نامور کھلاڑی چاہیے چنانچہ شیخ رشید نے اپنے دروازے تینوں پارٹیوں کے لیے کھولے رکھے، یہ پاکستان مسلم لیگ ن سے بھی رابطے میں رہے۔

یہ صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سے بھی ملتے رہے اور یہ عمران خان کے سینے سے بھی لگتے رہے لیکن یہ کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے، یہ پاکستان پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کے خلاف طویل زبان درازیوں اور پارٹی کی پاپولیرٹی میں کمی کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے، یہ جانتے ہیں پیپلز پارٹی انھیں کبھی دل سے قبول نہیں کرے گی، یہ یہ بھی جانتے ہیں پیپلز پارٹی اگلا الیکشن نہیں جیت سکے گی چنانچہ شیخ رشید ہارنے کے لیے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت شیخ رشید کو پارٹی میں شامل کرنا چاہتی ہے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار تینوں انھیں پارٹی میں واپس لینا چاہتے ہیں، اس کی دو وجوہات ہیں۔

شیخ رشید ایک ایسا تیر ہے جسے کوئی بھی جماعت کسی بھی وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف استعمال کر سکتی ہے اور یہ ن لیگ کے مشکیزے میں سوراخ کر سکتا ہے، آپ اس سلسلے میں 24 فروری 2010ء کے ضمنی الیکشن کی مثال لے سکتے ہیں، این اے 55 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے شیخ رشید کو سپورٹ کیا اور شیخ رشید نے تقریباً یہ سیٹ حاصل کر لی تھی لیکن میڈیا کی مخالفت اور میاں برادران کے جلسوں کی وجہ سے شیخ رشید یہ سیٹ ہار گئے تاہم انھوں نے 42 ہزار 5سو 30 ووٹ حاصل کر لیے، میاں برادران کا خیال ہے 2013ء کے الیکشن میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں شیخ رشید کو سپورٹ کر دیں گی، حنیف عباسی کی شہرت کو ایفی ڈرین کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے اور شکیل اعوان شریف آدمی ہے چنانچہ شیخ رشید میدان مار جائے گا۔

دوسرا پاکستان مسلم لیگ ن میں بولنے والے لوگ بہت کم ہیں، چوہدری نثار علی، خواجہ آصف اور احسن اقبال میڈیا سے دور ہوتے جا رہے ہیں، یہ اپنی قیادت کا کھل کر دفاع بھی نہیں کرتے، یہ جلسوں کے لوگ بھی نہیں ہیں، مسلم لیگ ن کی بی ٹیم کمزور اور ان پاپولر ہے، یہ میڈیا اور جلسوں میں مار کھا جاتی ہے، شیخ رشید ان دونوں کاموں کے ماہر ہیں لہٰذا اگر شیخ رشید پارٹی میں واپس آ جاتے ہیں تو ن لیگ کو لائوڈ اسپیکر بھی مل جائے گا اور ن لیگ کے لیے راولپنڈی بھی محفوظ ہو جائے گا، میاں برادران نے محتاط الفاظ میں حنیف عباسی اور شکیل اعوان کو بھی اعتماد میں لے لیا تھا لیکن میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز نے شیخ رشید کی مخالفت کر دی۔

حسین نواز 12 اکتوبر 1999ء کے بعد شیخ رشید کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں، حسین نواز اور بیگم کلثوم نواز اس دن کو بھی فراموش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب بیگم کلثوم نے شیخ رشید سے مدد مانگی، شیخ رشید نے انھیں لال حویلی بلایا اور وہاں ان سے رعونت سے بھرے لہجے میں کہا "نواز شریف اور شہباز شریف باہر نہیں آئیں گے، آپ وقت ضایع کر رہی ہیں، آپ چپ چاپ ملک سے نکل جائیں " بیگم کلثوم نواز کے لیے شیخ رشید کا لہجہ اور رویہ انتہائی افسوسناک تھا چنانچہ یہ روتی ہوئیں لال حویلی کی سیڑھیوں سے اتریں، بیگم کلثوم نواز اور حسین نواز کو یہ بات بھی نہیں بھولتی چنانچہ یہ شیخ رشید کے سخت مخالف ہیں۔

میاں برادران صرف حسین نواز اور بیگم کلثوم نواز کی وجہ سے شیخ رشید کو پارٹی میں واپس نہیں لے پا رہے۔ باقی رہ گئی پاکستان تحریک انصاف، عمران خان شیخ رشید کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن شیخ رشید جب تک ن لیگ سے پوری طرح مایوس نہیں ہو جاتے یا عمران خان کے سونامی کو سڑکوں پر موجیں مارتے نہیں دیکھ لیتے یا پھر راولپنڈی کی ٹکٹوں کی یقین دہانی نہیں کروا لیتے اس وقت تک عمران خان کی کشتی میں سوار نہیں ہوں گے، یہ اس وقت تک لیلیٰ کی طرح مجنوں کو اپنی گلی کے سو چکر لگواتے رہیں گے اور عمران خان یہ چکر لگا رہے ہیں۔

شیخ رشید میں ان خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہیں اور یہ خامیاں ان کی شخصیت کی کشتی کے چھید ثابت ہو رہی ہیں، شیخ رشید ذہنی لحاظ سے 80ء کی دہائی سے آگے نہیں نکل سکے، یہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے اور لوگ چند ماہ میں سید پرویز مشرف کی شان میں ان کے منہ سے نکلنے والے سہرے بھول جائیں گے، شیخ رشید یہ بات سوچتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں عوام کا حافظہ ضرور کمزور ہے لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کا حافظہ بہت مضبوط ہے، یہ عوام کو اب کبھی ماضی بھولنے نہیں دیں گے، میڈیا کے پاس شیخ رشید کے ایسے سیکڑوں کلپس موجود ہیں جو شیخ رشید کی سیاست کو جوہڑ سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔

شیخ رشید جب بھی اپنے پر پھڑپھڑائیں گے کوئی اینکر یا سوشل میڈیا کا کوئی گرو ماضی کا کیچڑ ان کے پروں سے باندھ دے گا اور یوں ان کی پرواز "ٹھس" ہو جائے گی، دوئم، میڈیا 2008ء کے بعد شیخ رشید کا سب سے بڑا سپورٹر تھا، یہ ریٹنگ کے چکر میں شیخ رشید کو زندہ ہونے کا موقع دیتا رہا، میڈیا نے شیخ رشید کو تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ کوریج اور اہمیت بھی دی، میڈیا آج بھی انھیں یک طرفہ بولنے کا موقع دیتا ہے لیکن شیخ رشید نے ذاتی اکڑ، بدتمیزی، اور " ون او ون" کی ضد کی وجہ سے تمام سینئر اینکرز کو ناراض کر دیا جس کی وجہ سے یہ اب صف دوم کے اینکرز اور پروگراموں تک محدود ہو گئے ہیں اور یہ بڑی تیزی سے صف سوم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

شیخ رشید کے اس کامیاب سفر کی وجہ سے سینئر اینکرز نے ان کے ماضی کے درجنوں کلپس جمع کر رکھے ہیں، آپ نے ان کلپس کی ایک جھلک پچھلے ہفتے اس وقت ملاحظہ کر لی ہو گی جب پاکستان تحریک انصاف نے شیخ رشید کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے اور 13 اگست کے جلسے میں شرکت کا فیصلہ کیا، اس اعلان کے فوراً بعد عمران خان اور شیخ رشید کے کلپس میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے اور پاکستان تحریک انصاف چند گھنٹوں میں "بیک فٹ" پر چلی گئی، تحریک انصاف نے سیاسی اتحاد کی تردید کر دی جب کہ عمران خان کی شمولیت کے باوجود شیخ رشید کا 13 اگست کا جلسہ ناکام ہو گیا، پاکستان تحریک انصاف کے اپنے کارکن جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔

عمران خان کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یوں لیاقت باغ لیاقت باغ ہی رہا، یہ التحریر اسکوائر نہ بن سکا، پاکستان تحریک انصاف بھی اب شیخ رشید سے دور ہٹ جائے گی، شیخ رشید ایک اچھے سیاستدان تھے لیکن یہ انا، تکبر، بدتمیزی اور ماضی کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ایک ایسا لوہا بن چکے ہیں جو ہر اس لکڑی کو ڈبو دے گا جو اسے اپنے اوپر بیٹھنے کی اجازت دے گی، شیخ رشید کے پاس اب صرف ایک آپشن بچا ہے یہ قوم اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اس کے بعد اپنی زندگی فلاح عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیں اور یہ اس وقت کا انتظار کریں جب لوگ انھیں صدق دل سے معاف کر دیں ورنہ دوسری صورت میں شیخ رشید کی ٹلی دوبارہ نہیں بج سکے گی کیونکہ سیاست میں اب بے اصولی اور جوڑ توڑ کی گنجائش نہیں رہی، اس ملک میں اب صرف اور صرف اصول زندہ رہیں گے اور جو شخص اصول قربان کر کے سمجھوتہ کرے گا عوام اسے مسترد کر دیں گے خواہ وہ شخص عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.