Wednesday, 15 January 2025
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Afghanistan Ke Halaat

    Afghanistan Ke Halaat

    آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سینٹرل ایشیا اور ایران میں سامانیان (Samanid) کے نام سے ایک بڑی سلطنت تھی، افغانستان کا علاقہ غزنی بھی اس سلطنت کا حصہ تھا، غزنی کا گورنر الپتگین تھا، وہ ترک غلام تھا، بادشاہ کے قریب تھا لہٰذا بادشاہ نے اسے غزنی کا کمانڈر اور بعدازاں گورنر بنا دیا، الپتگین کے پاس ناصرالدین سبکتگین نام کا ایک ترک غلام تھا، گورنر نے اسے رائل گارڈ بنا دیا، وہ بہادر، زیرک اور سمجھ دار تھا، اس نے آہستہ آہستہ گورنر کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور آخر میں غزنہ کے نام سے آزاد ریاست قائم کر لی، سامانی ریاست کم زور ہوئی تو سبکتگین نے غزنہ ریاست کا رقبہ بڑھا لیااور وہ آج کے ازبکستان، ایران اور ہندوستان کے سرحدی علاقوں پر قابض ہوگیا۔

    محمود غزنوی اس سبکتگین کا بیٹا تھا، یہ درست ہے محمود غزنوی 971میں غزنی میں پیدا ہوا لیکن وہ ترک باپ کابیٹا تھا چناں چہ محمود غزنوی افغان نہیں ترک تھا اوراس ترک بادشاہ نے ہندوستان پر 17حملے کیے اور ان حملوں کا مقصد اپنی سلطنت کو وسعت دینا تھا، افغان ریجن کا دوسرا اہم کردار شہاب الدین غوری تھا، اس نے غورستان کے نام سے غوری سلطنت قائم کی اور وہ بھی پوری زندگی ہندوستان پر حملہ آور ہوتا رہا، اب سوال یہ ہے کیا شہاب الدین غوری افغان تھا؟ جی نہیں وہ ایرانی تھا اور اس نے اپنے زمانے میں آج کے افغانستان پر بھی اسی طرح حکومت کی جس طرح وہ بنگلہ دیش، ایران، شمالی انڈیا، پاکستان، تاجکستان اور ترکستان پر قابض رہا، آج کے ماڈرن افغانستان کی بنیاد احمد شاہ ابدالی (درانی) نے 1747میں رکھی تھی۔

    وہ ملتان میں پیدا ہوا تھااور وہ پشتون تھا، ہم بہرحال اس لحاظ سے اسے افغانی پشتون کہہ سکتے ہیں، اس سے قبل افغانستان پر تین سو سال مغلوں نے حکومت کی اور وہ ازبک تھے اور ہم اگر اس میں تاتاریوں کو بھی شامل کر لیں تو افغانستان دو اڑھائی سو سال چنگیز خان اور ہلاکو خان کی اولاد کے قبضے میں بھی رہا اور ہ لوگ منگولیا کے رہنے والے تھے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں افغان آج جن واریئرز اور کمانڈرز کی مثالیں دے کرپاکستان کوللکار رہے ہیں۔

    ان میں سے کسی کا تعلق بھی افغانستان کے ساتھ نہیں تھا، وہ بھی افغانستان پر اسی طرح قابض رہے جس طرح روسی اور امریکی رہے اور وہ بھی افغانوں کی بے مروتی، پیسے کی حرص، بے وفائی اور ضد کی وجہ سے انھیں اسی طرح چھوڑ گئے جس طرح برطانوی، امریکی اور روسیوں نے چھوڑ دیا، میں نے پچھلے دنوں افغانستان کے ایک نائب وزیرکی گفتگوسنی، وہ پاکستان کو دھمکی دے رہا تھا، تم نے جس غزنوی، غوری اور ابدالی کے نام پر میزائل بنائے ہیں۔

    وہ سب افغان تھے اور ہمارے پاس آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ابدالی، غوری اور غزنوی موجود ہیں، ہم نے اگر ان میں سے چند کو چھوڑ دیا تو وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم تاریخ میں کیاکرتے تھے، میں یہ سن کر ہنس پڑا، کیوں؟ کیوں کہ وہ جن لوگوں کا نام لے رہا تھا وہ سب سینٹرل ایشین تھے اور انھوں نے نہ صرف ہندوستان پرحملے اور قبضے کیے تھے بلکہ وہ افغانستان پر بھی قابض رہے تھے اورماضی کاافغانستان بھی ان سے اتنا ہی تنگ تھا جتنا ہندوستان۔

    آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے افغان یا طالبان پاکستان کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں، پہلی وجہ احسان فراموشی ہے، افغانوں کا ڈی این اے ہی احسان فراموشی سے بنا ہوا ہے، آپ ماضی کو چھوڑ دیجیے اور آج کی مثال لیجیے، طالبان حکومت کے تمام اہم لوگ 20 سال پاکستان کی پناہ میں رہے اور ان کی حفاظت کے لیے پاکستان نے جتنا دباؤ برداشت کیا وہ ایک ناقابل یقین کہانی ہے، پاکستان نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان کی شوریٰ کے 25 ارکان کو اپنے پاس محفوظ رکھا، آج کی افغان حکومت کے 34 گورنر، طالبان کی شیڈو گورنمنٹ کے 16 وزراء اور طالبان فوج کے 500 کمانڈرز پاکستان کے پاس رہے، پاکستان نے طالبان کے 54 ہزار زخمیوں کا علاج بھی کیا۔

    یہ سلسلہ 21سال چلا اور اس دوران پاکستان نے ان کو رقم بھی دی، رہائش گاہیں بھی، راشن بھی اور سیکیورٹی بھی، 2018 میں جب دوہا میں مذاکرات شروع ہوئے تو 165 ملاقاتیں ہوئیں اور ان لوگوں کو پاکستان اپنے اخراجات پر قطر لے جاتا اور ان کی میٹنگز کراتا رہااور طالبان حکومت کے آج کے تمام وزراء پاکستان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے پاکستانی اداروں اور مدارس میں تعلیم حاصل کی لیکن آج یہ پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے پاکستان پر حملے بھی کر رہے ہیں، میں اسے افغانوں کا کریکٹر کہتا ہوں جب کہ ہمارے بزرگ اور استاد مفتی عبدالرحیم کا دعویٰ ہے اس کے پیچھے امریکی اور بھارتی ہیں۔

    امریکا نے طالبان سے 2013میں دوہا میں دفتر کھلوایا تھا، طالبان دس سال دوہا میں آتے جاتے رہے، انھیں ایک خاص ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا تھا، ان دس برسوں میں امریکیوں نے ان کی تمام کالز بھی ریکارڈ کیں اور ای میل بھی، ان کے فون بھی ہیک ہوئے اور ان کی عادتوں کا مطالعہ بھی کیا گیا چناں چہ دس برس میں امریکا ان کے تمام رشتے داروں، جائیدادوں اور اکاؤنٹس تک پہنچ گیا اور ان کی عادتیں اور کم زوریاں بھی بھانپ گیا، بھارت کی را بھی اس دوران دوہا میں ان سے رابطے میں رہی، پاکستان صرف ان کے نخرے اٹھاتا رہا جب کہ یہ بھارت اور امریکا کی گود میں کھیلتے رہے، پاکستان نے 2021میں ان کا امریکا سے معاہدہ کرایا لیکن یہ ایک اوپن ایگریمنٹ تھا جب کہ ان کا امریکا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا۔

    اس معاہدے میں ٹی ٹی پی کو قائم رکھنا اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شامل تھا اور طالبان تین برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں، امریکا اس کے بدلے انھیں ہر سال چھ بلین ڈالر دیتا ہے، افغانستان کا کل بجٹ دو ارب 60 کروڑ ڈالر ہے، اتنی چھوٹی سی اکانومی میں چھ ارب ڈالر ہر سال اضافی پمپ کر دیا جاتا ہے، یہ رقم طالبان کو کیوں مل رہی ہے اور یہ کس کی جیب میں جاتی ہے؟ یہ سوال ہمیں طالبان سے پوچھنا چاہیے تھا، بھارت کے ساتھ بھی طالبان کا ایسا ہی تعلق ہے۔

    طالبان کے ایک وزیر سے ہمارے ایک دوست نے پوچھا "ہم نے چالیس سال آپ کی خدمت کی، ہم نے اس خدمت میں پورا ملک برباد کرا لیا لیکن آپ آج بھارت کی گود میں بیٹھ رہے ہیں، آخر کیوں؟" افغان وزیر نے ہنس کر جواب دیا "ہمارے پاس جب پاکستانی آتے ہیں تو ان کے بریف کیسوں سے مشورے نکلتے ہیں جب کہ بھارتی لوگ بریف کیسوں میں نوٹ بھر کر لاتے ہیں لہٰذا تم خود بتاؤ ہم تمہاری بات سنیں یا بھارت کی! " یہ ہے افغان طالبان کا ڈی این اے، یہ پیسے کی آواز سنتے ہیں اور صرف اسی پر ان کے کان کھڑے ہوتے ہیں۔

    افغانستان کے اندر ایک اور ایشو بھی ہے، طالبان دو حصوں میں تقسیم ہیں، قندہاری اور حقانی گروپ، افغانستان کو فتح حقانی گروپ نے کیا تھا، یہ قندہاریوں کی نسبتاً پاکستان کے زیادہ قریب ہیں، دوسری طرف قندہاری ہیں، ان دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی ہے، ملا عمر کے زمانے میں حقانیوں کو بے اختیار رکھا گیا تھا، 2021کے بعد سراج الدین حقانی کو وزارت داخلہ ملی اور یہ انتہائی تگڑی وزارت ہے لیکن اب امیرالمومنین ہیبت اللہ اخواندزادہ نے سراج الدین حقانی کے اختیارات کم کرنا شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں قندہاری گروپ کے سربراہ ملایعقوب مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

    یہ اس وقت وزیر دفاع ہیں اور ان کے بھارت اور را کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، افغانستان میں اب ہر دوسرا شخص یہ کہہ رہا ہے بھارت ملا یعقوب کو مسلسل پیسے دے رہا ہے اور ملا یعقوب انھیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں لہٰذا وہ وقت دور نہیں جب بھارت افغانستان میں اشرف غنی کے زمانے کے تمام قونصل خانے کھول لے گا اور کابل اور قندہار میں بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچائے گا، سراج الدین حقانی کے چچا حاجی خلیل حقانی کو11 دسمبر2024 کوکابل میں قتل کر دیا گیا تھا، وہ انتہائی زیرک اور بہادر انسان تھا، وہ قبائلی سیاست کو بھی سمجھتا تھا، ملکی سیاست کو بھی اور پاکستان کا بھی دل سے خیرخواہ تھا اور یہ خوبیاں اس کی جان لے گئیں، حقانیوں کا خیال ہے حاجی خلیل حقانی کو بھارت نے قتل کرایا کیوں کہ وہ بھارتی عزائم کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھا۔

    ہم اب آتے ہیں اس بنیادی سوال کی طرف "کیا پاکستان افغانستان کو کنٹرول نہیں کر سکے گا؟" اس کا سیدھا سادا جواب ہے دنیا میں اگر کوئی ملک افغانستان کا ایکسپرٹ ہے تو اس کا نام پاکستان ہے، پاکستان نہ صرف افغانوں کے تمام قبائل کو جانتا ہے بلکہ یہ ان کی نسلوں، زبانوں اور مذہبی اختلافات تک سے واقف ہے، پاکستانی آج بھی ان کے تمام گروہوں سے رابطے میں ہیں، افغانوں نے اگر سوویت یونین کو شکست دی تھی یا امریکا 20سال بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوگیا تو اس کا سارا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے، پاکستان نہ ہوتا توسوویت یونین آج تک افغانستان کو ریت کا ٹیلہ بنا چکا ہوتا اور اگر پاکستان افغانوں کی مدد نہ کرتا، یہ طالبان کو زندہ نہ رکھتا تو آج یہ ملک امریکا کی 51ویں ریاست ہوتا، افغانوں کی اہلیت کی یہ حالت ہے یہ 1992میں روس کے جانے کے بعد چاربرسوں میں لڑ لڑ کر مر گئے تھے۔

    یہ کوئی متفقہ حکومت نہیں بنا سکے تھے اور یہ 2001 میں صرف 35 دنوں میں امریکا کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہو گئے تھے، افغانستان انسانی تاریخ کا پہلا ملک تھا جو زمینی فوجوں کے بغیر فتح ہوگیا تھا، امریکی فوج 2001 میں طالبان کے فرار کے بعد افغانستان میں داخل ہوئی تھی لہٰذا اگر پاکستان چاہے تو یہ ایک ہفتے میں طالبان حکومت کو پیک کر دے گا لیکن پاکستان اب بھی افغانوں کو رعایتی نمبر دے گا، یہ نہیں چاہتا یہ اپنے ہی بت اپنے ہاتھ سے توڑ دے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے افغان شاید پاکستان کی اس محبت کو اس کی کم زوری سمجھتے ہیں لہٰذا یہ دو ماہ میں کچھ نہ کچھ ایسا کرکے رہیں گے جس کے بعد پاکستان کو مجبوراً اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑے گی اور اس کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائین کی دوسری طرف کوئی غزنوی بچے گا اور نہ ابدالی۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.