آپ اگر دنیا کے تمام بڑے انقلابات میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو ان کے پیچھے کوئی گم نام شخص نظر آئے گا، وہ گم نام شخص شانزے لیزے کا وہ مفلوک الحال شخص بھی ہو سکتا ہے جس نے فرانس کے ایک رئیس کا دامن پکڑ لیا اور اس نے اسے سر عام کوڑے مارنا شروع کر دیے اور یہ کوڑے چند گھنٹوں میں انقلاب فرانس کا نقطہ آغاز بن گئے۔ وہ گم نام شخص بیجنگ کا وہ سرپھرا بھی ہو سکتا ہے جس نے چین کے شاہی محل کے سامنے آزادی کا نعرہ لگادیا، شاہی فوج نے اسے گولی مار دی اور یہ گولی آگے چل کر چینی انقلاب بن گئی۔ وہ گم نام شخص تہران کا وہ باغی بھی ہو سکتا ہے جس نے شاہی دربار میں کھڑے ہو کر " شاہ نامنظور" کا نعرہ لگایا، ایران کی خفیہ ایجنسی نے اسے اٹھایا، اگلی شام اس کی کٹی پھٹی لاش تہران کے مضافات سے ملی اور یہ نعش آگے چل کر انقلاب ایران بن گئی اور وہ گم نام شخص تیونس کا وہ ریڑھی بان بھی ہو سکتا ہے جس نے غربت سے تنگ آ کر خودسوزی کر لی، وہ قاہرہ کا وہ گم نام نوجوان بھی ہو سکتا ہے جس نے حسنی مبارک کے خلاف فیس بک کا پیج بنایا، طرابلس کی وہ گم نام لڑکی بھی جس نے کرنل قذافی کے خلاف پہلی آواز بلند کی اور شام کا وہ دس سال کا بچہ بھی جس نے دمشق کی دیواروں پر نعرہ لکھ دیا " شام اسد خاندان کا غلام نہیں "۔ یہ سب لوگ تاریخ کے شاندار انقلابوں کی وہ گم نام دیا سلائی تھے جنہوں نے انقلاب کو مشعل بنا دیا، یہ لوگ دیا سلائی کی طرح جل کر بجھ گئے لیکن انقلاب کی مشعل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشن ہو گئی۔ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے دنیا کے بڑے انقلابوں کا محرک ہمیشہ چھوٹا، گم نام اور عام شخص ہوتا ہے، وہ شخص سائوتھ افریقہ کے ریلوے کا وہ گم نام ٹی ٹی بھی ہو سکتا ہے جس نے بیرسٹر کرم چند گاندھی کو ریلوے اسٹیشن پر پھینک دیا تھا اور اس ہتک نے کرم چند کو مہاتما گاندھی بھی بنا دیا اور ہندوستان کی آزادی کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی۔ وہ شخص بمبئی کا وہ گم نام بنیا بھی ہو سکتا ہے جس نے قائداعظم کو وکیل کر لیا لیکن بھرشٹ ہونے کے خوف سے ان کے ساتھ کھانے سے انکار کر دیا اور یہ انکار آگے چل کر پاکستان کی بنیاد بنا اور وہ شخص اسلام آباد کا وہ اسسٹنٹ کمشنر بھی ہو سکتا ہے جس نے مارچ2007ء میں اپنے سینئر کے حکم کی خلاف ورزی کی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ پہنچنے دیا اور پاکستان میں عدالتی انقلاب آ گیا، چیف جسٹس سمیت ملک کی اشرافیہ اور سیاستدان اس کا نام تک نہیں جانتے لیکن اس شخص کے ایک فیصلے نے ملک میں نئے انقلاب کی بنیاد رکھ دی، وہ نوجوان آفیسر آج بھی اس فیصلے کا خمیازہ بھگت رہا ہے، یہ آج بھی فٹ بال بنا ہوا ہے لیکن یہ اس کے باوجود خوش ہے کیونکہ یہ شام، لیبیا، تیونس اور مصر کی طرح ملک میں ایک انقلاب کو پروان چڑھتا دیکھ رہا ہے اور یہ اس انقلاب کا محرک ہونے پر نازاں ہے۔
یہ نوجوان آفیسر ڈاکٹر احتشام انور تھا، یہ 13 مارچ 2007ء کو اس دن اسلام آباد میں اسسٹنٹ کمشنر رولر تھا جس دن معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی رہائش گاہ سے پیدل سپریم کورٹ کی طرف چل نکلے، پولیس نے انھیں راستے میں روک لیا اور میڈیا پر بعد ازاں پولیس کی زیادتی کی فوٹیج چلی، اسلام آباد انتظامیہ چیف جسٹس کو بلوچستان ہائوس لے گئی، بلوچستان ہائوس میں سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان ثالث بن گئے، یہ طے ہوا چیف جسٹس ظفر اللہ جمالی کی گاڑی میں سپریم کورٹ جائیں گے، یہ ظفر اللہ جمالی کا منصوبہ تھا جب کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے حکومت کے ساتھ مل کر دوسرا منصوبہ بنایا، جمالی صاحب اور چیف جسٹس کی سرکاری گاڑی بلوچستان ہائوس سے ایک ساتھ باہر نکلنا تھی، ڈاکٹر احتشام کو ڈی چوک میں کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا، اسے کہا گیا یہ جمالی صاحب کی گاڑی کو ایمبیسی روڈ کی طرف بھجوا دے گا، یہ گاڑی ریڈیو پاکستان سے ہوتی ہوئی پچھلے دروازے سے سپریم کورٹ پہنچ جائے گی جہاں جنرل پرویز مشرف کا جوڈیشل کمیشن تیار بیٹھا تھا، یہ کمیشن چیف جسٹس پر چارج لگائے گا اور انھیں فارغ کر دے گا جب کہ دوسری گاڑی سپریم کورٹ کے سامنے آ کر رک جائے گی، میڈیا، وکلا اور سول سوسائٹی یہ سمجھے گی چیف جسٹس اس گاڑی میں ہیں، یہ اس طرف آ جائیں گے اور یوں حکومت کو چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کا موقع مل جائے گا۔ یہ منصوبہ تیار تھا، گاڑیاں منصوبے کے مطابق ڈی چوک پہنچیں لیکن ڈاکٹر احتشام نے عین وقت پر اپنے سینئرز کے ساتھ " غداری" کر دی، اس نے خالی کار ایمبیسی روڈ کی طرف موڑ دی اور جمالی صاحب کی گاڑی سپریم کورٹ کے مین گیٹ کی طرف بھجوا دی، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سامنے اترے، لوگوں نے انھیں کندھوں پر اٹھا لیا اور اس کے بعد انھیں نیچے نہیں اترنے دیا یوں ایک نوجوان افسر کے صرف ایک قانونی قدم نے پورے ملک کی قانونی اور سیاسی صورتحال بدل دی، اگر اس دن ڈاکٹر احتشام اپنے سینئرز کے ساتھ " غداری" نہ کرتاتو شاید جنرل پرویز مشرف آج بھی ملک کے حکمران ہوتے، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بدستور جلا وطن ہوتے اور شاید چیف جسٹس ماضی کا قصہ بن چکے ہوتے لیکن ایک شخص کے احساس ذمے داری نے پوری صورتحال بدل دی۔
یہ مثال سرکاری ملازم کی اہمیت کے لیے کافی ہو گی، ایک سرکاری افسر پوری صورتحال بدل سکتا ہے لیکن 99 فیصد سرکاری ملازم رسک نہیں لیتے کیونکہ یہ ملازمت، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں، ہم، ہماری حکومت یا ہماری عدلیہ اگر صرف سرکاری ملازمین کو تحفظ دے دے، یہ اگر انھیں یقین دلا دے ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر صرف اور صرف میرٹ پر ہو گی اور کوئی سرکاری اور سیاسی شخصیت انھیں مقرر کروا سکے گی اور نہ ہی ٹرانسفر توپاکستان کا ہر دوسرا افسر ڈاکٹر احتشام ثابت ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا، کیوں نہیں ہو رہا؟ ڈاکٹر احتشام اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل تھے، انھیں جنوری 2012ء میں ہٹا دیا گیا اور اس عہدے کا اضافی چارج اے ڈی سی آر کو دے دیا گیا، یہ عہدہ اکتوبر تک خالی رہا، اکتوبر میں مریم خان اس عہدے پر تعینات ہوئیں، یہ بھی اعلیٰ حکام کی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوئیں چنانچہ حکومتی دبائو میں انھیں تقرری کے ایک مہینے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا، اس دوران ایک دوسری اسسٹنٹ کمشنر رابعہ اورنگزیب کو بھی اسلام آباد کی قیمتی پراپرٹی پر قبضے کے لیے کوشاں دو فریقین کے تنازعے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا، یہ ایشو چل رہے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی ایس آئی کے سابق ڈپٹی ڈی جی میجر جنرل (ریٹائر) نصرت نعیم کے خلاف بوگس چیک کے الزام میں گرفتاری کا حکم جاری کر دیا، ایس پی انڈسٹریل ایریا خرم رشید کو عدالتی حکم پر عملدرآمد سے روکا گیا لیکن خرم رشید اور ایس ایچ او انسپکٹر شفیق احمد نے عدالتی حکم پر عمل کیا اور اس کے ردعمل میں ایس پی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا، سپریم کورٹ نے ان تینوں واقعات کا نوٹس لیا جب کہ رابعہ اورنگزیب کے تبادلے پر انکوائری کا حکم جاری ہو گیا، سپریم کورٹ حکم جاری کر چکی ہے کسی سرکاری ملازم کو اس کی مدت پوری ہونے سے قبل عہدے سے نہیں ہٹایا جا سکے گا لیکن حکومت مسلسل اس حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہے، سپریم کورٹ نے ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لے لیا ہے اور چند دنوں میں بڑا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا، یہ انتہائی اچھی شروعات ہیں مگر سپریم کورٹ کو اب مہربانی فرما کر اسلام آباد پولیس کے معاملات بھی اس کیس کا حصہ بنا دینے چاہئیں کیونکہ پولیس کورٹ کے احکامات کی زیادہ بڑی توہین کر رہی ہے، اسلام آباد کے آئی جی بنیامین ڈیڑھ سال سے ایکٹنگ چارج پر ہیں، یہ ڈی آئی جی آپریشنل تھے، حکومت نے 20 جون2011ء کو آئی جی واجد درانی کے تبادلے کے بعد انھیں اضافی چارج دیا اور یہ18 ماہ سے ایکٹنگ چارج پر چلے آ رہے ہیں اور حکومت ان کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے، یہ حکمرانوں کے ہر جائز اور ناجائز حکم پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتے ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ پچھلے دو سالوں میں اسلام آباد کے 18 تھانوں کے ایس ایچ اوز کی تبدیلیوں کا ریکارڈ منگوا لیں، آپ حیران ہو جائیں گے، میں چھ تھانوں کا ریکارڈ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، رمنا پولیس اسٹیشن میں ستمبر 2011ء سے دس دسمبر 2011ء تک 15 ماہ میں چار ایس ایچ تبدیل ہوئے، کوہسار پولیس اسٹیشن میں دو برسوں میں 8 ایس ایچ او، شالیمار تھانے میں 9 ایس ایچ او، آبپارہ تھانے میں 11 ایس ایچ او، بھارہ کہو میں 7 ایس ایچ او اور شہزاد ٹائون میں بیس ماہ میں 11 ایس ایچ او تبدیل ہوئے، ہم اگر ایس ایچ اوز کی تبدیلی کی اوسط نکالیں تو یہ دو ماہ بنتے ہیں جب کہ پولیس کو کسی ملزم کو نامعلوم قرار دینے کے لیے بھی کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں، اگر اسلام آباد جیسے شہر میں قانون کی اتنی بڑی خلاف ورزی ہو گی تو آپ باقی ملک کا اندازہ خود لگا لیجیے، یہ تبادلہ اور معطلی کی فقط ایک مثال ہے جب کہ ملک میں ان دو ہتھیاروں نے پوری بیوروکریسی کو غلام بنا رکھا ہے، یہ لوگ سینئرز اور حکومت کے غلام بن چکے ہیں اور ان کے پاس نوکری اور پوسٹنگ بچانے کے لیے بڑوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا، آج ملک کا ہر آزاد شہری پوچھ رہا ہے ان لوگوں کو غلامی سے کون آزاد کرے گا۔