پاکستان کا اصل انقلابی علی حمزہ ہے، ڈسکہ کا علی حمزہ۔ باپ ٹی بی کا مریض ہو گیا، ٹی بی نے دماغ پر اثر کیا تو باپ ذہنی مریض بن گیا، ماں بھی شدید بیمار تھی، پانچ مرلے کا گھر تھا، گھر کا آدھا حصہ ماں اور باپ کے علاج پر خرچ ہو گیا، علی حمزہ کی تین بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا، بچے پر پورے خاندان کی ذمے داری پڑ گئی۔
علی حمزہ کے پاس دو آپشن تھے، یہ خاندان کو مرنے دیتا اور اپنی تعلیم جاری رکھتا یا پھر یہ تعلیم ترک کر کے والد کی فروٹ کی ریڑھی پر بیٹھ جاتا۔ آپ لوگ پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں، آپ خود کو علی حمزہ کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں، آپ کے پاس بھی یہ دو آپشن ہوں گے اور مجھے یقین ہے آپ دوسرا آپشن پسند کریں گے، آپ تعلیم کا سلسلہ ترک کر کے سب سے پہلے اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کریں گے لیکن علی حمزہ آپ اور مجھ سے زیادہ بہادر تھا، اس نے دونوں آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، یہ صبح اسکول جاتا تھا، اسکول میں پڑھتا تھا اور چھٹی کے بعد فروٹ کی ریڑھی پر کھڑا ہو جاتا تھا، یہ دل ہی دل میں اپنا سبق دہراتا جاتا اور ساتھ فروٹ بیچتا رہتا تھا، علی حمزہ فروٹ بیچ کر روزانہ تین سو روپے کماتا تھا، جی ہاں صرف تین سو روپے اور یہ تین سو روپے پورے خاندان کا نان نفقہ ہوتے تھے۔
خاندان اس رقم سے روٹی پانی بھی چلاتا تھا اور دواء دارو بھی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ علی حمزہ نے گوجرانوالہ بورڈ میں میٹرک کا امتحان دے دیا، یہ امتحان کے دنوں میں بھی پرچے کے بعد ریڑھی پر کھڑا ہو جاتا تھا، امتحان مکمل ہوا اور اس کے بعد اس نے خود کو فروٹ کی ریڑھی تک محدود کر دیا، 25 جولائی کو گوجرانوالہ بورڈ کے میٹرک کے نتائج نکلے تو پتہ چلا علی حمزہ نے 1100 میں سے 1003 نمبر لے کر آرٹس گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی، دنیا میں ہر سال لاکھوں امتحان ہوتے ہیں، پاکستان میں بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے 23 بڑے تعلیمی بورڈز ہیں، یہ بورڈز بھی امتحان لیتے ہیں اور ان میں تقریباً 60 لاکھ طالب علم شریک ہوتے ہیں، ان طالب علموں میں ہر سال درجنوں بچے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہیں لیکن ان طالب علموں میں علی حمزہ جیسے بچے خال خال ہوتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے پورے خاندان کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بہن بھائیوں کے ناشتے، لنچ اور ڈنر کا بندوبست بھی کرتے ہیں، ماں باپ کا علاج بھی کراتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں، ہم میں یقینا بہت سے ایسے لوگ ہوں گے لیکن ان "بہت" سے لوگوں میں کتنے لوگ اعلیٰ پوزیشن حاصل کر پاتے ہیں یا ان کی عمر پندرہ سال سے کم ہوتی ہو اور یہ پندرہ سال سے کم عمر میں اپنے خاندان کا بوجھ بھی اٹھاتے ہوں، تعلیم بھی حاصل کرتے ہوں اور پوزیشن بھی لیتے ہوں؟ آپ کو زندگی میں ایسی مثالیں کم ملیں گی، علی حمزہ ایک ایسی مثال ہے، یہ بچہ اصل انقلاب ہے، یہ ملک کے ہر اس شخص کے لیے روشن مثال ہے جو اس ملک کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، جو ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے، میں علی حمزہ جیسے انقلابی کو سلام پیش کرتا ہوں۔
میں زندگی کے خوفناک ترین تجربوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس میں انقلاب میاں نواز شریف لائیں گے، آصف علی زرداری اور نہ ہی عمران خان۔ پاکستان کو تبدیل کرنا کسی سیاست زادے کے بس کی بات نہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ سب لوگ ایک ایسے بدبودار نظام کے محافظ ہیں جسے فوت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں، یہ ایک ایسا انتقال شدہ نظام ہے جو علی حمزہ کو تعلیم دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کے والد کو علاج کی سہولت لیکن ہمارے لیڈر اس کے باوجود اس نظام کے چوکیدار ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ خود اس نظام کی پیداوار ہیں اور یہ نظام اگر ختم ہو گیا تو اس کے ساتھ ہی آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی چنانچہ یہ لوگ اس نظام کو ٹوٹنے دیں گے اور نہ ہی تبدیل ہونے دیں گے۔
آپ یقین کریں ملک میں تبدیلی کا ہر نعرہ جھوٹا ہے اور اس جھوٹے نعرے کے پیچھے کوئی نہ کوئی خفیہ ایجنڈا ہے، آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ بیٹھیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں موجود لوگوں کا ڈیٹا نکالیں، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ بیٹھے لوگوں کے پروفائل نکالیں، ان کا ماضی اور حال دیکھیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں تبدیلی لائیں گے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو نیا پاکستان تخلیق کریں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے پرانا پاکستان گندہ ہوا تھا، یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ملک میں آج تک انقلاب نہیں آیا، یہ کمال لوگ ہیں، یہ اقتدار کی ہرکشتی میں پہلی قطار میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔
آپ دور نہ جائیے، آپ پاکستان کی صرف ایک سال کی تاریخ کا تجزیہ کر لیجیے، حکومت کل تک پاکستان تحریک انصاف سے بچنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی منتیں کر رہی تھی، یہ آج پاکستان تحریک انصاف کو بچانے کے لیے جے یو آئی اور ایم کیو ایم کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا رہی ہے، پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز کل تک قومی اسمبلی کو دھاندلی زدہ، جعلی اور ناجائز قرار دے رہے تھے، یہ کل تک اس ایوان میں پاؤں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن یہ آج اس کی دہلیز چھوڑنے کے لیے رضا مند نہیں ہیں، عمران خان نے 22 اگست 2014ء کو اپنے ایم این ایز کے استعفے بھجوا دیے لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت نہ چھوڑی اور یہ پورے ملک کا انتخابی نظام بدلنا چاہتے ہیں لیکن یہ خیبر پختونخواہ میں کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے۔
جس کے ذریعے یہ وہاں صاف شفاف بلدیاتی الیکشن کرا سکیں، یہ چند تلخ حقائق ہیں، آپ کو اصل حقیقت اس دن نظر آئے گی جس دن عمران خان قومی اسمبلی میں جائیں گے اور وہ تمام ارکان ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کریں گے جو کل تک انھیں ملک کا سب سے بڑا سازشی قرار دے رہے تھے اور جس دن پی ٹی آئی کے قائدین اس ایوان کو مقدس قرار دیں گے جسے یہ کل تک ڈھا دینا چاہتے تھے یا اس اسپیکر کی غیر جانبداری اور جمہوریت کی تعریف کریں گے جس کے خلاف انھوں نے دھاندلی کا ریفرنس دائر کر رکھا ہے، آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
وہ لوگ جو یکم اگست 2014ء سے یکم اگست 2015ء تک ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، وہ اب قومی اسمبلی میں ایک دوسرے کا بازو بن جائیں گے اور یہ مل کر ایسی ترامیم کریں گے جن کے ذریعے ان کے اقتدار کو دوام مل سکے، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ملک میں اس دن انقلاب آئے گا جس دن انقلابی لیڈروں کے دائیں بائیں سیاسی لوٹوں کی بجائے علی حمزہ جیسے لوگ بیٹھے ہوں گے، کیوں؟ کیونکہ جو انسان اپنے چھ فٹ کے قد پر انقلاب نافذ نہ کر سکے وہ کبھی زمین کے چھ فٹ ٹکڑے پر انقلاب کی پنیری نہیں لگا سکتا، آپ دیکھ لیجیے گا۔
عمران خان خیبر پختونخواہ کی حکومت چھوڑیں گے اور نہ ہی وہاں کے نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لائیں گے، یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستیں بھی نہیں چھوڑیں گے، کیوں؟ کیونکہ اس میں ان کا نقصان ہے! میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کو اسمبلیوں سے باہر نہیں جانے دیں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ اسمبلیوں سے نکل کر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے، حکومت اور اپوزیشن ایم کیو ایم کے خلاف بھی کوئی ایسی کارروائی نہیں ہونے دے گی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہو جائے یا ایم کیو ایم پر پابندی لگ جائے۔
کیوں؟ کیونکہ کراچی اور حیدر آباد میں جب ایم کیو ایم کو نقصان پہنچے گا تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا اور یہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو سوٹ نہیں کرتا، اے این پی بھی کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں گرنے دے گی، کیوں؟ کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت گرنے کے بعد جے یو آئی کو فائدہ ہو گا اور یہ اے این پی کے مفاد میں نہیں اور جے یو آئی کبھی پی ٹی آئی کی حکومت نہیں چلنے دے گی، یہ 2018ء سے قبل صوبائی حکومت کو گرانے کی کوشش کرے گی، کیوں؟ کیونکہ اگلے الیکشن سے قبل اے این پی اور پی ٹی آئی دونوں قریب آ جائیں گی۔
یہ دونوں 2017-18ء میں سیاسی اتحاد بنا لیں گی اور یہ جے یو آئی کے لیے فائدہ مند نہیں اور آپ یہ بھی دیکھ لیجیے گا ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے ایک حصے میں اتحادی ہوں گی اور دوسری حصے میں مخالف، یہ ایک صوبے میں "اوئے زرداری" کا نعرہ لگائیں گے اور دوسرے صوبے میں بھائی بھائی ہوں گے اور اس ساری سیاست بازی میں انقلاب کا رہا سہا بھرکس بھی نکل جائے گا، یہ کیا ہے؟ یہ سیاست ہے۔
یہ سب ایک ہیں اور ہم "بے ایمان میڈیا" اور ہم "بکے ہوئے صحافیوں " نے سیاست بازی اور مفاد پرستی کے اس کھیل سے کیا حاصل کیا؟ ہم نے ملک کو پانچویں مارشل لاء سے بچا لیا، ملک میں اگر خدانخواستہ مارشل لاء لگ جاتا تو یہ مارشل لاء ملک کا آخری مارشل لاء ثابت ہوتا۔ سیاستدان شاید گرتے پڑتے کبھی نہ کبھی سنبھل جائیں گے، عوام میں بھی اچھے برے کی تمیز پیدا ہو رہی ہے لہٰذا دو تین جمہوری حکومتوں کے بعد شاید ملک میں تبدیلی آ جائے گی لیکن مارشل لاء لگ جاتا تو آپ یقین کیجیے یہ ملک ٹوٹ جاتا، کیوں؟ کیونکہ فوج اب ملک کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، یہ ملک ایک ایسا بھاری پتھر بن چکا ہے جسے اٹھانے کے لیے اب ایک ادارہ کافی نہیں چنانچہ ہم نے گالیاں کھا لیں لیکن فوج اور ملک دونوں بچا لیے، یہ آزاد میڈیا کا کریڈٹ ہے۔
یہ ملک کے اصل حقائق ہیں، آپ اگر یہ حقائق بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو انقلابی علی حمزہ بننا ہو گا، یہ درست ہے ملک میں تعلیم نہیں، قانون نہیں، انصاف نہیں، پینے کا صاف پانی نہیں، اسپتال نہیں، دواء نہیں، سیکیورٹی نہیں، روزگار نہیں اور عزت نہیں لیکن یہ عزت، یہ روزگار اور یہ تعلیم آپ کو یہ لوگ نہیں دے سکیں گے، اگر سیاسی جماعتیں یا سیاسی لیڈر انقلاب لا سکتے تو "کے پی کے" میں انقلاب آ چکا ہوتا، آپ یقین کیجیے جس دن عمران خان نے صرف پشاور شہر کے تمام شہریوں کو صاف پانی، روز گار، سیکیورٹی، دواء، انصاف، قانون اور تعلیم دے دی، جس دن آصف علی زرداری نے کراچی شہر میں روٹی، کپڑے اور مکان کا منشور پورا کر لیا، جس دن میاں نواز شریف نے صرف رائے ونڈ کے اردگرد کے علاقے کو پیرس بنا دیا اور جس دن مولانا فضل الرحمن نے اپنی پارٹی میں اسلام نافذ کر دیا تو قوم اس دن ان سب کو سلام پیش کرے گی، یہ سب کھیل ہے۔
یہ سب سیاست ہے، آپ خدا کے لیے اس سیاست، اس کھیل سے باہر نکلیں اور علی حمزہ بنیں، آپ اپنی زندگیوں میں تبدیلی لے آئیں، آپ اپنی ذات میں چھپے انقلاب کو جگا لیں، آپ کو روٹی بھی مل جائے گی، روزگار بھی، دواء بھی، انصاف بھی، عزت بھی اور تعلیم بھی۔ آپ جس دن علی حمزہ کے راستے پر چل پڑیں گے، آپ یقین کیجیے آپ کو اس دن میاں نواز شریف کی ضرورت رہے گی، آصف علی زرداری کی اور نہ ہی عمران خان کی، آپ کے لیے اس دن آپ، آپ کا اللہ اور آپ کی محنت کافی ہو گی، آپ ایک بار کر کے دیکھیں، آپ ایک بار علی حمزہ بن کر دیکھیں، آپ تمام انقلابیوں کی محتاجی سے آزاد ہو جائیں گے۔