کل ایک عالم دین سے گفتگو ہو رہی تھی، بات دوران گفتگو اسلام کی نشر واشاعت کی طرف نکل گئی، میں نے ان سے پوچھا " نبی اکرمؐ دنیا کے واحد نبی ہیں جنھوں نے زندگی میں اپنے دین کو پھیلتے دیکھا، آپؐ نے صرف 23 سال تبلیغ کی، تیرہ سال مکہ اور دس سال مدینہ، ہم اگر اس عرصے کا باقی انبیاء کرام کے عرصہ تبلیغ سے موازنہ کریں تو ہمیں یہ مدت بہت کم لگے گی لیکن اس عرصے میں اسلام نہ صرف پورے حجاز میں پھیل چکا تھا بلکہ یہ دوسری مملکتوں کے دروازوں پر بھی دستک دے رہا تھا، دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور گورنرز تک نبی اکرم ؐ کے خطوط پہنچ چکے تھے، آپؐ کے صحابہؓ کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ آخری خطبہ شروع ہوا تو لوگوں تک آواز نہیں پہنچ رہی تھی چنانچہ بلند آواز کے مالک صحابہؓ بات سنتے، اونچی آواز میں دہراتے اور یوں یہ پیغام آخری قطار تک پہنچتا جب کہ آپؐ کے مقابلے میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء پچاس، ساٹھ، ستر اور سو سال تک تبلیغ کرتے رہے لیکن اکثر کے گھر والے بھی حلقہ بگوش نہیں ہو سکے۔
بنی اسرائیل حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی میں مذہب سے منحرف ہوئے، حضرت عیسیٰ ؑ کی پوری تبلیغ کے نتیجے میں صرف گیارہ لوگ سامنے آئے، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت لوط ؑ اور حضرت ذکریا ؑ ہمارے سامنے ایسے ہزاروں انبیاء کی مثال موجود ہے جن کی اکثریت اپنی امت کوپھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات میں اسلام کو حجاز سے عجم کی طرف جاتے دیکھا۔" اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے" میرے عالم دین نے اسے نبی اکرمؐ کا معجزہ قرار دیا، میں نے ان سے اتفاق کیا لیکن عرض کیا اللہ کا ہر نبی معجزوں کا مالک تھا اور اگر گستاخی نہ ہو تو ان کے پاس عقل کو حیران کر دینے والے معجزے تھے جب کہ ان کے مقابلے میں نبی اکرمؐ نے کسی مردے کو زندہ نہیں کیا، اپنے عصا کو سانپ نہیں بنایا، سمندر کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا، پرندوں کے قیمے کو دوبارہ پرندہ نہیں بنایا اور آپ ؐ نے دنیا کی سب سے بڑی کشتی بھی نہیں بنائی، ہمارے رسولؐ نے انکساری، عجز، برداشت اور محبت کی زندگی گزاری، اگر معجزے اسلام کے پھیلاؤ کی واحد وجہ ہوتے تو عیسائیت اور یہودیت اسلام سے زیادہ تیزی سے پھیلتی اور اگر گستاخی نہ ہو تو شاید شاید اسلام کی ضرورت ہی نہ پڑتی، انھوں نے فرمایا " یہ مذہب انسان کی فطرت کے قریب تھا"۔ میں نے عرض کیا " اللہ تعالیٰ کا ہر پیغام، ہر مذہب انسان کی فطرت کے قریب تھا، اللہ تعالیٰ کی ذات ارتقاء سے بالاتر ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے بھی (نعوذ باللہ) غلطیوں سے سیکھنا ہے، اپنی اصلاح کرنی ہے اور طویل ارتقائی عمل سے گزر کر اسلام تک پہنچنا ہے تو پھر انسان اور اللہ تعالیٰ میں کیا فرق رہا؟ یہ سوچ توہین خدا ہے، ہمارا اللہ اور اس کا پیغام قطعی ہے چنانچہ حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی اکرمؐ تک اللہ کا پیغام ایک ہی تھا، اس میں بال برابر فرق نہیں آیا"۔
مولانا نے اتفاق کیا اور فرمایا " آپ بتا دیجیے، ہم وقت کیوں ضایع کریں " میں نے عرض کیا " حضور یہ دنیا کا آسان ترین دین تھا، دنیا میں اس سے آسان دین ہو نہیں سکتا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے اسے آخری دین بھی قرار دے دیا" مولانا نے فرمایا " کیسے؟ " میں نے عرض کیا " مثلاً آپ نے اگر یہودی ماں کے بطن سے جنم نہیں لیا تو آپ یہودی نہیں ہو سکتے، آپ اگر ابراہیمی ہیں تو آپ کی پوری زندگی عبادت و ریاضت میں گزرے گی، آپ اگر عیسائی مبلغ یا مبلغہ ہیں تو آپ اپنی زندگی چرچ کی چار دیواری سے بیاہنے پر مجبور ہو جائیں گے، آپ شادی نہیں کر سکیں گے، آپ عام عیسائی ہیں تو آپ دوسری شادی نہیں کر سکیں گے، بیوہ بیوہ ہونے کے بعد مرنے تک خاوند کے بغیر زندگی گزارے گی، آپ اگر بودھ ہیں تو زندگی کی نوے فیصد لذتیں آپ پر حرام ہو جاتی ہیں، آپ سردی ہو یا گرمی دو چادروں میں زندگی گزارتے ہیں، لکڑی کی چپل پہنتے ہیں اور مانگ کر کھانا کھاتے ہیں، آپ اگر ہندو ہیں تو برہمن کا بیٹا پنڈت ہو گا، آپ اگر بدقسمتی سے شودر پیدا ہو گئے تو آپ دنیا کے نیک ترین شخص بننے کے بعد بھی برہمنوں کے مندر میں داخل نہیں ہوسکیں گے، آپ اوتار بن سکتے ہیں لیکن آپ پنڈت نہیں بن سکیں گے اور آپ پتھر کی مورتی کے سامنے آگ جلائے بغیر عبادت نہیں کر سکیں گے جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام آسان ترین دین ہے، اس دین کو بادشاہ بھی قبول کر سکتا ہے اور غلام بھی اور یہ دونوں کلمہ پڑھنے کے بعد برابر ہو جاتے ہیں۔
آپ عیسائی ماں کے بطن سے جنم لیں یا یہودی، بودھ، ہندو یا لادین ماں کے بچے ہوں، آپ کسی بھی وقت اسلام قبول کر سکتے ہیں اور کوئی آپ سے آپ کا بیک گرائونڈ نہیں پوچھے گا، اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس میں کوئی چیز حلال نہیں اور کوئی حرام نہیں، تمام حلال اور حرام صورتحال (کنڈیشن) ہیں، آپ روزہ سے ہیں تو آپ پر دنیا کے تمام حلال حرام ہو جاتے ہیں اور آپ اگر زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں تو دنیا کے تمام حرام آپ پر حلال ہو جاتے ہیں، یہ دنیا کا واحد دین ہے جس کے لیے کوئی خاص حلیہ، کوئی خاص نسل، کوئی خاص زبان اور کوئی خاص شہریت نہیں چاہیے، آپ ہر حلیے میں مسلمان ہو سکتے ہیں اور کوئی شخص آپ کی مسلمانیت کینسل نہیں کر سکتا، یہ دنیا کا واحد دین ہے جس میں عبادت کے لیے عبادت گاہ لازم نہیں، آپ مسجد اور مسجد سے باہر کسی بھی جگہ نماز ادا کر سکتے ہیں، حج مشکل عبادت ہے چنانچہ یہ صرف ایک بار فرض ہے اور وہ بھی اس شخص کے لیے جو حیثیت رکھتا ہو، آپ مقروض ہیں، آپ بیمار ہیں، آپ پر اہل خانہ کی کفالت کا بوجھ ہے یا پھر آپ کسی سخت گیر شخص کے ملازم یا غلام ہیں تو آپ پر حج ساقط ہو جاتا ہے، آپ اپنی صورتحال کے مطابق نماز کے اوقات اور رکعتوں میں بھی کمی کر سکتے ہیں، آپ قضا پڑھ سکتے ہیں، آپ سفر کے دوران رکعتیں کم کر سکتے ہیں، پانی موجود نہ ہو تو تیمم کر سکتے ہیں، کعبے کی سمت معلوم نہ ہو تو گمان سے سمت طے کر سکتے ہیں، آپ اکیلے ہیں تو اکیلے نماز ادا کر سکتے ہیں، دو یا تین ہیں تو کسی بھی مسلمان شخص کو اپنا امام بنا کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کے اعمال تین حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، گناہ، حرام اور جرم، ان تینوں اعمال میں دو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھ لیے جس کے بعد آپ کے اعمال کا 66 فیصد حصہ آپ اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ بن گیا، آپ گناہوں پر معافی مانگیں، توبہ کریں، اللہ تعالیٰ آپ کا حساب زیرو کر دیتا ہے، آپ حرام پر بھی اللہ سے توبہ کریں، آئندہ باز رہنے کا وعدہ کریں، اللہ تعالیٰ یہ بھی معاف کر دیتا ہے اور باقی رہ گئے جرم تو اس میں بھی تعزیرات سے قبل معافی، نقصان کے ازالے اور خون بہا جیسی دفعات شامل کر دی گئیں، چور سامان واپس کر کے مدعی سے معافی مانگ سکتا ہے، قاتل خون بہا دے کر معافی لے سکتا ہے اور پیچھے رہ گیا زنا تو اس کی بعض حالتوں میں دونوں فریقوں کے نکاح سے سزا ٹل جاتی ہے جب کہ اسلام کے مقابلے میں دوسرے تمام مذاہب ان معاملات میں بے لچک ہیں، آپ چرچ، سینا گوگا اور مندر کے بغیر عبادت نہیں کر سکتے، ان میں پنڈت، ربی اور پادری کے بغیر عبادت نہیں ہوتی، ان میں گناہ اور حرام بھی جرم ہیں اور ان کی کڑی سزائیں ہیں، آپ دوسری شادی نہیں کر سکتے اور پہلی بھی پادری اور پنڈت کی موجودگی میں ہو گی، آپ مذہب تبدیل نہیں کر سکتے، آپ کو خاص حلیہ رکھنا پڑتا ہے اور آپ اگر حلیہ بدلتے ہیں تو آپ مذہب کے دائرے سے نکل جاتے ہیں چنانچہ یہ مذاہب انسان کے لیے مشکل ہیں۔
میں نے عرض کیا جب کہ اسلام ان کے مقابلے میں آسان ترین ہے، یہ مذہب بنیادی طور پر لوگوں کی اجتماعی دعائوں کا نتیجہ تھا، اللہ تعالیٰ انسانوں پر مذاہب اتارتا رہا، لوگ ان پر اعتراض کرتے رہے، ان کی سختیوں کی وجہ سے ان سے بھاگتے رہے، اللہ تعالیٰ سے شکوے کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک دن یہ سارے شکوے سن لیے، انسانوں پر مہربانی کی اور دنیا میں اسلام جیسا آسان دین بھجوا دیا اور ساتھ ہی فرمایا، یہ آخری دین اور آخری نبیؐ ہیں کیونکہ ان سے اچھا، حلیم، شائستہ اور انسان دوست نبی کوئی اور نہیں ہو سکتا اور اسلام سے زیادہ آسان دین بھی ممکن نہیں چنانچہ میں اس کے بعد مذہب اور نبوت دونوں کا سلسلہ بند کر رہا ہوں، تم اگر اس کے بعد بھی میرے نہیں بنتے، تم مجھے نہیں پہچانتے تو پھر تمہارا اور میرا راستہ جدا ہے اور اس پیغام کے ساتھ ہی اپنے ظرف کو حشر تک وسیع کر دیا، انسان کو قیامت تک کا وقت دے دیا، آپ پچھلے چودہ سو سال کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، اللہ تعالیٰ نے پچھلے چودہ سو سال میں کسی قوم کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹایا، کسی قوم پر کوئی ایسا عذاب نہیں اترا جس میں وہ پوری قوم ختم ہو گئی ہو لیکن ہم نے۔۔۔" میں نے عرض کیا " لیکن ہم نے دنیا کے آسان ترین دین کو نہ صرف مشکل بنا دیا بلکہ ہم اسے مشکل ترین بناتے جا رہے ہیں اور میرا خیال ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنے عذاب کی پالیسی پر نظر ثانی کی تو یہ ان تمام لوگوں کو غرق کر دے گا جو اس کے بندوں اور اس کے درمیان حائل ہو رہے ہیں اور جنھوں نے سیدھے سادے پیغام کو دوبارہ مشکل بنا دیاتھا۔