آپ فلم انڈسٹری کی مثال لیجیے، یش چوپڑا انڈین فلم انڈسٹری کے لیجنڈ تھے، امیتابھ بچن ہوں یا شاہ رخ خان یہ ان درجنوں سپر اسٹارز میں شامل ہیں جنھیں پردہ اسکرین پر لانے اور اداکار بنانے کا سہرا یش چوپڑا کے سر جاتا ہے۔
یہ کل 80سال کی عمر میں انتقال کر گئے، آپ کو شائد یہ جان کر حیرت ہو گی، یش چوپڑا نہ صرف لاہور کے رہنے والے تھے بلکہ انھیں فلم سازی کا چسکا بھی لاہور میں پڑا تھا لیکن یش چوپڑا کو عروج ممبئی سے ملا۔ یش پاکستان سے تعلق رکھنے والا پہلا فلم ساز نہیں تھا، آپ اگر انڈین فلم انڈسٹری کے دس بڑے ناموں کاپروفائل نکالیں تو آپ حیران رہ جائیں گے، یہ لوگ پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچے اور بھارتی فلم انڈسٹری کا مستقل ستارہ بن گئے۔ آپ دیو آنند سے لے کر دلیپ کمار تک، راج کپور سے لے کر گلزار تک اور سلمان خان اور عامر خان کے خاندانوں سے لے کر محمد رفیع تک انڈیا کے ٹاپ اسٹار کا پروفائل دیکھ لیجیے، یہ سب پاکستان سے تعلق رکھتے تھے لیکن پھر یہ انڈیا گئے، انڈیا میں انھیں تخلیقی ماحول اور پذیرائی ملی اور یہ بیل کی طرح تیزی سے پھلتے اور پھولتے چلے گئے۔
سوال یہ ہے یہ لوگ پاکستانی علاقوں میں کیوں پیدا ہوئے اور یہ نقل مکانی پر کیوں مجبور ہوئے؟ اس کی بہت دلچسپ وجوہات ہیں، پاکستانی علاقوں میں موسیقی اور اداکاری کے حیران کن جینز پائے جاتے ہیں، ہمارے علاقے میں ایسے ایسے گلے اور ایسی ایسی آوازیں ہیں، جو سننے اور دیکھنے والوں کو ششدر کر دیتی ہیں۔ آپ نورجہاں، مہدی حسن، استاد امانت علی خان، ریشماں، پٹھانے خان اور نصرت فتح علی خان کو چھوڑ دیجیے، یہ لوگ واقعی صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، آپ غلام علی خان، شوکت علی، محمد علی شہکی، طفیل نیازی، نیرہ نور، نازیہ حسن، راحت فتح علی خان، عاطف اسلم، عدنان سمیع اورعلی ظفر کو دیکھ لیجیے، ہمارے استاد ان میں سے اکثریت کو گلوکار ہی نہیں مانتے لیکن یہ انڈیا گئے اور پوری فلم انڈسٹری کو ورطہ حیرت میں ڈال کر واپس آ گئے، راحت فتح علی، عاطف اسلم اور علی ظفر آج بھی انڈیا کے ایک دورے میں دو، دو کروڑ روپے کماتے ہیں۔
آپ نغمہ نگاری کی مثال بھی لیجیے، قتیل شفائی جیسے شاعر انڈین فلم انڈسٹری میں ہاٹ کیک تھے، ہمارے تھیٹر کے ان پڑھ اداکار ببوبرال، امان اﷲ، معین اختر، عمر شریف اور شکیل صدیقی نے انڈیا کے ناقدین کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ ہماری اداکاری کی روایات بھی بہت مضبوط تھیں، پاکستان میں سنتوش کمار، درپن، محمد علی، آغا طالش، ندیم، شاہد، غلام محی الدین، نیئر سلطانہ، فردوس، صبیحہ خانم، رانی، سنگیتا اور شبنم جیسے لازوال اداکار اور اداکارائیں تھیں، دنیا میں ہمارے موسیقاروں کی بھی کوئی مثال نہیں تھی، آپ کوپورے ہندوستان میں باباچشتی، وجاہت عطرے اور خواجہ خورشید انور جیسا ایک موسیقار نہیں ملے گا۔
آپ کو یہ جان کر شائد حیرت ہو گی ہماری فلمیں 1965ء تک افغانستان سے لے کر مالدیپ تک سینمائوں میں دکھائی جاتی تھیں، بھارتی اداکار ٹریننگ کے لیے کراچی اور لاہور آتے تھے، پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ کار فلم سازی اور سینما ہائوسز میں سرمایہ کاری کرتے تھے، ہم اکثر صدر آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کے بمبینو سینما کی مثال دیتے ہیں۔ آپ اس مثال سے اندازا لگا لیجیے پاکستان میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب ملک کے باعزت سیاسی خاندان سینمائوں کے مالک ہوتے تھے اور فلموں کی ٹکٹیں بھی بلیک ہوتی تھیں۔
ہمارے ٹی وی ڈرامے انڈیا کی فلم اکیڈمیز میں پڑھائے جاتے تھے، اجے دیوگن اس وقت انڈیا کے پانچ بڑے فلمی ہیروز میں شمار ہوتے ہیں، انھوں نے بولنے کا اسٹائل ہمارے ڈرامہ اداکار توقیر ناصر کی کاپی کر کے سیکھا تھا۔ آپ پرفارمنگ آرٹ میں پاکستان اور انڈیا کا تقابل کر کے دیکھئے، بھارت کی سوا ارب آبادی اور 32لاکھ 88ہزار مربع کلومیٹر رقبہ بیسیوں برسوں میں ایک اے آر رحمان، ایک آر ڈی برمن، ایک سونونگم، ایک ایلکا، ایک کشور کمار اور ایک کمار سانوپیدا کرتا ہے جب کہ دس، پندرہ اٹھارہ کروڑ آبادی کا پاکستان تمام تر معاشی جبر، موسیقی، اداکاری، فلم اور ٹیلی ویژن کے خلاف سیکڑوں فتوئوں اور خاندان سے عاق کی درجنوں دھمکیوں کے باوجود ہر سال ایسے بیسیوں نوجوان پیدا کر دیتا ہے۔
جو انڈیا کی موسیقی، گلوکاری اور اداکاری کی اس انڈسٹری کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیتے ہیں، جہاں گانا، بجانا، ناچنا اور اداکاری مذہب کا درجہ رکھتی ہے، کیا ٹیلنٹ کی اس سے بڑی کوئی مثال ہو سکتی ہے چنانچہ دیوآنند ہو یا یش چوپڑا یہ اس خطے میں پیدا ہوئے تھے لیکن آج پرفارمنگ آرٹ کا یہ مردم خیز علاقہ اداکاری، موسیقی، گلوکاری، فلم اور ڈرامہ کا قبرستان بن چکا ہے۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے، اس مردم خیز ملک میں مہدی حسن جیسا شخص علاج کے لیے حکومت کا راستہ دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے اور نورجہاں "میں ہوں حسن کی کلاشنکوف" جیسے معرکۃ الآراء گانے گانے پر مجبور ہوجاتی ہے، رانی کینسر کا علاج نہیں کرا پاتی اور سنگیتا آخری عمر میں محض ٹی وی اداکارہ بننے پر مجبور ہوجاتی ہے، اس ملک میں سینما بند ہو جاتے ہیں، کنسرٹ ہالوں پر تالے پڑ جاتے ہیں، تھیٹر کا نام ونشان مٹ جاتا ہے، موسیقاروں کو مراثی اور کنجر کی گالی پڑتی ہے اور شاعر گھر چلانے کے لیے جعلی ناموں سے لچر گانے لکھتے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟ اور اس کا ذمے دار کون ہے؟
آپ عوام اس کے ذمے دار ہیں، یہ ملک کبھی فلم، موسیقی، تھیٹر اور گلوکاری میں برصغیر کا لیڈر تھا، ہمارے سینمائوں میں فیملیز اکٹھی بیٹھ کر فلم دیکھتی تھیں، ہمارے ٹی وی ڈرامے پورے خاندان کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے تھے اور موسیقی تنے ہوئے اعصاب کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے ترتیب دی جاتی تھی لیکن پھر مولا جٹ کے نام سے ایک لچر اور واہیات فلم بنی اور اس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے، عوام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے گنڈاسے اور انجمن کی اچھل کود دیکھنے سینمائوں پر امڈ آئے اور اس کے ساتھ ہی اچھی اور معیاری فلم کا جنازہ نکل گیا، فلم سازوں اور اداکاروں کے پاس اس وقت دو آپشن رہ گئے، یہ بھی گنڈاسا یا کلاشنکوف اٹھا لیں، ڈھائی گھنٹے کی فلم میں چار سو لاشیں، دس بارہ آبروریزیاں، دو تین مجرے اور چار پانچ لڑائیاں دکھائیں اور ولن کو ہیرو بنا دیں اور ہیرو کو مظلوم یا پھر چپ چاپ اس فیلڈ سے نکل جائیں چنانچہ ہمارے فلم ساز اور اداکار تقسیم ہو گئے۔
ان میں سے کچھ نے گنڈاسا اٹھا کر خود کشی کر لی اور کچھ گمنامی کے دریا میں چھلانگ لگا کر مر گئے اور ان کے ساتھ ہی فلم بھی مر گئی اور سینما گھر بھی۔ تھیٹر کے ساتھ بھی یہی ہوا، کسی ستم ظریف نے تھیٹر میں مجرا کا تڑکا لگا دیا اور عوام کا جم غفیر تھیٹر گھروں کے سامنے کھڑا ہو گیا، عوام مجروں سے تھک گئے تو یہ "ڈو مور" کا نعرہ لگانے لگے چنانچہ اداکاروں اور ہدایت کاروں نے تھیٹر میں ماں بہن کی گالیاں ڈال دیں اور اس کے ساتھ ہی تھیٹر بھی دفن ہو گیا، آج کل یہ کام ٹی وی پر ہو رہا ہے، اداکار تیری ماں، تیرا باپ اور تیری پھوپھی کا ذکر اس آسانی سے لیتے ہیں جس سے اجڈ سے اجڈ شخص جمائی نہیں لے سکتا اور عوام اس پر قہقہہ بھی لگاتے ہیں اور تالیاں بھی بجاتے ہیں لہٰذا مجھے خطرہ ہے ان پروگراموں کا انجام بھی وہی ہو گا جو تھیٹر کا ہوا۔ ٹی وی ڈراموں کے ساتھ بھی ایساہی ہوا۔
کسی مہرباں نے ناظرین کی تعداد بڑھانے کے لیے اس میں فحاشی کی ہلکی سی لپ اسٹک لگا دی اور آپ عوام ٹی وی سے جڑ کر بیٹھ گئے، ڈرامے کی ریٹنگ بڑھی، اسے اشتہارات ملے، بزنس میں اضافہ ہوا اور ہدایت کاروں نے ڈرامہ نگاروں سے ہیروئن کے سر سے دوپٹہ اتارنے اور قمیض ٹائٹ کرنے کے مطالبے شروع کر دیے، ڈرامہ نگاروں کے پاس بھی دو آپشن بچ گئے، یہ قمیض ٹائٹ کریں، خواتین کو سگریٹ اور شراب پیتے دکھائیں یا پھر بے روزگاری کے جہنم میں چھلانگ لگا دیں چنانچہ ٹی وی ڈرامے کا یہ انجام ہوا کہ اول ہم پاکستانی ڈرامے نہیں دیکھتے اور اگر دیکھنا چاہیں تو ہم پہلے اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو کمرے سے نکالتے ہیں اور اس کے بعد ٹی وی کا سوئچ آن کرتے ہیں۔
موسیقی کے ساتھ بھی یہی ہوا، بڑے غلام علی خان کراچی میں اپنے ایک ڈرائیور رشتے دار کے سرونٹ کوارٹر میں پڑے رہے اور عوام ننگے ڈانس دیکھنے کے لیے میٹرو پول ہوٹل کے شیشے توڑتے رہے چنانچہ بڑے غلام علی خان کراچی سے انڈیا چلے گئے اور لوگوں نے دیکھا انڈیا کے وزیراعظم لال بہادر شاستری ان کا ستار اٹھا کر ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں، ہمارے حکمران مجرے دیکھتے رہے اور عوام ٹھمکوں پر سیٹیاں اور تالیاں بجاتے رہے لہٰذا آپ بتائیے پھر ذمے دار کون ہے؟ لکھنے والے، اداکاری کرنے والے، فلمانے والے، بجانے والے، گانے والے یا پھر لچر اور واہیات پروڈکشن پر ویلیں دینے، تالیاں بجانے اور نعرے لگانے والے لوگ یعنی آپ عوام۔
آج اس ملک میں اگر انڈین فلم دیکھی جا رہی ہے یا بھارتی موسیقی سنی جا رہی ہے یا بھارتی ڈرامے مقبول ہیں یا پھر ہمارے چینلز پر چھ چھ گھنٹے بھارتی اداکاروں کی آخری رسومات دکھائی جاتی ہیں یا کرینہ کپور اور سیف علی خان کی شادی دکھائی جاتی ہے یا راجیش کھنہ اور یش چوپڑا کو کوریج ملتی ہے یا محمد رفیع کی برسی پر رپورٹ چلتی ہے یا پھر بھارتی فلموں کے ٹریلر چلائے جاتے ہیں تو اس کے ذمے دارتوآپ لوگ ہیں کیونکہ آپ نے اس ملک میں معیاری فلم، ڈرامے، تھیٹر، موسیقی اور گلوکاری پر لچر اور واہیات چیزوں کو فوقیت دی، آپ نے نصیبو لال کو نورجہاں اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو مہدی حسن پر اہمیت دی چنانچہ آج سونونگم، راجیش کھنہ اور رام گوپال ورما ان لوگوں کی جگہ لے چکے ہیں اور آپ چیخ رہے ہیں، آپ اب چیختے کیوں ہیں؟ آپ مجرم ہیں لہٰذا آپ اب خاموشی سے برداشت کریں۔
(جاری ہے)