Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Asal Mujrim Hain (2)

Awam Asal Mujrim Hain (2)

آپ عوام کی نفسیات سمجھنے کے لیے دو مثالیں کافی ہوں گی۔

جمشید دستی 2008ء میں حلقہ این اے 178 سے ایم این اے منتخب ہوئے، مظفرگڑھ نوابوں اور جاگیرداروں کا علاقہ ہے، اس علاقے سے جمشید دستی کا جیت جانا واقعی کمال تھا مگر اس کمال میں جمشید دستی کا بہت ہاتھ تھا، یہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، علاقے کے لوگوں کو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں اور یہ عوام کی سہولت کے لیے روزانہ مفت بس بھی چلاتے ہیں چنانچہ لوگوں نے انھیں نوابوں کے مقابلے میں ووٹ دیے اور یہ ایم این اے بن گئے مگر پھرمارچ 2010ء میں انکشاف ہوا جمشید دستی کی ایم اے اسلامیات کی ڈگری جعلی ہے۔

میں پہلا صحافی تھا جس نے جمشید دستی کی ڈگری کا ایشو اٹھایا، سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، جمشید دستی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے انھیں ڈس کوالیفائی یا اسمبلی رکنیت سے استعفے کا آپشن دے دیا، جمشید دستی نے اسی روز یعنی 25مارچ 2010ء کو عدالت میں استعفیٰ دے دیا، پاکستان پیپلزپارٹی نے انھیں دوبارہ ٹکٹ دیا، جمشید دستی نے 15مئی 2010ء کو ضمنی الیکشن لڑا اوریہ54056 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے دوبارہ رکن منتخب ہو گئے۔ میں جمشید دستی کی جعلی ڈگری کے انکشاف سے لے کر ضمنی الیکشن تک ان کے خلاف بولتا رہا لیکن عوام نے انھیں جونہی دوسری بار منتخب کیا میں نے انھیں فون کیا، مبارک باد دی، ماضی کی "گستاخی" کی معافی مانگی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔

جمشید دستی مسلسل میرے پروگرام میں آ رہے ہیں، عوام میں سے کچھ لوگ جمشید دستی کے نیشنل میڈیا پر آنے اور بولنے پر اعتراض کرتے ہیں مگرمیں ان سے عرض کرتا ہوں مظفرگڑھ کے 54ہزار لوگوں نے انھیں دوسری بار ایم این اے بنایا، میں اکیلا یا آٹھ دس اینکرز غلط ہو سکتے ہیں لیکن دو لاکھ 82ہزار384 ووٹرز کا حلقہ غلط نہیں ہو سکتا۔ مظفرگڑھ کی اکثریت نے انھیں دوسری بار ایم این اے بنایا اور ہم لوگ اب جمشید دستی کو صرف اور صرف عوام کے احترام میں ٹی وی پر لے کر آتے ہیں کیونکہ مظفرگڑھ کے عوام نے ووٹ کے ذریعے ہم "بے وقوفوں " کو یہ پیغام دے دیا ہے "ہمیں جمشید دستی چاہیے خواہ اس کی ڈگری اصلی ہو یا جعلی"۔

آپ دوسری مثال رحمان ملک کی ملاحظہ کیجیے، رحمان ملک کے پاس دوہری شہریت تھی، یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے شہری بھی تھے، پاکستان کے آئین کے مطابق دوہری شہریت کا حامل کوئی شخص سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا، یہ صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بھی نہیں بن سکتا۔ مئی 2012ء میں رحمان ملک کی دوہری شہریت کا انکشاف ہوا، میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا، عدالت ایکٹو ہوئی اور رحمان ملک نے 10جولائی کو استعفیٰ دے دیا یوں یہ سینیٹ کی رکنیت سے فارغ ہو گئے،

رحمان ملک نے دوبارہ سینیٹ کا الیکشن لڑا اور یہ مڈل کلاس قیادت کی دعویدار ایم کیو ایم کی مہربانی سے ایک بار پھر سینیٹربھی بن گئے اور وزیر داخلہ بھی۔ سینیٹ پاکستان کا سب سے بڑا انتخابی حلقہ ہوتا ہے، ایک سینیٹر کو عموماً دس سے سولہ ایم پی اے کی حمایت درکار ہوتی ہے اور اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک ایم پی اے اوسطاً پچاس ہزار ووٹ لیتا ہے تواس کا مطلب ہو گا رحمان ملک کو پانچ سے آٹھ لاکھ ووٹروں کا اعتماد حاصل ہے چنانچہ پھر میرے اور میرے کولیگز کے پاس رحمان ملک کو برا کہنے کا کیا جواز بچتا ہے۔

آپ پاکستان کی حکمران جماعتوں کی مثال بھی لیجیے، پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس قومی اسمبلی کی 125 نشستیں ہیں، عوام کی اکثریت نے انھیں اپنا نمائندہ چنا اور یہ عوام کے دوسرے نمائندوں مثلاً پاکستان مسلم لیگ ق، اے این پی، ایم کیو ایم اور فاٹا اراکین کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہے ہیں، کیا ان میں کوئی ایک ایسی جماعت موجود ہے جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہو یا جس نے عوام کا ووٹ نہ لیا ہو، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے، خیبرپختونخواہ میں اے این پی برسراقتدار ہے، بلوچستان میں پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور ق لیگ کی حکمرانی ہے اور سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی حکومت کر رہی ہیں، کیا یہ سب آپ عوام کے ووٹ لے کر نہیں آئے! کیا آپ نے انھیں اپنے ہاتھوں سے منتخب نہیں کیا؟ اگر نہیں کیاتو کیاپھر یہ انڈیا، ایران یا افغانستان کے نمائندے ہیں؟ ۔

اگر یہ آپ کے نمائندے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی نظر میں جعلی ڈگری، دوہری شہریت، کرپشن، قبضہ گیری، بھتہ، جعل سازی، بدمعاشی، جہالت، بدتمیزی، لوٹا سازی، سیاسی منافقت اور نااہلیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟ آپ اقتدار میں ایسے ہی لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں!۔ آپ مزید تھوڑا سا آگے چلیے، آپ حج سکینڈل کے بعد عبدالقادر گیلانی اور ایفی ڈرین کیس کے بعد موسیٰ گیلانی کو ایم این اے منتخب کر لیتے ہیں، آپ مخدوم امین فہیم کے اکائونٹ سے این آئی سی ایل کے پانچ کروڑ روپے برآمد ہونے کے بعد بھی انھیں اپنا سینئر وفاقی وزیر تسلیم کر لیتے ہیں، آپ انھیں ہار بھی پہناتے ہیں اور ان پر پھول بھی برساتے ہیں۔

آپ چار پارٹیاں تبدیل کرنے اور کرپشن کے درجنوں الزامات کے باوجود میاں منظور وٹو کو پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر بھی مان لیتے ہیں اور ان کے استقبال کے لیے لاہور ائرپورٹ کو میدان جنگ بھی بنا دیتے ہیں، آپ این آئی سی ایل سکینڈل کی غیرجانبدارانہ انکوائری کرنے اور اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی دائو پر لگانے والے ظفر قریشی کے بجائے مونس الٰہی اور محسن وڑائچ کا ساتھ دیتے ہیں، آپ آج بھی مونس الٰہی کا والہانہ استقبال کرتے ہیں، ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تصویریں کھینچواتے ہیں، آپ اصغر خان پٹیشن کے فیصلے کے بعد بھی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور الزامات کے باوجود آصف علی زرداری ہی کو اپنا صدر دیکھنا چاہتے ہیں، کیا یہ غلط ہے، اگر میری بات غلط نہیں تو پھر آپ اعتراض کیوں کرتے ہیں!

آج بھی اگر تین تین ناکام حکومتوں کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن آپ کی پارٹیاں ہیں تو پھرآپ صبر کیوں نہیں کرتے، آپ برداشت کیوں نہیں کرتے اور آپ چیختے کیوں ہیں؟ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں چار مارشل لاء لگے اور جس میں سپریم کورٹ نے جرنیلوں کو الیکشن سیل بنانے، جمہوری حکومتیں توڑنے اور الیکشن میں دھاندلی کرانے کا مجرم ڈکلیئر کیا لیکن آپ عوام کسی ایک مارشل لاء کے خلاف سڑکوں پر آئے اور نہ ہی آپ نے باوردی جرنیلوں کو حکمران تسلیم کرنے سے انکار کیا، آپ مارشل لائوں پر خاموش رہتے ہیں اور جب ووٹ کی باری آتی ہے تو آپ اس وقت اپنے حلقے کے بدترین شخص کو اسمبلی میں بھجوا دیتے ہیں چنانچہ مارشل لائی حکمران آپ کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں اور آپ کے نمائندے ان مسائل کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔

مگر آپ اس کے باوجود فرشتے ہیں، آپ اس کے باوجود مظلوم ہیں، آپ اگر مظلوم ہیں تو اس کی نوے فیصد ذمے داری آپ پر عائد ہوتی ہے، آپ اگر مافیا ذہنیت، لوٹا کریسی ذہنیت اور قبضہ گروپ ذہنیت کے نااہل ترین، جاہل ترین، کرپٹ ترین اور مفاد پرست ترین لوگوں کو اپنا نمائندہ بنائیں گے اور آپ اگرمارشل لائوں کو قبول کریں گے تو پھر آپ کو نتائج کی ذمے داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، آپ نے چار صوبائی اسمبلیوں اور نیشنل پارلیمنٹ میں بجلی کا کوئی ایک ایکسپرٹ بھجوایا، آپ نے روزگار، صحت، تعلیم، انڈسٹری، بین الاقوامی تعلقات اور سماجی رویوں کا کوئی ایک ماہر اسمبلیوں میں بھیجا اور آپ نے گیس، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے جیسے اداروں کو بحران سے نکالنے کا کوئی ایک ایکسپرٹ اسمبلیوں میں بھیجا، آپ نے اگر نہیں بھجوایا تو پھر آپ کو اعتراض کا بھی کوئی حق نہیں!۔ آپ پھر بجلی، گیس، انڈسٹری، بزنس، روزگار، تعلیم اور صحت کو بھول جائیے، آپ پھر صبر کا گھونٹ بھرئیے اور آسمانوں سے فرشتے اترنے کا انتظار کیجیے۔

آپ عوام اگر ڈیڑھ، دولاکھ ووٹروں کے حلقے سے ایک پی ایچ ڈی، ایک ایماندار، اہل، سمجھدار، محنتی اور بے خوف شخص تلاش نہیں کر سکتے، آپ اگر ڈیڑھ، دولاکھ لوگ مل کر ایک اچھا شخص سامنے نہیں لا سکتے، آپ اگر اپنے حلقے سے کوئی ایک ایسا شخص نہیں نکال سکتے جو حکومت کی مدد کے بغیر آپ کے چھوٹے چھوٹے مسئلے حل کر سکے، جو آپ کے ساتھ مل کر اسکولوں کی عمارتیں مرمت کر سکے، آپ کے ساتھ مل کر آپ کی گلیاں، نالیاں اور سڑکیں پکی کر سکے اور آپ کے اسکولوں میں استاد اور اسپتالوں میں ڈاکٹر پورے کر سکے اور حکومت کی مدد کے بغیر حلقے کے تمام بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کر سکے تو پھر آپ کو اس جمہوری نظام، ان اسمبلیوں اور اس پارلیمنٹ پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں!۔

آپ اگر بلیاں پالیں گے تو پھر آپ دودھ نہیں پی سکیں گے، آپ اگر چیلوں کی پرورش کریں گے تو پھر آپ گوشت کی دکان نہیں کھول سکیں گے، آپ اگر کیکر پرانگور کی بیل چڑھائیں گے تو پھر آپ ثابت انگور نہیں کھا سکیں گے اور آپ اگر ندیوں اور نہروں میں مگرمچھ پالیں گے تو پھر آپ وہاں غسل نہیں کر سکیں گے۔ یہ حقیقت ہے شہد کھانے کے لیے جنگلوں کو ریچھوں سے پاک کرنا پڑتا ہے لیکن آپ ہر بار شہد پکنے سے پہلے ریچھ کو درخت پر چڑھا دیتے ہیں اور اس کے بعد اعتراض کرتے ہیں ہمارے گھر میں بجلی نہیں آ رہی، ہمیں گیس نہیں مل رہی، ہمارا ریلوے کام نہیں کر رہا، ہمیں تعلیم اور صحت کی سہولتیں نہیں مل رہیں اور ملک میں امن وامان، انصاف اور مساوات نہیں؟ اور ملک سے مہنگائی کم نہیں ہو رہی؟ یہ مسئلے اس لیے مسئلے ہیں کہ آپ بھوکے بلوں کو دودھ کے سرہانے بیٹھا کر ان کے ایماندار ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور یوں خود بھی بھوکے مرر ہے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی مار رہے ہیں۔ آپ مان لیجیے، آپ مجرم ہیں، ایسے مجرم جو اپنی لاش کے قاتل بھی ہیں اور مدعی بھی۔

(جاری ہے)

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.