Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Asal Mujrim Hain (3)

Awam Asal Mujrim Hain (3)

آپ عوام نے کبھی سوچا دنیا میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بیلجیئم، اسپین اور اٹلی جیسے ملک بھی ہیں، دنیا میں جاپان، چین اور تائیوان بھی ہیں اور ان ممالک کے عوام کرپٹ سیاستدانوں، بدعنوان بیوروکریٹس، جانبدار ججوں، طالع آزما جرنیلوں اور بلیک میلر صحافیوں سے کیا سلوک کرتے ہیں! کیا آپ عوام جانتے ہیں۔

امریکا کی فوج دنیا کی سب سے بڑی، مضبوط اور تکنیکی لحاظ سے موسٹ ماڈرن عسکری طاقت ہے، امریکی فوج کا بجٹ ساڑھے پانچ سو بلین ڈالر ہے، یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازا پاکستان کے کل بجٹ سے لگا لیجیے، پاکستان کا 2012 کا بجٹ 29کھرب 60ارب روپے تھا، یہ ڈالرز میں 31بلین بنتے ہیں، آپ 31بلین اور 550 بلین ڈالر کا فرق دیکھ لیجیے، امریکی فوج کے پاس ایسے جہاز، رائفلیں اور توپیں بھی ہیں جو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مار کر سکتی ہیں، یہ اس قدر طاقتور ہے کہ یہ امریکی صدر کو بھی اپنے پچاس فیصد منصوبوں کی خبر نہیں ہونے دیتی، اب سوال یہ ہے کیا امریکی جرنیل، ایڈمرلز اور ائر چیفس کے دل میں دنیا کی واحد سپر پاور کا حکمران بننے کی خواہش پیدانھیں ہوتی، کیا یہ سو جوان بھجوا کر وائٹ ہائوس خالی نہیں کرا سکتے، کیا یہ امریکا کا آئین معطل نہیں کر سکتے، کیایہ امریکی ججوں سے پی سی او پر حلف نہیں لے سکتے اور کیایہ اپنی مرضی کی تیسری سیاسی جماعت نہیں بنوا سکتے؟ لیکن سوال یہ ہے یہ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے؟

ان کے عزائم کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیا آپ عوام جانتے ہیں امریکی سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی، مضبوط اور امیر خفیہ ایجنسی ہے، کیا یہ چند بلین ڈالرز خرچ کر کے صدر اوباما کی حکومت نہیں گرا سکتی، کیا یہ 14بلین ڈالرز خرچ کر کے میٹ رومنی کو صدر نہیں بنوا سکتی اور کیا امریکا کا کوئی جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی مل کر امریکا کا پورا سیاسی نظام نہیں بدل سکتا؟ لیکن سوال یہ ہے یہ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ان کے عزائم کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیا آپ عوام یہ سمجھتے ہیں برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بیلجیئم، اسپین، اٹلی، جاپان، چین اور تائیوان کے سیاستدان کرپشن نہیں کرنا چاہتے، یہ حاجیوں کی جیب نہیں کاٹنا چاہتے، یہ ایفی ڈرین سے سات ارب روپے نہیں کمانا چاہتے، یہ پارٹی کے جلسوں سے خطاب کے لیے سرکاری جہاز استعمال نہیں کرنا چاہتے، یہ صدارتی الیکشن کے لیے آئی بی کے فنڈز سے پچاس پچاس کروڑ روپے نہیں نکالنا چاہتے۔

یہ ریلوے، پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی ہڈیاں نہیں بیچنا چاہتے، یہ اپنے منظور نظر وکیلوں کو پانچ پانچ کروڑ روپے نہیں دینا چاہتے، یہ سرکاری فنڈز سے خورد برد نہیں کرنا چاہتے، یہ صوابدیدی فنڈز قائم نہیں کرنا چاہتے اور یہ فنڈز اپنے دوستوں میں نہیں باٹنا چاہتے، یہ اپنی زمینوں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے رنگ روڈز، موٹرویز اور قومی شاہرات کا رخ نہیں موڑنا چاہتے، یہ ذاتی کاروبار کے لیے قانون نہیں بدلنا چاہتے اور یہ بچوں کے کانووکیشن میں شرکت کے لیے سرکاری دوروں کے نام پر ہفتہ ہفتہ امریکا اور لندن نہیں رہنا چاہتے، یہ سیاست کے ذریعے اپنی دولت، زمین جائیداد اور کاروبار میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے؟

یہ سکیورٹی آلات اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے اربوں روپے نہیں کمانا چاہتے ہیں، یہ اپنی ذاتی رہائش گاہوں کو پرائم منسٹر ہائوس اور ایوان صدر کا کیمپ آفس نہیں بنانا چاہتے، یہ سرکاری عملے کو ذاتی عملے اور ذاتی عملے کو سرکاری عملے میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے اور یہ ووٹرزکو کھینچنے کے لیے لاکھ، لاکھ لوگوں کو سرکاری نوکری نہیں دینا چاہتے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے یہ لوگ پھر ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ان کے عزائم کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟

کیا آپ عوام یہ سمجھتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بیوروکریٹس کے دل میں کرپشن کا خیال پیدا نہیں ہوتا، یہ نوکریاں نہیں بیچنا چاہتے، یہ سرکاری رہائش گاہوں، بجلی، گیس، پٹرول، گاڑی، ملازمین، علاج اور پلاٹس حاصل نہیں کرنا چاہتے، یہ "صاحب میٹنگ میں ہیں " جیسی عیاشی سے لطف اندوز نہیں ہونا چاہتے اوریہ کرپٹ سیاستدانوں اور اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کی ہوس کا حصہ بن کر اپنی دنیا اور آخرت نہیں "سنوارنا" چاہتے اور ان ممالک کا ہر جعلی ڈگری ہولڈر سرکاری ملازمت اختیار نہیں کرنا چاہتا اورکیا وہاں لوگ پانچ، دس لاکھ روپے دے کر پٹواری، نائب تحصیلدار اور اے ایس آئی بھرتی نہیں ہونا چاہتے اور کیا وہاں کی پولیس رات کے وقت ناکے لگا کر لوگوں کی جیبیں خالی نہیں کرنا چاہتی، کیاوہاں کی ایجنسیاں بے گناہوں کو مقدموں میں پھانس کر پیسے نہیں اینٹھنا چاہتیں اور کیا وہاں قانونی ادارے شراب، جوئے اور فحاشی کے اڈوں سے بھتے وصول نہیں کرنا چاہتے اور کیا وہاں کے تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار اور صنعت کار صارفین کی چمڑی کے جوتے نہیں بنانا چاہتے،

کیا وہ مرچوں میں لکڑی کا برادہ، دودھ میں سنگھاڑے کا آٹا، گندم کے آٹے میں جو اور مردہ گدھے کا گوشت بکری کے گوشت میں نہیں ملانا چاہتے اور کیا ان کے صنعت کار جعلی مصنوعات بنانا اور مارکیٹ میں بیچنا نہیں چاہتے؟ کیا ان کے ڈاکٹرز، انجینئرزاور ٹیچرز اسکولوں، دفتروں اور اسپتالوں سے غائب نہیں ہونا چاہتے اور کیا ان کے نوجوان ہاتھ میں پستول لے کر دس، بیس لوگوں کو پرس اور موبائل سے محروم نہیں کرنا چاہتے، جی ہاں یہ لوگ بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی مفت تنخواہیں لینا چاہتے ہیں، یہ بھی دس ڈالر خرچ کر کے سو ڈالر کمانا چاہتے ہیں، یہ بھی جعلی ڈگریوں کے ساتھ سرکاری نوکریاں حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی سرکاری مراعات پر پلنا چاہتے ہیں، یہ بھی جی بھر کر کرپشن کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی انا کی تسکین کے لیے بیس، بیس گاڑیوں کے پروٹوکول کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کی خواہشوں کے راستے میں صرف ایک رکاوٹ ہے اور وہ رکاوٹ عوام ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران سمجھتے ہیں ہم اپنی خواہش تو پوری کر لیں گے لیکن ہمیں معاشرہ قبول نہیں کرے گا، اسکول کے بچے اسکول نہ آنے والے استاد کا محاسبہ کریں گے، مریض اسپتال سے غائب ڈاکٹر کو معاف نہیں کریں گے، عوام بے ایمانی کرنے والے تاجرکا ناطقہ بند کر دیں گے، عوامی دولت لوٹنے والے بیوروکریٹس کو سب سے پہلے اپنی بیوی اور بچوں کو جواب دینا ہو گا اور اس کے بعد اسے محلے، برادری اور دوستوں کی عدالت کا سامنا کرنا ہو گا، کرپٹ سیاستدان اپنے ووٹروں کی حمایت کھو بیٹھے گا، عوام اسے سڑکوں پر روک کر پوچھیں گے "تم نے ایسا کیوں کیا" اور اگر کسی جرنیل یا ایڈمرل نے مارشل لاء لگایا،

اس نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے یا پھر مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کی تو اسے پانچ، دس کروڑ لوگوں کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا، عوام اسے کبھی اپنا حکمران تسلیم نہیں کریں گے اور یہ خیال محض خوف نہیں، یہ حقیقت ہے کیونکہ تائیوان، چین، جاپان، اٹلی، اسپین، بیلجیئم، ہالینڈ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا میں جب کسی سرکاری ملازم، تاجر، سیاستدان اور فوجی افسر پر الزام لگتا ہے تو اسے ملک بھر میں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی، اس کے بچے تک اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور یہ بیچارہ نفسیاتی مریض بن کر مر جاتا ہے یا پھر خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ آپ اس کے مقابلے میں اپنی حالت ملاحظہ کیجیے، آپ کے سامنے اسکول سے استاد، اسپتال سے ڈاکٹر اور سائٹ سے انجینئر غائب ہوتا ہے، پولیس آپ کے سامنے رشوت لیتی ہے،

پٹواری آپ سے دس پندرہ ہزار روپے مانگتا ہے، ججوں کے ریڈر عدالت میں بیٹھ کر وصولیاں کرتے ہیں، تاجر مصنوعات کا معیار روزکم کرتے ہیں اور قیمتیں روزبڑھاتے ہیں، سیاستدان کرپشن کو اپنا آئینی، سیاسی اور جمہوری حق سمجھتے ہیں، آپ کے سامنے بھوکے ننگے لوگ سیاست میں آتے ہیں اور دنوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں، آپ اپنی سڑکوں پر روزانہ ہوٹر والی گاڑیاں دیکھتے ہیں، آپ وزراء کو سرکاری جہاز لے جاتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں، فوج آپ کے سامنے مارشل لاء لگاتی ہے، جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں "ہاں ہم نے 1990 میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں " سیاستدانوں کی ڈگریاں جعلی اور شہریت دوہری نکلتی ہے، آپ کے سامنے عدلیہ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور آپ کے محلے میں منشیات بیچی جاتی ہے.

جوئے کے اڈے قائم ہوتے ہیں اور فحاشی کا کاروبار ہوتا ہے لیکن آپ میں سے کسی شخص نے کبھی احتجاج کیا؟ آپ نے کبھی اپنے حق پر پڑنے والا ڈاکہ روکنے کی کوشش کی؟ روکنا تو دور کی بات، احتجاج کرنا تو محال آپ ہمیشہ برائی، لوٹ کھسوٹ اور غبن کا ساتھ دیتے ہیں، آپ لوٹنے والوں کو ہار بھی پہناتے ہیں، ان کے ساتھ تصویریں بھی اترواتے ہیں اور ان کا رشتے دار ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں، آپ آج بھی اپنے بیٹے کو پولیس میں بھرتی کروانا چاہتے ہیں، آپ اسے سرکاری ملازم دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ اسے کام بھی نہ کرنا پڑے اور یہ تنخواہ اور مراعات بھی حاصل کرتا رہے، آپ کے سامنے بجلی کے کنڈے لگتے ہیں، آپ کے سامنے گیس چوری ہوتی ہے، آپ کے سامنے ریل کی پٹڑیاں کباڑیوں کو بیچی جاتی ہیں، آپ کے سامنے آپ کا ایم پی اے، آپ کا ایم این اے سائیکل سے پراڈو تک پہنچتا ہے اور آپ کے سامنے وزیر دس، دس سرکاری گاڑیاں لے کر پھرتے ہیں لیکن آپ اسے جھک کر سلام بھی کرتے ہیں اور اسے شاباش بھی دیتے ہیں۔

آپ نے آج تک کسی شخص کا عوامی محاسبہ کیا؟ آپ نے کسی کرپٹ شخص کا حقہ پانی بند کیا؟ آپ نے کسی بدمعاش سے رشتہ ناتا توڑا؟ اگر نہیں تو پھر آپ اس ملک کی خرابیوں کے ذمے دار ہیں اور آپ کو حالات کی خرابی پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، آپ عوام اصل مجرم ہیں چنانچہ آپ کو چیخنا نہیں چاہیے۔

(جاری ہے)

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.