Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Asal Mujrim Hain (6)

Awam Asal Mujrim Hain (6)

ہم عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کنفیوژن ہے، ہم اپنے بنیادی تصورات میں بھی کنفیوژہیں۔

مثلاً آپ دولت کو لے لیجیے، ہم میں سے ہر شخص ہر نماز میں کشادگی رزق کی دعا کرتا ہے، ہم رزق میں اضافے کے لیے وظائف بھی کرتے ہیں، صدقہ بھی دیتے ہیں، منتیں بھی مانگتے ہیں اور پیر صاحب اور مولوی صاحب سے تعویذبھی لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم دولت کو برا بھی سمجھتے ہیں، ہم اسے ہاتھ کی میل بھی کہتے ہیں، ہم دولت مند سے نفرت بھی کرتے ہیں اور ہم درویشی بھی اختیار کرنا چاہتے ہیں، اگر دولت اور خوشحالی اتنی ہی بری ہے تو پھرہم اس کے لیے دعا کیوں کرتے ہیں اور ہم اپنے بچوں کو امیر کبیر کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ ۔ آپ سرمایہ داری کو بھی لے لیجیے، ہم میں سے ہر شخص سرمایہ دار بننا چاہتا ہے، ہم منافع حاصل کرنے کے لیے پلاٹ بھی خریدیں گے اور زمین بھی۔ ہم میں سے کون ہے جو دکان نہ بنانا چاہتا ہو، ورکشاپ نہ کھولنا چاہے،

کارخانہ یا فیکٹری نہ لگانا چاہے اور فرم یا کمپنی نہ بنانا چاہے لیکن ہم ساتھ ہی ساتھ کمپنیوں، فیکٹریوں، کارخانوں، دکانوں، زمین داروں اور پلاٹ والوں کو گالی بھی دیتے ہیں اور ان کے کام میں سو سو کیڑے بھی نکالتے ہیں، ہم ان کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کرتے ہیں، ہم اپنے سیٹھ، مالک یا کارخانے دار سے ہر مہینے تنخواہ لیتے ہیں لیکن ہم اس کارخانے، اس فیکٹری کو چلنے نہیں دیں گے، ہم اس میں ہڑتال بھی کریں گے، مشینری بھی خراب کریں گے، ہم اس کی بجلی، گیس اور خام مال بھی ضایع کریں گے اور ہم کام بھی ادھورا چھوڑ کر چلے جائیں گے، ہم مالک سے اپنی صلاحیت، مہارت اور علم میں اضافے کے بغیر زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا مطالبہ بھی کریں گے، ہم اس مالک کو ہزار ہزار طریقے سے تنگ کریں گے اور اس کے بعد نوکریوں کی کمی اور بے روزگاری کا شکوہ بھی کریں گے۔

ہم نے آج تک سوچا ہوٹل کے ایک کمرے سے 127 لوگوں کا رزق وابستہ ہوتاہے، فیکٹری کا ایک مالک یا چھوٹے سائز کی ایک کمپنی ہزار بارہ سو لوگوں کا چولہا جلاتی ہے اور ملک میں جب تیس ملازمین کی کمپنی بند ہوتی ہے تو دو ہزار لوگ اس سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں، پنکچر کی ایک دکان پچیس لوگوں کو پالتی ہے اور جب یہ دکان بند ہوتی ہے تو اس سے چھ سات خاندانوں کے چولہے بجھ جاتے ہیں!۔ ہم نے آج تک نہیں سوچا معاشرے اور ملک بزنس اور سرمایہ کاری سے چلتے ہیں، ہمارے رسولﷺ اور ان کے صحابہؓ تاجر تھے، مدینہ منورہ کو سب سے پہلے تجارتی مرکز بنایا تھا اور نبی اکرمﷺ کے دور کے بازار آج بھی مدینہ میں موجود ہیں، ہم نہیں سوچتے پوری دنیا نے آج سرمایہ کاروں کے لیے بانھیں کیوں کھول رکھی ہیں؟ ۔

ہم نے کبھی سوچا اس بنگلہ دیش نے ہماری کاٹن انڈسٹری کے لیے اپنے دروازے کیوں کھول دیے جس نے کبھی پاکستان کی فوج اور سرمایہ داروں کے رویے سے مجبور ہو کر ہم سے آزادی لے لی تھی کیونکہ انھیں اب یہ اندازا ہوا تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار معاشرے کے محسن ہوتے ہیں، یہ ہزاروں، لاکھوں لوگوں کے رزق کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا دبئی سے لے کر امریکا تک پوری دنیا سرمایہ کاروں کے لیے کیوں کھلی ہے اور پوری دنیا سرمایہ کاروں کو شہریت کیوں دیتی ہے؟ اس لیے کہ دنیا جان گئی ہے معاشرے سرمایہ کاروں کے بغیر بھوکے مر جاتے ہیں لیکن ہم لوگوں میں سے ہر شخص سرمایہ کار بھی بننا چاہتا ہے اور سرمایہ کاروں کو گالی بھی دیتا ہے، ہم پوری کوشش کرتے ہیں وہ ادارہ جو ہمیں ہر مہینے تنخواہ دیتا ہے ہم اسے بند کرا دیں۔

ہماری یہ اپروچ دولت، سرمایہ کاری اور ہنر مندی کے بارے میں ہماری کنفیوژن ملک کو معاشی بدحالی کے دہانے تک لے آئی ہے اور آپ عوام اس کے قصور وار ہیں کیونکہ آپ فیصلہ نہیں کر رہے آپ نے درویش بن کر زندگی گزارنی ہے یا پھر آپ نے رزق کی کشادگی کی طرف جانا ہے چنانچہ آپ عوام مجرم ہیں۔

ہم عوام میں سے ہر دوسرا شخص یورپ اور امریکا جانا چاہتا ہے، ہمارے بیسیوں نوجوان ایران، ترکی اور یونان کے بارڈر پر مارے جاتے ہیں، ہمارے نوجوان لاکھوں روپے دے کر غیر قانونی طریقے سے یورپ اور امریکا پہنچتے ہیں، امریکا شہریت کی لاٹری شروع کرتا ہے تو پاکستان سے دو، دو کروڑ لوگ اپلائی کر دیتے ہیں لیکن ہم ساتھ ہی ساتھ امریکا اور یورپ کو گالی بھی دیتے ہیں، ہم ان لوگوں کو اپنا دشمن بھی کہتے ہیں، انھیں اسلام کا مخالف بھی سمجھتے ہیں اور ان کی تہذیب کو ننگا اور فحش بھی کہتے ہیں، ہم عوام کس قدر کنفیوژ ہیں اگر یورپ اور امریکا سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک برے ہیں، ہمارے دشمن ہیں تو پھرہم نوکری اور رزق کے لیے وہاں کیوں جاتے ہیں، یہ لوگ اگر ننگے، فحش اور ہمارے نظریاتی دشمن ہیں تو پھر ہم ان کی شہریت کیوں حاصل کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو وہاں کیوں رکھتے ہیں۔

آپ میں سے کسی کے پاس اس کا جواب موجود ہے؟ ہم اپنے ملک کے بارے میں بھی کنفیوژن کا شکار ہیں، ہم سارا سارا دن ملک کو گالی دیتے ہیں لیکن ہم اس کے برے نظام کا تحفظ بھی کر رہے ہیں، ہم فوج، بیوروکریٹس اور پولیس کو بھی گالی دیتے ہیں لیکن ہم اپنے بچوں کو پولیس، سرکاری دفتروں اور فوج میں بھرتی کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا دیں گے، ہم رشوت بھی دیں گے، جعلی ڈگریاں بھی لیں گے اور سفارش کی انتہائی نچلی سطح پر بھی چلے جائیں گے، ہم سیاستدانوں کو بھی برا کہتے ہیں لیکن ہم میں سے ہر دوسرا شخص ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر اور وزیر بھی بننا چاہتا ہے، ہم انگریزی کو برا کہتے ہیں لیکن ہم میں سے ہر شخص فون اٹھاتے ہی ہیلو، معذرت کے لیے سوری، شکریے کے لیے تھینک یو کہے گا اور ہم میں سے ہر شخص اپنے بچے کو انگریزی اسکول میں داخل کرائے گا۔

ہم اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں، ہم پوری دنیا میں اسلام کا بول بالابھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم میں سے کسی کو عربی زبان نہیں آتی، ہم قرآن مجید بھی پنجابی، سندھی، پشتون اور بلوچی لہجے میں پڑھتے ہیں۔ آپ المیہ ملاحظہ کیجیے، ہم حج اور عمرے کے دوران بھی مسلمان بھائیوں سے انگریزی میں بات چیت کرتے ہیں اور ہم کھجور اور آب زم زم کی قیمت بھی انگریزی میں پوچھتے ہیں، ہم اسلام کو مکمل ضابطہ اخلاق سمجھتے ہیں لیکن ہم نے بارہ سو سال پہلے اسلام پر تحقیق بند کر دی تھی، ہمارے مدارس میں آج بھی آٹھ سو سے لے کر بارہ سو سال تک پرانی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، ہم میں سے ہر شخص حضرت عمر فاروقؓ جیسا حکمران چاہتا ہے لیکن اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے کوئی حضرت عمرفاروقؓ جیسا طرززندگی گزارنا نہیں چاہتا۔

ہم رتبہ حضرت عثمانؓ جیسا چاہتے ہیں لیکن ان کی طرح قربان نہیں ہونا چاہتے، ہم میں سے ہر شخص انصاف چاہتا ہے لیکن ہم اپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیں گے، ہم عورت کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی بہن، اپنی بیٹی کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر کردیں گے، ہم جمہوریت کو بہترین نظام کہتے ہیں لیکن ووٹ کبھی نہیں دیں گے، اللہ سے رحم مانگیں گے لیکن اس کا کوئی حکم نہیں مانیں گے، نبی اکرمﷺ سے عشق کی قسمیں کھائیں گے لیکن ان کے احکامات کی پیروی نہیں کریں گے اور ہم سیلاب سے لے کر آتشزدگی تک اور الیکشن سے لے کر مردم شماری تک اور بلوچستان میں حالات کی خرابی سے لے کر کراچی کی قتل و غارت گری تک فوج کو آوازدیں گے لیکن مارشل لائوں کو گالی دیں گے، ہم شادیوں میں ویلیں دیں گے اورطوائفوں پر نوٹ نچھاور کریں گے لیکن سادگی اور کفایت شعاری کے درس دیں گے۔

ہم صفائی کو نصف ایمان سمجھتے ہیں لیکن ہماری مسجدوں اور قبرستانوں میں گرد بھی ہوگی، بے ترتیبی بھی اور گندگی بھی، ہم پوری زندگی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگائیں گے لیکن عالم بھی کہلانا چاہیں گے اور ہم گھردریائوں، نہروں اور پہاڑوں کے نشیب میں بنائیں گے لیکن سیلاب میں ڈوبنے کے بعد واویلا بھی کریں گے، غرض ہم روایت سے لے کر مذہب اور تعلیم سے لے کر خوشحالی تک کنفیوژن کا شکار ہیں، سوال یہ ہے اس کنفیوژن کا ذمے دار کون ہے؟ اس کے ذمے دار عوام ہیں کیونکہ کوئی ریاست، کوئی حکومت فرد کو کنفیوژن سے نہیں نکال سکتی مگر ہم عوام روز خواجہ سرائوں کی گود ہری ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور شام کو مایوس ہو کر ریاست اور ملک کو گالی دے دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں ریاست اور ملک خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائے یہ خواجہ سرائوں کو ماں یا باپ نہیں بنا سکتا۔

(نوٹ: عوام پر اعتراضات کی سیریز ختم ہو گئی ہے، میں چند دن بعد ان مسائل کا حل تجویز کروں گا)

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.