Friday, 22 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Babusar Top

    Babusar Top

    ہم نے واپسی پر راستہ بدل لیا، ہم فیری میڈوز سے پیدل جیپ اسٹاپ تک پہنچے، جیپ اسٹاپ سے رائے کورٹ برج آئے، رائے کوٹ برج پر ہمارے ڈرائیورہمارا انتظار کر رہے تھے، یہ رمضان کا پہلا دن تھا، رائے کوٹ بریج پر درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا، یہ عجیب جادونگری تھی، فیری میڈوز اور رائے کورٹ برج میں بیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا لیکن درجہ حرارت میں دوہزار کلومیٹر کا فرق تھا، فیری میڈو زمیں شدید سردی تھی، ہم رات کے وقت لکڑیاں جلا کر آگ تاپتے رہے تھے

    ہمیں دو دو کمبل میں بھی سردی لگ رہی تھی لیکن 20 کلومیٹر کے فاصلے پر رائے کورٹ میں شدید گرمی تھی اور ہم نہانے کے لیے پانی تلاش کر رہے تھے، ہمیں پانی مل گیا لیکن وہ پانی نہانے کے قابل نہیں تھا، رائے کورٹ کے تمام ہوٹل دریائے سندھ سے پانی پمپ کرتے ہیں اور یہ پانی، پانی کم اور کیچڑ زیادہ ہوتا ہے، اس پانی سے نہانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا چنانچہ ہم پسینے، بو اور خارش کے ساتھ آگے چل پڑے، ہم نے واپسی کے لیے راستہ بدل لیا، ہم چلاس، ایبٹ آباد اور ٹیکسلا کے بجائے بابوسرٹاپ کی طرف مڑ گئے، بابوسرٹاپ شمالی علاقہ جات کا بلند ترین درہ ہے،

    اس کے ایک طرف گلگت بلتستان کے علاقے ہیں اور انتہائی بلندی کے دوسری طرف کاغان کی وادیاں ہیں، بابوسرٹاپ پر سال کے بارہ مہینے برف کی تہیں جمی رہتی ہیں، ہم چلاس سے پہلے بابوسرٹاپ کی طرف مڑ گئے، علاقہ انتہائی خوبصورت تھا، لوگوں نے پہاڑوں کی ڈھلوانیں کاٹ کر کھیت بنا رکھے تھے، ان کھیتوں کے درمیان پانی کے جھرنے بہہ رہے تھے اور بھیڑیں چر رہی تھیں، ہمارے بالکل سامنے بابو سرٹاپ کی سفید پوش چوٹیاں تھیں لیکن سڑک، جی ہاں سڑک انتہائی خراب تھی، چلاس سے بابوسرٹاپ فقط 43 کلومیٹر دور ہے لیکن سڑک کی شکستگی کی وجہ سے ہم نے یہ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے کیا،

    راستے میں اکثر مقامات پرسڑک کا نام و نشان تک نہیں تھا اور ہم نوکیلے پتھروں پر ڈرائیو کرنے پر مجبور تھے، راستے میں ایسی جگہیں بھی تھیں جہاں ہمیں دریا کے پانی یا لکڑی کے تنگ اور کمزور پلوں سے گزرنا پڑا اور موت اور زندگی کے درمیان چند چھٹیوں اور ایک آدھ غفلت کا فاصلہ رہ گیا۔ ہم بہرحال اس اذیت ناک سفر کے بعد شام چھ بجے بابوسرٹاپ پہنچ گئے، ہمارے دائیں ہاتھ برف کی دیوار تھی اور بائیں ہاتھ گلگت بلتستان کی وادیاں اور پہاڑ تھے۔

    ہم وہاں رک گئے، ٹھنڈی ہوا ہمارے جسم سے الجھ رہی تھی اور ٹوٹی پھوٹی سڑک ہمارے قدموں میں بکھری ہوئی تھی، سورج کے سرخ ہونٹ سبز پہاڑوں کے ماتھے کی طرف بڑھ رہے تھے اور تیز ہوا بوسوں کی طرح ہمارے بدن پر برس رہی تھی، یہ بھی میری زندگی کا ایک شاندار لمحہ تھا، یہ بھی تصویر بن کر میرے حافظے کے البم میں محفوظ ہو گیا

    لیکن اس سے بھی زیادہ شاندار منظر ہم سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا ہم جونہی بابوسرٹاپ کے دوسری طرف مڑے، دریائے کنہار کی وادی نے اپنا گھونگھٹ ہمارے سامنے کھول دیا اورہمارے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی، یہ ایک لائف ٹائم تجربہ تھا، ہمارے سامنے درجنوں سفید پوش پہاڑیاں تھیں، پہاڑیوں کی چوٹیوں پر برف تھی، ڈھلوانوں پر سبزہ تھا اور سبزے کی آخری لائین پر پانی تھا، یہ لازوال منظر تھا، ہمیں اس قسم کے منظر عموماً تصویروں، ٹیلی ویژن اسکرینوں اور انٹرنیٹ پر ملتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کیا ہم بھی ان جگہوں پر جا سکیں گے؟

    یہ پیکچرپوسٹ کا منظر تھا، ہمارے قدموں میں دور تک ایک ندی بہہ رہی تھی، یہ ندی زاویوں، دائروں اور لکیروں میں بہہ رہی تھی اور اونچائی سے یوں محسوس ہوتی تھی جیسے کسی شرارتی بچے نے چالیس پچاس فٹ لمبی پنسل سے زمین پر ٹیڑھی میڑھی لکیر کھینچ دی ہو، پانی کو اس لکیر سے عشق ہو گیا ہو اور یہ اب اس ٹیڑھی میڑھی لکیر کے وجود میں ہلکورے لے رہا ہے۔ یہ منظر میری زندگی کے تمام دیکھے،

    چکھے اور چھوئے مناظر کا باپ تھا، میں نے اپنی آنکھوں، دل اور یادداشت کو کیمرہ بنا لیا اور یہ منظر تہہ در تہہ میرے وجود کا حصہ بنتا چلا گیا، مجھے وہاں سے آئے ہوئے آٹھ دن ہو چکے ہیں لیکن میں ابھی تک اپنے وجود میں اس منظر کی ٹھنڈک، اس کی مٹھاس اور اس کی مقناطیسیت کو محسوس کر رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم پر بابوسرٹاپ کا سبزہ اگ رہا ہے اور دریائے کنہار کی ہوائیں پیانو پر دستک دیتی، لمبی، نرم اور نازک انگلیوں کی طرح اس سبزے کو گدگدا رہی ہیں اور میرے وجود کی اندھی تہوں سے رنگوں میں بھیگے نغمے ابل رہے ہیں، موسیقی صرف آواز نہیں ہوتی یہ رنگ بھی ہوتی ہے اور منظر صرف چار سو تیرہ رنگوں کا مجموعہ نہیں ہوتے یہ گیت، نغمہ اور الاپ بھی ہوتے ہیں، ذائقہ صرف کھٹاس، مٹھاس اور ترش نہیں ہوتا یہ بچھڑے ہوئے،

    آپ کی زندگی سے الگ ہوئے اور آپ کے وجود کے اندر گم بے نام رشتوں کی سلگتی ہوئی یاد بھی ہوتا ہے اور پیچھے رہ گیا ٹچ توصرف انگلیوں کے محسوسات فیلنگ نہیں ہوتے یہ روحانی تجربے بھی ٹچ ہوتے ہیں۔ میں نے بابوسرٹاپ تک پہنچنے سے پہلے یہ سب کچھ صرف سن رکھا تھا لیکن میں نے اسے محسوس اس دن کیا تھا، اسے دیکھا اس دن تھا، اتوار کی شام، بابوسرٹاپ پر۔ وہ آنکھوں سے لے کر روح تک ایک ایسا سرشار کر دینے والا لمحہ تھا جس پر سیکڑوں شاعروں کی تمنائیں قربان کی جا سکتی ہیں اور ہزاروں آرٹسٹ اور موسیقاروں کا فن خیرات کیا جا سکتا ہے۔ میں دم بخود رہ گیا اور جب ہوش آیا تو میری زندگی سے پندرہ منٹ غائب ہو چکے تھے، وہ منظر میری زندگی کے پندرہ منٹ جذب کر چکا تھا۔

    بابوسرٹاپ سے ناران تک ایک گھنٹے کا سفر ہے لیکن سڑک کی کمیابی کی وجہ سے ہم نے یہ سفر ڈھائی گھنٹے میں طے کیا، افطار راستے میں دریائے کنہار کے کنارے ہوا، ہم ناران پہنچے تو رات کے ساڑھے نو بج چکے تھے، ہمارا "نائٹ اِسٹے" ناران میں تھا، ہمیں چار دن کی مشقت کے بعد پہلی بار نہانے کے لیے پانی ملا اور ہم نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو پانی کو ترسا ہوا ہاتھی چشمے کے ساتھ کرتا ہے،

    ہم اگلے دن اسلام آباد کے لیے نکل کھڑے ہوئے، ناران سے بالا کوٹ تک دونوں اطراف کے پہاڑ سبز بھی ہیں، سیراب بھی اور خوبصورت بھی۔ آپ روزانہ سبزہ دیکھتے ہیں لیکن آپ نے کبھی ایک ہی جگہ چار قسم کا سبزہ نہیں دیکھا ہوگا۔ کاغان ویلی میں یہ منظر عام ہے، لوگوں نے پہاڑ کاٹ کر کھیت بنا رکھے ہیں، یہ کھیت سبزے کی لمبی اور اونچی سیڑھیاں ہیں اور ان پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو یہ ریشم کی طرح اپنا رنگ بدلتے ہیں اور آپ ایک جھلک میں سبزے کی چار تہیں دیکھتے ہیں اور آپ کویہ منظربابوسرٹاپ سے بالا کوٹ تک مسلسل ملتا ہے۔

    میں نے دنیا پھری ہے اور میں دنیا پھر رہا ہوں، میں نے اﷲ تعالیٰ سے ہمیشہ عزت، علم، خوشحالی، آزادی اور سیاحت کی دعا کی، اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مجھے ان پانچوں راستوں پر چڑھا دیا، میں دنیا دیکھ رہا ہوں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا ہوں، میں اپنے تجربے کی بنیاد پر دعویٰ کرتا ہوں، میں نے جو قدرتی حسن پاکستان میں دیکھا یہ نعمت مجھے دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملی، یورپ میں بلند ترین پہاڑ کی اونچائی پانچ ہزار میٹر ہے جب کہ پاکستان میں ساڑھے سات ہزار میٹرکے تیس پہاڑ موجود ہیں، دنیا میں آٹھ ہزار میٹرکے چودہ اونچے پہاڑ ہیں،

    ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں، پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جس میں ہر قسم کی زمین موجود ہے، ہمارے ملک میں ڈیڑھ گھنٹے کی فلائٹ کے بعد موسم بدل جاتا ہے، جیکب آباد میں پچاس سینٹی گریڈ گرمی پڑتی ہے اور عین اس وقت نانگاپربت، کے ٹو، ہندوکش اور راکاپوشی کا درجہ حرارت منفی پچاس سینٹی گریڈ ہوتا ہے، ملک میں بیک وقت صحرا بھی ہیں، سمندر بھی، دریا بھی، میدان بھی، سبز پہاڑ بھی، خشک اور بنجر چوٹیاں بھی اور ان کے ساتھ ایسی چوٹیاں اور برف کی ایسی غاریں بھی جن میں آج تک کسی انسان نے قدم نہیں رکھا،

    اس میں جدید ترین تہذیب پانچ ہزار سال پرانی سولائزیشن کے ساتھ سانس لیتی ہے، اس میں موہنجو داڑو ہے، بدھوں کی قدیم یونیورسٹی ٹیکسلا بھی، رام اور لچھمن کی جنم بھومی بھی اور ایسے پہاڑ بھی ہیں جن کے پتھروں پر آج تک طوفان نوح کے نشان موجود ہیں، ہم میں بس ایک خامی ہے، ہم نے آج تک اس پوٹینشل کو استعمال نہیں کیا، ہم سیاحت کو انڈسٹری نہیں بنا سکے، ہمارا کے ٹو اکیلا ہمارے تمام قرضے اتار سکتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی، آج بھی کے ٹو بیس کیمپ پہنچنے کے لیے چودہ دن پیدل سفر کرنا پڑتا ہے، ہم کم از کم اس تک سڑک ہی بنا دیں،

    وہاں ریستوران اور پبلک ٹوائلٹس ہی بنا دیں، ہم فیری میڈوز سے بھی اربوں روپے کما سکتے ہیں لیکن وہاں سڑک ہی نہیں! ہمارے مقابلے میں نیپال نے مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی تک رسے کی سیڑھیاں بچھا دی ہیں اور آج ایک بچہ بھی مائونٹ ایورسٹ کی بلندیاں چھو سکتا ہے، دنیا بھر سے ہزاروں سیاح اور کوہ پیما ہر سال نیپال جاتے ہیں اور نیپال کو کئی ملین ڈالر دے کر واپس جاتے ہیں۔ پاکستان کبھی دنیا کی دس بڑی سیاحتی منازل میں شامل ہوتا تھا لیکن آج کوہ پیما تک پاکستان نہیں آتے۔ دہشت گردی اور سہولیات کی کمی یہ دونوں چیزیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئی ہیں،

    پاکستان کا لوکل سیاح بھی گرم تپتے ہوئے شہروں سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے رہنمائی کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی سڑک، رہائش گاہ اور باتھ روم چنانچہ یہ کڑاہی گوشت کھا کر اپنی گرمیاں لاہور ہی میں گزار دیتا ہے، ہم اگر سیاحتی صنعت کو ڈویلپ کریں تو ہم خوشحال بھی ہو سکتے ہیں اور دنیا میں ہمارا امیج بھی بہتر ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے وژن اور فوکس چاہیے اور ہماری قیادت میں ان دونوں کا فقدان ہے، یہ اپنی حرص کے نانگا پربت کو پائجامہ پہنانے میں مصروف ہیں، انھیں پاکستان کا نانگا پربت خاک نظر آئے گا۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.