Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bara Mendak Pakren

Bara Mendak Pakren

برین ٹریسی دنیا کے پانچ بڑے موٹی ویشنل اسپیکر میں شمار ہوتے ہیں، کینیڈین امریکن ہیں، ہزاروں موٹی ویشنل لیکچرز دے چکے ہیں، 80 سال کی عمر تک 80 بیسٹ سیلر کتابیں لکھیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن کے دریچے کھول دیے، برین ٹریسی کی ہر کتاب لاجواب ہے لیکن "اِیٹ دیٹ فراگ" کا کوئی جواب نہیں، یہ کتاب سستی جیسی ناقابل علاج بیماری سے متعلق ہے، ہم کیوں کہ من حیث القوم سستی، بے زاری اور بے عملی کے شکار لوگ ہیں لہٰذا یہ کتاب پورے پاکستان کو پڑھانی چاہیے شاید اس سے قوم ایکٹو ہو جائے۔

برین ٹریسی نے اس کتاب میں ایک واقعہ لکھا، انھوں نے اپنی کسی کلاس میں پوچھا تھا، فرض کریں آپ کی دن کی مصروفیات میں ایک مینڈک کھانا بھی شامل ہے اور آپ یہ مینڈک کس وقت کھائیں گے، برین ٹریسی کے زیادہ تر طالب علموں کا جواب تھا، ہم پہلے چھوٹے چھوٹے کام نبٹائیں گے اور اس کے بعد مینڈک کی طرف توجہ دیں گے۔

برین ٹریسی نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور جواب دیا اگر میں آپ کی جگہ ہوں تو میں صبح سب سے پہلے مینڈک کھاؤں گا، ان کا کہنا تھا ہم میں سے زیادہ تر لوگ پہلے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں، ان کاموں کے دوران مینڈک (بڑے کام) ان کے ذہن پر سوار رہتے ہیں، انھیں رہ رہ کر مینڈک یاد آتے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے یہ لوگ چھوٹے چھوٹے کام بھی جم کر نہیں کر پاتے، یہ ان سے وہ رزلٹ حاصل نہیں کر پاتے جس کی انھیں توقع ہوتی ہے۔

دوسرا یہ جب فارغ ہو کر مینڈک کی طرف آتے ہیں تو اس وقت تک مینڈک کا سائز بھی بڑا ہو چکا ہوتا ہے اور ان میں مینڈک کھانے کی توانائی بھی نہیں بچتی چناں چہ اس دن کا سب سے بڑا اور اہم کام ادھورا رہ جاتا ہے، اگلے دن فہرست میں ایک نیا مینڈک آ جاتا ہے لہٰذا اب انھیں دو مینڈک کھانا پڑتے ہیں، اس دن بھی درجنوں چھوٹے چھوٹے کام موجود ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے دونوں مینڈک رہ جاتے ہیں اور یوں انسان اہم ترین کام مس کر دیتا ہے، برین ٹریسی کا کہنا تھا میں روز صبح اٹھ کر سب سے پہلے مینڈک کھاتا ہوں یعنی اہم اور مشکل ترین کام سب سے پہلے کرتا ہوں اور اس کے بعد باقی تمام کام میرے لیے معمولی ہو جاتے ہیں اور میں انھیں چٹکی بجا کر نبیڑ دیتا ہوں۔

برین ٹریسی کے اس فارمولے نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں، امریکا اور یورپ کی تمام چھوٹی بڑی کمپنیوں اور سرکاری اداروں میں سب سے پہلے وہ مشکل ترین کام ختم کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے جس سے ملازمین ڈرتے ہیں یا جن میں انھیں فیل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، حکومتوں اور ملکوں کے سربراہوں کو بھی یہ ٹریننگ دی جاتی ہے مثلاً آپ امریکا کی مثال لیں، امریکا کے ہر صدر کے پروفائل میں کوئی نہ کوئی مینڈک (مشکل یا ناممکن کام) موجود ہے، جارج واشنگٹن اپنی دوسری مدت کے بعد رضاکارانہ ریٹائر ہوگیا جس کے بعد امریکا میں پرامن ٹرانسفر آف پاور کی روایت شروع ہوگئی۔

جان ایڈمر نے جان مارشل کو چیف جسٹس بنایا جس نے امریکا میں آزاد اور مضبوط جوڈیشری کی بنیاد رکھی، رچرڈنکسن نے چین کے ساتھ تعلقات استوار کیے، جیرالڈ فورڈ نے واٹر گیٹ اسکینڈل اور ویتنام جنگ کے بعد امریکا کو سنبھالا، وہ دور سول وار کے بعد امریکا کا مشکل ترین زمانہ سمجھا جاتا تھا، جمی کارٹر نے اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرایا، رونلڈ ریگن نے امریکا کو معاشی طور پر ناقابل تسخیر بنا دیا، اس نے افغان جنگ بھی لڑی، جارج بش سینئر نے عراق کی فوج کو کویت سے نکالا، بل کلنٹن نے بجٹ کی اضافی رقم خرچ کرکے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی گروتھ دی، سوشل میڈیا اور ای کامرس اسی گروتھ کی "بائی پروڈکٹ"تھی، جارج بش جونیئر نے نائین الیون کے بعد امریکا کو سنبھالا، بارک اوباما نے اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے قتل کیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں سفید ووٹ اکٹھا کیا اور جوبائیڈن نے امریکی فوج کو افغانستان سے نکالا، یہ طویل ترین فہرست کی چند مثالیں ہیں۔

امریکا کے46 صدور میں سے ہر صدر کے کھاتے میں کوئی نہ کوئی فربہ اور پلا ہوا مینڈک موجود ہے اور اس مینڈک نے اسے تاریخ میں ناقابل فراموش ٹائٹل دے دیا، ہم اگر اس کلیے کو بزنس اور سائنس میں بھی نافذ کرلیں تو ہمیں پتا چلے گا دنیا کے تمام بڑے سائنس دانوں نے زندگی میں کوئی ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا اور اس ایک کارنامے نے پوری دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا، مثلاً ہنری فورڈ نے کار کو عام زندگی کا حصہ بنا دیا، ٹیسلا نے بیٹری کا تحفہ دیا، ایڈیسن کی گیارہ سو ایجادات میں سے سب سے بڑی ایجاد بلب تھا، نیوٹن نے کشش ثقل کا نظریہ پیش کیا، آئین اسٹائن نے اضافیت کا نظریہ دیا، مادام کیوری نے تابکاری دریافت کی، الیگزینڈر فلیمنگ نے پنسلین ایجاد کی، بل گیٹس نے کمپیوٹر کو پرسنل بنایا اور سٹیو جابز نے ٹچ اسکرین دی۔

غرض آپ اگر بزنس اور سائنس کی دنیا پر بھی غور کریں گے تو آپ کو ہر بڑے شخص کے پروفائل میں کوئی ایک بڑا مینڈک نظر آئے گا، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ان لوگوں نے اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا تھا، بے شک ان لوگوں نے بڑے مینڈکوں کے علاوہ بھی کام کیے لیکن وہ کام بڑے مینڈکوں کی بائی پراڈکٹس تھے چناں چہ تاریخ ان کا ذکر سرسری انداز میں کرتی ہے۔

مجھے چند دن قبل وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حوالے سے ایک اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا، یہ اشتہار مریم نواز کی 100 دن کی کارکردگی سے متعلق تھا اور تمام اخبارات میں شایع ہوا تھا، اس اشتہار میں ان45 کارناموں کا ذکر تھا جو مریم نواز نے 100 دنوں میں سرانجام دیے، ان میں مریم کی دستک سے لے کر ماحول دوست بسوں تک چار درجن منصوبے شامل تھے، یہ منصوبے اشتہار کی حد تک بہت خوب صورت دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں تین نقائص ہیں، ایک یہ تمام منصوبے ابھی صرف شروع ہوئے ہیں یا ان کی پلاننگ مکمل ہوئی ہے، یہ پورے نہیں ہوئے لہٰذا اگر ان کا کوئی جشن ہو سکتا ہے تو وہ ان کی تکمیل کے بعد ہی ممکن ہوگا، دوسرا، دنیا میں منصوبے شروع کرنا کوئی کمال نہیں ہوتا انھیں مکمل کرنا کمال ہوتا ہے۔

عثمان بزدار نے بھی دو سو منصوبے شروع کیے تھے مگر وہ ان میں سے دس فیصد بھی مکمل نہیں کر سکا اور آج ان کی رخصتی کے دو برس بعد وہ دس فیصد بھی ختم ہو چکے ہیں، تختیاں رہ گئی ہیں، سڑکیں فنا ہو چکی ہیں چناں چہ مریم نواز اپنے دور میں ان میں سے کتنے پروجیکٹس مکمل کر پائیں گی؟ اس کا جواب یہ بھی نہیں دے سکیں گی اور اگر یہ دے دیں تو بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا ان کے جانے کے بعد ان کے پروجیکٹس میں سے کتنے قائم اور دائم رہتے ہیں؟ ہم ایک ایسی قوم ہیں جس نے فوج کے علاوہ انگریز دور کی کوئی چیز نہیں چھوڑی لہٰذا مریم نواز کے 45 منصوبوں کی کیا اوقات ہے اور تیسرا آپ مریم نواز سے کسی ایک منصوبے کی تفصیل، پائلٹ پروجیکٹ، ضرورت اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں پوچھ لیں، یہ کسی ایک منصوبے پر یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کو لیکچر نہیں دے سکیں گی، مجھے یقین ہے یہ تمام منصوبے بھی ان بیوروکریٹس نے بنائے ہوں گے جن کی وجہ سے یہ ملک منصوبوں کا قبرستان بن چکا ہے اور جن کی محنت سے یہ ملک اس سطح تک آ گیا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو عثمان بزدار کو بھی تاریخی وزیر اعلیٰ کہتے تھے اور چوہدری پرویز الٰہی کو بھی لیکن آپ آج ان سے ان کے بارے میں پوچھ لیں، یہ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے لہٰذا میری مریم نواز صاحبہ سے درخواست ہے آپ خدا کے لیے کوئی نیا پروجیکٹ شروع نہ کریں، آپ صرف دو کام کر لیں، ایک صوبے کے تمام ادھورے منصوبے مکمل کر دیں، آپ ماضی کے تمام پروجیکٹس اٹھائیں اور انھیں ایک سال کے اندر مکمل کر دیں اس سے پورا صوبہ تبدیل ہو جائے گا، دوسرا آپ صوبے کا کوئی ایک بڑا مینڈک اٹھا لیں اور پانچ سال (اللہ کرے آپ کو یہ مدت مل جائے) اپنی ساری توجہ صرف اور صرف اس مینڈک پر لگا دیں، مثلاً پنجاب میں ٹریفک کے حالات بہت خراب ہیں، آدھی سے زیادہ گاڑیاں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر چلائی جاتی ہیں۔

ہیلمٹ کی خلاف ورزی ہمارا قومی فرض ہے، گاڑیوں کی مینٹیننس سرے سے نہیں ہوتی، تیس تیس سال پرانی گاڑیاں چل رہی ہیں اور ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کو ہم جرم نہیں سمجھتے اگر وزیراعلیٰ پانچ سال میں صرف یہ مسئلہ حل کر جائیں تو یقین کریں پورا صوبہ بدل جائے گا اگر یہ ممکن نہیں تو یہ صرف سرکاری اسکولوں کی حالت بدل دیں، پنجاب کے تمام بچے اسکول پہنچا دیں، سلیبس جدید اور کارآمد بنوا دیں اور تمام اسکولوں میں استاد اور بنیادی ضرورتیں پوری کر دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو میڈم چیف منسٹر صرف جی ٹی روڈ کی دونوں سائیڈز صاف کر دیں، تمام تجاوزات اور کراسنگ ختم کر دیں اور سڑک کے دائیں بائیں گرین بیلٹس بنوا دیں یا جنگل لگا دیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو یہ صرف پنجاب کو صاف پانی دے دیں، ہر گھر میں پانی دستیاب ہو اور اسے پیا جا سکے، آپ یقین کریں ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ورنہ یہ اگر45 کے بجائے 450 نئے منصوبے بھی شروع کر دیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا الٹا قوم کا مزید سرمایہ ضایع ہو جائے گا اور یہ مزید دس میل پیچھے چلی جائے گی چناں چہ میری درخواست ہے میڈم وزیراعلیٰ کوئی بڑا مینڈک پکڑیں، اس سے صوبہ بدلے گا، 45 نئے پروجیکٹس لانچ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.