وہ یہودی تھا اور اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا، میری اس سے پیرس میں ملاقات ہوئی، پیرس میں دنیا کا بہت بڑا اسلامک سینٹرہے اوریہ سینٹر علم کا خزانہ ہے، فرانسیسی ماضی میں بے شماراسلامی ممالک کے حکمران رہے، یہ ان ممالک سے قلمی نسخے، قدیم کتابیں اور قدیم مکتوبات جمع کرتے رہے، پیرس لاتے رہے اور پیرس میں اسلامک سینٹر بنا کر یہ خزانہ اس میں رکھ دیا۔
یہ عمارت دریائے سین کے کنارے واقع ہے، عمارت وسیع بھی ہے، خوبصورت بھی، جدید بھی اور آٹھ دس منزلہ بھی۔ عمارت کی چھت پر چار شاندار کیفے اور ریستوران ہیں، آپ چھت پر بیٹھ کر کافی بھی پی سکتے ہیں، کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور پیرس شہر اور دریائے سین کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا زیادہ تروقت اسی سینٹر میں گزرتا تھا، وہ سینٹر کے قریب رہتے تھے، ان کی مسجد بھی سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر تھی، میں جب بھی پیرس جاتا ہوں۔
اس سینٹر کا چکر ضرور لگاتا ہوں، میں اسلام پر قدیم اور جدید کتابیں دیکھتا ہوں، شام کو سینٹر کی چھت پر بیٹھ کر کافی پیتا ہوں، اسلامی دنیا کی عقل پر ماتم کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوا لفٹ سے نیچے آ جاتا ہوں "اسلامی ممالک میں ایسا سینٹر کیوں نہیں؟ " ہم نے علم کا یہ خزانہ کیوں جمع نہیں کیا اور ان لوگوں نے عیسائی ہونے کے باوجود اسلامی کتابیں کیوں جمع کر رکھی ہیں۔
وہ یہودی ربی مجھے اس سینٹر کی چھت پر ملا، وہ اپنی نشست سے اٹھا، مجھے اسلام علیکم کہا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی، میں نے اس سے معذرت کی اور عرض کیا "میں عربی نہیں جانتا" اس نے پوچھا "کیا آپ مسلمان ہیں؟ " میں نے جواب دیا "الحمداللہ"۔ اس نے حیرت سے پوچھا "پھر آپ کو عربی کیوں نہیں آتی" میں نے عرض کیا "میں پاکستانی مسلمان ہوں اور پاکستان میں بچوں کو عربی کے بجائے انگریزی پڑھائی جاتی ہے" اس کے ساتھ ہی اس نے بھی قہقہہ لگایا اور میں نے بھی۔ وہ مجھے مصری مسلمان سمجھ کر میرے پاس آیا تھا، یورپ اور امریکا کے عیسائی اور یہودی مصریوں کو بہت پسند کرتے ہیں، اس کی شاید دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ، مصری لوگوں میں ہمارے مقابلے میں زیادہ برداشت ہوتی ہے، یہ لوگ ہر قسم کی بات سہہ جاتے ہیں جب کہ ہم جلد بھڑک اٹھتے ہیں۔ دوسری وجہ، یہودیت اور عیسائیت دونوں نے اس خطے سے جنم لیا، ماضی میں شام، لبنان، فلسطین اور اردن مصر کا حصہ ہوتے تھے چنانچہ یہودیت ہو یا عیسائیت ان کی بنیاد مصری علاقوں میں پڑی لہٰذا یہ لوگ مصریوں سے ڈائیلاگ میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔
مصری لوگ ہمارے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے بھی ہیں، یہ دین، سائنس اور ادب تینوں شعبوں میں مسلم ممالک سے آگے ہیں، یورپ اور امریکا کے دانشور انھیں پسند کرتے ہیں مگرمیں پاکستانی بھی نکلا اور مجھے عربی بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ میرے پاس آ چکا تھا چنانچہ اس نے واپس جانا خلاف تہذیب سمجھا اور وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا "کیا آپ مسلمان ہیں؟ " اس نے مسکرا کر جواب دیا "نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں " میں نے پوچھا "تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو" وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا "میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں " میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا "تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟ " اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا "میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں " میں نے پوچھا "تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟ " اس نے لمبا سانس لیا، دائیں بائیں دیکھا، گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا "میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے" یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا، میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، وہ بولا "میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے، یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرمﷺ کی ذات تھی، آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں، آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔
آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسولﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے، یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے" میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا، وہ بولا "میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا" اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا، اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا، کندھے پر رکھا، سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں، میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا، میں جان گیا رسول اللہﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے، جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
ہم سب مسلمان جتنے بھی گناہگار، لبرل، ماڈرن اور برداشت کے چیمپئن ہو جائیں، ہم نبی اکرمﷺ کی ذات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک حضرت اویس قرنیؓ ہے۔ حضرت اویس قرنیؓ ایک آدھ بار کے علاوہ کبھی یمن سے باہر نہیں نکلے، آپ کی والدہ علیل تھیں چنانچہ آپ والدہ کی خدمت کرتے رہے اور رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق۔ اللہ تعالیٰ کو یہ خدمت اور یہ عشق اس قدر بھایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنیؓ کو آپؐ کے دیدار کے بغیر صحابی ڈکلیئر کر دیا، آپ رسول اللہﷺ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا جنگ احد میں رسول اللہﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔
آپ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ نے خلیفہ کو کوئی مشورہ دینا تھا، آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو مدینہ کی سرحد پر بلوایا، خود مدینہ کی حد سے باہر کھڑے رہے اور حضرت عمرؓ کو مدینہ کی حدود میں کھڑا کر کے مخاطب ہوئے، حضرت عمرؓ نے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا "عمر! میں اس زمین پر کیسے پائوں رکھ سکتا ہوں جس میں نبی اکرمﷺ آرام فرما رہے ہیں " ہم مسلمان حضرت ابودجانہؓ بھی ہیں، حضرت ابودجانہؓ احد کے میدان میں آپ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے، رسول اللہﷺ پر تیر برس رہے تھے، حضرت ابودجانہؓ نے محسوس کیا میں اگر لڑوں گا تو میری پشت آپﷺ کی طرف ہو جائے گی اور یہ بے ادبی ہو گی چنانچہ آپؓ اپنا سینہ رسول اللہﷺ کی طرف کر کے کھڑے ہو گئے اور آپؓ نے تمام تیر اپنی پشت پر سہے۔
ہم سب کے اندر بھی ایسا ہی جذبہ موجزن ہے، تیر لوہے کا ہو یا توہین کا ہم اسے اپنی پشت اور سینے دونوں پر سہتے ہیں لیکن توہین یا زیادتی کا کوئی تیر رسول اللہﷺ کی ذات کی طرف نہیں جانے دیتے۔ یورپ اور امریکا کو اگر یقین نہ آئے تو یہ پاکستان سے لے کر طرابلس تک پھیلی آگ دیکھ لے، یہ آگ "انوسینس آف مسلمز" نام کی اس فلم کے بعد بھڑکی جو ٹیری جونز جیسے بدبودار پادری کی تحریک پر سام باسیل جیسے یہودی ڈائریکٹر نے بنائی اور اس کے لیے سو متعصب یہودیوں نے 50لاکھ ڈالرز سرمایہ فراہم کیا۔
یہ فلم محض فلم نہیں بلکہ یہ توہین کا وہ گٹر ہے جس کا ڈھکنا متعصب یہودیوں اور عیسائیوں نے عالم اسلام کی برداشت دیکھنے کے لیے کھولا چنانچہ آج پوری دنیا میں امریکی اور یورپی سفارتکاروں کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے، لیبیا کے مسلمانوں نے اس بن غازی میں امریکی سفیر کو قتل کر دیا جس پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے جب کہ لیبیا، مصر، تیونس، لبنان، اردن، انڈونیشیا، ملائشیا، نائیجریا، مراکش، بنگلہ دیش اور پاکستان میں امریکی سفارتکار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، اہل مغرب کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور انھیں ٹیری جونز اور سام باسیل جیسے لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنی چاہیے۔
انھیں فیصلہ کرنا چاہیے یورپ اور امریکا کا کوئی شہری ہمارے رسولﷺ کی توہین نہیں کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جو لوگ رسول اللہﷺ کی محبت میں اپنے منہ کے سارے دانت توڑ سکتے ہیں وہ گستاخوں کے دانتوں کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی توڑ دیں گے۔ آپ ہم سب کی برداشت کا امتحان لے لیں لیکن آپ ہمارے عشق کا امتحان نہ لیں کیونکہ ہم عشق رسولﷺ میں جان دینے والے لوگ ہیں، ہم گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے۔