Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bimar Qaum

Bimar Qaum

اعجاز قادری میرے دوست ہیں، یہ پیشے کے لحاظ سے "آرکی ٹیکٹ" ہیں، یہ ماڈرن تھیم میں کام کرتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں، یہ محض معمار نہیں ہیں، یہ دانشور بھی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام معاملات پر ان کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ ہم زندگی میں اس وقت تک خودمختار اور آزاد نہیں ہو سکتے ہم جب تک زندگی کے مختلف زاویوں پر ذاتی رائے نہیں بنا لیتے، ہمارے زیادہ تر اختلافات کی وجہ ہماری ادھار لی ہوئی سوچ ہوتی ہے۔

آپ نے اکثر لوگوں کو سنا ہو گا فلاں شخص، کمیونٹی، قبیلہ یا فرقے کے لوگ برے ہیں، آپ ان سے نفرت کی وجہ پوچھیں تو وہ آپ کو کسی دوسرے شخص، کتاب یا خبر کا ریفرنس دیں گے آپ ان سے پوچھیں، ایک کتاب، ایک واقعے یا ایک شخص کی وجہ سے پورا فرقہ، پورا قبیلہ یا پوری کمیونٹی بری کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا لیکن وہ اپنی بات منوانے کے لیے آپ سے الجھ پڑیں گے۔ آپ نے لوگوں کواکثر کہتے سنا ہو گا پولیس کے لوگ برے ہوتے ہیں، کاروباری لوگ لالچی ہوتے ہیں، شاعر ادیب مجذوب ہوتے ہیں، پروفیسرغیر حاضر دماغ ہوتے ہیں۔

سیاستدان جھوٹے ہوتے ہیں، صحافی کرپٹ ہوتے ہیں، مولوی شدت پسند ہیں، یہودی بے ایمان ہیں، عیسائی مسلمانوں کے خلاف ہیں اور امریکا ہمارا دشمن ہے وغیرہ وغیرہ، میرا چیلنج ہے آپ ایسے دعوے کرنے والوں سے وجہ پوچھ لیں یہ آپ کو کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتا سکیں گے، یہ ادھار لی ہوئی نفرت ہے جسے ہم آگے پھیلا رہے ہیں، ہم کیونکہ چیزوں کے بارے میں ذاتی رائے نہیں بناتے، ہم سنی سنائی باتوں کو اپنا موقف بنا لیتے ہیں چنانچہ ہم میں ضد ہے، ہم ادھار لی ہوئی رائے پر ڈٹ جاتے ہیں اور یوں کشمکش شروع ہو جاتی ہے مگر اعجاز قادری پاکستان کے ان دو تین فیصد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی ہر معاملے میں ذاتی رائے ہے۔

لہٰذا یہ اطمینان سے دوسروں کی بات بھی سن لیتے ہیں اور دوسروں پر اپنے رائے زبردستی ٹھونسنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ میں اعجاز قادری کو چند دن قبل پاکستان کے ایک کاروباری شخص کی دولت کے بارے میں بتا رہا تھا، میں نے انھیں بتایا یہ پاکستان کا امیر ترین شخص ہے، یہ ذاتی جہاز میں سفر کرتا ہے، اس نے دس کروڑ کی گاڑی خریدی، پاکستان کے آٹھ بڑے شہروں میں اس کے دفاتر اور گھر ہیں اور اس نے ایک منیجر صرف اپنی چیک بکس سنبھالنے کے لیے رکھا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اعجاز قادری نے قہقہہ لگایا اور بولا " میں اٹھارہ کروڑ کے اس ملک میں کسی شخص کو امیر نہیں سمجھتا۔

یہ غریبوں بلکہ مفلسوں کا ملک ہے" میں نے پوچھا " وہ کیسے؟ " اعجاز قادری نے جواب دیا "کیا اس امیر شخص میں ایک ملین ڈالر کی پینٹنگ خریدنے کا حوصلہ ہے؟ " میں خاموش رہا، وہ بولے " میں اس ملک میں اس شخص کو امیر سمجھوں گا جو ایک دو ملین ڈالر کی پینٹنگ خرید سکے گا" میں نے قہقہہ لگایا کیونکہ میں ان کی بات سمجھ گیا تھا۔

اعجاز قادری کی بات شاید آپ کو عجیب لگے، آپ بھی میری طرح دس بیس کروڑ روپے کی تصویر کو دولت کا زیاں سمجھیں گے، آپ بھی اسے انسانیت کی توہین کہیں گے لیکن جدید دنیا میں یہ "جرم" روز ہوتا ہے، دنیا یہ سمجھتی ہے معاشرے اس وقت تک سوشالائزیشن کی بلندی تک نہیں پہنچتے یہ جب تک تخلیق کاروں اور ان کی تخلیقات کو صنعتوں، کانوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ آپ دنیا کے بیس بڑے ممالک کے مصوروں، ادیبوں، پروفیسروں، اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کا پروفائل نکال لیں آپ کو ان میں سے ہر شخص ہمارے صدر زرداری اور نواز شریف سے کئی گنا امیر ملے گا۔

آپ اس کے بعد دنیا کے بیس غیر ترقی یافتہ، غریب اور مفلوک الحال ممالک کے تخلیق کاروں کے نام اور پروفائل دیکھیں آپ کو ان بیس ممالک میں بین الاقوامی معیار کا کوئی مصور، ادیب، شاعر، اداکار، گلوکار اور کھلاڑی نہیں ملے گا، اگر ملا بھی تو وہ ہمارے پٹھانے خان، ریشماں، مہدی حسن، صادقین اور لہری کی طرح ایڑھیاں رگڑ رہا ہو گا یا پھر کسی ایسے ملک میں پناہ گزین ہو گا جہاں فن اور فن کار کی قدر ہوتی ہے، فن اور فنکاروں کی قدر دنیا میں ترقی اور بدحالی کا ایک بڑا معیار ہے، دنیا کے جس ملک میں ان لوگوں کی قدر ہوتی ہے وہ ملک آگے بڑھ جاتا ہے اور جس ملک میں ان لوگوں کی بے توقیری اور بے قدری ہوتی ہے وہ ملک جہالت اور بدحالی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔

آپ کو ایتھوپیا، روانڈا، برونڈی، افغانستان اور پاکستان کے فنکار ایسی ہی صورتحال کا شکار دکھائی دیں گے۔ یورپ میں 2011ء میں "دی کارڈ پلیئرز" نام کی پینٹنگ 254 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی تھی، یہ تصویر فرانسیسی آرٹسٹ پال کازین نے 1890ء میں بنائی تھی، یہ ماسٹر پیس تھا اور یہ ماسٹر پیس ڈھائی ارب روپے میں فروخت ہوا، امریکا کے ایک مصور جیکسن پولاک کی ایک پینٹنگ "No، s 1948″ 160 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی، زرداری صاحب نے سوئس اکائونٹس میں 60 ملین ڈالر چھپائے تھے جب کہ پولاک کی ایک تصویران سے تین گنا زیادہ قیمت میں بکی۔

امریکا کے 82 سالہ مصور جیسپر جانز نے اپنی پینٹنگ " فالس اسٹارٹ" 80 ملین ڈالر میں فروخت کی تھی، امریکی کھلاڑی پیٹن میننگ نے 2011ء میں 23 ملین ڈالر معاوضہ لیا، امریکی مصنف جان گرشم کی کتابوں کی 25 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں، اس نے ان کتابوں سے 600 ملین ڈالر کمائے، امریکا کے دوسرے بڑے مصنف جیمز بی پیٹر سن نے 71 ناول لکھے، اس نے ان ناولوں پر 2011ء میں 84 ملین ڈالر رائیلٹی لی، ٹام کروز نے اس سال 75 ملین ڈالر اور لیونارڈو ڈی کیپریو نے پچھلے سال 77 ملین ڈالر معاوضہ لیا، انجلینا جولی اور سارہ جیسیکا پارکر سالانہ تیس تیس ملین ڈالر معاوضہ لے رہی ہیں، میاں بردران پر کرپشن کے کل چارجز انجلینا جولی کے ایک سال کے معاوضہ کے برابر ہیں۔

امریکی گلوکارہ ماریہ کیری نے امریکی شو میں جج بننے کا معاوضہ 18 ملین ڈالر لیا، یہ رقم پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے اکیڈمک بجٹ کے برابر ہے اور امریکی فلم ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے پچھلے سال 257 ملین ڈالر، کامیڈین جیف ڈن ہم نے 23 ملین ڈالر اور بون جوی بینڈ نے 125 ملین ڈالر کمائے، آپ امریکا کے ان 13 تخلیق کاروں کا ایک سال کا معاوضہ جمع کر لیں تو یہ ہماری مجموعی برآمدات کے برابر ہو جائے گا جب کہ ان کی عمر بھر کی کمائی ہمارے سارے قرضے ادا کرنے کے لیے کافی ہو گی۔

ہم اب پوچھ سکتے ہیں امریکا اور یورپ کے امراء ایک معمولی تصویر 254 ملین ڈالر میں کیوں خریدتے ہیں، یہ بنیادی طور پر تصویر یا مصور، کتاب یا مصنف، اداکاری یا اداکار اور نغمے یا گلوکار کی قیمت نہیں ہوتی یہ اِس فن موسیقی، فن اداکاری، فن تحریر اور فن مصوری کی اُس عظمت کا اعتراف ہے جس تک پہنچنے کے لیے انسان کو دس ہزار سال لگ گئے، پال کازین کی پینٹنگ " دی کارڈ پلیئرز" قطر کے شاہی خاندان نے خریدی تھی، یہ خریداری شاہی خاندان کی طرف سے مصور اور مصوری دونوں کی عظمت کا اعتراف ہے، دنیا کا کوئی صدر، کوئی وزیراعظم، کوئی بزنس ٹائی کون کسی اداکار، رائٹر، مصور، موسیقار، گلو کار یا کھلاڑی کے ساتھ تصویر بنواتا ہے تویہ ایک خاموش اعتراف ہوتا ہے کہ میری ساری سیاسی جدوجہد ایک طرف اور اس شخص کی اداکاری، تحریر، رنگ، آواز اور بائولنگ دوسری طرف۔ یہ قیمت قیمت نہیں ہوتی، یہ اعتراف فن ہوتی ہے اور یہ رویہ معاشروں کی بلوغت، سولائزیشن کی ترقی اور جمالیاتی حسوں کی بلندی کو ثابت کرتا ہے۔

دنیا وہاں جارہی ہے اور ہم 2012ء میں یہ بحث کر رہے ہیں، ہمارے میڈیا نے راجیش کھنہ کو سارا دن کوریج کیوں دی؟ راجیش کھنہ اداکار تھا، اداکاری سولائزیشن اور تہذیب کی علامت ہے اور مہذب معاشرے راجیش کھنہ جیسی علامتوں کو عزت دیتے ہیں، راجیش کھنہ محض ایک اداکار تھا، وہ کوئی مذہبی اسکالر نہیں تھا، اس نے صرف فن اداکاری کی خدمت کی، اس نے کسی مذہب کی کوئی خدمت نہیں کی، اسلام کی اور نہ ہی ہندوازم کی بالکل اسی طرح جس طرح پال کازین، جیکسن پولاک یا انجلینا جولی عیسائیت کی کوئی خدمت نہیں کر رہے یا مائیکل جیکسن نے انجیل کی ترویج میں کسی قسم کی خدمات سرانجام نہیں دیں اور ہماری نورجہاں اور مہدی حسن نے اسلام کے لیے کچھ نہیں کیا۔

راجیش کھنہ اداکار تھا، اس نے اداکاری میں کمال کر دیا۔ سارک ممالک کے ڈیڑھ ارب لوگ مذہب اور نظریات سے بالاتر ہو کر اس کی اداکاری کے فین تھے اور اس کی موت پر ساتوں ممالک نے اس کو ٹری بیوٹ پیش کیا لیکن ہم پوچھ رہے ہیں ہمارے میڈیا نے اس کو کیوں کوریج دی۔ ہم بڑی دلچسپ قوم ہیں، ہم مہدی حسن کو علاج کے بغیر مار دیتے ہیں، منیر نیازی کو معاشرتی بے نیازی میں ڈبو دیتے ہیں، ہم سے حبیب جالب کتابوں کی رائیلٹی مانگتا مانگتا مر جاتا ہے، ہم فیض صاحب کو جلا وطن کر دیتے ہیں، ہم علامہ اقبال کو مولویوں کے حوالے کر دیتے ہیں، ہم مولانا مودودی کے خلاف نعرے ایجاد کرتے ہیں، ہم جاوید غامدی کو ملائیشیا میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

ہم اپنے اداکاروں، گلوکاروں، مصوروں، ادیبوں اور شاعروں کو جیتے جی مار دیتے ہیں، ہمارے نصرت فتح علی خان اور قتیل شفائی روٹی اور عزت کے لیے انڈیا جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہم کسی عالم کو برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی گلوکار کو اور ساتھ ہی راجیش کھنہ کے بارے میں پوچھتے ہیں، اس نے اسلام کی کیا خدمت کی؟ کیا ہم نفسیاتی طور پر بیمار نہیں ہو چکے؟ ہم تخلیقی اور تہذیبی لحاظ سے روانڈا نہیں ہو چکے؟ ہاں ہم ہو چکے ہیں کیونکہ ہم اس ملک میں کسی ایسے شخص کو عزت نہیں دیتے جسے پوری دنیا باعزت سمجھتی ہے، جاوید غامدی بھی اس ملک سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں اور مہدی حسن کا علاج بھی انڈیا کرتا ہے! ہم بیمار قوم ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.