تاریخ کا مشہور واقعہ ہے، ظہیر الدین بابر نے ایک دن اپنے سرداروں کو کھانے کی دعوت دی، کھانے کے بعد حلوہ سرو کیا گیا، خادم ابھی حلوہ لگا رہے تھے کہ بابر کے سرداروں میں موجود ایک سردار نے خنجر نکالا اور خنجر سے حلوہ کھانا شروع کر دیا، سردار کی یہ حرکت بادشاہ کے نوٹس میں آ گئی، بادشاہ نے سردار کی طرف غور سے دیکھا، بابر کو سردار کے چہرے پر بغاوت نظر آئی، اس نے اپنے خصوصی خادم کو اشارہ کیا، قریب بلایا، آنکھ سے سردار کی طرف اشارہ کیا اور اس کے بعد اس کے کان میں کوئی حکم صادر کیا، سردار خنجر سے حلوہ کھا رہا تھا، سردار کا تعلق افغان قبیلہ"سور" سے تھا، وہ بھانپ گیا اس کے قتل کا پروانہ جاری ہو چکا ہے، اس نے حلوہ ختم کیا، شاہی دستر خوان سے ضروری بہانہ کر کے اٹھا، اپنی پوشاک اپنے خادم کو پہنائی، گھوڑے پر بیٹھا اور شاہی لشکر سے نکل گیا۔
بادشاہ کے سپاہیوں نے اس کے خادم کو سردار سمجھ کر قتل کر دیا، یہ سردار آگے چل کر ہندوستان کا بادشاہ بنا، اس کا نام شیر شاہ سوری تھا اور اس نے نہ صرف مغل سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی بلکہ اس نے ہمایوں کو بھاگنے اور ہندوستان کے تمام راجاؤں مہاراجوں کو اپنی اطاعت پر بھی مجبور کر دیا، یہ صرف پانچ سال بادشاہ رہا مگر اس کے بنائے ہوئے نظام، اس کی بنائی ہوئی جی ٹی روڈ اور اس کی ترتیب دی ہوئی زمین کی تقسیم آج تک قائم ہے، ہندوستان کے لوگ آج پانچ سو سال بعد بھی زمین کو بارانی، چاہی اور نہری تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، ہم اس شاہی دعوت کی طرف واپس آتے ہیں، بابر مضبوط اعصاب کا تگڑا بادشاہ تھا، اس کی محفل میں کسی شخص کو کھانسنے تک کی جرأت نہیں ہوتی تھی، یہ بلا کا قیافہ شناس بھی تھا، یہ چہرہ دیکھ کر انسان کی نیت بھانپ جاتا تھا، اس کے دستر خوان پر جب اس کی موجودگی میں ایک معمولی سردار نے خنجر سے حلوہ کھانا شروع کر دیا تو یہ اچنبھے کی بات تھی، بابر نے اس سردار کے چہرے پر بغاوت کے آثار بھی پڑھ لیے اور یہ بھی جان لیا یہ شخص اعصابی لحاظ سے مجھ سے زیادہ مضبوط ہے اور میں نے اگر اسے نہ کچلا تو یہ مجھے کچل دے گا، شیر شاہ سوری بھی قیافہ شناس تھا، یہ بادشاہ کے اشارے کو سمجھ گیا، یہ جان گیا میرے قتل کا حکم جاری ہو چکا ہے چنانچہ یہ وہاں سے نکل گیا اور یہ آنے والے وقتوں کا ہیرو بن گیا۔
یہ قیافہ شناسی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، قیافہ شناسی ایک قدیم فن ہے، یہودی عالم اس فن کے ماہر ہوتے تھے، شاید اسی لیے مکہ اور مدینہ کے یہودی ربی اس وقت نبی اکرمؐ کی عظمت کو پہچان جاتے تھے، یہ جب بچے تھے، اس کے بعد ہندوستان، سری لنکا اور بنگال کے قیافہ شناس اس فن کے استاد تھے، ان کے سامنے سیکڑوں لوگوں کو شاہی لباس پہنا کر کھڑا کر دیا جاتا تھا مگر یہ سیکڑوں لوگوں میں سے بادشاہ کو شناخت کرلیتے تھے، یہ صرف ماتھا دیکھ کر انسان کی موت کے دن کا تعین کر دیتے تھے، یہ ایک دن کی حاملہ عورت کو پہچان لیتے تھے، چین کے قیافہ شناس بھی بہت مشہور تھے، تاتاری بادشاہ ان کی خدمات حاصل کرتے تھے، آج کے دور میں بھی یہ فن موجود ہے اور اس کے ماہر آپ کے چہرے پر نظر ڈال کر آپ کو حیران کر دیتے ہیں، یہ فن اب دوسری جنریشن میں داخل ہو گیا، یہ دوسری جنریشن باڈی لینگویج کہلاتی ہے، قیافہ شناسی اور باڈی لینگویج باریک اور جامع فن ہے اور یہ فن سیکھنے کے لیے انسان کو کئی دہائیوں کی تپسیا چاہیے مگر اس کے چند اصول بہت سادہ اور عام ہیں مثلا گونگے چہروں کے مالک وہ انسان جن کے چہروں پر کوئی تاثر نہیں ابھرتا یہ انتہائی گہرے ہوتے ہیں۔
ان کی منصوبہ بندی جامع، بے لچک اور سخت ہوتی ہے، یہ فیصلے کرنے کے بعد اسے واپس نہیں لیتے خواہ یہ ان کی وجہ سے برباد ہی کیوں نہ ہو جائیں، جو لوگ دوسروں کو بولتے ہوئے غور سے سنتے ہیں، جو میٹنگز کے دوران خاموشی سے دوسروں کو دیکھتے ہیں اور ان کی آنکھیں سکینر کی طرح ایک شخص سے دوسرے کی طرف موو کرتی رہتی ہیں اور پھر ریڈار کی طرح آخری شخص سے واپس پہلے کی طرف آتی ہیں، یہ اپنی ذات میں خوفناک آمر ہوتے ہیں، یہ پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتے، یہ کسی کو اپنے سامنے اونچی آواز میں بولتے اور اختلاف کرتے برداشت نہیں کرسکتے، یہ خادم قسم کے لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کے اردگرد ہمیشہ خادمین کی قطاریں کھڑی رہتی ہیں، جو لوگ انتہائی بلندی پر پہنچ کر بھی ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ہر قسم کے لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں، جو چلتے چلتے اپنے گارڈ، اپنے خانسامے اور اپنے ڈرائیور سے یہ پوچھ لیں گے " تم بتاؤ کیا امریکا ایران پر حملہ کر دے گا" یہ لوگ ہمیشہ چونکا دینے والا فیصلہ کرتے ہیں اور جو لوگ ہنس مکھ ہوں یا خوفناک حد تک سیریس، یہ لوگ بڑے فیصلے سے قبل ہمیشہ اپنی روٹین تبدیل کر دیتے ہیں، سنجیدہ شخص مسکرانا شروع کر دے گا، یہ لطیفے سنے یا سنائے گا اور قہقہے لگائے گا یا پھر اچانک کوئی غیر متعلقہ میٹنگ بلا لے گا اور اس ایشو پر بے تحاشہ انٹرسٹ شو کرے گا جس کو اس نے کبھی اہمیت نہیں دی، یہ اس رشتے دار سے ملنے چلا جائے گا یا اس دوست کو بلا لے گا جس سے یہ دس بیس سال میں کبھی نہیں ملا، یہ پرانی فائلیں منگوا لے گا اور ساری فائلوں پر احکامات جاری کر دے گا اور اگر یہ شخص خوش دل اور خوش مزاج ہے تو یہ اچانک سیریس ہو جائے گا اور اس کی سنجیدگی کئی دنوں، کئی ہفتوں تک پھیل جائے گی، ان دونوں صورتوں میں امکان ہوتا ہے یہ شخص اپنی زندگی کا کوئی انتہائی اہم اور خوفناک فیصلہ کرنے والا ہے، قیافہ شناسی بہرحال ایک طویل فن ہے اور ہم اس ایک کالم میں اس کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر ہم قیافہ شناسی کی بنیاد پر موجودہ سیاسی حالات کے بارے میں چند اندازے ضرور لگا سکتے ہیں۔
میں میاں نواز شریف کو بڑے عرصے سے ٹی وی پر غور سے دیکھ رہا ہوں، میں نے کابینہ کے اجلاسوں کی فوٹیج بھی دیکھی، اے پی سی کی جھلکیاں بھی، میاں نواز شریف کا قوم سے خطاب بھی دیکھا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر بھی دیکھی اور صدر اوبامہ کے ساتھ ان کی ملاقات اور پریس بریفنگ بھی دیکھی، چار ماہ کی اس فوٹیج کی بنیاد پر میرا خیال ہے میاں نواز شریف اندر ہی اندر غصے سے کھول رہے ہیں، یہ غصہ ان سے عنقریب بڑے اور حیران کن فیصلے کروائے گا، مثلاً میرا خیال ہے میاں نواز شریف دہشت گردی کے خلاف پاکستانی جنگ چھیڑ دیں گے، یہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ شارٹ ٹرم امن ڈیل کریں گے اور اس کے بعد شدت پسندوں کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کر دیں گے، یہ اس سلسلے میں ملٹری آپریشنز کے ماہر آرمی چیف کا تعین کریں گے، ایک خالص فوجی ہمارا اگلا آرمی چیف ہو گا، یہ جنرل کیانی کی طرح دھیما، پڑھاکو اور فلسفی نہیں ہو گا، یہ لڑاکا، جنگی حکمت عملی کا ماہر اور جنگ زدہ علاقوں کا تجربہ کار جرنیل ہو گا، میاں نواز شریف شدت پسندوں کے خاتمے کو اپنا سیاسی مقصد بنا لیں گے، میاں نواز شریف کی کابینہ کی میٹنگز کے دوران باڈی لینگویج اچھی نہیں ہوتی، یہ بار بار پہلو بدلتے ہیں، یہ لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھتے ہیں اور بات کرتے ہوئے اپنے پرانے دوستوں سے نظریں چراتے ہیں، یہ سائنز ثابت کرتے ہیں، یہ اپنے وزراء کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
یہ انھیں وقت دیں گے مگر یہ انھیں جلد بدل دیں گے، میرا خیال ہے میاں نواز شریف کے زیادہ تر وزراء اگلے سال کے شروع میں تبدیل ہو جائیں گے یا پھر ان وزراء کے نیچے تگڑے وزیر مملکت اور سیکریٹری لگا دیے جائیں گے اور یہ دونوں براہ راست وزیراعظم کو جواب دہ ہوں گے اور وفاقی وزراء فقط نمائشی بن کر رہ جائیں گے، میاں صاحب پارٹی اور حکومت کے دروازے اہل لوگوں کے لیے کھول دیں گے، یہ شاید جنرل پرویز مشرف کی ساری معاشی ٹیم کو ہائر کر لیں، شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنا دیں اور اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ، یہ شاید امریکا کے معاملات کو عمران خان کے حوالے کر دیں، یہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی حکومت کو صوبائی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے نیٹو سپلائی بند کرنے کی اجازت دے دیں، یہ شاید مقامی قبائلیوں کو ڈرون گرانے کا موقع بھی دے دیں، یہ کراچی کو بھی صاف کر دیں گے اور مجھے محسوس ہوتا ہے، یہ سابق صدر آصف علی زرداری کا احتساب بھی کر گزریں گے لیکن اس کے لیے دو اڑھائی سال انتظار کریں گے، یہ میڈیا کو بھی موجودہ شکل میں نہیں رہنے دیں گے اور مجھے محسوس ہوتا ہے یہ اگر دو اڑھائی برسوں میں یہ سب کچھ نہ کر سکے تو یہ خود ہی حکومت چھوڑ دیں گے، یہ الیکشن کمیشن کو نئے الیکشن کرانے کی دعوت دے دیں گے اور یہ ان کا حیران کن فیصلہ ہو گا۔