Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Brisbane Se

Brisbane Se

برسبین(Brisbane) ہماری اگلی منزل تھی، آپ اگر آسٹریلیا کا نقشہ بچھا کر دیکھیں تو آپ کو برسبین سڈنی کے دائیں جانب نظر آئے گا، سڈنی کے دائیں جانب گرم علاقے ہیں جب کہ آپ اگر سڈنی سے بائیں جانب چلیں تو موسم سرد ہوتا جاتا ہے، کینبرا میں بھی سردی پڑتی ہے اور میلبورن سڈنی سے زیادہ ٹھنڈا ہے، تسمانیہ سمندر میں گھرا ہوا آسٹریلین جزیرہ ہے، یہ جزیرہ نیوزی لینڈ کے قریب ہے، میلبورن بھی ٹھنڈا ہے۔

اس کے برعکس سڈنی سے دائیں جانب موسم گرم ہے یہاں تک کہ ڈارون میں شدید گرمی پڑتی ہے، ڈارون انڈونیشیا کے قریب ہے، آپ دو گھنٹے میں وہاں سے جکارتا پہنچ جاتے ہیں، ڈارون کا وقت بھی سڈنی اور میلبورن سے مختلف ہے، غیر قانونی طور پر آسٹریلیا آنے والے زیادہ تر لوگ کشتیوں پر انڈونیشیا سے ڈارون آتے ہیں اور ڈارون پہنچ کر آسٹریلیا میں سیاسی پناہ لے لیتے ہیں، برسبین سڈنی اور ڈارون کے درمیان ہے، یہ گنے، کیلے اور مالٹے کے باغات اور اپنے گرم خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، دنیا کی مشہور ترین کوسٹل لائین "گولڈ کوسٹ" بھی برسبین کے ہمسائے میں واقع ہے۔

ہم بدھ کے دن برسبین پہنچ گئے، یہ 915 کلو میٹر لمبی ڈرائیو تھی، راؤ عامر تحریم برسبین میں ہمارا انتظار کر رہے تھے، یہ بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں، تعلیم کے لیے نیوزی لینڈ آئے، وہاں سے سڈنی آ گئے اور آخر میں گرافٹن اور برسبین کے مقیم ہو گئے، یہ بزنس مین ہیں، پٹرول پمپس بھی چلاتے ہیں اور کالج بھی۔ یہ کاروبار کی وجہ سے اپنا زیادہ وقت گاڑی میں گزارتے ہیں، ہم نے اس طویل سفر کی وجہ سے ان کا نام "راؤ پراڈو" رکھ دیا کیونکہ ہر ہفتے چار پانچ ہزار کلو میٹر کا سفر صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو راؤ ہوں یا جنھیں مہینے میں صرف تین دن گیراج نصیب ہوتا ہو، راؤ صاحب بڑی شدت سے ہمارا انتظار کر رہے تھے، سفر شاندار تھا، ہمارے دائیں ہاتھ سمندر چل رہا تھا جب کہ بائیں ہاتھ چھوٹے چھوٹے گاؤں، چراہ گاہیں اور فارم ہاؤسز آ رہے تھے، گرافٹن پہنچ کر ماحول مزید خوبصورت ہو گیا، ہم سمندر اور دریا کے درمیان آ گئے۔

وہ صاف پانی کا نیلا دریا تھا جس میں سورج غسل کی تیاری کر رہا تھا، آپ کو زندگی میں کبھی کوئی دریا سفید بادلوں، میلوں تک پھیلے کھیتوں اور سیاہ گھنے جنگلوں کے قریب بہتا نظر آئے تو آپ وہاں ضرور رکیے اور وہ وقت اگر غروب آفتاب کا ہو تو وہاں نہ رکنا کفران نعمت ہو گا، کیوں؟ کیونکہ وہ منظر صرف منظر نہیں ہو گا وہ اللہ کی عظیم نعمت ہو گا اور آپ اس نعمت سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کر بیٹھیں گے، ہم بھی گرافٹن میں رک گئے، وہ کوئی اجنبی گاؤں تھا، دریا گاؤں کے قریب پہنچ کر شانت ہو گیا تھا، میں اور مظہر بخاری دریا کے کنارے اتر گئے، گاؤں کے لوگوں نے کشتیاں باندھنے کے لیے پانی میں لکڑی کے دوستون گاڑھ رکھے تھے، ہم ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور دریا میں اترتے سورج کو دیکھنے لگے، وہ لمحہ بھی زندگی کے شاندار ترین لمحات میں سے ایک تھا۔

گرافٹن شہر دو حوالوں سے منفرد ہے، شہر کے مضافات میں وول گول گا(Wool Goolga)کا ٹاؤن ہے، قصبے میں کیلے کے میلوں تک پھیلے باغات ہیں، آپ کو وہاں تاحد نظر کیلے کے درخت نظر آتے ہیں، دوسرا حوالہ سکھ ہیں، یہ سکھ سن 1800ء کے آخر میں آسٹریلیا آئے اور "وول گول گا" آ کر کیلے کے باغات پر قابض ہو گئے، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے آسٹریلیا میں سکھ اور کیلے دونوں ایک ہو چکے ہیں، کیلوں پر سکھوں کی باقاعدہ مناپلی ہے۔

وول گول گا کے سکھ آسٹریلیا میں اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں، پنجابی بولتے ہیں اور بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں، گاؤں میں دو گردوارے بھی موجود ہیں، یہ اپنے بچوں کی شادیاں پنجاب میں کرتے ہیں، بہو پنجاب سے سیدھی "وول گول گا" آتی ہے اور پھر پوری زندگی کیلے کے باغ میں گزار دیتی ہے، یہ گرافٹن تک نہیں جاتی، ہم واپسی پر "وول گول گا" بھی رکے، ہم گردوارے بھی گئے، ہم نے سکھوں سے ملاقات بھی کی اور کیلے کے باغ کی سیر بھی کی، یہ باغ ہمارے باغات سے بہتر ہیں، ہماری حکومت کو جدید تکنیک جاننے کے لیے اپنے ماہرین "وول گول گا" بھیجنے چاہئیں، یہ لوگ وہاں ہم سے زیادہ فصل لے رہے ہیں، کوئینز لینڈ اسٹیٹ گنے اور شوگر ملوں کی وجہ سے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔

آپ اگر برسبین سے آ گے سفر کریں تو آپ کوبرسبین سے کینز تک سڑک کے دونوں اطراف ہزار کلو میٹر تک صرف اور صرف گنے کے کھیت نظر آتے ہیں، آپ کو کھیتوں کے درمیان شوگر ملیں بھی ملیں گی، ہم پاکستان میں کھیتوں سے گنا کاٹ کر ملوں تک پہنچاتے ہیں، وہاں یہ سسٹم نہیں، آسٹریلیا میں کھیتوں میں تھریشر مشینوں جیسی مشینیں لگی ہیں، یہ مشینیں کھیت سے گنا کاٹتی ہیں، اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتی ہیں۔

یہ ٹکڑے ٹرالیوں میں بھرے جاتے ہیں اور یہ ٹرالیاں سیدھی مل چلی جاتی ہیں، ہماری حکومت آسٹریلیا سے یہ ٹیکنالوجی برآمد کیوں نہیں کرتی؟ یہ کسانوں میں یہ تکنیک متعارف کیوں نہیں کراتی؟ ہم نے اپنے کسان کو روایتی کاشت کاری تک محدود کیوں کر رکھا ہے، کوئینز لینڈ میں پھرتے ہوئے یہ سوال بار بار میرے ذہن میں آتا تھا اور مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔

برسبین میں 22 لاکھ لوگ رہتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود خاموش شہر ہے، رات نو بجے شہر میں سناٹا ہو جاتا ہے، دنیا کے تمام بڑے اور خوبصورت شہروں کی طرح برسبین بھی دریا کے دو کناروں پر آباد ہے، آدھا شہر ادھر ہے اور آدھا ادھر۔ شہر کے دونوں حصوں کو پلوں نے جوڑ رکھا ہے، ڈاؤن ٹاؤن میں بلند و بالا عمارتیں بھی تھیں اور رونق بھی۔ یہ شہر گولڈ کوسٹ کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی حتمی منزل ہے چنانچہ آپ کو شہر میں دنیا جہاں کے لوگ ملتے ہیں۔

ہمارے اسلام آباد کی طرح وہاں بھی ایک "دامن کوہ" ہے، آپ وہاں سے پورے شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں، دریا کے جنوبی کنارے پر مصنوعی بیچ بھی ہے، سوئمنگ پول بھی، پارک بھی اور سڑک کے ساتھ ساتھ ریستوران اور کافی شاپس بھی۔ اس جگہ رونق رہتی ہے، گولڈ کوسٹ برسبین سے پونے گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، یہ ساحل سفید گرم ریت، نیلے پانی اور صاف آسمان کی وجہ سے مشہور ہے، حکومت نے ساحل کے ساتھ ساتھ درجنوں اسپاٹ بنا دیے ہیں۔ "سرفس پیرا ڈائز، بڑا ٹاؤن، آپ کو ٹاؤن میں سمندر کے کنارے فلیٹس کے آسمان بوس ٹاور نظر آتے ہیں، آسٹریلیا کے امراء غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کا نظارہ کرنے کے لیے یہ فلیٹس خریدتے ہیں، ٹاؤن میں گرمی تھی اور خواتین مرد اور بچے گرم ریت پر لیٹ کر گرمی کا مزا لوٹ رہے تھے۔

ریستوران، کافی شاپس اور پب بھی آباد تھے، ہم جس طرف سر اٹھاتے تھے ہمیں لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے، حکومت نے سیاحوں کی تفریح کے لیے جگہ جگہ گلوکار بٹھا رکھے تھے، یہ گلو کار ساز بجاتے تھے اور گانے گاتے تھے اور سیکڑوں لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو کر ڈانس کر رہے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا پورا شہر خوش ہے، سرفس پیراڈائز میں سکھ اور بھارتی زیادہ ہیں، یہ نوجوان ریستورانوں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں۔

حکومت یہاں کام کرنے والوں کو پاسپورٹ جلدی دے دیتی ہے چنانچہ نوجوان سرفس پیراڈائز کا رخ کرتے ہیں۔ "بائرن بے" ہماری اگلی منزل تھی، یہ گولڈ کوسٹ پر دوسرا بڑا اور مشہور مقام ہے، یہ شہر ہپیوں کی جنت کہلاتا ہے، آپ کو ساحلی علاقے میں سیکڑوں کی تعداد میں ہیپی نظر آتے ہیں، یہ لوگ تہذیب، قانون اور معاشرت کو تسلیم نہیں کرتے، یہ شراب پیتے ہیں، چرس کے مرغولے اڑاتے ہیں، ناچتے ہیں اور گاتے ہیں اور یوں زندگی کا سفر مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

ہم بائرن بے پہنچے تو زندگی کی خوبصورت ترین شام ہمارا انتظار کر رہی تھی، آسمان پر رین بو کی دو کمانیں تنی تھیں، ہیپی مسحور ہو کر رین بو دیکھ رہے تھے، میں بھی ان کی اس "عبادت" میں شریک ہو گیا، میں نے سیکڑوں رین بو دیکھیں لیکن دو اکٹھی رین بو میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا، میرے دائیں جانب رین بو تھیں اور بائیں جانب سورج ڈوب رہا تھا، وہ شام اف خدایا قیامت کی شام تھی، یوں محسوس ہوتا تھا لیونارڈو ڈاونچی اپنے برش رنگوں میں ڈبو رہا ہے اور مو قلم سے آہستہ آہستہ آسمان کے کینونس پر اپنی زندگی کی خوبصورت ترین شام پینٹ کرتا جا رہا ہے۔

سورج جوں جوں ڈوب رہا تھا توں توں آسمان کے تنے ہوئے خیمے کے کناروں پر آگ لگ رہی تھی، بادلوں کے پرے آگ بجھانے کے لیے آسمان کے کناروں کی طرف دوڑتے تھے اور سیاہ ہو کر افق کے کینوس پر بکھر جاتے تھے، میں مبہوت ہو گیا، وہ منظر منظر نہیں تھا وہ مقدس عبادت گاہ تھا، ایک ایسی عبادت گاہ جسے دیکھنے کے بعد آپ خود کو سجدے سے باز نہیں رکھ سکتے، آپ خود کو بارہ گاہ ایزدی میں جھکنے سے نہیں روک سکتے، میں ساحل کے آخری کونے پر رک گیا، میرے سامنے سمندر کا پانی جھاگ اڑا رہا تھا۔

سامنے سیاہ پڑتا آسمان تھا اور آسمان کے آنچل پر آگ لگی تھی، میں نے موبائل فون نکالا اور اس منظر کو اسکرین کے حافظے میں قید کر لیا، یہ منظر اب میرا منظر تھا، مجھے اس دن پہلی بار معلوم ہوا قدیم زمانوں کے لوگ سورج کو دیوتا کیوں بنا لیتے تھے، وہ یقینا ایسے منظر دیکھتے ہوں گے اور اس کے بعد افق کے سامنے جھک جاتے ہوں گے، میرے سامنے ہیپی سورج کے سامنے جھکے ہوئے تھے اور میں ٹکٹکی باندھ کر اللہ کی حمد و ثناء میں مصروف تھا۔

بے شک ہم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلائیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.