Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bukhara Ka Aadha Chand

Bukhara Ka Aadha Chand

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا ہوا تھا، ہوا میں خنکی تھی اور گلیوں میں سناٹا اور اندھیرا اور ہم تین اجنبی اس اندھیرے، اس سناٹے میں تاریخ کے نقش ٹٹول رہے تھے۔

بخارا کی وہ رات ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی، اس زمین، اس کائنات میں کوئی شخص، کوئی کامیابی اور کوئی کامرانی دائمی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز بے ثبات، فانی اور عارضی ہے۔

دنیا میں اگر کسی چیز کو ثبات اور دائم حاصل ہوتا تو وہ ماضی کا بخارا ہوتا اور اس بخارے کی چھوٹی اینٹوں کی گلیوں میں امام بخاریؒ کے قدموں کی آہٹ ہوتی، بوعلی سینا کے لڑکھڑاتے قدم ہوتے یا پھر خوارزمی اور البیرونی کی سوچ میں ڈوبی ہوئی شکلیں ہوتیں یا پھر چنگیز کے دھاڑتے ہوئے لشکری ہوتے یا پھر امیر تیمور کی پھنکار ہوتی یا پھر انعم بیگ کا علم پرور دور ہوتا یا پھر بی بی خانم کی عقیدت ہوتی۔

یہ سب کچھ بخارا کے نیلے آسمان اور آدھے چاند کے ساتھ ٹھہر گیا ہوتا اور ہم تین اجنبی بخارا کی قدیم گلیوں میں گھومتے ہوئے تاریخ کے ان چمکتے دمکتے ادوار کی لو محسوس کر رہے ہوتے لیکن بخارا تو وہاں موجود تھا۔

مگر ماضی تبدیل ہوتے دنوں اور کروٹ لیتے کیلنڈروں میں کہیں گم ہو گیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے روشن چہرے بھی ساتھ لے گیا تھا اور پیچھے پرانی عمارتوں کے کھنڈروں، چھوٹی اینٹ کی گلیوں، اندھی دیواروں اور بخارا کے قدیم دنوں کی ادھوری کہانیوں کے سوا کچھ نہیں بچا تھا اور ہم تین اجنبی تاریخ کے اس عظیم عبرت سرائے میں رات 12 بجے آدھے چاند کی ہمراہی میں پرانے نقش کھوج رہے تھے۔

بخارا محض ایک شہر نہیں، یہ تاریخ کا عظیم نوحہ بھی ہے، یہ بے ثبات دنیا کی بے ثباتی کی دلیل بھی ہے اور ہم تین اجنبی اس وقت اس بے ثباتی کے گواہ تھے، ڈاکٹر رازق داد خان ہمیں تاشقند میں ملے، یہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، اٹک کے خان خاندان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، 1994ء میں تاشقند آئے اور پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تقسیم ہو گئے۔

یہ آدھا وقت پاکستان گزارتے ہیں اور آدھا تاشقند میں، یہ طبی آلات کا کاروبار بھی کرتے ہیں، ان کی بیگم ازبک ہیں، یہ ہمیں ڈھونڈتے ہوئے ہوٹل پہنچ گئے، ان سے ملاقات ہوئی اور دوستی ہو گئی، یہ 24 ستمبر کی صبح ہمیں بخارا کے لیے ائیرپورٹ چھوڑنے آئے اور ہمارے ساتھ ہی بخارا آ گئے۔

یوں ڈاکٹر رازق، قمر راٹھور اور میں، بخارا کے تین اجنبی پاکستانی بن گئے اور 25 ستمبر کی صبح جب بخارا سے سمر قند کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی روح بخارا کی گلیوں میں چھوڑ آئے، بخارا کبھی علم کا مکہ ہوتا تھا، اسلام نے آنکھ حجاز میں کھولی تھی لیکن اس کی علمی پرورش بخارا میں ہوئی تھی، یہ شہر ایشیا کا مرکز تھا، یہ شاہراہ ریشم پر تھا، ہندوستان، ایران اور افغانستان سے آنے والے تمام تجارتی قافلے بخارا سے ہو کر گزرتے تھے۔

مسافر ارض روم کا ہو، مزار شریف یا کابل کا یا پھر اس کی منزل شیراز، خراسان، کاشغر، خیوایا باکو ہو یا پھر اس نے ملتان، دہلی یا سورت جانا ہو وہ بخارا سے گزرے بغیر اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا تھا، بخارا اس کا جنکشن ہوتا تھا، اسلام حجاز سے نکلا تو بخارا اسلام کی درس گاہ بن گیا، مسلمانوں کے ہر حکمران نے اس شہر میں اپنے نام کا مدرسہ بنوایا اور اس مدرسے میں علم، ادب اور سائنس کی تعلیم شروع ہو گئی۔

ایک وقت تھا جب بخارا میں دو سو مدارس تھے، یہ مدارس اس دور کی یونیورسٹیاں تھے، آپ تصور کیجیے جس شہر میں دو سو یونیورسٹیاں ہوں اور ان یونیورسٹیوں میں اپنے دور کے عظیم لوگ تعلیم دیتے ہوں اس شہر کی علمی اور ادبی فضا کیا ہو گی، یہ شہر بغداد اور قاہرہ کا ہم پلہ تھا اور اس دور کے طالب علم بغداد، قاہرہ اور بخارا کے درمیان گردش کرتے تھے۔

شہر میں سیکڑوں کاروان سرائے اور خانقاہیں بھی تھیں، کاروان سرائوں میں تجارتی قافلے ٹھہرتے تھے جب کہ خانقاہوں میں درویش اور اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ۔ شہر میں عالی شان مساجد کا جال بچھا تھا، بخارا، سمر قند اور تاشقند کے لوگ آسمانی، نیوی بلیو اور ہلکا سبزرنگ پسند کرتے تھے چنانچہ ان کی عمارتوں پر ان تینوں رنگوں کے موزیک ہوتے تھے۔

یہ چکور اینٹیں بناتے تھے اور سمر قند اور بخارا کی تمام عمارتیں ان چکور اینٹوں سے سے بنی تھیں، امام بخاری ؒ بھی اسی قسم کی کسی عمارت میں علم بانٹتے تھے، یہ 194 ہجری (810ء) میں بخارا کے مضافات میں پیدا ہوئے، یہ 16 سال کی عمر میں مکہ تشریف لے گئے اور چالیس سال مکہ، مدینہ، طائف، جدہ، بصرہ اور کوفہ میں احادیث جمع کرتے رہے۔

انھوں نے احادیث کی پہلی تصدیق شدہ کتاب صحیح بخاری مرتب کی اور واپس بخارا آ گئے اور مدرسے میں طالب علموں کو تعلیم دینا شروع کر دی، یہ بخارا میں بہت مقبول تھے، امیر بخارا کو آپ کی مقبولیت پسند نہ آئی، اختلافات پیدا ہوئے اور ان کے نتیجے میں امام بخاریؒ سمر قند ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے، یہ سمر قند کے مضافات میں اپنے ننھیال کے گائوں خرتنگ میں تشریف لے آئے اور وفات کے بعد یہیں مدفون ہوئے، مجھے ان کے مزار پر حاضری اور دعا کی سعادت بھی نصیب ہوئی، امام بخاریؒ اس شہر کے عظیم اساتذہ میں سے ایک تھے اور یہ شہر کے عظیم مدارس میں سے ایک مدرسے کے استاد تھے۔

بخارا مدارس کا شہر تھا، یہ مدارس "بورڈنگ ہائوس" ہوتے تھے، پوری دنیا سے طالب علم آتے تھے اورپانچ چھ برس تک ان مدارس میں رہتے تھے، بخارا کے مدارس دو منزلہ تھے، یہ چکور عمارتیں تھیں جن کے درمیان میں طویل صحن ہوتا تھا، کمرے صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے تھے، صحن میں انگور کی بیلیں، سیب، چیری اور شہتوت کے درخت ہوتے تھے۔

طالب علم ان درختوں کی گھنی چھائوں میں پڑھتے تھے اور کمروں میں رہتے تھے، کمرے ہوا دار اور روشن تھے اور انھیں سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کا خصوصی بندوبست تھا، کمرے دو منزلہ بھی تھے، طالب علم بالائی منزل سونے کے لیے استعمال کرتے تھے اور نچلی منزل ان کی اسٹڈی ہوتی تھی، ایک کمرے میں دو طالب علم رہتے تھے، ہر مدرسے کی اپنی مسجد تھی، حکومت طالب علموں کو وظائف بھی دیتی تھی، ازبک حکومت نے چند مدارس کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے۔

ہم لوگ بھی اسی نوعیت کے ایک مدرسہ ہوٹل میں رہے، اس مدرسہ ہوٹل کی دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں سے ماضی کی خوشبو آتی تھی، چھت پر لکڑی کا برآمدہ تھا اور اس برآمدے میں صبح کے وقت ناشتہ کرنا شاندار روحانی تجربہ تھا، ماضی کے حکمران اور حکمران خاندان اپنی حیثیت کے مطابق بخارا میں مدارس قائم کر دیتے تھے، یہ مدارس ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے نعمت ثابت ہوتے تھے، یہ لوگ انتقال کے بعد دفن بھی انھیں مساجد اور مدارس میں ہوتے تھے چنانچہ مدارس اور مساجد میں بے شمار بے نام قبریں ہیں۔

بخارا کے کورڈ بازار بھی رومانوی ہیں، ماضی میں دنیا جہاں سے تجارتی قافلے بخارا آتے تھے اور اپنی مصنوعات سے ان بازاروں کو بھر دیتے تھے، یہ بازار آج دو اڑھائی ہزار سال بعد بھی قائم ہیں، بخارا کے حمام بھی موجود ہیں اور ان حماموں کے کنوئوں کا ٹھنڈا پانی بھی، میں بخارا میں ازبک حکومت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔

ازبک حکومت نے قدیم بخارا کو نہ صرف دوبارہ زندہ کر دیا ہے بلکہ یہ پرانی عمارتوں کی " ٹیک کیئر" بھی کر رہی ہے چنانچہ یہاں روزانہ سیکڑوں ہزاروں سیاح آتے ہیں اور امام بخاری اور بو علی سینا کے شہر کی زیارت کرتے ہیں، بخارا کے لوگ بھی عاجز اور مہمان نواز ہیں، یہ سیاحوں بالخصوص مسلمان سیاحوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔

بخارا کا ذکر دو عمارتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، ایک مینار ہے اور دوسری زیارت گاہ، بخارا کا مینار عظیم بھی ہے، پرشکوہ بھی اور شاندار بھی، یہ عظیم مساجد اور مدارس کے عین درمیان ایستادہ ہے، اس مینار کی عظمت کے لیے صرف ایک واقعہ کافی ہو گا، چنگیز خان نے 1220ء میں بخارا فتح کیا، فتح کے بعد اس نے پورا شہر گرا دیا۔

شہر کی آدھی آبادی قتل کروا دی لیکن یہ جب بخارا کے مینار کے پاس پہنچا تو اس کا شکوہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا آج پورا بخارا میرے قدموں میں گرا ہوا ہے لیکن میں اس مینار کے قدموں میں ہوں لہٰذا عظیم چنگیز خان اس مینار کی عظمت کے سامنے جھک رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی چنگیز خان مینار کے سامنے جھک گیا۔

مینار کی عظمت آج بھی قائم ہے، بخارا کی سب سے بڑی زیارت گاہ حضرت بہائوالدین نقش بندؒ کا مزار ہے، آپؒ کامل ولی تھے، بخارا کے لوگ اور نقش بندی آپؒ کے مزار کی زیارت کو چھوٹا حج کہتے ہیں، مزار کے ساتھ پانی کا حوض ہے جسے یہ لوگ متبرک پانی سمجھتے ہیں، مزار پر سیاہ رنگ کا پتھر لگا ہے، یہ لوگ اس پتھر کو سنگ مراد کہتے ہیں، ان کا خیال ہے اس پتھر کو چھو کر دعا کرنے سے مراد پوری ہو جاتی ہے، مزار کے احاطے سے باہر پانچ چھ سو سال پرانے درخت کا تنا پڑا ہے۔

نقش بندی لوگوں کا عقیدہ ہے آپ اگر تین بار اس تنے کے نیچے سے گزر جائیں تو آپ کی مراد پوری ہو جاتی ہے، زائرین نے درخت پر ہاتھ پھیر پھیر کر اسے سنگ مر مر کی طرح ملائم کر دیا ہے، زیارت گاہ پر زائرین کا رش ہوتا ہے، ہمیں بھی مزار پر حاضر ہونے اور دعا کی سعادت نصیب ہوئی لیکن بخارا کا آدھا چاند اور رات کے سناٹے کا کوئی بدل نہیں تھا، ہم آدھی رات کو گلیوں میں گھوم رہے تھے، خنک ہوا شمال سے جنوب کی طرف چل رہی تھی اور اس میں خنکی کے ساتھ ساتھ گئے دنوں کی خوشبو بھی تھی۔

ان گئے دنوں کی خوشبو جب بو علی سینا، البیرونی، الخوارزمی اور امام بخاری اس شہر کی گلیوں میں علم بانٹتے تھے اور علم کے پیاسے دیوانہ وار اس شہر کی طرف دوڑتے تھے اور جب تاریخ بخارا سے شروع ہوتی اور بخارا پر آ کر مکمل ہوتی تھی اور جب علم اور ثقافت بخارا پہنچ کر رک جاتی تھی اور جب تجاری قافلوں کے جانور بھی اس شہر میں آ کر اپنی جنگلی خو بھول جاتے تھے اور وہ بھی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ چلنے لگتے تھے اور جب علم و ادب کا سورج اس شہر کی گلیوں سے طلوع ہوتا تھا اور یورپ کی سرحدوں پر پہنچ کر ڈوب جاتا تھا اور جب علم اور وقت کا دوسرا نام بخارا ہوتا تھا اور یہ سارے گئے دن اور ان تمام گئے دنوں کی یہ ساری خوشبوئیں اس وقت بخارا کی ہوائوں میں تھیں اور ہم تین اجنبی اور بخارا کا آدھا چاند ان خوشبوئوں میں بہہ رہے تھے، تاریخ کی ندی میں لمحہ موجود کے بے آسرا تنکے کی طرح۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.