گاؤں کا نام تھا غزالہ، یہ گاؤں طوس کے قریب واقع تھا اور طوس ایران میں تھا، یہ علاقہ اس وقت سلجوق ریاست کا حصہ تھا، غزالہ میں 1058ء میں ایک بچہ پیدا ہوا، والدین نے ابو حامد نام رکھ دیا، یہ بچہ علم کا متوالہ تھا، اس نے غزالہ میں کیسے تعلیم حاصل کی؟ یہ بھی ایک کہانی ہے۔
میں یہ کہانی آپ کو کسی اور وقت سناؤں گا، بچے نے علم حاصل کیا، علاقے میں معروف ہوا، سلجوق سلطان کے وزیر نظام الملک تک پہنچا، وزیر نے سلطان سے ملاقات کرائی، سلطان علم سے متاثر ہوا اور اسے مدرسہ نظامیہ بغداد کا سربراہ لگا دیا، مدرسہ نظامیہ اس وقت عالم اسلام کی آکسفورڈ تھا، وہ اسلامی آکسفورڈ کا سربراہ بن گیا، وہ 1091ء سے 1095ء تک چار سال مدرسہ نظامیہ کا سربراہ رہا، یہ اس کا علمی، تحقیقی اور دنیاوی لحاظ سے ایکٹو دور تھا، اس نے اس دور میں دنیا کو دو بڑے فلسفے دیے، پہلا فلسفہ علم سے متعلق تھا" علم دو قسم کے ہوتے ہیں۔
دینی اور دنیاوی وہ علوم کی اس تقسیم کا بانی تھا، اس سے قبل دینی اور دنیاوی علم ایک سمجھے جاتے تھے اور یہ دونوں علوم ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے، یہ فلسفہ شروع میں مسترد کر دیا گیا لیکن دنیا آہستہ ہستہ یہ حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئی یہاں تک کہ آج دنیا کے 245 ممالک میں دنیاوی اور دینی علوم الگ الگ پڑھائے جا رہے ہیں، دوسرا فلسفہ بجٹ تھا، غزالہ کے اس 33 سالہ جوان نے دنیا میں پہلی بار بجٹ کا تصور دیا، اس کا کہنا تھا، ریاست ہو یا خاندان یہ اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں رکھے گا تو یہ تباہ ہو جائے گا۔
اس نے دنیا میں پہلی بار بجٹ کی مختلف مدیں بھی طے کیں، اس کا کہنا تھا، ریاست آمدنی کا تخمینہ لگائے، اس آمدنی کا ایک حصہ فوج پر خرچ کرے، ایک حصہ ترقیاتی کاموں مثلاً پانی کے کنوؤں، سڑکوں، درختوں کی افزائش، شہروں میں روشنی، فصیلوں کی تعمیر، نہروں، بندوں اور آبپاشی جیسے کاموں پر خرچ کرے، تیسری مد فلاح علامہ تھی، ریاست آمدنی کے ایک حصے سے مویشی پالے، شفاخانے بنائے، مدارس قائم کرے اور غرباء، مساکین اور مسافروں کو امداد دے اور چوتھا اور آخری حصہ بادشاہ، وزراء، مشیروں اور عمائدین ریاست پر خرچ کیا جائے۔
اس نے عام آدمی کو گھریلو بجٹ بنانے کی ترغیب بھی دی، اس فلسفے کو بھی پہلے فلسفے کی طرح شروع میں زیادہ قبولیت نہ ملی مگر دنیا آہستہ آہستہ اس کی اس فراست کو بھی ماننے پر مجبور ہو گئی، آج دنیا کے 245 ممالک میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں بجٹ نہ بنایا جاتا ہو اور وہ ملک اپنے پاؤں اپنی چادر کے اندر رکھنے کی کوشش نہ کرتا ہو، وہ 1095ء میں روحانی خلفشار کا شکار ہوا، شاندار نوکری چھوڑی، اپنے من کی تلاش میں نکلا، دنیا میں بھٹکا، صوفی ہوا اور باقی زندگی تصوف میں گزار دی، وہ کون تھا؟ دنیا اس شخص کو امام غزالی کہتی ہے۔
وہ 1111ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے، کل 53 سال عمر پائی، ان 53 برسوں میں 500 مضامین اور35 کتابیں لکھیں، کیمیائے سعادت تخلیق کا نقطہ کمال تھی، یہ آج بھی یورپ کے دانشوروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے، طوس میں دفن ہوئے، زمانے کی گرد نے قبر کو بے نشان کر دیا لیکن ایرانی حکومت نے 1995ء میں یہ قبر دریافت کر لی، قبر پر مزار بن چکا ہے اور میں ان شاء اللہ فاتحہ کے لیے اس عظیم فلسفی، اس عظیم انسان کی قبر پر بھی جاؤں گا، امام غزالی کے طوس شہر بھی پہنچوں گا۔
دنیا میں بجٹ کا تصور امام غزالی نے دیا لیکن آمدنی اور اخراجات میں توازن کا ایشو ہزاروں سال پرانا ہے، ملک میں بے شمار طبقے ہوتے ہیں، فوج ہے، سرکاری محکمے ہیں، بزنس مین ہیں اور مزدور ہیں، یہ سب ایک معاشرے کا حصہ ہیں، ریاست معاشرے کے کسی حصے کو دوسروں سے الگ نہیں کر سکتی، آپ اگر سیکیورٹی ریاست ہیں، آپ کی دشمنیاں ہیں تو پھر آپ کو مضبوط اور بڑی فوج رکھنا ہو گی، بڑی اور مضبوط فوج کے لیے سرمایہ چاہیے چنانچہ ریاست بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے لیے وقف کرے گی، آپ کو ملک چلانے کے لیے بیوروکریسی بھی چاہیے، ملک کی آبادی زیادہ ہے تو بیورو کریسی کا سائز بھی بڑھے گا، آپ ملک کے ہر کونے میں سرکاری دفتر کھولیں گے۔
اس دفتر میں ملازمین رکھیں گے، یہ ملازمین سرکار سے تنخواہ اور مراعات لیں گے، یہ رقم بھی خزانے سے جائے گی، عوام کو صاف پانی، بجلی، تعلیم اور صحت بھی چاہیے، عوام زیادہ ہوں گے تو یہ ضروریات بھی زیادہ ہوں گی چنانچہ آپ کو اسپتالوں، ڈاکٹروں، کالجوں، پاور اسٹیشنوں اور واٹر سپلائی کے لیے بھی رقم چاہیے، دنیا کے ہر ملک میں مزدوروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، ملک میں جاری ترقیاتی کام ان مزدوروں کی روزی روٹی ہوتے ہیں، ریاست اگر ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ نہیں رکھے گی۔
یہ سڑک، ریل، ڈیم، کھمبے اور میٹرو نہیں بنائے گی تو لاکھوں مزدور بھی بے روزگار ہوں گے اور تعمیرات سے منسلک 60 صنعتیں بھی بیٹھ جائیں گی، سیمنٹ فیکٹریاں، اسٹیل ملز، کرشنگ یونٹس، ٹرانسپورٹ کمپنیاں اور ٹائلز، اینٹ اور پتھر بنانے والے فارغ ہو جائیں گے، ملک کی ایک ایک انڈسٹری لاکھ لاکھ، دو، دو لاکھ لوگوں کو روزگار دیتی ہے، یہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، ترقیاتی کام کیا ہوتے ہیں، آپ تین مثالوں سے اندازہ لگائیے، فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک کمرے میں اضافہ 126 لوگوں کو روزگار دیتا ہے۔
سیمنٹ کی ایک اضافی بوری 24 لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہے اور پانچ مرلے کے ایک گھر کی تعمیر سے 85 گھرانوں کے چولہے جلتے ہیں چنانچہ ریاست اگر بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے رقم نہیں رکھے گی تو ایک سال میں بے روزگاری میں پچاس فیصد اضافہ ہو جائے گا، ملک کا ریونیو 15 فیصد کم ہو جائے گا اور ملک کا انفرااسٹرکچر پانچ سال پیچھے چلا جائے گا، ترقیاتی کاموں کی طرح تعلیم اور صحت بھی انتہائی ضروری ہیں، دنیا کا ہر ملک اپنے بجٹ میں صحت اور تعلیم کے لیے رقم رکھتا ہے۔
ہم بھی رکھتے ہیں مگر ہمارے بجٹ میں اس کی شرح بہت کم ہے، 2015ء کے بجٹ میں صحت کے لیے صرف18 ارب اورتعلیم کے لیے 71 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں 20 ارب روپے اعلیٰ تعلیم کے لیے رکھے گئے ہیں، وفاق کا کہنا ہے 18 ویں ترمیم کے بعد یہ دونوں شعبے صوبوں کے پاس ہیں، یہ بجٹ صرف وفاق کے لیے ہے لیکن اس جواز کے باوجود یہ رقم پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے انتہائی کم ہے مگر سوال یہ ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں۔
ملک کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں، ہم 20 کروڑ لوگ سال میں 35 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس اور 40 ارب ڈالر کی امپورٹس کرتے ہیں گویا ہم جتنا کماتے ہیں اس سے پانچ ارب ڈالر زیادہ کی خریداری کر لیتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم 20 کروڑ ہیں اور زیادہ آبادی کی ضروریات بھی زیادہ ہوتی ہیں، ہمارے مقابلے میں سنگا پور کی آبادی 55 لاکھ ہے لیکن یہ ہر سال 518 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے چنانچہ ہم آمدنی میں مار کھا رہے ہیں، ہمارے پاس آمدنی کا دوسرا ذریعہ ٹیکس ہیں لیکن 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف 10 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں باقی 19 کروڑ 90 لاکھ لوگ صرف مطالبات کرتے ہیں لہٰذا یہ 10 لاکھ لوگ کب اور کہاں تک 19 کروڑ لوگوں کا بوجھ اٹھائیں گے، دوسری وجہ، ہمارے دفاعی اخراجات زیادہ ہیں۔
ہم نے اس سال781 ارب روپے دفاع کے لیے مختص کیے ہیں، یہ ہمارے بجٹ کا تقریباً 18فیصد بنتا ہے، کیا ہم یہ خرچ بند کر سکتے ہیں؟ جی نہیں، ہم دشمن دار ملک ہیں، ہم فوج ختم کریں گے تو ہمارے دشمن ہمیں کھا جائیں گے چنانچہ ہم یہ خرچ کم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، تیسری وجہ، ہم مقروض ہیں، ہمارے تازہ ترین بجٹ میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
کیا ہم اس سے بچ سکتے ہیں؟ نہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم قسط نہیں دیں گے تو ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے اور یہ آج کے زمانے کی سب سے بڑی سزا ہے، اب سوال یہ ہے، ہم قرض کیوں لیتے ہیں؟ ہم ملک چلانے کے لیے قرضہ لیتے ہیں، ہمارے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہیں، ہماری ایکسپورٹس کم ہیں اور عوام ٹیکس نہیں دیتے چنانچہ قرضوں کے علاوہ کیا آپشن بچتا ہے؟ یہ تین بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم تعلیم اور صحت پر خرچ نہیں کر پارہے۔
ہم اگر تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھانا چاہتے ہیں تو پھرہمارے پاس چار آپشن ہیں، ہم دفاعی بجٹ کم کریں، یہ ہم نہیں کر سکتے، ہم قرضوں سے بچیں، یہ بھی سرے دست ممکن نہیں، ہم اپنی آمدنی بڑھائیں، اس کے لیے بجلی، سڑک، ماہرین اور ٹیکس ضروری ہیں اور ہم ان چاروں کے خلاف ہیں اور چوتھا اور آخری آپشن ہم اپنا ترقیاتی بجٹ صحت اور تعلیم پر خرچ کر دیں، یہ ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے ہم اگر سڑک نہیں بنائیں گے، ہم شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر نہیں بنائیں گے، ہم ڈیمز بھی تعمیر نہیں کریں گے اورہم موٹر ویز نہیں بنائیں گے تو طالب علم اسکول، کالج اور یونیورسٹی تک کیسے پہنچیں گے۔
مریض اور ڈاکٹر اسپتال تک کیسے آئیں گے؟ دوسرا ریاست اگر ترقیاتی کام نہیں کرتی تو ملک میں موجود وہ لاکھوں مزدور کہاں سے کھائیں گے جن کے روزگار کا واحد ذریعہ ہتھوڑا، کسی، پلاس اور گینتی ہے، ملک کی وہ 60 صنعتیں کیسے چلیں گی جن کا تعلق تعمیرات کے شعبے سے ہے اور ہم اگر اس بحران سے بھی نکل گئے تو آنے والے کل میں جب پاکستان کی آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے بیس لاکھ اعلیٰ دماغ باہر نکلیں گے تو یہ جاب کہاں کریں گے، یہ کہاں سے کمائیں گے کیونکہ ہم نے ملک میں ترقیاتی سرگرمیاں پانچ سال پہلے بند کر دی تھیں اور اس فیصلے کی وجہ سے ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کا جنازہ نکل چکا ہو گا۔
یورپ ہم سے تعلیم، صحت اور روزگار میں آگے ہے، کیوں؟ کیونکہ اس نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنا انفرااسٹرکچر مکمل کر لیا تھا، لندن میں انڈر گراؤنڈ(میٹرو) 1863ء میں بنی، پیرس میں 1900ء میں، امریکا(شکاگو) میں 1897ء، جاپان(ٹوکیو) میں 1927ء اور روس(ماسکو) میں 1935 میں میٹرو بنی، یہ ملک جہاں تک سڑک، ریل اور میٹرو پہنچانا چاہتے تھے، انھوں نے وہاں آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے پہنچا دی چنانچہ یہ انفرااسٹرکچر سے فارغ ہو کر اپنا زیادہ تر سرمایہ تعلیم اور صحت پر خرچ کر رہے ہیں جب کہ ہم نے آج 2015ء میں صرف دو شہروں میں میٹرو بنائی، ہماری موٹر وے بھی بمشکل پشاور سے لاہور پہنچتی ہے، ہمارے دیہات میں آج بھی سڑک نہیں اور ہم آج بھی بجلی کی کمی کا شکار ہیں۔
یہ کمی ہمارے بجٹ کا رہا سہا جوس بھی چوس جاتی ہے چنانچہ آپ اگر واقعی تعلیم اور صحت کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ دن رات کر کے پیٹ پر پتھر باندھ کر جلد سے جلد اپنا انفرااسٹرکچر مکمل کر لیں تا کہ آپ دس برس بعد یورپ کی طرح انفرااسٹرکچر پر صرف اڑھائی فیصد خرچ کریں اور تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا دس فیصد لگا سکیں لیکن ہم نے اگر آج ترقیاتی کاموں کی محالفت بند نہ کی، ہم نے اپنی سوچ نہ بدلی تو ہم اگلے دس سال بعد بھی وہیں ہوں گے جہاں ہم آج ہیں، ہم ایسا تورا بورا بن جائیں گے جس میں ملا عمر کے پاس وضو کے لیے پانی نہیں تھا لیکن وہ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے تھے۔
آپ آج فیصلہ کر لیں آپ دس سال بعد کہاں جانا چاہتے ہیں۔