دہشت گردی ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ ہے، یہ مسئلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا اور یہ اب ہمارے لائف کا حصہ بن چکا ہے۔
آپ کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو اس میں دس بیس پچاس ہلاکتوں کی خبر ضرور ملے گی، یہ لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے ہوں گے، فرقہ واریت میں جاں بحق ہوئے ہوں گے یا پھر بم دھماکے اور خودکش حملے کا رزق بن گئے ہوں گے، اگر کسی دن کوئی ایسی خبر نہ آئے تو قوم کو روڈ ایکسیڈنٹ، پاک افغان سرحد یا پھر کوئی خاندانی دشمنی دس بیس لوگوں کی نعشوں کا تحفہ دے جاتی ہے، ہم چالیس سال سے موت کی یہ خبریں پڑھ، سن اور دیکھ رہے ہیں، ان خبروں نے ہماری اجتماعی نفسیات تبدیل کر دی ہے، ہمارے اندر سے زندگی کی محبت اور موت کا افسوس نکل گیا ہے، ہم اب بم دھماکوں، خودکش حملوں، روڈ ایکسیڈنٹس، فرقہ وارانہ اور خاندانی دشمنیوں کی ہلاکتوں کو ڈرامے کی طرح دیکھتے ہیں، ہم نعشوں کے قریب سے گزر کر ولیمے کی دعوتوں میں چلے جاتے ہیں۔
وہاں پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتے ہیں اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں، زندگی سے محبت اور موت پر افسوس کی اس کمی نے ہمیں اندر سے اداس کر دیا ہے، ہم خوش ہونا، مطمئن ہونا اور اللہ کی نعمتوں سے لطف لینا بھول چکے ہیں، ہم سب کے چہروں سے تازگی اڑ چکی ہے، آنکھوں کی چمک ماند پڑ چکی ہے اور ہم میں آگے بڑھنے اور زندگی کو خوبصورت بنانے کا جذبہ بجھ گیا ہے، آپ اس ملک کے کسی شہری کے چہرے کو غور سے دیکھئے، آپ کو اس پر ڈپریشن، بے زاری اور لاتعلقی کی درجنوں لکیریں ملیں گی، ہم سب گہری نحوست کے قبضے میں ہیں، مجھے اس نحوست پر اکثر مولانا روم کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے، مولانا روم کا دور دنیا کا بدترین عہد تھا، تاتاریوں نے پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور منگولیا سے لے کر بغداد تک دنیا راکھ، خاک اورجلی ہوئی ہڈیوں کا ڈھیر بن گئی تھی۔
اس دور میں ایران کا ایک زمین دار مولانا روم کے پاس آیا اور ان کا دامن پکڑ کر رونے لگا، مولانا نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا ہمارا پورا علاقہ تباہ ہو گیا، مولانا نے پوچھا، کیا تمہارا خاندان بھی تباہ ہو گیا؟ اس نے سر اٹھا کر جواب دیا " نہیں میرے خاندان کے تمام لوگوں کی جانیں، باغ، فصلیں اور گھر محفوظ ہیں " مولانا نے پوچھا " پھر تم کیوں رو رہے ہو" اس نے جواب دیا " حضور یہ قتل و غارت گری میری خوشی کھا گئی ہے، میں خوش ہونا بھول گیا ہوں " یہ سن کر مولانا روم کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
پاکستان میں قتل و غارت کے اس کھیل سے صرف اشاریہ ایک فیصد لوگ براہ راست متاثر ہوئے لیکن یہ کھیل باقی ننانوے اشاریہ ننانوے فیصد عوام کی خوشی کھا گیا، مجھے یقین ہے صدر آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور راجہ پرویز اشرف بھی اب خوش نہیں ہوں گے کیونکہ اس ملک میں خوشی زخمی ہو چکی ہے اور اس زخم کی تکلیف ملک کے کسی شخص کو آرام سے سونے نہیں دے رہی، یہ لوگ اب اقتدار میں بھی خوش نہیں رہ سکتے چنانچہ ہم اگر اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں، ہم اگر اس کو آگے چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فوری طور پر قتل و غارت گری کا یہ کھیل ختم کرنا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں یہ ملک نہیں چل سکے گا، ہمیں ملک کو قتل و غارت گری سے نکالنے کیلیے چند فوری اور بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، ملک میں چار قسم کے قتل ہو رہے ہیں، دہشت گردی، خاندانی دشمنیاں، فرقہ واریت اور ٹریفک حادثے۔
ہمیں ان سب کا سد باب کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ ماننا پڑے گا پولیس اب اکیلی ملک میں امن قائم نہیں کر سکتی، پولیس کی تعداد کم بھی ہے، بھرتیاں بھی میرٹ پر نہیں ہوتیں، سیاسی مداخلت کی وجہ سے اس کی ایفی شینسی بھی ختم ہو چکی ہے اور اس کے منہ کو کرپشن کی چاٹ بھی لگ چکی ہے چنانچہ پولیس سے اب بڑی بڑی توقعات وابستہ کرنا غلط ہو گا لہٰذا حکومت کو فوری طور پر خفیہ اداروں، رینجرز اور عدلیہ کو پولیس سروس کا حصہ بنانا پڑے گا، حکومت دس سال کے لیے تمام خفیہ اداروں اور رینجرز کو پولیس سروس کا حصہ بنا دے، تینوں شعبوں کو ملا کر " لاء اینڈ آرڈر ڈویژن" بنائی جائے، پولیس قانونی کارروائی کرے، ایف آئی آر کاٹے، چالان کرے، رینجرز آپریشن کریں اور خفیہ ادارے تفتیش کریں، یہ ڈویژن چھ ماہ میں مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمے دار ہو، چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کے چیف جسٹس کو باقاعدہ اعتماد میں لیا جائے اور ان کی مدد سے اسپیشل کورٹس بنائی جائیں، پورے ملک میں اسلحہ پر پابندی لگا دی جائے، تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں۔
فوج کی مدد سے ملک بھر سے اسلحہ جمع کر لیا جائے اور اس کے بعد جس شخص سے بھی اسلحہ برآمد ہو اسے کم از کم دس سال کی سزا سنا دی جائے، اسلحہ رکھنا، فروخت کرنا اور خریدنا تینوں ناقابل ضمانت جرائم ہوں اور اس جرم میں کسی شخص کو استثنیٰ حاصل نہ ہو، ڈی سی اوز کو علاقے کی خاندانی دشمنیاں ختم کرانے کا ٹاسک دے دیا جائے، یہ پنچایت بنوائیں، خاندانی دشمنیاں ختم کروائیں اور علاقے کے معززین سے ضمانت لیں یہ لوگ آیندہ ایک دوسرے سے نہیں الجھیں گے اور اگر یہ لوگ لڑے یا کسی پر حملہ کیا تو ان کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کر لی جائے، ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے جائیں، ملک میں فرقہ واریت کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے، ملک میں تمام متنازعہ کتابوں کی اشاعت، درآمد اور خریدوفروخت پر پابندی لگا دی جائے، یوٹیوب پر موجود متنازعہ تقریریں ہٹا دی جائیں، متنازعہ گفتگو، تحریر اور تقریر پر پابندی لگا دی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کم از کم دس سال قید ہو اور ان کی جائیداد بھی ضبط کر لی جائے، متنازعہ گفتگو کا بہتان لگانے والے کو بھی یہی سزا دی جائے۔
ملک میں فوری طور پر مساجداورامام بارگاہوں کا ڈیٹا جمع کیا جائے، حکومت کی اجازت کے بغیر ملک میں کوئی عبادت گاہ نہ بن سکے، ملک کی تمام مساجد کے لیے امام حکومت کی اجازت سے تعینات کیے جائیں، لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگا دی جائے۔ جمعہ کا خطبہ آدھ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو، خطیبوں کے لیے باقاعدہ " ریڈ لائین" لگا دی جائے اور انھیں پابند کیا جائے وہ اس ریڈ لائین پر قدم نہیں رکھیں گے، ملک میں ہر قسم کے چندے، کھالیں جمع کرنے اور صدقات کی اپیل پر پابندی لگا دی جائے، تمام ادارے اپنے اکائونٹس کھلوائیں اور اگر کسی نے انھیں امداد دینی ہو تو وہ یہ رقم براہ راست ان کے اکائونٹ میں جمع کرائی جائے۔
مذہبی اداروں پر غیر ملکی امداد لینے پر پابندی لگا دی جائے، مدارس کے لیے کمپیوٹر، انگریزی اور سائنس کے مضامین لازمی قرا دے دیئے جائیں، سنی مدارس پچیس فیصد شیعہ طالب علموں کو داخلہ دینے کے پابند ہوں اور شیعہ مدارس پچیس فیصد سنی طالب علموں کو داخلہ دیں، علماء کرام کو ٹیکس میں چھوٹ دے دی جائے لیکن یہ ہرسال ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے پابند ہوں اور ملک کے تمام شہروں میں ہیلپ لائن لگا دی جائے اور عوام سے اپیل کی جائے ان کے محلے میں اگر کوئی مشکوک شخص موجود ہے یا یہ کوئی مشکوک سرگرمی دیکھ رہے ہیں تو یہ اس ہیلپ لائن پر فوری اطلاع دیں۔
آپ اب آئیے ٹریفک کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہریوں کی طرف، ملک میں ٹریفک کے قوانین پر فوری عمل شروع کرا دیا جائے، تمام ڈرائیور ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ اور انشورنس ونڈاسکرین کے ساتھ ڈسپلے کریں، گاڑی کے لیے انشورنس لازمی قرار دے دی جائے، انشورنس کمپنیوں کو گاڑیوں کی ماہانہ فٹنس کا ذمے دار ٹھہرایا جائے اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے اس کی گاڑی ایک مہینے کے لیے رینٹ اے کار کمپنیوں کے حوالے کر دی جائے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ٹریفک پولیس کے اکائونٹ میں جمع کرا دی جائے، ٹریفک پولیس کو خود مختار بنا دیا جائے، ٹریفک چالان سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی انھیں دے دی جائے، ٹریفک حادثے کا باعث بننے والے ڈرائیوروں کا لائسنس ہمیشہ کے لیے منسوخ کر دیا جائے، ٹریفک پولیس ہائی وے پر ہر بیس کلو میٹر بعد ایمرجنسی ڈسپنسری اور ہر پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر بیس بیڈز کا اسپتال بنائے، اسپتال میں آپریشن تھیٹر اور میٹرنٹی ہوم کی سہولت بھی موجود ہو، ان اسپتالوں کے اخراجات ٹول پلازوں کی آمدنی سے پورے کیے جائیں اور ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والے ہر ڈرائیور سے جرمانے کے ساتھ ساتھ ایک بوتل خون بھی وصول کیا جائے، یہ خون ٹریفک حادثوں کے شکار زخمیوں کو لگایا جائے۔
نوٹ: یہ تمام ماڈلر بھی دنیا کے مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں، کوئی ان پر عمل کرنا چاہے تو اس پر تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔