مدیحہ، کراچی کی اٹھارہ سالہ مدیحہ کے سر پر میڈیا کا ہاتھ نہیں، حکومت نے بھی اس کے قتل پر توجہ نہیں دی اور انٹرنیشنل کمیونٹی کی آنکھ بھی اس بے چاری کے لیے نم نہیں ہوئی چنانچہ اس کا نامراد خون کراچی کی زمین میں جذب ہو کر ماضی کا رزق بن گیا اور ہم نے اس مفلوک الحال بچی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیامگر مدیحہ کی ماں نے ہار نہیں مانی، یہ بدستور اس ملک کے سسٹم، اس ملک کی حکومت اور اس دم توڑتی ریاست سے انصاف مانگ رہی ہے، یہ جانتی ہے بے انصاف زمینوں پر صرف ان کے لیے عدل کاشت ہوتا ہے جن کے شجرہ نسب میں کسی بڑے کا نام درج ہو یا پھر چیف جسٹس اس کی موت کو بھی انسانی موت قرار دے دے یا پھر دنیا کے بڑے اسے ملالہ سمجھ لیں، مدیحہ کی ماں رخسانہ بی بی جانتے بوجھتے بے وقوف ہے، یہ غربت جیسی حقیقت سے سمجھوتہ نہیں کر رہی، یہ کراچی گلشن بونیر کی گلیوں میں دیوانہ وار انصاف انصاف کی دہائیاں دے رہی ہے، یہ سمجھ ہی نہیں رہی طاقت کی کوکھ سے جنم لینے والے سورجوں کی زمین پر بھوکے ننگوں کی جھولی میں تاسف کی راکھ کے علاوہ کچھ نہیں ڈالا جاتا اور اس کی انصاف مانگتی جھولی میں بھی بالآخر ایسی ہی نامراد راکھ ڈال دی جائے گی اور یہ باقی زندگی اس راکھ کو آنسوئوں سے سیج سیج کر گزارے گی۔ مدیحہ بے مراد لڑکی تھی، اس کا بے مراد لہو گلشن بونیر کی بے مراد زمین میں جذب ہو گیا اور یہ خون آج کے بعد کسی آستین میں نہیں بولے گا، یہ وقت کی اندھی سرنگ میں غائب ہو جائے گا اور اس کالم کے بعد اس نامراد لڑکی کو کوئی یاد نہیں کرے گا، اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس جنگل میں مدیحہ کے لیے کوئی آنکھ گیلی نہیں ہوگی، کوئی ہچکی حلق تک نہیں آئے گی اور کوئی ہاتھ تاسف کی میل نہیں جھاڑے گا، یہ اور اس کی کہانی اس ملک کے مقدر پر تنی ظلمت کی دبیز چادر میں گم ہو جائے گی لیکن مدیحہ کی آنکھ میں چمکتا ہوا آخری سوال، جی ہاں چمکتا، تڑپتا اور لو دیتا سوال ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ یہ ہر اس شخص کی آنکھ کا سوال ہے جو روزانہ اس ملک کی سڑکوں پر اندھی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اسے کفن تک ایدھی فائونڈیشن پہناتی ہے اور پولیس، حکومت اور عدالت کا فرض صرف ایک کاغذ پر اس کا نام درج کرنا اور اس کاغذ کو کاغذوں کے انبار میں دفن کر دینا رہ گیا ہے۔
مدیحہ کی کہانی کیونکہ آخری بار سنائی جا رہی ہے چنانچہ میں چاہتا ہوں آپ اسے آخری بار پورا سن لیں، ہو سکتا ہے صرف کہانی لکھنے، سننے اور پڑھنے سے اس کی آنکھ کا آخری سوال بجھ جائے، اس کا مردہ سینہ ٹھنڈا ہو جائے۔ مدیحہ کے لیے زندگی ہمیشہ حسرت کی لہلہاتی فصل تھی، اس کی غربت صرف غربت نہیں تھی، ایکسٹریم غربت تھی، یہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، والد بیمار تھا، اس نے زندگی کا زیادہ تر حصہ چارپائی پر گزار دیا چنانچہ گھر کی ساری ذمے داریاں اس کی ماں رخسانہ اور اس کے کندھوں پر آ گئیں، یہ دونوں ماں بیٹی پولیو ورکرز بن گئیں، یہ پولیو مہم کے دوران گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلاتی تھیں، دن بھر کی اس مشقت کے بعد مدیحہ اور اس کی ماں کو ڈھائی، ڈھائی سو روپے ملتے تھے اور یہ رقم ان کی کل کمائی تھی، مدیحہ کا پورا خاندان پولیو مہم سے وابستہ تھا، اس کی خالہ گلناز اور اس کی ممانی فہمیدہ کا ذریعہ آمدن بھی پولیو کے قطرے تھے، یہ بھی ڈھائی سو روپے میں گلی گلی، گھر گھر جا کر چھوٹے بچوں کو قطرے پلاتی تھیں اور شام کو ڈھائی سو روپے پلو میں باندھ کر گھر چلی جاتی تھیں۔ مدیحہ، اٹھارہ سال کی مدیحہ منگل کے دن اپنی ممانی فہمیدہ کے ساتھ ڈیوٹی کے لیے نکلی، یہ دونوں کراچی کے گلشن بونیر میں بچوں کو قطرے پلا رہی تھیں، یہ ایک مکان سے باہرنکلیں تو انھیں گلی میں روک لیا گیا، ان کے سروں پر پستول رکھے گئے اور انھیں آباد گلی میں درجنوں لوگوں کے سامنے گولی مار دی گئی، یہ دونوں گلی میں گریں، تڑپیں اور کھلی آنکھوں میں سلگتے، چیختے، لو دیتے سوال چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ مدیحہ کی ممانی فہمیدہ کے پانچ بچے ہیں، یہ ان پانچ بچوں کی واحد کفیل تھی، یہ بھی مدیحہ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی اور اس کے پانچ بچے اس بے مہر دنیا میں رہ گئے جس میں پولیو کے قطرے پلانا جرم ہو چکا ہے اور جس میں قاتل پولیو ورکرز کو بھی کھلے عام گولی مار دیتے ہیں۔ مدیحہ کیونکہ غریب اور بے بس لڑکی تھی چنانچہ ریاست شام تک اس کا نام تک بھول گئی، کاش آج وہ جونس سالک زندہ ہوتا جس نے1952 میں دنیا کو پولیو سے بچانے کے لیے ویکسین ایجاد کی، کاش آج وہ امریکی طبی سائنسدان البرٹ سبین بھی زندہ ہوتا جس نے 1957 میں اس ویکسین کو ٹیکے سے قطروں میں تبدیل کیا، کاش آج وہ تمام لوگ زندہ ہوتے جنہوں نے 1962ء میں فیصلہ کیا ہم پوری دنیا کو پولیو کے مرض سے پاک کریں گے، کاش آج وہ تمام لوگ موجود ہوتے جنہوں نے 1980ء میں دنیا کے 125 ممالک میں پولیو دیکھی تو انھوں نے اعلان کیا ہم دنیا کے 125 ممالک کو پولیو سے رہائی دیں گے اور انھوں نے یہ ویکسین مفت بنا کر دنیا کو فراہم کرنا شروع کر دی۔ کاش آج وہ لوگ بھی ہماری اپروچ میں ہوتے جنہوں نے 1988ء میں دیکھا دنیا میں تین لاکھ پچاس ہزار لوگ پولیو سے متاثر ہیں اور ہم نے باقی دنیا کو اس انجام سے بچانا ہے، کاش آج وہ لوگ ہماری دسترس میں ہوتے جنہوں نے 1988ء میں اپنی زندگیاں، مال اور آرام اس مرض کے خلاف جنگ میں جھونک دیا اور ان کی شبانہ روز کوششوں سے 2007ء میں دنیا میں پولیو کے صرف 1652 مریض رپورٹ ہوئے، کاش آج وہ بل گیٹس بھی ہماری دسترس میں ہوتا جس نے محسوس کیا پولیو صرف پاکستان، افغانستان اور نائیجریا میں بچ گیا ہے چنانچہ اس نے اپنی دولت کے دروازے ان تینوں ممالک پر کھول دئیے، اس نے ویکسین بنوائی اور تینوں ممالک کو مفت فراہم کرنا شروع کر دی اور کاش عالمی ادارہ صحت کے وہ لوگ بھی ہماری دسترس میں ہوتے جنہوں نے پاکستان کو پولیو فری بنانے کے لیے اپنا سارا فوکس ہم پر لگا دیاتھا۔ یہ لوگ آج ہماری دسترس میں ہوتے تو ہم ان پر مدیحہ کے قتل کا مقدمہ قائم کر دیتے کیونکہ ان لوگوں کو کس نے حق دیا تھایہ ہمیں پولیو سے بچائیں، یہ سب مدیحہ، فہمیدہ، کنیز، فرزانہ اور نسیم کے قاتل ہیں، یہ ان تمام پولیو ورکرز کی تکالیفوں کے ذمہ دار ہیں جو پورے ملک میں تین دن سے ان قاتلوں کا نشانہ بن رہی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ہمارے بچے جب تک پولیو کا شکار نہیں ہوں گے ہمارا اسلام اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا، جو آج بھی پولیو کی ویکسین کو غیر شرعی سمجھتے ہیں اور جن کا خیال ہے یہ مرد بچوں کو نامرد اور عیسائی بنانے کی یہودی سازش ہے، جو آج بھی ایس ایم ایس کرتے ہیں امریکا اور برطانیہ کے بچوں کو پولیو کی ویکسین کیوں نہیں پلائی جاتی اور جو آج بھی پولیو کی ویکسین پلانے والی ان خواتین کو گولی مار دیتے ہیں جنھیں زندگی کا دوزخ ڈھائی سو روپے میں گھر کی دہلیز پار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، جو آج بھی یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں پولیو جب بچوں کی ٹانگیں اور بازو چاٹ جاتی ہے تو یہ بچے اچھے مسلمان تو دور انسان بھی نہیں رہتے۔ کاش کوئی ان لوگوں کو سمجھائے آپ اگر بل گیٹس کی فراہم کردہ ویکسین سے مطمئن نہیں ہیں تو آپ کوئی اپنی روحانی، عرفانی یا وجدانی ویکسین بنا لیجیے، آپ پولیو کی کوئی دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اورشیعہ ویکسین بنائیے اور مدارس کے بچوں کے ذریعے یہ ویکسین چھوٹے بچوں تک پہنچائیے کیونکہ بچوں کو صحت مند رکھنا ہماری ذمے داری ہے اور ہم نے اگر یہ ذمے داری پوری نہ کی تو عالمی ادارہ صحت ہمیں پولیو رسک کنٹری قرار دے دے گا اور اس کے بعد ہم میں سے کوئی شخص ملک سے باہر جا سکے گا، ہماری کوئی پراڈکٹ ملک سے برآمد ہوسکے گی اور نہ ہی کوئی ہمارے ملک میں آئے گا۔ ہم اگر ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ہر اس مدیحہ کو قتل کر دینا چاہیے جو صرف ڈھائی سو روپے دیہاڑی پر ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہی ہے۔
کاش آج اس ملک میں انصاف زندہ ہوتا تو مدیحہ جیسی بچیاں ڈھائی سو روپے کے لیے گھروں سے نہ نکلتیں اور اگر نکلتیں تو کوئی سفاک شخص ان سے زندہ رہنے کا حق نہ چھینتا۔ آپ یقین کیجیے اس ملک میں مدیحہ نہیں مری آج اس ملک میں انصاف، حق اور احساس مر گیا ہے اور جس معاشرے کا احساس، حق اور انصاف مر جائے کیا ہم اس معاشرے کو زندہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہمیں اس معاشرے کو بھی ایدھی فائونڈیشن کا خیراتی کفن نہیں پہنا دینا چاہیے۔۔ !!