Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dharna Insaf

Dharna Insaf

فیض آباد بند تھا، سڑک پر ہوکا عالم تھا، ایک پولیس سارجنٹ چوک میں کھڑا تھا، ٹریفک زیادہ تھی، گاڑی پر گاڑی چڑھی ہوئی تھی، بمپر سے بمپر ٹکرا رہا تھا، میں نے سارجنٹ سے پوچھا " کوئی راستہ موجود ہے" اس نے آئی ایٹ کی طرف اشارہ کر دیا، میں اسلام آباد کی طرف سے آیا تھا اور اسلام آباد ہی جانا چاہتا تھا چنانچہ میں فوراً آئی ایٹ کی طرف مڑ گیا مگر میں جوں ہی آئی ایٹ کی طرف مڑا مجھے ٹریفک کا بہائو راولپنڈی کی طرف لے گیا، سکستھ روڈ پر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں، میں بھی ان میں پھنس گیا، پولیس اور ٹریفک پولیس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا، اہل تشیع نے کوئٹہ میں 90 لوگوں کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں دھرنے شروع کر دیے تھے، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی ان دھرنوں کا ہدف تھا، فیض آباد راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، یہ مقام سب سے پہلے بند ہوا اور دھرنے آہستہ آہستہ اب دوسرے انٹری پوائنٹس کی طرف بڑھ رہے تھے، میں اسلام آباد سے آیا تھا اور اسلام آباد ہی جانا چاہتا تھا لیکن مجھے ٹریفک، دھرنے اور بدنصیبی راولپنڈی کی طرف لے گئی، ہم سکستھ روڈ پر پون گھنٹہ پھنسے رہے، وہاں سے مری روڈ پر آئے تو ٹریفک کا بہائو مال روڈ کی طرف لے گیا، مال روڈ پر بھی ٹریفک جیم تھی، موٹروے کی طرف جانے والا راستہ بند ہو چکا تھا، ہم لوگ ائیر پورٹ کی طرف چل پڑے، ائیر پورٹ کے قریب پہنچے تو ائیر پورٹ کے سامنے بھی ٹائروں کو آگ لگی تھی اور سڑک پر پتھر رکھ کر راستہ بند کر دیا گیا تھا۔

پولیس وہاں بھی موجود نہیں تھی، سامنے سڑک پر بیس پچیس نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا کر کھڑے تھے، گاڑیاں ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے واپس مڑیں اور ہم وہاں سے راول روڈ پر آگئے، راول روڈ پر بھی ہزاروں گاڑیاں کھڑی تھیں، یہ آہستہ آہستہ سرکتی ہوئی مری روڈ پرآئیں، ہم مری روڈ سے دوبارہ فیض آباد پہنچے مگر فیض آباد تین اطراف سے بند تھی، وہاں سے ایک بار پھر سکستھ روڈ آئے اور سکستھ روڈ پر پھنس گئے، سکستھ روڈ کے آخر میں ٹرک کھڑے کر کے راستہ بند کر دیا گیا تھا، میرے آگے اور پیچھے ہزاروں گاڑیاں تھیں، گاڑیوں میں خواتین بھی تھیں، بچے بھی اور بزرگ بھی، مجھے روڈ پر راستے تلاش کرتے ہوئے تیسرا گھنٹہ شروع ہوچکا تھا، میرا شوگر لیول ڈائون ہو رہا تھا، پٹرول تیزی سے ختم ہو رہا تھا اور مثانہ پھٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔

میں بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہو چکا تھا، گاڑیاں ایک بار پھر مری روڈ کی طرف مڑنے لگیں، میں سڑک کے آخر تک پہنچا، آخر میں ٹرک کھڑے تھے اور ٹرکوں کے سامنے دس پندرہ نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر کھڑے تھے، میں دھرنے کے انچارج کے پاس گیا اور اس سے خواتین اور بچوں پر رحم کھانے کی درخواست کی، اس نے گھور کر میری طرف دیکھا اور نفرت سے بولا " کوئٹہ میں ہماری عورتیں اور بچے دو دن سے 86 لاشیں سڑک پر رکھ کر بیٹھی ہیں، کیا آپ کو ان بچوں اور عورتوں پر رحم آیا ہے؟ آپ کو کھلے آسمان تلے بیٹھی وہ عورتیں اور بچے دکھائی نہیں دے رہے اور گاڑیوں میں بیٹھے بچے اور عورتیں نظر آ رہی ہیں " میں بے بسی سے دائیں بائیں دیکھنے لگا، وہ بولا " آپ لوگ ایک دن اپنے بیٹے یا بھائی یا والد کی نعش سڑک پر رکھ کر بیٹھیں، میں اس کے بعد آپ سے پوچھوں گا آپ کو یہ گاڑیاں اور ان میں بیٹھے لوگ دکھائی دیتے ہیں " میں نے عرض کیا " لیکن کیرانی روڈ کے سانحے میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے، یہ تو بے گناہ ہیں " وہ بولا " بے گناہوں کے راستے رکیں گے تو انھیں ہم بے گناہوں کے مظالم نظر آئیں گے" میں چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گیا، ہجوم میں موجود ایک نوجوان کو مجھ پر رحم آ گیا، اس نے مجھے اشارہ کیا، ایک منٹ کے لیے ایک ٹرک ہٹایا اور مجھے راستہ دے دیا، میں تین گھنٹے بعد اسلام آباد میں داخل ہوا لیکن دھرنے ابھی باقی تھے، میں راستے میں چار دھرنوں پر رکا، لوگوں نے مجھ پر رحم کیا اور میں آدھ گھنٹے کی مزید خواری کے بعد دفتر پہنچ گیا۔

میں اکیلا اس صورتحال کا شکار نہیں تھا، منگل 19 فروری 2013ء کے دن ملک بھر میں 772 دھرنے ہوئے اور کراچی سے لے کر استور تک ساری سڑکیں بند رہیں، ملک میں پہلی بار ائیرپورٹس، ریلوے، بس سروس، ٹیکسی سروس موٹروے اور عام گاڑیاں بند ہوئیں اور لوگ گھروں، دفتروں، سڑکوں، ائیر پورٹس، ریلوے اسٹیشنز، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور اسپتالوں میں محصور ہو کر رہ گئے، ایمبولینسز سڑکوں پر رک گئیں، ڈاکٹر سڑکوں پر پھنس گئے اور مریض دہلیز پربیٹھ کر " میڈیکل ہیلپ" کا انتظار کرتے رہے، پورا ملک مفلوج تھا، آپ گاڑی سے اتر کر دھرنا دینے والوں کو دیکھتے تھے تو یہ ایک دو درجن لوگ ہوتے تھے اور آپ اس کے بعد پولیس کو تلاش کرتے تھے تو وہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھی اور آپ اپنے آپ سے پوچھتے تھے "اسٹیٹ کہاں ہے؟ " آپ کو کوئی جواب نہیں ملتا تھا اور یہ پانچ سال کی مسلسل جمہوریت کا آخری تحفہ تھا، یہ درست ہے کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر ظلم ہو رہا ہے، پچھلے چند سالوں میں ان کے ایک ہزار لوگ مارے گئے، 10 جنوری کو تین بم دھماکے ہوئے، سو لوگ مارے گئے، لواحقین تین دن تک نعشیں سڑک پر رکھ کر بیٹھے رہے لیکن حکومت کان لپیٹ کر سوئی رہی، اگر اس وقت علامہ طاہر القادری کے دھرنے کا دبائو نہ ہوتا تو شاید نعشیں مہینوں وہاں پڑی رہتیں۔

حکومت طاہر القادری کے خوف کی وجہ سے کوئٹہ گئی اور لوگ گورنر راج کے عوض نعشیں دفنانے پر تیار ہوئے، 16 فروری کو اس نوعیت کا ایک اور واقعہ ہوا، اس واقعے میں بھی سو لوگ مارے گئے اور ہزارہ کمیونٹی ایک بار پھر نعشیں سڑک پر رکھنے پر مجبور ہو گئی، ملک بھر کے شیعہ حضرات نے ان کا ساتھ دیا، پاکستان کے مختلف شہروں میں 772 دھرنے ہوئے اور پاکستان ایک دن کے لیے عملاً مفلوج ہو کر رہ گیا، اسٹیٹ منظر سے غائب ہو گئی اور ملک میں کوئی ادارہ، کوئی شخص صورتحال کو سنبھالنے، مظاہرین سے مذاکرات کرنے، سڑکیں کھلوانے اور ٹریفک میں پھنسے بے بس لوگوں کو نکالنے کے لیے آگے نہ آیا اور عام لوگ بے بسی کی تصویر بن کر آسمان کی طرف دیکھتے رہے، 19 فروری کو سڑکوں پر کھڑے لوگوں کو محسوس ہو رہا تھا حکومت نے پانچ برسوں میں انصاف کا ایک نیا نظام متعارف کروا دیا ہے، یہ دھرنا نظام ہے، ملک کا جو بھی شخص بجلی چاہتا ہے، گیس چاہتا ہے، پٹرول اور روزگار چاہتا ہے، جسے ڈاکٹر اور دوا چاہیے، جو اپنی تنخواہوں میں اضافہ کروانا چاہتا ہے، جو اسکول کا استاد بدلوانا چاہتا ہے، جسے ریلوے اور سرکاری بسیں پسند نہیں، جو ایس ایچ او، پٹواری اور سول جج تبدیل کرانا چاہتا ہے اور جسے عدالت اور سرکاری محکمے انصاف نہیں دے رہے وہ سڑک پر آئے، دو ڈنڈے اٹھائے، سڑک پر چند پتھر رکھے اور ریاست سے اپنا مطالبہ منوا لے، حد یہ ہے ٹرک اور آئل ٹینکرز کے مالکان ہائی ویز پر ٹرک کھڑے کرتے ہیں اور ریاست دو گھنٹے میں ان کے قدموں میں جھک جاتی ہے۔

سی این جی مالکان ہڑتال پر جاتے ہیں، پندرہ لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی ہو جاتی ہیں اور حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے، پاورپلانٹس کے مالکان اپنا مطالبہ منوانے کے لیے بجلی کی پیداوار کم کر دیتے ہیں اور وزارت خزانہ ان کا بل پے کر دیتی ہے اور آخر میں کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی بھی انصاف کے لیے نعشیں سڑکوں پر رکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس کے بعد وزیراعظم بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں، کابینہ کا اجلاس بھی ہو جاتا ہے، پارلیمنٹ میں شیعہ کلنگ پر بحث بھی ہو جاتی ہے اور سپریم کورٹ بھی سوموٹو نوٹس لے لیتی ہے، کیا ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے لیے یہ پیغام نہیں، آپ کو انصاف اس وقت تک نہیں ملے گا آپ جب تک اپنے کسی پیارے کی نعش سڑک پر نہیں رکھتے، آپ جب تک ڈنڈے لے کر سڑک پر نہیں آتے یا پھر دھرنا نہیں دیتے، ملک کی حالت یہ ہے آج سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی بات پارٹی قیادت تک پہنچانے کے لیے دھرنے اور میڈیا کے سامنے سینہ کوبی کرنے پر مجبور ہیں اور انھیں بھی ان کی پارٹی اس وقت تک ٹائم نہیں دیتی جب تک یہ کوئی بڑی سڑک بند نہیں کردیتے، کل فیصل آباد میں وکلاء نے عدالت کا فرنیچر توڑ دیا، ڈی سی او آفس برباد کر دیا اور ضلع چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اوراس کے بعد ریاستی مشینری ایکٹو ہو گئی، کیا ملک میں اب صرف دھرنے سے انصاف ملے گا اور اگر یہ انصاف کا واحد طریقہ رہ گیا تو پھر ہم عوام کہاں جائیں، کیا ہمیں بھی سڑک پر نکلنے کے حق کے لیے دھرنا دینا پڑے گا اور ڈنڈے اٹھانا پڑیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.