Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Do Log

Do Log

آپ دو منظر ملاحظہ کیجیے، وزیراعظم(سابق) یوسف رضا گیلانی 19 جنوری 2012ء کو پہلی بار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، وزیراعظم کی آمد سے قبل آئی بی، اسپیشل برانچ، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے اہلکار سپریم کورٹ پہنچے، انھوں نے گیٹ سے لے کر پارکنگ اور استقبالیہ سے لے کر کورٹ روم تک پوری عمارت کی تلاشی لی، عمارت کلیئرکی اور اس کے بعد وزیراعظم کو سپریم کورٹ جانے کا سگنل دیا، وزیراعظم کی آمد سے قبل شاہراہ دستور بند کر دی گئی، ٹریفک ریڈیو پاکستان، پارلیمنٹ ہائوس، بری امام اور کنونشن سینٹر چاروں مقامات پر روک دی گئی، سپریم کورٹ کی سیکیورٹی وزیراعظم ہائوس اور آئی بی کے اسپیشل ونگ نے اپنے ہاتھ میں لے لی، سپریم کورٹ میں صرف خصوصی کارڈ ہولڈرز کو داخلے کی اجازت مل رہی تھی، سینئر وکلاء کو بھی عدالت سے دور روک لیا گیا۔

وزیراعظم سپریم کورٹ آئے تو ان کی آمد سے قبل دو گورنر، تین وزراء اعلیٰ، 15 وفاقی وزراء، 40 ارکان پارلیمنٹ، اتحادی جماعتوں کے سربراہان جن میں چوہدری شجاعت حسین اور اسفند یار ولی بھی شامل تھے کورٹ روم پہنچ گئے، ملک بھر سے چیدہ چیدہ جیالے بھی سپریم کورٹ آ گئے، یہ لوگ عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے، وزیراعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے اور وزیراعظم کے صاحبزادے، دوست احباب اور اسٹاف بھی سڑک پر کھڑے تھے، وزیراعظم سپریم کورٹ پہنچے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کو نرغے میں لے لیا، ہر شخص ان سے ہاتھ ملانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا، سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے کیمرے لگے تھے اور تمام ٹیلی ویژن چینلز وزیراعظم کی آمد براہ راست دکھا رہے تھے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جیالوں کے نعروں "گیلانی تیرے جاں نثار ہزار" اور پھولوں کی برستی پتیوں میں ہاتھ ہلاتے ہوئے سپریم کورٹ کے اندر چلے گئے، یہ واپس باہر آئے تو لوگوں نے اسی جوش و خروش سے ان کا استقبال کیا، کابینہ کے ہر وزیر کی کوشش تھی وہ بڑھ چڑھ کر ٹی وی پر وزیراعظم گیلانی کے حق میں کلمہ گوئی کرے، وزیر مائیک چھین رہے تھے اور کیمروں کے طرف دیکھ کر وی کا نشان بنا رہے تھے، یوسف رضا گیلانی دوسری بار 13 فروری 2012ء کو سپریم کورٹ تشریف لائے تو اس دن بھی یہی منظر تھا، لوگ اسی طرح ان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، وفاقی کابینہ، قومی اسمبلی، سینیٹ اور تین اسمبلیوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور یہ ملک میں جمہوریت اور استحکام کا سمبل بن گئے۔

آپ اب دوسرا منظر ملاحظہ کیجیے، یہ یوسف رضا گیلانی دو فروری 2013ء کو نظر ثانی پٹیشن دائر کرنے کے لیے تیسری بار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے مگر اس بار یہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے اور ان کے ساتھ صرف دو لوگ تھے، ایم این اے نسیم چوہدری اور وفاقی نظامت تعلیمات کے سابق ڈائریکٹر جنرل عاطف کیانی۔ یوسف رضا گیلانی کے لیے کوئی ہوٹر بجا، کسی نے انھیں ایسکارٹ کیا، کسی نے انھیں سیکیورٹی دی، کسی نے ان کے لیے دروازہ کھولا، کسی نے ان کے حق میں نعرہ لگایا، کسی نے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے، کسی نے ٹریفک روکی، کسی چینل نے انھیں لائیو کوریج دی اور نہ ہی کسی نے عام لوگوں کو ان سے دور ہٹانے کی کوشش کی، یہ عام سائلوں کی طرح سپریم کورٹ پہنچے، پٹیشن دائر کی اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ سپریم کورٹ سے باہر آ گئے۔

اس دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کو اطلاع ہو گئی، یہ بھاگتے ہوئے سپریم کورٹ پہنچے اور گیلانی صاحب سے مخاطب ہوئے " گیلانی صاحب آپ نے بتایا ہی نہیں آپ سپریم کورٹ آ رہے ہیں " یوسف رضا گیلانی اس کمنٹ پر خاموش رہے لیکن دل ہی دل میں انھوں نے ضرور کہا ہو گا " میں نے تو پچھلی بار بھی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی لیکن لوگ بغیر اطلاع یہاں پہنچ گئے تھے" یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ سے واپس آ گئے لیکن سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر عبرت کی ایک نہ مٹنے والی تحریر چھوڑ آئے، یہ تحریر پوچھتی ہے کیا یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹنے کے بعد یوسف رضا گیلانی نہیں رہے؟ اگر یہ یوسف رضا گیلانی اصلی یوسف رضا گیلانی ہیں تو پھر وہ یوسف رضا گیلانی کون تھے جن کے ساتھ اقتدار کا پورا میلا چلتا تھا، جن کے لیے ٹریفک بھی بلاک ہوتی تھی، جن کے لیے نعرے بھی لگتے تھے اور لوگ جن کے لیے پھولوں کے ہار لے کر بھی دوڑتے تھے، اگر یہ دونوں یوسف رضا گیلانی ایک ہی ہیں تو پھر اتنا فرق کیوں؟ سات ماہ اوربیس دن بعد اتنی تبدیلی کیوں؟

اگر یہ فرق، یہ تبدیلی اس اقتدار کا حصہ ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں کی گردنیں اتنی جلدی کیوں تن جاتی ہیں؟ یہ اقتدار پانے کے بعد خود کو لوہے کا کیوں محسوس کرنے لگتے ہیں؟ یہ خود کو زوال کی ہوائوں سے محفوظ کیوں سمجھنے لگتے ہیں؟ یہ اقتدار کی برف کو دائمی کیوں جان لیتے ہیں اور یہ کیوں سمجھتے ہیں لوگ اقتدار کا سورج رخصت ہونے کے بعد بھی انھیں یاد رکھیں گے؟ یہ کیوں نہیں جان لیتے چڑھتے سورجوں کی زمین پر روشنی غروب ہوتی ہے تو سائے بھی غائب ہو جاتے ہیں، اس زمین پر اقتدار خواہ فرعون ہی کا کیوں نہ ہو وقت اسے چاٹ جاتا ہے اور اس کی خدائی کے قصے صرف عبرت بن کر باقی رہتے ہیں۔

اللہ کی اس زمین پر صرف احسان زندہ رہتے ہیں، آپ نے اگر اپنی طاقت، دولت، اختیار اور اقتدار کو احسان میں بدل لیا، آپ نے اگر اسے عام، محروم اور دکھی انسانوں کی فلاح کا ذریعہ بنا لیا تو آپ کا نام دائمی ہو گیا اور لوگ آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ کو یاد رکھیں گے ورنہ آپ سورج کے ساتھ ہی ڈوب جائیں گے، اشوک اعظم کو دنیا سے رخصت ہوئے دو ہزار دو سو اکتالیس سال ہو گئے، سکندر اعظم کو گئے دو ہزار تین سو چھتیس سال ہو گئے، آپ دور نہ جائیے آپ شیر شاہ سوری کو دیکھ لیجیے، یہ 22مئی 1545ء میں انتقال کر گیا لیکن آج بھی برصغیر کا جو شخص جی ٹی روڈ پر قدم رکھتا ہے وہ شیر شاہ سوری کے نام کو ہونٹوں سے دور نہیں رکھ سکتا، ایوب خان کو رخصت ہوئے 39 سال ہو گئے لیکن یہ آج بھی ڈیم، بجلی، سڑک، کارخانے، ٹیلی ویژن اور گیس کی شکل میں زندہ ہے، لوگ آج بھی ایوب خان کے دور کو پاکستان کا سنہری ترین دور کہتے ہیں، ایوب خان کا آئین رخصت ہو گیا، اس کا بی ڈی سسٹم بھی ختم ہو گیا، اس کی بنائی ہوئی اسمبلیاں بھی چلی گئیں، اس کے تراشے ہوئے سیاسی بت بھی ٹوٹ گئے اور اس کی فیلڈ مارشلی بھی چلی گئی مگر اس کے عوامی منصوبے آج بھی زندہ ہیں، یہ آج فوج کی ہر بیرک، ڈیموں کے ہر سپل وے، بجلی کے ہر پرانے کھمبے، گیس کی ہر پائپ لائن اور ملک کے نئے پرانے انڈسٹریل زونز میں زندہ ہے اور یہ ملک جب تک سلامت رہے گا ایوب خان کا نام بھی قائم رہے گا۔

آئین بنتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، ان میں ترمیمیں بھی ہوتی ہیں، صوبوں کے اختیارات میں بھی اضافے اور کمیاں ہوتی رہتی ہیں، اٹھارہویں کے بعد انیسویں ترمیم آ جاتی ہے اور انیسویں کے بعد بیسویں، اکیسویں اور بائیسویں ترمیم آ جاتی ہے مگر لوگ انھیں اگلے ہی دن بھول جاتے ہیں لیکن عوام اپنے ہاتھ سے نکلے نوالے، اپنی کھوئی ہوئی نوکری، اپنی محرومی میں ہوتے اضافے اور اپنے گھروں پر اترتے اندھیروں کو نہیں بھولتے، یہ اندھے گھروں کو بینائی دینے، نسلوں کی پھلتی پھولتی محرومی، رزق کے نئے ذرایع اور اشیائے ضرورت کی فراہمی اور اس کی قیمتوں میں کمی کرنے والوں کو بھی نہیں بھولتے، لوگ وزیراعظموں اور صدور کو بھول جاتے ہیں لیکن یہ اس اے سی یا ڈی سی کو پوری زندگی یاد رکھتے ہیں جس نے ان کے گھر تک سڑک بچھائی تھی یا جس نے ان کے بچوں کے لیے اسکول بنایا تھا اور یوسف رضا گیلانی اس میں ناکام ہو گئے، انھوں نے بے شمار ترامیم کیں لیکن یہ عام انسان کی زندگی میں بہتری نہیں لا سکے، یہ انھیں کچھ نہ دے سکے چنانچہ یہ آج عبرت کی نشانی بن کر پھر رہے ہیں اور کوئی ان کے ساتھ سپریم کورٹ تک جانے کے لیے تیار نہیں۔

آج کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اگلی حکومت پاکستان مسلم لیگ ن کی ہو گی، یہ اچھی بات ہے لیکن میاں نواز شریف کو حکومت قبول کرنے سے قبل ایک بار یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالوں کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے اور یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے اگر میاں صاحب نے بھی گورننس کا یہ طریقہ رکھا تو قوم نے صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو تو چار ساڑھے چار سال دے دیے تھے، یہ میاں صاحب کو چھ مہینے برداشت نہیں کرے گی اور اگر قوم نے میاں صاحب کو اپنی نظروں سے گرا دیا تو شاید ان کے ساتھ اس بار دو لوگ بھی نہ ہوں اور یہ عبرت کی یوسف رضا گیلانی سے بڑی تصویر بن جائیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.