Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Doctron Ki Shakal Mai Ye Khooni Darinday

Doctron Ki Shakal Mai Ye Khooni Darinday

آپ سب سے پہلے ڈسکہ کا واقعہ ملاحظہ کیجیے، کامران افضل 25 سال کا خوبصورت جوان تھا، آپ کے جوان بھائی، صاحبزادے یا کزن کی طرح جوان، یہ بھی آپ اور میرے بچوں کی طرح زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر پھر عین جوانی میں اس کی زندگی کی ڈور کٹ گئی، اس کو اپینڈکس کا درد ہوا، اس کا بھائی اسے مقامی اسپتال لے گیا، ڈسکہ کے اس اسپتال کا نام شاہد ہاسپٹل تھا، ڈاکٹر شاہد فاروق اس اسپتال کے مالک تھے، ڈاکٹر شاہد نے مریض کا معائنہ کیا اور فوری آپریشن کا حکم جاری کر دیا، نوجوان کامران افضل کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا، آپریشن شروع ہوا تو طویل ہوتا چلا گیا، کامران افضل کا بھائی عام شہری، عام انسان تھا لیکن وہ جانتا تھا اپینڈکس کا آپریشن ایک آدھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے لیکن اس کے بھائی کا آپریشن طویل سے طویل ہوتا جا رہا تھا، بہر حال قصہ مختصر خدا خدا کر کے آپریشن مکمل ہوا، ڈاکٹر شاہد فاروق آپریشن تھیٹر سے نکلا اور مریض کو ڈس چارج کر کے گھر بھجوا دیا، کامران افضل گھر پہنچ کر تڑپنے لگا، اس کے پیٹ میں شدید درد تھا، کامران کے گھر والے اسے لے کر دوبارہ اسپتال پہنچ گئے، ڈاکٹر نے دوبارہ آپریشن کیا اور مریض کو ایک بار پھر ڈسچارج کر دیا گیا مگر اس کی حالت نہ سنبھلی، کامران افضل کے گھر والے اسے فوری طور پر شیخ زید بن سلطان اسپتال لاہور لے گئے۔

وہاں ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر کامران افضل جان کی بازی ہار گیا، مرحوم کے بھائی کو کسی نے بتایا پنجاب حکومت نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے، یہ ادارہ ڈاکٹروں کی زیادتی اور نااہلی کا ازالہ کرتا ہے، مرحوم کے بھائی نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں درخواست دے دی، کمیشن نے تحقیقات شروع کیں تو حیران کن انکشافات سامنے آئے، پتہ چلا ڈاکٹر شاہد فاروق سمبڑیال کے تحصیل اسپتال کا سرجن ہے، اس نے ڈسکہ میں پرائیویٹ اسپتال بنا رکھا ہے لیکن اس اسپتال میں آپریشن کی بنیادی سہولتیں تک موجود نہیں، اس کا اسسٹنٹ شبیر حسین ٹیوب ویل آپریٹر ہے اور یہ ٹیوب ویل آپریٹر نہ صرف مریض کو بے ہوشی کا ٹیکہ لگاتا ہے بلکہ آپریشن کے دوران ڈاکٹر کی معاونت بھی کرتا ہے، میڈیکل بورڈ بیٹھا، اس نے کامران افضل کے کیس کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا، ڈاکٹر نے آپریشن کے دوران مریض کے جسم میں ڈرین نہیں لگائی تھی جس کی وجہ سے گندہ خون جسم سے باہر نہیں نکل سکا اور یہ پیٹ میں پیپ کا باعث بن گیا۔

یہ انکشاف بھی ہوا ڈاکٹر نے آپریشن کے دوران بڑی آنت اور چھوٹی آنت کے درمیان موجود والو بھی کاٹ دیا تھا، قدرت نے ہمارے جسم میں بڑے دلچسپ سسٹم بنا رکھے ہیں، ہمارے جسم کا فضلہ جب چھوٹی آنت سے بڑی آنت میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک والو لگا رکھا ہے، یہ والو بڑی آنت کے فضلے کو واپس نہیں جانے دیتا چنانچہ ہمارے جسم کی گندگی اس والو کی وجہ سے آگے سے آگے چلتی ہے اور یوں جسم سے خارج ہو جاتی ہے مگر ڈاکٹر شاہد فاروق نے مظلوم کامران افضل کی آنت کا یہ والو کاٹ دیا اور اس ظلم کی وجہ سے کامران افضل کا فضلہ واپس پیٹ میں جانے لگا اور یہ انفیکشن کا باعث بن گیا اور کامران اس انفیکشن کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گیا، کمیشن کی رپورٹ آئی، شاہد اسپتال بند کر دیا گیا، پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا اورڈاکٹر شاہد فاروق کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

آپ اب ملتان کے محلے نواب پورہ کی مظلوم خاتون آمنہ بی بی کا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے، آمنہ بی بی کی عمر 22 سال ہے، یہ حاملہ تھی، اس کا خاوند محمد سجاد اسے معائنے کے لیے مدثر سرجیکل سینٹر لے گیا، چیک اپ کے دوران ڈاکٹر تنویر احمد، ڈاکٹر اللہ داد اور ڈاکٹر ناہیدہ صادق نے محمد سجاد کو بتایا آپ کی بیوی کا فوری آپریشن کرنا ہوگا، اگر دیر ہوگئی تو زچہ و بچہ دونوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی، محمد سجاد نے وہی فیصلہ کیا جو اس مرحلے میں ہر خاوند کرتا ہے، اس نے آپریشن کی اجازت دے دی، آپریشن شروع ہوا تو ظلم کی انتہا ہو گئی، آمنہ بی بی کے جسم کو قصائی کی طرح کاٹ دیا گیا، خون بہا اور اس کے دونوں گردے جواب دے گئے، مریضہ کو فوری طور پر نشتر اسپتال پہنچا دیا گیا وہاں اسے ڈیالسیس پر شفٹ کر دیا گیا، محمد سجاد نے بھی مدثر سرجیکل سینٹرکے خلاف شکایت کر دی، میڈیکل کمیشن بنا تو ہوش ربا انکشافات ہوئے، پتہ چلا اسپتال کی مالکہ ناہید صادق ایل ایچ وی ہے، یہ سرے سے ڈاکٹر نہیں، اسپتال کا مرکزی ڈاکٹر تنویر احمد کبھی میڈیکل کالج نہیں گیا، یہ سو فیصد جعلی ڈاکٹر ہے اور پیچھے رہ گیا ڈاکٹر اللہ داد تو یہ اسپتال کا ہیلپر ہے، یہ بھی ڈاکٹر نہیں، انکوائری شروع ہوئی، کیس فائنل ہونے لگا تو ڈاکٹر ناہید صادق (جعلی) نے ایک اصل ڈاکٹر محترم ڈاکٹر الیاس کا سرٹیفکیٹ پیش کر دیا، ڈاکٹر الیاس نے لکھ کر دے دیا " یہ آپریشن میں نے کیا تھا اور میں ایک کوالی فائیڈ سرجن ہوں " کیس ٹرن لے گیا مگر مزید تفتیش کے دوران یہ سر ٹیفکیٹ غلط ثابت ہوگیا، پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے مدثر سرجیکل سینٹرکے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو شاہد اسپتال کے ساتھ کیا تھا۔

یہ صرف دو مثالیں ہیں جب کہ اس وقت ملک میں ایسی ہزاروں لاکھوں شکایات موجود ہیں جن میں ڈاکٹروں نے مریضوں کے ساتھ قصائی یا سفاک قاتل سے زیادہ خوفناک سلوک کیا، استاد، ڈاکٹر اور لکھاری معاشرے کا ضمیر بھی ہوتے ہیں اور محسن بھی، جب یہ لوگ قاتل ہو جائیں، جب یہ ظلم پر اتر آئیں تو اس کے بعد معاشرے کے پاس کچھ نہیں بچتا اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ ان تینوں کے ڈسے ہوئے ہیں، آپ لکھاریوں کو دیکھ لیں، یہ قوم کا ذہنی افق وسیع کرنے کے بجائے انھیں تنگ نظر بنا رہے ہیں، آج ہمارے ملک میں ہر وہ تحریر بک رہی ہے جو انسان کو انسان کے خلاف نفرت کا درس دیتی ہے، استاد کا کام انسان کو علم سے سرفراز کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے استاد، ہمارے تعلیمی ادارے بدقسمتی سے جہالت کا مرکز بن چکے ہیں اور پیچھے رہ گئے ڈاکٹر۔ ڈاکٹروں کو مسیحا کہا جاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ موت کی دہلیز پر بیٹھے مریضوں کے جسم میں دوبارہ زندگی پھونک دیتے ہیں مگر افسوس ہمارے ملک میں جعلی ڈاکٹر مریضوں کی رگوں سے رہی سہی زندگی بھی کھینچ لیتے ہیں، ہمارے ملک میں سفید کوٹ پہن کر ہزاروں درندے پھر رہے ہیں اور جو غریب، جو مظلوم ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے یہ اسے کاٹ کر رکھ دیتے ہیں، ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اس ظلم میں دو اور طبقے بھی شامل ہیں، حکومت جس نے طبی سہولتوں پر توجہ نہیں دی چنانچہ صحت حکومت کے ہاتھ سے نکل کر تاجر پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔

ملک کے ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گائوں میں پرائیویٹ کلینکس اور پرائیویٹ اسپتال قائم ہیں اور یہ اسپتال غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں، حکومت نے پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں کو ریگولائز کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی شخص اسپتال بنا لے اور یہ خواہ فرش صاف کرنے والوں کو سفید کوٹ پہنا کر مریضوں کے سامنے بٹھا دے، کوئی شخص، کوئی ادارہ اس سے نہیں پوچھتا۔ دوسرے مجرم عوام ہیں، یہ قریب ترین کلینک اور ہمسایہ اسپتال کو جینوئن سمجھ لیتے ہیں اور اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو ان جعلی ڈاکٹروں اور جعلی اسپتالوں کی قربان گاہ پر چڑھا دیتے ہیں، ہم ٹماٹر اور پیاز چھان پھٹک کر خریدیں گے مگر سٹیتھو اسکوپ پکڑ کر آنے والے ہر شخص کو ڈاکٹر مان لیں گے اور وہ خواہ ہماری آنکھیں نکال دے یا گردہ کاٹ دے ہم اسے اللہ کی رضا کے کھاتے میں ڈال کر گھر بیٹھ جائیں گے، ہمارے محلوں، ہمارے علاقوں میں کوئی بھی شخص، کسی بھی وقت کوئی کلینک یا اسپتال بنا لے، ہم اس کے بارے میں تحقیق نہیں کریں گے چنانچہ ہمارے محلوں، ہماری گلیوں میں علاج کے نام پر روزانہ قتل ہو رہے ہیں اور ہم اللہ کی "مرضی" پر خاموش بیٹھے ہیں۔

پنجاب حکومت نے اکتوبر 2011ء میں پنجاب کیئر کمیشن بنایا، یہ کمیشن پرائیویٹ اسپتالوں کو لائسنس بھی دیتا ہے، ان کے معیار بھی چیک کرتا ہے، مریضوں کی شکایات کا ازالہ بھی کرتا ہے اور جعلی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی بھی کرتا ہے، اس کمیشن نے دو برسوں میں 184 لائسنس جاری کیے، 173 شکایات وصول کیں، 18 شکایات پر فیصلے جاری کیے اور 47 کیس نبٹائے لیکن یہ مظالم کے اس طویل و عریض میدان کی چند چٹانیں ہیں، ظلم کے اس میدان میں ایسی ہزاروں لاکھوں چٹانیں موجود ہیں مگر شاید یہ چٹانیں حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں، حکومت کو چاہیے، یہ ایسے ہیلتھ کیئر کمیشن پورے ملک میں قائم کرے، ان کا سائز اور دائرہ کار بڑھائے، یہ کمیشن پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے، اسے کم از کم ایک کروڑ روپے جرمانہ کرنے اور مجرموں کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے، اس کے پاس عدالتی اختیار بھی ہونا چاہیے تا کہ یہ مجرموں کو موقع پر سزا دے سکے کیونکہ یہ ظلم کی انتہائی شکل ہے، آپ کسی بھی شخص کو آپریشن تھیٹر میں کاٹ دیں اور بعد ازاں پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کر کے گھر چلے جائیں، یہ جعلی ڈاکٹر اور جعلی سرجن درندے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک ہونا چاہیے جو مہذب ملکوں میں درندوں کے ساتھ ہوتا ہے، انھیں عبرت کا نشان بنائیں۔

نوٹ: وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اے حمید مرحوم کی بیوہ مسز ریحانہ حمید کے لیے دس لاکھ روپے امداد کا اعلان کر دیا ہے، میں پوری لکھاری برادری کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.