Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. General Musharraf Jeet Gaye

General Musharraf Jeet Gaye

پائیلو کوئیلو دنیا کا معروف مصنف ہے، یہ برازیل سے تعلق رکھتا ہے، اس نے 1988ء میں دنیا کا مشہور ترین ناول "الکیمسٹ" تحریر کیا، اس ناول کی اب تک 15 کروڑ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں، یہ 80زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، یہ روحانیت کے پس منظر میں لکھا گیا مختصر سا ناول ہے، میں نے یہ ناول چار بار پڑھا اور اس نے ہر بار دامن دل اور رکاب خیال تھام لی، میں نے اس کی سی ڈی گاڑی میں لگا رکھی ہے اور میں روزگھر سے دفتر جاتے اور دفتر سے گھر واپس آتے الکیمسٹ سنتا ہوں، اس ناول میں درجنوں کے حساب سے "ون لائنر" ہیں، "ون لائنر" ایسے فقرے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضرب المثل یا محاورا بن جاتے ہیں اور یہ محاورے آنے والے زمانوں میں اس مصنف، اس رائیٹر کا تعارف بن جاتے ہیں۔" یہ دنیا ایک اسٹیج ہے۔ آپ گلاب کو کوئی سا نام دے لیں، گلاب گلاب ہی رہتا ہے۔ بادشاہ مر گیا لیکن بادشاہ ہمیشہ زندہ رہے گا"۔ یہ وہ چند "ون لائنر" ہیں جو تاریخ میں شیکسپیئر کا حوالہ بن گئے اور ہم میں کوئی شخص شیکسپیئر کو پڑھے یا نہ پڑھے لیکن یہ شیکسپیئر کی ان لائنوں سے ضرور واقف ہو گا۔" الکیمسٹ" میں بھی درجنوں ایسے "ون لائنر" موجود ہیں جو آہستہ آہستہ پائیلو کوئیلو کا حوالہ بنتے جا رہے ہیں۔"انسان زندگی کے کسی بھی دور میں اپنے خواب پورے کر سکتا ہے"۔

" انسان جب کوئی چیز حاصل کرنا چاہے تو پوری کائنات اس سازش میں اس کی حصے دار بن جاتی ہے"۔ یہ دو فقرے الکیمسٹ کا بنیادی خیال ہیں، یہ پورا ناول ان دو فقروں کے گرد گھومتا ہے، پائیلو کوئیلو اپنے مرکزی کردار سنتیاگو کے ذریعے اپنے قارئین کو پیغام دیتا ہے آپ میں اگر جنون اور جستجو موجود ہے تو آپ دنیا میں کچھ بھی کر سکتے ہیں حتیٰ کہ آپ عین جوانی میں روحانیت کے عظیم خزانے تک بھی پہنچ سکتے ہیں، اس ناول کے بے شمار واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کی نظروں کو جکڑ لیتا ہے، ایک شخص ناول کے مرکزی کردار کو بتاتا ہے، میں سردار کے قلعے میں گیا تو اس نے چمچ میں تیل ڈالا، وہ چمچ میرے ہاتھ میں پکڑائی اور مجھے حکم دیا تم یہ چمچ لے کر نکلو، پورا محل دیکھو، واپس آئو اور مجھے محل کے بارے میں بتائو لیکن خبردار چمچ کا تیل نہیں گرنا چاہیے، وہ چمچ لے کر نکلا، محل دیکھا، واپس آیا تو چمچ خالی تھی، تیل راستے میں گر چکا تھا، وہ دوسری بار چمچ میں تیل ڈال کر محل دیکھنے نکلا، اس بار اس کی ساری توجہ چمچ پر تھی، اس نے تیل نہیں گرنے دیا مگر وہ محل نہ دیکھ سکا، پائیلو کوئیلو اس مثال کے ذریعے یہ بتانا چاہتا تھا ہم نے زندگی میں دنیا کی رونق بھی دیکھنی ہے اور روح کا تیل بھی بچا کر رکھنا ہے، ہمیں زندگی کو بیلنس میں رکھنا چاہیے، ہم دنیا کی رونق میں اتنا نہ کھو جائیں کہ ہماری واحد چمچ کا تیل گر جائے اور ہم چمچ کو بھی اتنا بچا کر نہ رکھیں کہ ہم رونق دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائیں۔

ہماری زندگی توازن کا نام ہے، شدت کا نہیں، شدت انا اور ضد کی اولاد ہے اور ہم جب ضد اور انا کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں تو ہمارا وجود شدت کے کیچڑ سے لتھڑ جاتا ہے اور ہم باقی زندگی یہ کیچڑ صاف کرتے کرتے گزار دیتے ہیں، ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا دنیا کے تمام بڑے بحران انا، ضد اور ہٹ دھرمی سے پیدا ہوئے، دنیا کے نامور لوگ اگر تاریخ کے نازک موڑ پر ذرا سی پسپائی اختیار کر لیتے، یہ اپنے رویے میں ذرا سی نرمی پیدا کر لیتے یا پھر یہ معذرت کرلیتے تو شاید نمرود کی خدائی، فرعون کی سلطنت، بغداد کی ریاست، نپولین کا اقتدار اور ہٹلر کا غرور زیادہ دیر تک قائم رہتا، یہ لوگ غیر طبعی انجام تک نہ پہنچتے، ضد، انا اور ہٹ دھرمی زوال کا پہلا سنگ میل ہوتی ہے، دوسرا سنگ میل فوکس کی کمی یا کام پر عدم توجہ ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو کوئی نہ کوئی ذمے داری، کوئی نہ کوئی کام سونپ رکھا ہوتا ہے، آپ اگر وہ کام سرانجام دینے کے بجائے اپنے آپ کو دوسرے غیر ضروری کاموں میں الجھا لیں گے تو آپ کو عزت، اقتدار یا منصب دینے والی قوتیں آپ سے ناراض ہو جاتی ہیں اور آپ یوں زوال کا نشانہ بن جاتے ہیں، فرض کیجیے، آپ چوکیدار ہیں لیکن آپ چوکیداری کے بجائے ساری رات عبادت کرتے رہتے ہیں، کیا یہ ٹھیک ہوگا، آپ جہاز کے پائلٹ ہیں مگر آپ جہاز کو "آٹو پائلٹ" پر ڈال کر نماز شروع کر دیتے ہیں یا آپ ٹرین ڈرائیور ہیں اور آپ ٹرین کو ٹریک پر چڑھا کر وضو شروع کر دیتے ہیں، کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ دنیا آپ کے اس نیک ترین فعل کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھے گی اور آپ کو عبادت کے باوجود احتساب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور آپ اپنی جاب، اپنی ذمے داری سے بھی فارغ ہو جائیں گے، یہ حقیقت ہے اور جو لوگ اس حقیقت کو سامنے رکھ کرزندگی گزارتے ہیں، وہ فائدے میں رہتے ہیں۔

آپ چمچ کے تیل اور زوال کی ان دو جوہات کو سامنے رکھیں اور اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی موجودہ لڑائی کا تجزیہ کریں، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 30 اکتوبر کو سینیٹ میں ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاکتوں کا ڈیٹا پیش کیا، حکومتی جواب کے مطابق امریکا نے 2008ء سے 2013ء تک 317 ڈرون حملے کیے جن میں 2160 شدت پسنداور67 شہری ہلاک ہوئے جب کہ 2012ء اور2013ء کے ڈرون حملوں میں کوئی شہری شہید نہیں ہوا، یہ ڈیٹا وزارت دفاع نے پیش کیا تھا، وزارت دفاع اس وقت وزیراعظم میاں نواز شریف کے پاس ہے، وزیراعظم وزیر دفاع کی حیثیت سے سینیٹ میں پیش نہیں ہو سکتے تھے چنانچہ وزیر داخلہ سینیٹ میں آ گئے، ڈیٹا غلط تھا، اپوزیشن نے اعتراض شروع کیا، چوہدری نثار کو یہ اعتراض اچھا نہ لگا، یہ ناراض ہو کر بیٹھ گئے، اپوزیشن اس رویے پر مزید ناراض ہو گئی، معاملہ الزام تراشی سے آگے نکلا اور یوں اپوزیشن پچھلے دو دن سے پارلیمنٹ ہائوس کے لان میں سینیٹ کا اجلاس منعقد کر رہی ہے۔

اس اجلاس کی کارروائی ٹیلی ویژن چینلز پر براہ راست دکھائی جاتی ہے جب کہ حکومت کا اجلاس ایوان میں ہو رہا ہے، یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں سینیٹ کے دو اجلاس ہو رہے ہیں، ایک اجلاس اندر اور دوسرا باہر اور اس انوکھے واقعے کی وجہ معمولی سی ضد، معمولی سی انا ہے، اپوزیشن کی خواہش ہے چوہدری نثار علی خان اپنے رویے پر معذرت کریں جب کہ چوہدری نثار کا کہنا ہے، میں نے کوئی غلطی نہیں کی، میں معذرت کیوں کروں اور یہ ضد پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے، آپ یہ بھی ملاحظہ کریں، یہ کھیل کس وقت ہو رہا ہے؟ یہ کھیل اس وقت ہو رہا ہے، جب امریکا نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود کو مار دیا اور اس حملے کی وجہ سے طالبان اور حکومت کے مذاکرات معطل ہو گئے، ملک میں مہنگائی میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے، بجلی 70 فیصد اور پٹرول 14فیصدمہنگا ہوگیا۔

حکومتی نااہلی معراج تک پہنچ چکی ہے اور حکومت نے اپنے پہلے دو ماہ میں میں چھ کھرب چھتیس ارب کے نوٹ چھاپ دیے مگر اپوزیشن ان ایشوز پر آواز اٹھانے کے بجائے اپنا سارا زور چوہدری نثار کی انا کو جھکانے پر لگا رہی ہے، کاش اپوزیشن ڈرون حملے رکوانے کے لیے ایوان سے باہر بیٹھی ہوتی، کاش اس نے سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل سکس کے نفاذ کے لیے لان میں خیمے لگائے ہوتے، کاش یہ مہنگائی کے خلاف ایوان سے واک آئوٹ کرتی، کاش یہ لوگ نیٹو سپلائی روکنے کے لیے سینیٹ کی کارروائی ملتوی کراتے اور کاش یہ سڑک پر بیٹھ کر امریکا کے خلاف تقریریں کرتے اور کاش وزیر داخلہ چوہدری نثار غلط اعداد و شمار پر ڈٹے رہنے کے بجائے امریکا کے خلاف ڈٹے ہوتے، کاش یہ بھی ڈرون حملوں پر ڈٹے ہوتے اور کاش یہ اپنی حکومت کی غریب مار پالیسیوں پر ڈٹ گئے ہوتے، افسوس آپ لوگوں نے احتجاج بھی کیا تو صرف اپنی انا کو گنے کا رس پلانے کے لیے کیا، افسوس آپ صرف اپنی ضد کا شملہ اونچا رکھنے کے لیے سڑک پر بیٹھ گئے۔

یہ تماشا اب بند ہونا چاہیے، عوام نے آپ کو اس لیے اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بھیجا کہ آپ وہاں انا کا کھیل کھیلنا شروع کر دیں، عوام نے آپ کے ہاتھ میں اپنے اعتماد کی چمچ اس لیے دی تھی کہ آپ ان کے مفادات کے تیل کی حفاظت کریں مگر آپ اپنی انا کی رونق میں اس قدر گم ہو گئے ہیں کہ آپ کو عوام کے مفادات کے تیل کی پروا ہے اور نہ ہی اعتماد کی چمچ کی اور آپ کے اس کھیل کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟ ملک کی بچھڑی ہوئی آمرانہ روحوں کو۔ آپ کو یاد ہو گا، 18اگست 2008ء کو جنرل پرویز مشرف نے صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے کہا تھا، جنرل مشرف کے آخری الفاظ تھے " پاکستان کا خدا حافظ" ہم لوگ اس وقت ان کی بات پر ہنستے تھے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں لوگوں کو جنرل مشرف کی بات پر آدھا یقین آ گیا اور آج عوام انائوں، ضد اور نااہلیت کے اس کھیل میں جنرل مشرف کی بات پر پورا یقین کر رہے ہیں، ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کامیاب ہوتے اور اپنے خواب ٹوٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ آج جمہوریت ہارتی اور آمریت جیتتی ہوئی نظر آتی ہے، جنرل مشرف نے 2008ء میں پاکستان کو خدا حافظ کہا تھا، زرداری صاحب نے اس خدا حافظ کو آدھا پورا کر دیا، باقی خدا حافظ میاں صاحب کے حواری انا کے بانس پر چڑھ کر پورا کر رہے ہیں، آج کے حکمرانوں نے کل کے حکمرانوں کے خلاف نعرے لگا کر پانچ سال گزار دیے اور کل کے حکمران آج کے حکمرانوں کے خلاف خیمے میں اجلاس منعقد کر کے پاکستان کا تماشہ بنا رہے ہیں، اس ملک کا واقعی خدا ہی حافظ ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.