گائوں، پورا گائوں خشک سالی کا شکار تھا، زمین زخم کا کھرنڈ بن گئی، ہریالی رخصت ہوئی تو سبز رنگ بھی ساتھ ہی لے گئی، گائوں کے لوگوں کو سبز رنگ دیکھے مدتیں ہو گئیں، آسمان پگھلا ہوا تانبا بن گیا اور یہ تانبا رات کے اندھیرے میں بھی سلگتا رہتا تھا، کتے، بلیاں اور لومڑ ڈھور ڈنگروں کو کھانے لگے، انسان کتے، بلیوں اور لومڑوں کو کھانے لگا اور ڈھور ڈنگر انسانی غلاظت پر منہ مارنے لگے، گائوں سے اناج یوں ختم ہوا جیسے کہرا سورج کو نگل جاتا ہے یا سورج کی تیز شعاعیں رات کی ٹھٹھری سہمی شبنم کو پی جاتی ہیں یا پھر باریک ریت ہوا کے رخ پر دوڑتے دوڑتے افق کے پار گم ہو جاتی ہے، پیچھے رہ گیا پانی تو پانی انسان کے حلق تک سے غائب ہو گیا، گائوں کے مثانے تک خشک ہو گئے اور لوگوں کو بعض اوقات محسوس ہونے لگتا جیسے پانی تک میں پانی نہیں رہا، وہ لوگ کیچڑ کو کپڑے میں لپیٹ کر چوستے تھے اور انھیں غلیظ حرکت کے دوران بدبو اور کڑواہٹ کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔
یہ ہندوستان کا گائوں تھا اور دور تھا اکبر اعظم کا، راجستھان میں قحط پڑا اور یہ قحط آہستہ آہستہ اس گائوں میں بھی پہنچ گیا، خشک سالی، قحط اور غربت جب حد سے گزر گئی اور نوبت انسان کے انسان کو کھانے تک آ گئی تو گائوں کے مکھیا نے بادشاہ کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ کیا، وہ گائوں سے نکلا اور دلی پہنچ گیا، وہاں جا کر معلوم ہوا بادشاہ دلی سے فتح پور سیکری منتقل ہو چکا ہے، مکھیا وہاں پہنچ گیا، بادشاہ ہفتے کے ایک دن عام لوگوں سے ملتا تھا، اکبر اعظم محل سے نکلتا تھا، دیوان عام میں بیٹھ جاتا تھا اور شام تک سلطنت کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے عام لوگوں کی درخواستیں سنتا تھا، گائوں کا مکھیا فتح پور سیکری پہنچا اور دیوان عام کھلنے کا انتظار کرنے لگا، ہفتہ گزر گیا، دوسرا ہفتہ بھی گزر گیا اور تیسرا ہفتہ چڑھ گیا لیکن دیوان عام نہ کھلا، مکھیا کی پریشانی اذیت میں بدل گئی کیونکہ وہ جانتا تھا اس کے گائوں کے سیکڑوں لوگ موت اورحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں، یہ لوگ دلی کے راستے پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں مگر بادشاہ دیوان عام بنا کر اس کے دروازے کھولنا بھول گیا ہے، وہ روز دیوان عام جاتا، اس کے دروازے پر کھڑے سپاہیوں کو دیکھتا، مایوس ہوتا اور خیراتی سرائے میں واپس آ جاتا، خیراتی سرائے میں اسے رہنے کی جگہ بھی مل جاتی، کھانا بھی، پانی بھی اور پوجنے کے لیے آگ بھی مگر گائوں کے لوگوں کی تکلیف اسے آرام سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی، وہ آگ پر گرے سانپ کی طرح لوٹتا تھا اور زخمی اونٹ کی طرح بلبلاتا تھا لیکن بادشاہ بادشاہ ہوتے ہیں، یہ دوسروں کی تکلیف سے آگاہ نہیں ہوتے، وہ ایک دن تنگ آ گیا اور اس نے تخت اور تختے کا فیصلہ کر لیا، وہ شاہی محل گیا، دہلیز پر بیٹھا اور اس نے اٹھنے سے انکار کر دیا، شاہی محافظوں نے اسے نیزے اور برچھیاں چبھوئیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا، یہاں تک کہ محافظوں کا دل پسیج گیا، وہ اسے سلیم درویش کی درگاہ پر لے گئے، بادشاہ کا زیادہ تر وقت سلیم درویش کی درگاہ پر گزرتا تھا، یہ فتح پور سیکری کے درویش تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سے مغل اعظم کو ولی عہد کی نعمت سے نوازا تھا، بادشاہ کے گھر شہزادے سلیم نے جنم لیا اور بادشاہ اس مہربانی سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنا پایہ تخت دلی سے فتح پور سیکری منتقل کر دیا، سلیم درویش کی درگاہ کے سائے میں آگرہ کے نام سے نیا شہر آباد کیا، وہ شہزادے کو لے کر روزانہ درویش کی محفل میں شریک ہو جاتا اور سلیم درویش جب تک بادشاہ کو اجازت نہ دیتا وہ ان کی محفل میں بیٹھا رہتا، محافظوں نے مکھیا پر ترس کھا کر اسے سلیم درویش کی محفل میں پہنچا دیا، وہ وہاں پہنچا تو اس نے وہاں عجیب منظر دیکھا، اس نے دیکھا درویش تخت پر فروکش ہے، بادشاہ شہزادے کے ساتھ اس کے پائوں میں بیٹھا ہے، درویش کا ایک پائوں بادشاہ کے ہاتھوں میں ہے اور بادشاہ اسے مخملی موزے چڑھا رہا ہے، مکھیا نے یہ منظر دیکھا تو وہ الٹے قدموں واپس لوٹ گیا، اس نے فتح پور سیکری کے باہر کھڑے ہو کر اوم کا جاپ کیا اور اپنے گائوں کی طرف چل پڑا۔
وہ دو مہینوں کے سفر کے بعد گائوں لوٹا تو لوگ اسے خالی ہاتھ دیکھ کر پریشان ہو گئے، لوگوں نے ناکامی کی وجہ پوچھی، اس نے لوگوں کو جمع کیا اور دکھی لہجے میں بولا " ہم اپنے بادشاہ کو بھگوان کا اوتار سمجھتے ہیں، ہمارا خیال ہے ہمارا بادشاہ چاہے تو ہم پر بارش بھی برس سکتی ہے، ہماری کھیتیاں بھی ہری ہو سکتی ہیں، ہمارے جانور بھی پھل پھول سکتے ہیں، ہمارے مال و دولت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور ہم سے مصیبتیں بھی کم ہو سکتی ہیں، میں اس اوتار کی تلاش میں پہلے دلی گیا، وہاں سے فتح پور سیکری پہنچا اور اوتار کی زیارت کے لیے تین ہفتے آگرہ میں انتظار کرتا رہا، مجھے اس طویل انتظار، لمبے سفر اور خواہشوں کی وسیع تھکاوٹ کے بعد اوتار کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے اسے ایک کمزور انسان کے قدموں میں بیٹھے دیکھا، مجھے اس وقت احساس ہوا جو شخص اپنے ولی عہد کے لیے دوسرے انسان کا محتاج ہے اور جس شخص کی نظر میں اپنے پیر کے موزے ہمارے جیسے سیکڑوں ہزاروں مجبوروں کے قحط سے زیادہ بڑے ہیں اور جو جنتا کی خدمت کا زیادہ تر حصہ اپنے پیر کی خدمت میں خرچ کر دیتا ہے وہ مجبور، لاچار اور غریب شخص ہمیں کیا دے گا، وہ ہمارے دکھ کیسے ختم کرے گا چنانچہ میں آگرہ سے خالی ہاتھ واپس آ گیا" لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے وہ بولا " ہمارے بادشاہ ہم سے زیادہ لاچار ہیں، ہم لوگ بھوک اور قحط کے باوجود کسی انسان کے قدموں میں نہیں جھکتے مگر ہمارے بادشاہ صرف اقتدار کے لیے، صرف ولی عہد کے لیے انسانوں کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں، یہ انھیں سجدے تک کر جاتے ہیں، یہ لاچار لوگ ہمیں کیا دیں گے، چلو آئو اس بھگوان سے دعا کریں جو ہمارے بادشاہ کا بھی بھگوان ہے اور بادشاہ کے اس پیر کا خدا بھی جس کے پائوں میں نے بادشاہ کی گود میں دیکھے"۔
یہ تاریخ کا گم نام واقعہ تھا جو میں نے برسوں پہلے مغل ہسٹری کی کسی کتاب میں پڑھا، یہ واقعہ دماغ کی کسی دیوار کے ساتھ چپک گیا اور کل صدر آصف علی زرداری سے متعلق ایک چھوٹی سی خبر کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوگیا، یہ خبر خبر کم اور تہلکہ زیادہ تھی، رپورٹر کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے پیر صاحب نے انھیں 20 دسمبر سے 10 جنوری تک پہاڑوں سے دور اور سمندر کے قریب رہنے کی ہدایت کی اور صدر صاحب اس ہدایت پر 19 دسمبر کو اسلام آباد سے کراچی شفٹ ہو گئے، یہ 23 دنوں سے کراچی میں ہیں اور یہ اس وقت تک سمندر کے قریب رہیں گے جب تک ان کے اقتدار سے پہاڑوں کا سایہ نہیں ٹل جاتا، یہ خبر محض خبر رہتی اگر میں نے مختلف لوگوں سے ان کے پیر صاحب کے بارے میں سنا نہ ہوتا، مجھے پاکستان مسلم لیگ ن، اے این پی اور جے یو آئی کے مختلف لوگ پیر صاحب کے بارے میں بتا چکے ہیں، یہ پیر صاحب اتحادیوں کی میٹنگ، غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ صدر صاحب کی ملاقات اور اہم فیصلوں سے پہلے صدارتی ہال اور صدارتی دفتر میں تشریف لاتے ہیں، وہاں پڑھ کر کچھ پھونکتے ہیں اور اس کے بعد صدر صاحب وہاں تشریف لاتے ہیں اور یوں میٹنگ کی کارروائی شروع ہوتی ہے، میں روحانی بزرگوں کا دل سے احترام بھی کرتا ہوں اور ان سے ملاقاتوں کا موقع بھی ڈھونڈتا رہتا ہوں، میں یہ تسلیم کرتا ہوں نگاہ مرد مومن سے زنجیریں بھی کٹ جاتی ہیں اور دلوں کا حال بھی بدل جاتا ہے لیکن انسان اس کے باوجود انسان ہی رہتا ہے، یہ خدا نہیں بنتا، یہ اللہ کی مرضی کے خلاف کسی کو زندگی، عزت، دولت اور اقتدار نہیں بخش سکتا، میں نے ایک بار ایک درویش سے پوچھا " کیا آپ کسی کو خوشحال بنا سکتے ہیں " انھوں نے جواب دیا " ہم بالکل نہیں بنا سکتے لیکن ہم اسے خوشحالی کا گُر ضرور سکھا سکتے ہیں " میں نے پوچھا " اور کیا آپ کسی کو تخت پر بٹھا سکتے ہیں " انھوں نے جواب دیا " ہم اسے صرف تخت کی طرف جانے کا راستہ دکھا سکتے ہیں، ہم اسے تخت پر نہیں بٹھا سکتے" میں نے پوچھا " آپ کون لوگ ہیں " انھوں نے جواب دیا " ہم اللہ کے ایسے بندے ہیں جو بندگی میں اللہ کو اتنا راضی کر لیتے ہیں کہ یہ ہمیں بندوں کی حاجت سے رہائی دے دیتا ہے، یہ ہمیں دولت، شہرت اور اقتدار کی ہوس اور زندگی، رتبے اور مال کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے اور یہ کل روحانیت ہے" مگر حکمران ان پیروں کو اپنے اقتدار کا محافظ اور اقتدار کی طرف بڑھتے خطروں کی ڈھال سمجھ بیٹھتے ہیں، ہم کیسے بے بس لوگ ہیں، ہم سورۃ اخلاص کے پیغام کو پوری طرح نہیں سمجھتے، انسان جو اللہ کی رضا کے بغیر ایک لقمہ نہیں نگل سکتا اور اگر نگل لے تو اسے ہضم نہیں کر سکتا، ہم اسے سب کچھ سمجھ لیتے ہیں، ہم کیسے بے بس لوگ ہیں، ہم مکھی کا پر نہیں بنا سکتے لیکن مجبور اور لاچار انسانوں سے ناقابل یقین توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، ہم بادشاہ ہو کر بھی غلامی سے آزاد نہیں ہوتے، ہم اللہ کا کرم چھوڑ کر مسکین، لاچار اور کمزور لوگوں کے دامن میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں، ہم کیسے لوگ ہیں، اللہ نے ہمیں بادشاہ بنایا لیکن ہم نے یہ بادشاہت انسانوں کی غلامی میں دے دی، ہم بادشاہ بن کر بھی غلام رہے۔