Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Good Bye Gstaad

Good Bye Gstaad

اسٹاڈ ہمارے سامنے بکھرا پڑا تھا، زینہ بہ زینہ پہاڑ تھے، پہاڑوں کے سروں پر پائن کے درختوں کی بارڈر لائین تھی، چراہ گاہیں تھیں، کھیتوں کی رسی کی حد بندیاں تھیں، حد بندیوں کے اندرگائیں چر رہی تھیں اور ان کے گلوں میں بندھے ٹل بج رہے تھے، شہر کے درمیان سے دریا شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا، پرندے شمال سے جنوب کی طرف اڑ رہے تھے، سفید برف پوش پہاڑ جھک کر شہر کو تانک رہے تھے، شہر میں نرم، گرم اور خوشبودار ہوائیں بہہ رہی تھیں اور اس وسیع زندہ پینٹنگ کے درمیان لکڑی کے گھر سر اٹھا کر دائیں بائیں دیکھ رہے تھے اور لوگ گلیوں میں آہستہ آہستہ چل رہے تھے، وہ شہر شہر نہیں تھا۔

وہ کیلنڈر کی خوبصورت تصویر تھی، ایک ایسی تصویر جس میں قدرت نے چند لمحوں کے لیے جان پھونک دی ہو، آپ کسی دن اپنی کوئی محبوب تصویر، کوئی محبوب پینٹنگ نکالیے، اپنے سامنے رکھئے اور فرض کیجیے، یہ تصویر اچانک زندہ ہو گئی ہے، ندیاں، آبشاریں اور جھرنے اچانک بہنے لگے ہیں، ہوائیں، درخت اور گھاس انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ہے، گائے، بھیڑوں اور پرندوں کے ٹھہرے وجود میں زندگی دوڑ گئی ہے اور تصویر میں موجود لوگوں کے رکے قدم چل پڑے ہیں، آپ یہ محسوس کر کے جو محسوس کریں گے، ہم اس وقت وہی محسوس کر رہے تھے، ہمارے سامنے ہماری محبوب ترین پینٹنگ زندہ حالت میں موجود تھیں، تصویر کی رگیں زندگی سے لبریز تھیں اور اسٹاڈ! زندگی سے بھرپور اسٹاڈ ہمارے سامنے موجود تھا۔

سوئٹزر لینڈ امراء اور آرٹسٹوں کی تفریح گاہ ہے، آپ اگر افورڈ کر سکتے ہیں اور آپ چند دن نیچر کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دنیا میں آپ کی تین پناہ گاہیں ہو سکتی ہیں، برازیل، نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ۔ برازیل کی فضا مرطوب ہے لہٰذا ہم پاکستانی اس میں زیادہ کمفرٹیبل محسوس نہیں کرتے جب کہ نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ میں کھلا پن اور ایک رومانوی خنکی ہے، ہم پاکستانی ایسی فضا، ایسے ماحول کو جنت نظیر سمجھتے ہیں چنانچہ ہمیں یہ دونوں ملک زیادہ سوٹ کرتے ہیں مگر اس "سوٹ" کرنے کی ایک پرائس ہے اور یہ پرائس ٹھیک ٹھاک زیادہ ہے۔

سوئٹزر لینڈ یورپ کا مہنگا ترین ملک ہے اور اسٹاڈ اس مہنگے ملک کا مہنگا ترین شہر، کیوں؟ کیونکہ یہ شہر دنیا کے خوبصورت اور صاف ستھرے ملک کا صاف اور خوبصورت ترین ٹاؤن ہے، آبادی صرف 9 ہزار دو سوہے، شہر شام ہوتے ہی کمروں اور گھروں میں گھس جاتا ہے، آپ سات بجے کے بعد بازار میں جائیں تو آپ کو سناٹے کے سوا کچھ نہیں ملتا، شہر کے چاروں اطراف پہاڑ ہیں، پہاڑوں پر فارم ہاؤسز ہیں اور ان فارم ہاؤسز میں سیکڑوں ہزاروں گائیں ہیں، آپ رات کے پچھلے پہر باہر نکلیں تو اندھیرے اور دھند میں لپٹے اس ماحول میں چاند کا اضافہ ہو جاتا ہے، یہ ہے اسٹاڈ، کل اسٹاڈ۔

اسٹاڈ کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ شہر پر مشتمل ہے، یہ چھوٹا سا شہر ہے، بازار بھی چھوٹا ہے لیکن اس چھوٹے سے بازار میں دو دو کروڑ روپے کی گھڑیوں سے لے کر بیس بیس لاکھ روپے کے جوتوں اور بیگز کے تمام بڑے برانڈڈ آؤٹ لیٹس موجود ہیں، ریستوران، کافی شاپس اور پب بھی ہیں اور یہ سارے شام تک آباد رہتے ہیں، شہر کا دوسرا حصہ امراء کی رہائش گاہیں ہیں، یہ حصہ پہاڑی پر واقع ہے، شہر کی دائیں جانب پہاڑی پر تہہ در تہہ ولاز ہیں۔

ان کی مالیت یقینا اربوں میں ہو گی، یہ دنیا کے مختلف امراء کی ملکیت ہیں، یہ لوگ یہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں، ہر ولا محل جیسا ہے جس میں دنیا جہاں کی آسائشیں موجود ہیں، قصبے کا واحد فائیو اسٹار ہوٹل بھی اسی حصے میں واقع ہے، اس ہوٹل کی عمارت پورے ٹاؤن میں نمایاں ہے، یہ آپ کو شہر کے ہر حصے سے نظر آتی ہے اور شہر کا تیسرا حصہ پہاڑوں پر ہے، فارم ہاؤسز ہیں، اسٹاڈ کے گرد چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں، یہ گاؤں شہر کے چاروں اطراف ہیں، یہ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر ہیں، اسٹاڈ سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر کیبل کار کا سٹیشن ہے، یہ کیبل کار آپ کو تین ہزار میٹر کی بلندی پر گلیشیئر پر لے جاتی ہے۔

یہ گلیشیئر "گلیشیئر 3000" کہلاتا ہے، گلیشیئر کی انتہائی بلندی پر لوہے کا تین سو فٹ لمبا پل ہے، پل پر ہر وقت برف باری ہوتی رہتی ہے، اس پل پر چلنا دل گردے کا کام ہے کیونکہ وہاں ہوا بھی تیز ہوتی ہے، برف بھی گر رہی ہوتی ہے، درجہ حرارت بھی منفی میں ہوتا ہے، پل بھی جما ہوتا ہے اور نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائیاں بھی ہوتی ہیں، گلیشیئر 3000 پر صرف خوف نہیں وہاں ایک رومانوی حیرت بھی موجود ہے، آپ جب تین ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچتے ہیں تو آپ وہاں ایک وسیع کمپلیکس اور اس کمپلیکس میں تین گرم ریستوران دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، آپ کی یہ حیرت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب آپ برف کے عین درمیان بیٹھ کر لنچ کا لطف اٹھاتے ہیں، یہ ایک لائف ٹائم تجربہ تھا لیکن میں اس قصبے میں ایسے مزید تین تجربوں سے گزرا۔ یہ تجربے میری زندگی کے شاندار ترین اثاثوں میں شامل ہو چکے ہیں۔

پہلا تجربہ ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھ کر رات کو صبح میں تبدیل ہوتے دیکھنا تھا، میں صبح کاذب کے وقت اٹھا اور بالکونی میں بیٹھ گیا، ہمارا ہوٹل شہر کی آخری حد پر تھا، ہوٹل کے بعد فارم ہاؤسز اور پہاڑوں کا سلسلہ تھا، بالکونی سے آگے ایک وسیع منظر تھا اور میں کمبل اوڑھ کر اس منظر کا حصہ بن گیا، چاند پہاڑوں میں گم ہو چکا تھا، شہر پر اندھیرے کی چادر تنی تھی، اس چادر میں دریا کا پانی، جھینگر اور گیلی ہوا کی آوازیں چھید ڈال رہی تھیں، میں بت بن کر بالکونی میں بیٹھا رہا، میرے سامنے صبح کاذب صبح صادق میں تبدیل ہوئی، آسمان کے ایک کونے سے روشنی اٹھی، اس نے اندھیرے کا نقاب اٹھایا، رات کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے رات کی ساری سیاہی چوس گئی۔

میرے سامنے پرندوں نے آنکھ کھولی، اپنے پر پھڑپھڑائے، چونچیں کھولیں، اپنے ہم نفسوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دی اور آسمان کے سمندر میں تیر کر زندگی کا نیا دن ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے، میرے سامنے گائیوں نے سر اٹھائے اور ٹل بجا کر قدرت کا شکریہ ادا کرنے لگیں، میرے سامنے مرغیاں ڈربوں سے نکلیں اور بلوں کی طرف بھاگتے کیڑوں پر ٹھونگے مارنے لگیں اور میرے سامنے دریا کے پانی کی رفتار اور آواز میں اضافہ ہو گیا، میں نے وہاں بالکونی میں بیٹھے بیٹھے صبح کو دن میں تبدیل ہوتے بھی دیکھا، نرم کرنوں کو گرم شعاعوں میں بدلتے بھی دیکھا اور روشنی کو اندھیروں کے کونوں کھدروں میں جھانکتے بھی دیکھا، اسٹاڈ کی وہ صبح، وہ بالکونی اور بالکونی کا وہ رت جگا میرا اثاثہ بن چکا ہے۔

دوسرا تجربہ آدھی رات کے وقت شہر کے سناٹے کا تعاقب تھا، چاند کی سولہویں رات تھی لیکن اسٹاڈ کی صاف فضا چودھویں کا تاثر دے رہی تھی، چاند ٹاؤن سے چند ہاتھ کے فاصلے پر ٹنکا تھا، شہر میں سناٹا تھا، بازار بند تھا، مکانوں میں اندھیرا تھا اور میں اس اندھیرے، اس سناٹے میں چاند کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، میں ایک قدم اٹھاتا تھا اور وہ مجھ سے دس قدم آگے چل پڑتا تھا، کیوں؟ میں یہ سوال بچپن سے پوچھ رہا ہوں لیکن جواب نہیں مل رہا، شاید چاند خواہش ہے اور خواہشیں ہمیشہ انسان سے دس قدم آگے رہتی ہیں، نصف رات کی وہ واک بھی کمال تجربہ تھی۔

اسٹاڈ کی خاموش گلیاں تھیں، چاند تھا اور جنگلوں کی گیلی ہوائیں تھیں اور میں اس اداس منظر میں اپنا پتہ ڈھونڈ رہا تھا، اگر آوا گون سچ ہے، اگر انسانی روح بار بار زمین پر آتی ہے، اگر ہم سب بدن کی طبعی موت کے بعد جسم بدل لیتے ہیں اور اگر ہمارا یہ جنم آخری یا پہلا نہیں تو پھر میں نے یقینا پچھلے جنم پہاڑوں میں گزارے ہوں گے، میں خانہ بدوش رہا ہوں گا یا پھر میں ابن بطوطہ، مارکو پولو اور امیر تیمور کے لشکروں اور قافلوں کا حصہ رہا ہوں گا یا پھر میں ہن قبائل، دراوڑوں اور جارجیا کے گوجر قبیلوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں مارا مارا پھرتا رہا ہوں گا یا پھر میں زندگی کے خچروں پر بیٹھ کر موت کے عفریتوں سے بچنے کے لیے جنگلوں میں بھاگتا رہا ہوں گا کیونکہ میری روح کا یہ اضطراب، میری یہ پارہ صفتی بے سبب نہیں ہے۔

یہ یقینا بے شمار ناآسودہ جنموں، یہ بے شمار ادھوری زندگیوں کی فرسٹریشن ہے جو ہزاروں جینز میں سفر کرتی ہوئی مجھ تک پہنچی اور یہ اب مجھے پیاسے اونٹ کی طرح صحرا میں دوڑا رہی ہے، مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے، میں نے اگر چند دن اور قدم نہ اٹھائے تو میرے تلوؤں میں گھاس اگ آئے گی اور میں اپنی ہی یاد کا مزار بن کر رہ جاؤں گا، اس رات کا چاند اور اسٹاڈ کا وہ سناٹا دونوں مجھے پچھلے جنموں کی یاد لگ رہے تھے، ایک ایسا گزرا ہوا واقعہ جس کا کوئی کونہ یاد کی الماری سے باہر لٹک رہا ہو اور آپ اسے دیکھ کر لباس کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اسٹاڈ میری گزری یادوں کا کوئی کونہ تھا۔ اسٹاڈ کا تیسرا اثاثہ آخری شام تھی، ہم تینوں پہاڑوں پر نکل گئے، ہم نے ایک سائیڈ سے چلنا شروع کیا اور پندرہ کلو میٹر کا دائرہ بنا لیا، راستے میں درجنوں جنگل، پانی کے چشمے، ندیاں اور نالے آئے، ہم چھوٹے دیہات میں بھی گئے، فارم ہاؤسز میں چرتی گائیوں کے قریب سے بھی گزرے، کسانوں کے کتے بھی بھگتائے، انگوروں کی بیلوں کے سایوں سے بھی گزرے، گھروں کی چمنیوں سے اڑتا دھواں بھی چکھا، بچوں اور خواتین کو پینگ لیتے بھی دیکھا اور دودھ اور پنیر کی فیکٹریوں میں بھی جھانکا۔

اس واک میں وہ مقام بھی آیا جہاں سے گلیشیئر 3000 اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آتا ہے اور وہ ویو پوائنٹ بھی جہاں سے پورا اسٹاڈ شہر اپنے تمام رنگوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور وہ جگہ بھی جہاں کی شام دنیا کی قیمتی ترین شام ہوتی ہے اور وہ سانس لیتا اور آہیں بھرتا زیرو پوائنٹ بھی جہاں سے شاید، شاید اور شاید زندگی نے پہلی ہچکی لی تھی، یہ واک بھی زندگی کی یادگار ترین واکس میں سے ایک واک تھی۔

آپ کی زندگی میں آنے والے لوگ اور شہر دو قسم کے ہوتے ہیں، وہ لوگ اور وہ مقام جو آپ کو دیکھتے ہی اچھے لگتے ہیں اور وہ مقام اور وہ لوگ جو آپ کو آہستہ آہستہ پسند آتے ہیں، جو آپ پر دھیرے دھیرے کھلتے ہیں، اسٹاڈ دوسری قسم کا شہر ہے، یہ آپ کو شروع میں اچھا نہیں لگتا لیکن آپ جوں ہی اس شہر میں ایک رات گزار لیتے ہیں، یہ آپ کا اور آپ اس کے ہو جاتے ہیں اور اسٹاڈ اب میرا شہر ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.