اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت ہے، یہ شہر تین اطراف سے بنگلہ دیش میں گھرا ہوا ہے، بنگالی ہر طرف سے اگرتلہ پہنچ سکتے ہیں، 1967میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے عوامی لیگ میں ایک اسپیشل سیل بنایا، اس کا کام پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی مدد حاصل کرنا تھا، شیخ مجیب کی ہدایت پر 1967 میں دو سرکاری ملازم (یہ لوگ عوامی لیگ کے ممبربھی تھے) پاک نیوی کا ملازم مجیب الرحمن اور ماہر تعلیم محمد علی رضا اگرتلہ گئے اور وہاں ان کی ملاقات بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام سے ہوئی۔
بھارت نے انھیں اسلحہ دینے کی پیش کش جب کہ شیخ مجیب الرحمن کے نمایندوں نے عسکری تنظیم اور پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کا منصوبہ بھارت کے ساتھ شیئر کیا، جنوری 1968میں یہ سازش پکڑی گئی، اس کا سہرا ایک بنگالی افسر لیفٹیننٹ کرنل شمس العالم کے سر جاتا ہے، وہ ڈھاکا میں آئی ایس آئی کے آفیسر تھے، 1967 میں ایسٹ بنگال رجمنٹ کے بنگالی جوان رؤف الرحمن نے ان پر حملہ کر دیا، کرنل شمس العالم نے بڑی بہادری سے اس کا مقابلہ کیا اور اپنے قاتل کو اپنی آڑ بنا کر خود کو بچا لیا، انھیں اس بہادری پر بعدازاں ستارہ بسالت دیاگیا، آئی ایس آئی نے اس حملے کی تفتیش شروع کی اور اگر تلہ سازش پکڑی گئی، فوج نے 1500 لوگوں کوگرفتار کر لیا، تفتیش آگے بڑھی تو 8 مرکزی مجرم پکڑے گئے، ان 8 مجرموں نے بھارت کے ساتھ کوآرڈی نیشن کرنے والے 34 لوگوں کے نام دے دیے۔
ان میں 3 اعلیٰ سرکاری افسر (بیوروکریٹس) پاک نیوی، پاک ائیرفورس اور پاک فوج کے افسر اور جوان شامل تھے، جنوری 1968میں ان 34 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد شیخ مجیب الرحمن بھی گرفتار کر لیے گئے، شیخ مجیب الرحمن کو کرنل اسلم بیگ نے ان کے گھر سے گرفتار کیا، یہ بعدازاں فور اسٹار جنرل اور آرمی چیف بنے، جنرل اسلم بیگ کے بقول ہمارا خیال تھا ہمیں گرفتاری کے دوران بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا لیکن جب میں بھاری نفری کے ساتھ ان کے گھر پہنچا تو شیخ صاحب نے مسکرا کر میرا استقبال کیا۔
مجھ سے کپڑے اور ادویات لینے کی مہلت مانگی، اندر گئے اور سامان لے کر آ گئے اور میں انھیں اپنی جیپ میں بٹھا کر ڈھاکا کنٹونمنٹ لے آیا، شیخ مجیب کی گرفتاری کے بعد ڈھاکا کنٹونمنٹ میں اگر تلہ سازش کیس چلا، وہ کیس تین ججز نے سنا جن میں ایک مغربی پاکستان جب کہ دو بنگالی جج تھے، ان تینوں ججز نے 35 مجرموں کو سزا سنا دی، اس کے بعد بنگلہ دیش میں ہنگامے شروع ہو گئے، عوامی دباؤ میں آ کر 1969میں ایوب خان نے شیخ مجیب کو رہا کر دیا، جنرل یحییٰ خان آئے، 1970کے الیکشن ہوئے، عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 162میں سے160 سیٹیں لے لیں اور اکثریتی جماعت بن کر ابھر آئی، یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو حکومت نہیں بنانے دی، شیخ مجیب الرحمن نے 26 مارچ 1971کو علیحدگی کا اعلان کر دیا جس کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیاگیا اور مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع ہوگیا اور اس کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔
شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ نے ہمیشہ اگرتلہ سازش کیس سے انکار کیا، یہ پوری زندگی سازش میں شریک 34 سرکاری ملازموں کو بے گناہ قرار دیتے رہے لیکن پھر 22 فروری 2011کو بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر شوکت علی نے فلور پر کھڑے ہو کر تاریخ میں پہلی بار اگرتلہ سازش کو تسلیم کر لیا، یہ 1967 میں پاک فوج میں کیپٹن تھے اور یہ بھی ان 34 افسروں اور جوانوں میں شامل تھے جنھیں اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، شوکت علی سقوط مشرقی پاکستان تک ملٹری جیل میں رہے، بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ سیاست میں آئے اور 2011میں ڈپٹی اسپیکر بن گئے۔
انھوں نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا شیخ مجیب نے 1967 میں عوامی لیگ میں اسپیشل یونٹ بنایا تھا جس کا مقصد آزادی کے لیے بھارت اور بھارتی فوج کی مدد لینا تھا، شیخ مجیب یہ سمجھتے تھے آزادی کے لیے پرامن کوشش کافی نہیں، اس کے لیے ہتھیار بھی اٹھانے پڑیں گے اور انھوں نے ہتھیاروں اور ٹریننگ کے لیے 1967 میں پروفیسر مجیب الرحمن اور نیوی کے ملازم محمد علی کو اگرتلہ بھیجا تھا، کیپٹن ریٹائرڈ اور ڈپٹی اسپیکر شوکت علی کے اس اعتراف کے بعد ثابت ہوگیا اگر تلہ سازش کیس حقیقت تھا اور شیخ مجیب الرحمن نے 1970 کے الیکشنز سے کہیں پہلے پاکستان سے الگ ہونے اور عسکری جدوجہد کا فیصلہ کرلیا تھا۔
لہٰذا عمران خان کا یہ خیال غلط ہے شیخ مجیب الرحمن محب وطن تھا اور اگر 1970 کے الیکشنز کے بعد اسے حکومت بنانے کا موقع دے دیا جاتا تو پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا، شیخ مجیب نے وزیراعظم بننے کے باوجود بنگلہ دیش بنانا تھا تاہم اس صورت میں وہ مغربی پاکستان کو بھی اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ چھوڑتا، شیخ مجیب کے وزیراعظم بننے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ 1971کی جنگ 1973 تک چلی جاتی اور اس کے بعد بنگلہ دیش بھی بن جاتا اور مغربی پاکستان پر بھی بھارت کا قبضہ ہو جاتا، ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
شیخ مجیب الرحمن اگر واقعی محب وطن تھا (بقول عمران خان) تو پھر اس نے 1967 میں بھارتی فوج سے اسلحہ اور ٹریننگ کیوں لینا شروع کر دی تھی؟ وہ چپ چاپ جمہوری جدوجہد کرتا رہتا، وہ 1970 میں وزیراعظم نہیں بن سکا تو وہ 1972یا 1973 میں بن جاتا، یحییٰ خان کا مارشل لاء بہرحال ختم ہونا تھا اور ملک میں جمہوریت نے بحال ہو کر رہنا تھا، آخر مجیب الرحمن کو کیا جلدی تھی؟ جلدی مجیب الرحمن کو نہیں تھی اندرا گاندھی کو تھی، وہ 1967میں پہلی بار وزیراعظم بنی تھی، 1972میں اس کی مدت ختم ہو رہی تھی، اس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔
اس کا خیال تھا وہ شاید دوبارہ منتخب نہ ہو سکے لہٰذااس کی وزارت عظمیٰ کے لیے مشرقی پاکستان علیحدگی اور پاکستان کی شکست ضروری تھی اور اس نے یہ کارڈ کھیلا اور کام یاب بھی ہوگئی، بہرحال قصہ مختصر شیخ مجیب الرحمن پاکستان توڑنے کے بعد بمشکل چار سال زندہ رہے اور انھیں بھارت کی آزادی کے دن یعنی 15 اگست 1975 کو ان کی اپنی فوج نے خاندان اور دوست احباب سمیت قتل کر دیا، ان کی صرف دو صاحب زادیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ بچیں، یہ دونوں اس وقت یورپ میں چھٹیاں گزار رہی تھیں، شیخ حسینہ بعدازاں حسینہ واجد کے نام سے سیاست میں آئیں اور اگست 2024 میں 15سال حکومت کے بعد خوف ناک عوامی تحریک کے نتیجے میں فارغ ہوگئیں، یہ آج کل بھارت میں پناہ گزین ہیں اور بنگلہ دیش میں 50 سال بعد انڈیا مردہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔
ہم اگر آج 1971 کی جنگ اور مشرقی پاکستان اور شیخ مجیب الرحمن کا تجزیہ کریں تو ہم تین نتائج اخذ کر سکتے ہیں، شیخ مجیب اور اندراگاندھی کا گٹھ جوڑ تھا، اندراگاندھی کو دوسرا الیکشن جیتنے کے لیے ایک میڈل چاہیے تھا اور پاکستان کی شکست سے بڑا میڈل کیا ہو سکتا تھا جب کہ شیخ مجیب الرحمن ہر صورت وزیراعظم بننا چاہتے تھے خواہ اس کے لیے انھیں پاکستان ہی کیوں نہ توڑنا پڑ جاتا، دوسرا نتیجہ شیخ مجیب الرحمن جمہوری لیڈر نہیں تھا، اس کے اندر ایک منافق شخص چھپا ہوا تھا، وہ ایک طرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہا تھا اور دوسری طرف مکتی باہنی بنا رہا تھا۔
اس نے 1967 میں اگرتلہ میں بھارتی فوج کو دعوت دے دی تھی لہٰذا وہ محب وطن نہیں تھا اور تیسرا نتیجہ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان میں بہت مضبوط تھا، لوگ اس پر اندھا اعتماد کرتے تھے، اس نے لوگوں کی محرومی اور خوابوں کو بڑی خوب صورتی سے اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا لیکن وہ عملی طور پر ایک نالائق انسان تھا، اس کے پاس ملک چلانے کی اہلیت تھی اور نہ ٹیم، وہ معاشی لحاظ سے بھی زیادہ ایمان دار نہیں تھا، صرف تقریروں سے کام چلانا جانتا تھا لہٰذا جب وہ اقتدار میں آیا تو اس کی ساری قلعی کھل گئی، عوام کے حالات بدتر ہوتے چلے گئے اور غربت، بے روزگاری اور لاقانونیت میں اضافہ ہوگیا، اس نے چن چن کر عثمان بزدار، محمود خان اور علی امین گنڈا پور بھی تعینات کر دیے اور انھوں نے بنگلہ دیش کا رہا سہا اسٹرکچر بھی تباہ کر دیا، ملک کھوکھلا ہوگیا، عوام دو تین سال مجیب الرحمن کی تقریروں اور پنجابی فوج کے طعنوں کے سحر میں رہے لیکن جب غربت اور کرپشن عوام کے گھٹنوں تک پہنچ گئی تو شیخ مجیب کا بت ٹوٹ گیا اور وہ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی ہلاکت پر ایک بھی شخص باہر نہ نکلا اور یوں شیخ مجیب الرحمن تاریخ کے دھارے میں بہہ کر ختم ہوگیا۔
میں آج جب عمران خان کے منہ سے بار بار مشرقی پاکستان، شیخ مجیب الرحمن اور حمود الرحمن رپورٹ کا ذکر سنتا ہوں اور پھر 9 مئی اور 28 ستمبر جیسے واقعات دیکھتا ہوں یا علی امین گنڈا پور کے منہ سے "لڑو گے، مرو گے اور مارو گے" کے نعرے سنتا ہوں تو میں ڈر جاتا ہوں کیوں کہ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے محسوس ہوتا ہے عمران خان بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو شیخ مجیب الرحمن نے کی تھی، وہ بھی ہر قیمت پر وزیراعظم بننا چاہتا تھا اور اس کی اس سوچ نے اس کو بھی تباہ کر دیا اور ملک کو بھی، اللہ تعالیٰ عمران خان کو لمبی زندگی دے، انھیں حفظ وامان میں رکھے اور ملک کو بھی 1971 جیسے حالات سے بچائے مگر ہم بدقسمتی سے ایک بار پھر 1971 کے دہانے پر کھڑے ہیں، عمران کی فلاسفی "ہر قیمت پر" ملک کو ڈبوتی چلی جا رہی ہے، اللہ ملک پر رحم کرے۔