یہ کہانی فیصل آباد سے شروع ہوئی، اس نے اٹک میں قید دیکھی، اسلام آباد میں دھکے کھائے اور یہ آخر میں ایک بارپھر اسلام آباد پہنچ کر رک گئی۔
میاں نواز شریف کو یقیناً وہ دن نہیں بھولا ہو گا جب یہ لندن سے اسلام آبادپہنچے اور دھکے دے کر انھیں واپس بھجوا دیا گیا، یہ دھکے فیصل آباد کی اس کہانی کا کلائمیکس تھے جس نے میاں صاحب کی خوئے سلطانی سے جنم لیا، وہ کہانی کیا تھی ہم اس طرف جانے سے پہلے آپ کو اسلام آباد کی اُس شام کی طرف لے جائیں گے جب دوسرے سلطان نے پہلے سلطان کو دھکے دے کر ملک سے باہر نکال دیا، 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ چکی تھی، چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک زوروں پر تھی، بے نظیر بھٹو این آر او کی کشتی پر بیٹھ کر پاکستان آ چکی تھیں اور دنیا کے زیادہ تر مبصرین کا خیال تھا محترمہ الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کر لیں گی اور یوں اقتدار فوجی آمر سے لبرل جمہوری پارٹی کو منتقل ہو جائے گا۔
میاں نواز شریف جانتے تھے اگر یہ اس وقت پاکستان نہ پہنچے تو پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنائیں گی اور یہ دونوں مل کر پاکستان مسلم لیگ ن کو مٹا دیں گے، سعودی عرب میاں نواز شریف کا ضامن تھا، میاں صاحب نے سعودی شاہ کو اعتماد میں لیا اورپاکستان آنے کا اعلان کر دیا، جنرل پرویز مشرف کے لیے میاں نواز شریف قابل قبول نہیں تھے، جنرل نے سعودی عرب پر دبائو ڈالا لیکن سعودی عرب نہ مانا، جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کا دس سال کا معاہدہ عام کر دیا، صدر مشرف لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے صاحبزادے سعد الحریری کو بھی پاکستان لے آئے، الحریری خاندان نے جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ کرایا تھا، اس معاہدے میں سینیٹر طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم نے اہم کردار ادا کیا تھا، شجاعت عظیم الحریری خاندان کے پائلٹ تھے، جنرل مشرف کی میڈیا ٹیم، جس میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر محمد علی درانی بھی شامل تھے۔
انھوں نے پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر دیا مگر اس کے باوجود میاں نواز شریف10ستمبر 2007ء کو پاکستان پہنچ گئے، یہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر اترے لیکن یہاں ان کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کیا گیا، سیکیورٹی اہلکاروں نے انھیں دھکے بھی دیے، ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے اور انھیں تقریباً گھسیٹتے ہوئے دوسرے جہاز میں بھی سوار کرا دیا، یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو بھی زیادہ افسوس ناک نہ ہوتا مگر میاں نواز شریف کو دوبارہ سعودی عرب کے حوالے کر دیا گیا اور یہ سلوک اس شخص کے ساتھ ہو ا جو ملک کا دو بار وزیراعظم رہا تھا، میاں نواز شریف پاکستان کی معتبر سیاسی شخصیت بھی تھے اور یہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائد بھی، میاں صاحب نے 1997ء میں ملکی تاریخ میں پہلی بار دو تہائی اکثریت بھی حاصل کی تھی چنانچہ یہ کسی بھی لحاظ سے اس توہین آمیز سلوک کے مستحق نہیں تھے مگر یہ سلوک فیصل آباد کے اس واقعے کا کلائمیکس تھا جس نے میاں صاحب کی خوئے سلطانی سے جنم لیا تھا۔
ہم فیصل آباد کے واقعے کی طرف جانے سے قبل ذرا دیر کے لیے 12 اکتوبر 1999ء کی طرف جائیں گے، میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کوایوان اقتدار سے اٹھا کراس طرح عقوبت خانوں میں پھینک دیا گیا تھا کہ یہ ایک دوسرے کی سلامتی تک سے آگاہ نہیں تھے، ان کے کھانے کی ٹرے دروازے کے نیچے سے اندر دھکیلی جاتی تھی، انھیں قرآن مجید تک دینے سے انکار کر دیا گیا، یہ جب عدالتوں میں پیش ہونے لگے تو انھیں انتہائی گرمی میں بکتر بند گاڑیوں میں کچہری لایا جاتا تھا، انھیں اٹک قلعے کے ایسے کمروں میں رکھا گیا جن میں سانپ اور بچھو تھے، میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر ہائی جیکنگ کی ایسی دفعات لگا دی گئیں جن کی سزا پھانسی تھی، جنرل پرویز مشرف کے اکثر ساتھی ان دنوں دعوے کرتے تھے میاں نواز شریف 2000ء میں ذوالفقار علی بھٹو ہو جائیں گے۔
چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کا خیال تھا میاں صاحبان کبھی جیل سے زندہ باہر نہیں نکلیں گے اور اگر نکل آئے تو یہ سیاست کے قابل نہیں رہیں گے، میاں برادران بھی جانتے تھے جنرل پرویز مشرف اپنی گردن بچانے کے لیے ان کی گردن لے لے گا، میاں نواز شریف اٹک قلعے کے دنوں میں ہر روز وہ غلطی تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے یہ سلوک، یہ توہین اور یہ خوف جس کی سزا تھا اور ان کا ذہن ہر بار ایک ہی واقعے کے طرف جاتا تھا اور وہ واقعہ فیصل آباد میں مارچ 1997ء میں پیش آیا اور یہ وہ واقعہ تھا جس نے میاں صاحب کو اقتدار سے بھی فارغ کیا اور دربدر بھی۔
ہم ہمیشہ اپنے ساتھ ہونے والے برے سلوک کا ذمے دار دوسرے لوگوں کو ٹھہراتے ہیں، ہم دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں مگر حقیقت میں اس کے ذمے دار ہم لوگ ہوتے ہیں، ہماری زندگی کے بُرے لوگ قدرت کے محض بُرے ایجنٹ ہوتے ہیں، ہم دراصل اپنے تکبر، اپنے ظلم اور اپنی زیادتی کی فصل کاٹتے ہیں، ہم اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کے ذمے دار خود ہوتے ہیں اور میاں صاحب 12 اکتوبر 1999ء سے لے کر10 ستمبر 2007ء تک کے تمام بُرے واقعات کے خود ذمے دار تھے، میاں نواز شریف 17فروری1997ء کو دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بنے۔
یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور ہمارے جیسے چھوٹے ملکوں میں ایسی بڑی کامیابیاں حکمرانوں کے مزاج کو ساتویں آسمان تک لے جاتی ہیں، چوہدری شیر علی فیصل آباد کی بڑی سیاسی شخصیت ہیں، یہ میاں برادران کے عزیز بھی ہیں، چوہدری شیر علی کا فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ افسروں کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا، چوہدری شیر علی نے افسروں کی وزیراعظم سے شکایت کر دی، میاں نواز شریف مارچ 1997ء کو فیصل آباد چلے گئے، یہ وہاں سات گھنٹے رہے، میاں صاحب نے اس دوران ایف ڈی اے کے افسروں کو کھلی کچہری میں بلوا لیا، افسروں نے وہاں وزیراعظم سے "آرگومنٹ" کرنے کی کوشش کی، میاں نواز شریف ناراض ہو گئے اور انھوں نے ایف ڈی اے کے تین افسروں اشفاق بھٹی، عبدالحلیم اور طاہر رضا بخاری کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دے دیا، پولیس نے سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ان کو ہتھکڑی لگا دی۔
یہ واقعہ پاکستان ٹیلی ویژن نے لائیو بھی دکھایا اوررات نو بجے کے خبرنامے میں بھی، یہ اس دور کا انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا، آپ قانون کے مطابق کسی شخص کو ایف آئی آر کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتے، پولیس سرکاری ملازموں کو ہتھکڑی لگا کر پھنس گئی لہٰذا اسے یہ ہتھکڑی "جسٹی فائی" کرنے کے لیے اپنا سات ماہ کا ریکارڈ تبدیل کرنا پڑگیا، یہ افسر پانچ ماہ جیل میں رہے اور یہ بعد ازاں سپریم کورٹ کی مہربانی سے رہا ہوئے، میاں نواز شریف کو ان تینوں میں سے کسی ایک کی آہ لگ گئی، ان کا اقتدار ختم ہوا، یہ اٹک قلعہ میں بند ہوئے اور اس کے بعداذیت کے نا ختم ہونے والے سلسلے میں الجھ گئے، یہ اٹک کے دنوں میں کراچی لے جائے گئے، یہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے کامرہ لائے گئے، انھیں کامرہ میں فوکر جہاز میں بٹھایا گیا، ملٹری آفیسر نے جہاز میں بیٹھتے ہی میاں نواز شریف کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دے دیا۔
پولیس کے ایک اہلکار کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی، اہلکار نوکری بچانے کے لیے ہتھکڑی لے کر آ گیا، میاں نواز شریف نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر دیے، پولیس اہلکار نے ان کے ہاتھ باندھے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اوراس کی آنکھوں سے ایک قطرہ پھسل کر میاں نواز شریف کے ہاتھ پر گر گیا، ہتھکڑی لگانے کے بعد میاں نواز شریف کی زنجیر سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی، وہ جہاز اڑا، راستے میں پٹرول لینے کے لیے جگہ جگہ رکا اور پانچ گھنٹے بعد کراچی پہنچا، میاں نواز شریف اس دوران نشست سے بندھے رہے، انھیں ٹوائلٹ تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی، میاں نواز شریف اس سفر کے دوران سوچتے رہے ہم سے اقتدار کے دوران کوئی نہ کوئی ایسی غلطی، کوئی نہ کوئی ایسی زیادتی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم اللہ کی پکڑ میں آ گئے ہیں اور آج ہم پورا خاندان ان حالات کا شکار ہیں۔
میاں نواز شریف کو اس سوچ کے دوران فیصل آباد کا واقعہ یاد آ گیا اور انھیں محسوس ہوا انھوں نے فیصل آباد کے افسروں کے ساتھ زیادتی کی تھی، میاں نواز شریف نے اگلی ملاقات پر بیگم کلثوم نواز کو یہ واقعہ سنایا اور ہدایت کی آپ فیصل آباد جائیں اور ان افسروں کے لواحقین سے معافی مانگیں اور وہ لوگ جب تک معاف نہ کریں آپ لوگ واپس نہ آئیں، بیگم صاحبہ، میاں شہباز شریف کی اہلیہ بیگم نصرت شہباز کو ساتھ لے کر فیصل آباد گئیں اور انھوں نے ان خاندانوں کے گھر جا کر معافی مانگی، مجھے یقین ہے شریف فیملی کو پاکستان سے جدہ جانے کی اجازت اس معافی کے بعد ملی تھی۔
پاکستان کے 2013ء کے الیکشنوں سے قبل لوگوں کا خیال تھا میاں نواز شریف اقتدار میں نہیں آ سکیں گے، میاں نواز شریف کی سلامتی کے بارے میں ان کا خاندان بھی پریشان تھا، نگراں حکومت کو بھی یقین تھا یہ الیکشن نہیں ہو سکیں گے، آئی ایس آئی اور آئی بی نے خطرناک رپورٹس دی تھیں اور ان رپورٹس کی وجہ سے نگراں وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی الیکشن رولز میں ترمیم کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے، وزارت داخلہ کا خیال تھا طالبان میاں نواز شریف اور عمران خان سمیت 30 امیدواروں کو ٹارگٹ کریں گے اور اگر ان میں سے آدھے امیدوار بھی مارے گئے تو الیکشن نہیں ہو سکیں گے، حکومت نے اس کا یہ حل نکالا، ہم آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اجازت دے دیتے ہیں یہ کسی امیدوار کی موت کی صورت میں متبادل امیدوار کو امیدوار تسلیم کر لے تاکہ ہنگامی حالات کے بعد بھی الیکشن ہو سکیں مگر فخر الدین جی ابراہیم نہیں مانے۔
اس انکار پر الیکشن کھٹائی میں پڑتے نظر آئے مگر اللہ نے کرم کیا، الیکشن ہوئے اور میاں نواز شریف تیسری بار اقتدار کی دہلیز پر پہنچ گئے، یہ دہلیز آج چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے مینڈیٹ ووٹرنہیں دیتے اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور اللہ کو حکمرانوں کی صرف عاجزی بہت محبوب ہے، میاں صاحب عاجزی اختیار کریں ورنہ دوسری صورت میں یہ جنرل پرویز مشرف کو دیکھ لیں اور سوچ لیں اللہ تعالیٰ جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تویہ اسے خوف کے پنجرے میں قید کر دیتا ہے، یہ اس کے پائوں میں وقت کی بیڑیاں اور حماقتوں کی ہتھکڑیاں ڈال دیتا ہے اور وہ شخص فوج اور امریکا کی بھرپور حمایت کے باوجود اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہ جاتا ہے، وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔