Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hum Faisla Kar Lain

Hum Faisla Kar Lain

نیا سال دنیا بالخصوص یورپ کی سب سے بڑی سماجی تقریب ہوتا ہے، یورپ، امریکا، مشرق بعید، آسٹریلیا اور روسی ریاستوں میں نئے سال کی تقریبات کا بڑی شدت سے انتظار کیا جاتا ہے، لندن میں یورپ کی نئے سال کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے اور میں اس سال یہ تقریب دیکھنے کے لیے لندن گیا، یہ لائف ٹائم تجربہ تھا اور مجھے اس تجربے کے دوران بے شمار نئی چیزیں سیکھنے کا موقع ملا، دسمبر کے آخری عشرے میں لندن کو خصوصی طور پر سجا دیا جاتا ہے، شہر کی تمام عمارتوں میں مصنوعی کرسمس ٹری لگا دیے جاتے ہیں، گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں چھوٹے چھوٹے برقی قمقمے لگا دیے جاتے ہیں جب کہ بازاروں، مارکیٹوں، پارکس اور سڑکوں پر بھی برقی قمقمے لگا دیے جاتے ہیں، یہ قمقمے ماحول کو خوبصورت بنا دیتے ہیں، یہ سلسلہ نئے سال کی تقریبات تک جاری رہتا ہے، لندن میں نئے سال کی سب سے بڑی تقریب دریائے ٹیمز کے کنارے منائی جاتی ہے، " لندن آئی" پر فائر ورکس کے لیے ہوائیاں نصب کر دی جاتی ہیں، " لندن آئی" کے سامنے بیس منزلہ عمارت ہے، اس عمارت پر " ملٹی میڈیا" کے ذریعے دیوقامت گھڑی بنا دی جاتی ہے، گھڑی کی سوئیاں پورے شہر سے دکھائی دیتی ہیں۔

نیو ائیر کی تقریب دیکھنے کے لیے پورے ملک، یورپ اور دوسرے ممالک سے لوگ لندن آ جاتے ہیں، ہوٹل پیک ہو جاتے ہیں، 31 دسمبر کی شام لوگ ٹولیوں کی شکل میں لندن برج، ٹاور برج اور دریائے ٹیمز کے کنارے جمع ہونے لگتے ہیں، لندن آئی ان لوگوں کا خصوصی ٹارگٹ ہوتی ہے، یہ لوگ دریا کے کنارے جمع ہوتے ہیں، اسپیکر کے ذریعے موسیقی کی دھنیں سنائی جاتی ہیں، رات پونے بارہ بجے موسیقی کی آواز بلند ہو جاتی ہے، لوگ موسیقی کی دھن پر دیوانہ وار ناچنا شروع کر دیتے ہیں، بارہ بجنے سے چند سیکنڈ قبل موسیقی بند ہو جاتی ہے، لاکھوں لوگ گھڑی کی سوئیوں پر نظریں جما کر کھڑے ہو جاتے ہیں، الٹی گنتی گنی جاتی ہے اور ٹھیک بارہ بجے فضا آتشبازی سے منور ہو جاتی ہے، لندن آئی کے جھولوں سے لاکھوں پٹاخے، شرلیاں، آتشی انار اور ہوائیاں چھوڑی جاتی ہیں اور آسمان ان کے رنگوں سے منور ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگ ناچتے، کودتے اور تصویریں بناتے ہیں۔

اس 31 دسمبر کو بھی یہی ہوا، شام سات بجے کے بعد سینٹرل لندن کی تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے بند کر دی گئیں، لوگوں نے اپنی گاڑیاں سینٹرل لندن سے باہر کھڑی کیں اور پیدل دریائے ٹیمز کی طرف چلنے لگے، یہ ٹولیوں میں دریا کی طرف بڑھ رہے تھے، شہر کی گلیاں لوگوں کا سمندر محسوس ہوتی تھیں اور یہ سمندر سینٹرل لندن کی طرف بڑھتا جا رہا تھا، سینٹرل لندن میں سیکیورٹی کا خصوصی بندوبست اور پولیس کے دستے دکھائی دیتے تھے، رات دس بجے دریا کو جانے والے راستے لوگوں کے لیے بند کر دیے گئے، لاکھوں لوگ لندن آئی سے چند گز دور ٹھہرنے پر مجبور ہو گئے، ان کے راستے میں " کرائوڈ سیکیورٹی" کے لوگ کھڑے تھے اور کسی کو انھیں دھکا دینے یا انھیں کراس کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی، لندن کی انتظامیہ ایسے ہنگامی حالات میں مختلف پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کے کارکنوں کو ایک یا دو دن کے لیے طلب کر لیتی ہے، ان لوگوں کو " کرائوڈ سیکیورٹی" کی جیکٹس پہنا دی جاتی ہیں، یہ پولیس جیکٹ ہوتی ہے لیکن اس کی پشت پر کرائوڈ سیکیورٹی کے لفظ چھپے ہوتے ہیں، یہ لفظ ثابت کرتے ہیں یہ پولیس کے ریگولر سپاہی نہیں ہیں لیکن انھیں لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے عارضی اختیارات دے دیے گئے ہیں، مجھے ان میں درجنوں پاکستانی نوجوان ملے، یہ عمدہ بندوبست ہے، پاکستان میں بھی حکومت ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسا انتظام کر سکتی ہے، یہ جلسوں اور جلوسوں کے دوران پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کے کارکنوں کی مدد لے لے، یہ انھیں پولیس کی جیکٹ پہنا کر راستوں میں کھڑا کر دے، اس سے عام پولیس پر دبائو بھی کم ہو جائے گا اور ہجوم بھی کنٹرول ہو جائیں گے، لندن میں سیکیورٹی کے دس بارہ نوجوانوں کے پیچھے ریگولر پولیس کا ایک آدھ نوجوان کھڑا تھا اور یہ لوگ ہزاروں لوگوں کو کنٹرول کر رہے تھے، ہم دس بجے لندن آئی کے قریب پہنچے تو راستے بند ہو چکے تھے، ہم مایوس ہو کر واپس پلٹنے لگے لیکن سیکیورٹی میں موجود پاکستانیوں نے مجھے پہچان لیا چنانچہ انھوں نے ہماری انٹری کے لیے خصوصی اجازت لے لی اور یوں ہم لندن آئی تک پہنچ گئے۔

لندن آئی اور دریائے ٹیمز کے کناروں پر پانچ، دس لاکھ لوگ جمع تھے، یہ لوگ شراب بھی پی رہے تھے اور ہم ان شرابیوں کے درمیان کھڑے تھے لیکن مجال ہے کسی طرف سے کوئی دھکا پڑا ہو، کسی نے کسی کو چھیڑنے کی کوشش کی ہو یا کسی نے کسی کو تنگ کیا ہو، ہجوم میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور یہ بھی ان بدمست لوگوں کے عین درمیان کھڑے تھے لیکن انھیں بھی کسی قسم کا گزند نہیں پہنچا، دس لاکھ لوگوں کے اس مجمعے میں کسی نے کسی کے پائوں تک پر پائوں نہیں رکھا، لوگ نشے کی حد پار کرنے کے باوجود تہذیب کی حدود میں تھے اور ہم ان کے اس ڈسپلن پر ان کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکے، یہ پانچ دس لاکھ لوگ خوش بھی تھے، ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، ان کی آنکھوں میں مسرت کی چمک اور چہرے پر خوشی کا سرخ خون دوڑ رہا تھا، ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا نیا سال ان کے لیے واقعی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اس خزانے کی جستجو میں ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں آئے ہیں، مجمعے میں نوجوان بھی تھے، بوڑھے بھی اور انتہائی بوڑھے بھی، میں نے وہاں وہیل چیئر پر بابے اور مائیاں دیکھیں، یہ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے تھرک رہے تھے اور ان کے چہرے بھی خوشی سے دمک رہے تھے، نیو ائیر کی آتش بازی شروع ہوئی تو تمام لوگ بڑے انہماک سے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور آتش بازی کے ہر مظاہرے کی دل کھول کر داد دے رہے تھے، آتش بازی ختم ہوئی تو ہجوم تہذیب کے ساتھ منتشر ہونے لگا، کسی نے کسی پر بوتل نہیں پھینکی، کسی نے کسی کو گالی نہیں دی اور کوئی کسی سے الجھا نہیں، یہ لوگ خود بخود آہستہ آہستہ ٹیوب اسٹیشنوں کی طرف بڑھنے لگے۔

لندن کی انتظامیہ نے لوگوں کو گھروں تک پہنچانے کے لیے بسوں کی خصوصی سروس کا انتظام کیا تھا، یہ بسیں مفت تھیں اور پورے لندن کے لیے چل رہی تھیں، انڈر گرائونڈ ٹرین سروس بھی ساری رات جاری رہی، ہم نے واپسی میں ہجوم میں بچے بھی دیکھے، والدین بچوں کو " پرام" میں ڈال کر لے جا رہے تھے اور بچے ہجوم سے خوفزدہ تھے اور نہ ہی لوگ بچوں کو تنگ کر رہے تھے، لوگ نشے میں دھت تھے لیکن ایک دوسرے کے بازو سے بازو مس ہونے یا راستہ رکنے پر ایک دوسرے سے معذرت کرتے تھے اور آگے چل پڑتے تھے، راستے میں کافی شاپس، ریستوران، چھوٹی دکانیں، پیزا اور ڈسکو کھلے تھے اور ہجوم ان پر بھی کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کر رہا تھا، میں نے دس لاکھ لوگوں کے اس مجمعے میں کوئی بورڈ، کوئی اشارہ یا کوئی شیشہ ٹوٹتے نہیں دیکھا، چوری اور جیب تراشی کی واردات بھی نہیں ہوئی اور کسی کو دوسروں سے پٹتے بھی نہیں دیکھا، لوگ جس شائستگی کے ساتھ اکٹھے ہوئے تھے اسی ترتیب اور نظم کے ساتھ گھروں یا ڈسکوز میں چلے گئے اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد لندن آئی کا علاقہ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کوئی کبھی نہیں آیا ہاں البتہ سڑکوں پر ٹن، بوتلیں اور ریپر دکھائی دیتے تھے لیکن اتنے نہیں جتنے ہمارے ملک میں ہزار دو ہزار لوگوں کے مجمعے کے بعد جمع ہو جاتے ہیں، لوگوں نے راستے میں کوئی پھول، کوئی پودا تک نہیں توڑا، یہ برٹش کریکٹر ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کریکٹر دکھائی نہیں دیتا، ہماری حکومتوں میں ایسا کریکٹر پیدا کرنے کی اہلیت نہیں، کاش ملک کی ایک آدھ یونیورسٹی یا اس کے طالب علم یہ ذمے داری اٹھا لیں، یہ ہجوم کو ٹرینڈ کریں، یہ لوگوں کو بتائیں ہم سیم باسیل کی گستاخی کی سزا اپنے شیشوں، اپنے سگنلز اور اپنی پولیس کو دیتے ہیں اور اس سے ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے، کاش یہ بچے مجمعے کو ماحول صاف رکھنے کی ٹریننگ بھی دیں، ملک اسی سے ٹھیک ہو گا۔

ہمیں گوروں سے ہزاروں اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی خوش رہنے اور خوش رکھنے کی عادت ہے ہمیں اسے ماننا ہو گا یہ لوگ حقیقتاً خوشی کو سمجھتے ہیں جب کہ ہم لوگوں کو خود خوش ہونا آتا ہے اور نہ ہی ہم دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہیں، ہم نے زندگی کو قربان گاہ، کمرہ امتحان یا کانٹوں کا بستر بنا لیا ہے اور اس اپروچ کی وجہ سے ہماری زندگی زندگی نہیں رہی قید بامشقت بن گئی ہے، میں آج تک نہیں سمجھ سکا نئے سال کی تقریبات میں کیا خرابی ہے، ہم بسنت، جشن بہاراں، میلوں اور نمائشوں کے کیوں خلاف ہیں، یہ ٹھیک ہے تقریبات کو حد میں رہنا چاہیے، ہم مسلمان ہیں، ہم شراب نوشی اور ہلڑ بازی کی اجازت نہیں دے سکتے لیکن ہم اپنی معاشرتی حدود میں رہ کر بھی تو تقریبات منا سکتے ہیں، ہم ملک کے بڑے پارکس اور اسٹیڈیم میں نئے سال کی تقریب منائیں، ہم آتش بازی کا مظاہرہ کریں، کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے اسٹالز لگائیں، بچوں کے لیے جھولوں کا بندوبست کریں، بسنت کی حدود بھی طے کر دی جائیں، لوگوں کے گلے کاٹنے یا زخمی کرنے والی ڈور پر پابندی ہو، جو یہ پابندی توڑے اسے کڑی سزا دی جائے، پتنگ اڑانے کے دن طے کر دیے جائیں، پارکوں اور اسٹیڈیمز میں پتنگ بازی کی جائے، چھتوں پر پتنگ اڑانے پر پابندی لگا دی جائے، ملک بھر میں میلے بھی لگیں اور نمائشیں بھی ہوں تا کہ لوگوں کو سانس لینے کا موقع ملے، یہ خوش ہو سکیں۔

ہم کتنے عجیب لوگ ہیں، ہم نے ملک میں لوگوں کو سرے عام مارنے کی اجازت دے رکھی ہے، ہم روزانہ بیسیوں لاشیں اٹھاتے ہیں لیکن نئے سال اور بسنت پر پابندی ہے جب کہ پوری دنیا میں نیو ائیر نائٹ منائی جاتی ہے، ہم آج فیصلہ کر لیں ہم عقل مند ہیں یا پھر وہ لوگ، ہم اچھے ہیں یا پھر وہ لوگ جو خود بھی خوش ہو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی خوشی کا موقع دے رہے ہیں، ہم فیصلہ کر لیں ہم نے صرف لاشیں اٹھانی ہیں یا پھر ہم نے زندگی کو زندگی کی طرح گزارنا ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.