چوہدری محمد سرور کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قصبے پیر محل سے تھا، یہ آج سے 35سال قبل بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے برطانیہ چلے گئے، یہ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو آئے اور مزدوری شروع کر دی، یہ ٹرکوں اور بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے، یہ محنتی شخص ہیں، ان کا فوکس کلیئر تھا چنانچہ ان پر ترقی کے دروازے کھل گئے، یہ کیش اینڈ کیری کے مالک بن گئے، یہ اس وقت اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے خوش حال شہریوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، یہ 1990ء کے دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے، لیبر پارٹی جوائن کی، 1997ء میں پہلی بار گلاسکو کے علاقے گوان سے ہائوس آف کامنز کے رکن بنے اور اس کے بعد 2001ء اور2005ء میں دوسری اور تیسری بار ایم پی منتخب ہوگئے.
ان کا حلقہ خالصتاً گوروں پر مشتمل ہے، ان کے نوے فیصد ووٹروں کا تعلق گوری قوم سے ہے لیکن یہ لوگ 12 برسوں تک ایک ایشیائی باشندے کو ووٹ دیتے رہے، یہ چوہدری سرور کی کامیابی کی دلیل تھی، چوہدری سرور نے برطانیہ شفٹ ہونے کے بعد پاکستان سے رابطہ رکھا، یہ اپنے آبائی علاقے میں فلاح و بہبود کے بے شمار منصوبے چلا رہے ہیں، یہ پاکستان کی تقریباً تمام حکومتوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہے، یہ میاں نواز شریف کے مشیر بھی تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ان کا رابطہ تھا، یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی ملتے رہے اور ان کا چوہدری صاحبان سے بھی تعلق تھا، یہ ان تمام سیاستدانوں اور حکومتوں کو مشورے بھی دیتے رہے اور ان کی مدد بھی کرتے رہے، یہ تواتر کے ساتھ پاکستان آتے تھے اور اکثر اوقات اپنے ساتھ برطانوی ارکان پارلیمنٹ بھی لاتے تھے، میری ان سے صرف دو ملاقاتیں ہوئیں، میں 1999ء میں اسکاٹ لینڈ گیا اور گلاسکو میں ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کی.
ان سے دوسری ملاقات 2007ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہوئی، اس کے بعد ان سے رابطہ ٹوٹ گیا، آج کل اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں میاں نواز شریف نے چوہدری سرور کو گورنر پنجاب بنانے کا فیصلہ کر لیا، چوہدری صاحب کو گرین سگنل بھی دے دیا گیا جب کہ چوہدری صاحب نے اس عہدے کے لیے اپنی برطانوی شہریت چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیا، میرے چند دوست میاں نواز شریف کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے، ان میں جناب عطاء الحق قاسمی صاحب بھی شامل ہیں، قاسمی صاحب میرے استاد بھی ہیں اور پیر بھی، میں زندگی میں سیکڑوں ہزاروں لوگوں سے ملا ہوں لیکن مجھے ان میں قاسمی صاحب جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں ملا، امیر تیمور اپنے ایک استاد کے بارے میں کہتا تھا، مجھ سے اگر میری پوری سلطنت بھی چھن جائے تو بھی میرے لیے یہ کافی ہیں کیونکہ مجھے جتنی خوشی ان کے قرب میں ملتی ہے اتنی یہ ساری سلطنت نہیں دیتی، قاسمی صاحب بھی ایک ایسے ہی انسان ہیں، آپ اگر ان کے حلقے میں شامل ہیں تو پھر آپ کو خوشی کے لیے کسی دوسرے انسان کی ضرورت نہیں رہتی، قاسمی صاحب بھی میاں صاحب کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں لیکن میں قاسمی صاحب سے تمام تر عقیدت کے باوجود اس فیصلے کو سراہتا ہوں۔
چوہدری سرور جیسے لوگ دوسرے ملکوں کے شہری ہونے کے باوجود دل سے پاکستانی ہیں، برطانیہ جیسے ملکوں کی شہریت چھوڑنا، وہاں اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ دینا اور برطانیہ جیسے ملکوں کی سیاست چھوڑ کر ایک ایسے ملک میں آ جانا جس میں آپ کو جوانی میں روزگار، عزت اور ترقی کے مواقع نہ ملے ہوں اور جس میں ہر شخص آپ کی واپسی کو مشکوک نظروں سے بھی دیکھتا ہو اور آپ کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دینے کے بہانے بھی تلاش کرتا ہو اور جس میں آپ کے اپنے بھائی آپ کو تسلیم نہ کرتے ہوں، کتنا مشکل فیصلہ ہے، یہ اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس عمل سے گزر رہا ہو، چوہدری سرور جیسے لوگ حقیقتاً قابل عزت ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محنت کر کے ان معاشروں میں اپنا مقام بنایا جن میں آج بھی ایشیائی باشندوں کو دل سے قبول نہیں کیا جاتا، جن میں لوگ آپ کو آپ کے منہ پر پاکی یا بلیکی کہتے ہیں، یہ لوگ اس لیے بھی قابل عزت ہیں کہ یہ محنت اور ایمانداری سے اوپر آئے اور انھوں نے کامیابی کے بعد بھی اپنے علاقے، رشتے داروں، دوستوں اور ملک کو یاد رکھا، یہ لوگ اس لیے بھی قابل عزت ہیں کہ یہ محنت جدید ترین ملکوں میں کرتے ہیں۔
روپیہ پیسہ وہاں کماتے ہیں مگر اپنی رقم کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک بھجواتے ہیں، آج بھی ہمارے زرمبادلہ کا بڑا حصہ تارکین وطن کی رقوم ہیں، یہ لوگ اگر آج یہ رقم بھجوانا بند کر دیں تو ہماری مالی مشکلات میں اضافہ ہو جائے اور یہ لوگ اس لیے بھی قابل عزت ہیں کہ یہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں ترقی کی مثال بنے، آپ چوہدری سرور کی طرح بیسٹ وے کے مالک سر انور پرویز کی مثال لیں، یہ میٹرک پاس ہیں، یہ برطانیہ میں بس ڈرائیور بھرتی ہوئے مگر آج یہ برطانیہ کی دوسری بڑی کیش اینڈ کیری کے مالک ہیں، یہ پاکستان میں بھی بیسٹ وے سیمنٹ اور یو بی ایل کے مالک ہیں، ملکہ برطانیہ نے انھیں سر کا خطاب دیا، یہ بڑی اچیومنٹ ہے، اس اچیومنٹ کے بعدیہ اگر سائوتھ افریقہ، مراکش، ملائشیا یا ترکی میں سرمایہ کاری کرتے تو شاید ان کا سرمایہ زیادہ محفوظ رہتا اور یہ منافع بھی زیادہ کماتے مگر یہ پاکستان آئے اور انھوں نے یہاں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی، یہ پاکستان میں فائونڈیشن بھی چلا رہے ہیں، یہ فائونڈیشن ہزاروں طالب علموں اور بیماروں کے لیے کام کر رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے اگر برطانیہ انور پرویز کی کامیابی کو تسلیم کر رہا ہے، یہ ان کے لیے شاہی محل کے دروازے بھی کھول دیتا ہے اورسر کا خطاب بھی دیتا ہے تو ہم انھیں عزت کیوں نہیں دیتے، ہم انھیں کوئی ایسا عہدہ پیش کیوں نہیں کرتے جس پر بیٹھ کر یہ ملک کی رہنمائی بھی کریں اور ملک کا امیج بھی بہتر بنائیں، امریکا کے چوہدری رشید، کامران خان اور شاہد خان بھی ایسے ہی پاکستانی ہیں، چوہدری رشید شکاگو میں کاروبار کرتے ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں، کامران خان بھی کاروباری شخصیت ہیں جب کہ شاہد خان فوربس کی فہرست میں شامل ہونے والے پہلے امریکی پاکستانی ہیں، چوہدری رشید اور کامران خان امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن کے ذاتی دوست بھی ہیں اور یہ بل کلنٹن کو2000ء میں اس وقت پاکستان لائے جب امریکی صدر نے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھارت سے واپس جا رہا تھا مگر یہ لوگ بل کلنٹن کو پاکستان لے کر آئے اور امریکی صدر نے پاکستانی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا " میں نے اس وقت جو ٹائی پہن رکھی ہے۔
یہ میرے ان پاکستانی دوستوں نے گفٹ کی تھی" شاہد خان کی کامیابی نے بھی پوری دنیا کو حیران کر دیا، یہ گاڑیوں کے بمپر بنا رہے ہیں اور دنیا کی بڑی کار ساز اورٹرک ساز کمپنیاں ان کی خریدار ہیں، یہ اس قدر کامیاب بزنس مین ہیں کہ فوربس جیسے میگزین اور امریکی حکومت ان کی کامیابی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی، اگر بین الاقوامی میگزین اور حکومتیں ان لوگوں کو عزت دے رہی ہیں، یہ ان کی اچیومنٹس کا اعتراف کر رہی ہیں تو ہم اپنے ان لوگوں کو عزت کیوں نہیں دیتے جو اس ملک میں پیدا ہوئے، جو دھکے کھاتے ہوئے دوسری دنیائوں میں گئے اور وہاں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی کامیابی اور ترقی کے چشمے جاری کر دیے۔
آپ برطانیہ سے پیرس چلے جائیں، وہاں سے سعودی عرب اور دوبئی نکل جائیں اور وہاں سے جرمنی، اسپین، اٹلی، جاپان اور امریکا چلے جائیں آپ کو چوہدری سرور جیسے درجنوں ایسے پاکستانی ملیں گے جو ہمارے لیے اعزاز ہیں اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو کر خود کو پاکستانی کہلاتے ہوئے فخر محسوس کر تے ہیں، ہم نے کبھی سوچا انور پروز، چوہدری سرور، کامران خان، چوہدری رشید اور شاہد خان جیسے لوگ صرف دوسرے ملکوں میں کیوں ترقی کرتے ہیں، یہ پاکستان میں اس بلندی کو کیوں نہیں چھو پاتے؟ اس کی وجہ ہمارے رویئے ہیں، ہم لوگ ترقی کرنے والوں کے خلاف ہیں، ہم ایک خاص حد سے اوپر اٹھنے والے لوگوں کی ٹانگیں کاٹنا فرض سمجھتے ہیں چنانچہ آپ ملک کی پینسٹھ سال کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو اس ملک میں کوئی شخص دس روپے سے کھرب پتی ہوتا یا دکان سے بزنس ایمپائر کا مالک بنتا نظر نہیں آئے گا، پاکستانی سیٹھ بن جاتے ہیں لیکن بزنس ٹائن کون نہیں بن پاتے، کیوں؟ کیونکہ آپ جب ذاتی زندگی سے اٹھ کر اس لیول پر پہنچتے ہیں جہاں آپ ملک کو روزگار، کاروبار کے جدید ٹرینڈز اور نیا شعبہ دے سکتے ہیں تو پوری حکومتی مشینری اور پورا معاشرہ آپ کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں چوہدری سرور جیسے لوگوں کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اوریہ ریورس گیئر لگا دیتے ہیں، آپ اپنے مقابلے میں چین کو دیکھئے چین میں 2006ء میں کوئی ارب پتی نہیں تھالیکن آج وہاں 95 ارب پتی ہیں، یہ چینی سسٹم اور معاشرے کی کامیابی ہے۔
چوہدری سرور گورنر شپ کے لیے آئیڈیل ترین امیدوار ہیں اور میں میاں نواز شریف کے اس فیصلہ کو سراہتا ہوں کیونکہ یہ علامتی عہدہ ہے اور اس علامتی عہدے پر چوہدری سرورکی موجودگی سے ملک کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو گا اور تارکین وطن کی حوصلہ افزائی بھی، ہمارے گورنر ہائوسز میں ماضی میں ایسے ایسے لوگوں کا قبضہ رہا ہے کہ تاریخ کو بھی ان کا نام لکھتے ہوئے شرم آتی ہے، ہم نے ان میں سے کسی شخص کی تعیناتی پر اعتراض نہیں کیا تھا مگر ہمیں چوہدری سرور قابل قبول نہیں، کیوں؟ کیا چوہدری سرور غلام مصطفی کھر یا لطیف کھوسہ سے چھوٹے انسان ہیں؟ کیا ان کی ذات پر ان لوگوں سے زیادہ داغ ہیں؟ یقیناً نہیں، یہ پروفائل میں ان دونوں بلکہ اسی فیصد سابق گورنرز سے زیادہ معتبر ہیں لہٰذا پھر ہم ان پر اعتراض کیوں کر رہے ہیں، ہم اس شخص کو عزت کیوں نہیں دینا چاہتے جسے برطانیہ کا سسٹم بیس سال تک عزت دیتا رہا، جسے گوروں نے مان لیا؟ کیوں، آخر کیوں؟