قائد اعظم محمد علی جناح نے 1946ء کے الیکشن کے لیے ووٹ مانگنا شروع کیے، آپ نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا، قائداعظم انتخابی مہم کے سلسلے میں کراچی بھی آئے، کراچی شہر ان دنوں فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار تھا، مسلمان سنی اور شیعہ دو حصوں میں تقسیم تھے اور یہ دونوں کراچی کے ہندو سیٹھوں کی سازش کی وجہ سے غیر ضروری بحث میں الجھے ہوئے تھے، کراچی کے ہندو سیٹھ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے، سیٹھوں نے مسلمانوں پر سرمایہ کاری کی، مسلمان پہلے کانگریسی مسلمان اور لیگی مسلمانوں میں تقسیم ہوئے اور پھر شیعہ اور سنی کی تفریق شروع ہو گئی۔
قائداعظم ان دنوں کراچی آئے اور مسلمانوں سے آل انڈیا مسلم لیگ کو سپورٹ کرنے کی اپیل کرنے لگے، مسلم لیگ کی ایک کھلی میٹنگ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور قائداعظم سے کہا " ہم آپ کو ووٹ نہیں دیں گے" قائداعظم نے پوچھا "کیوں؟ " وہ بولے " آپ شیعہ ہیں اور ہم سنی، ہم کسی شیعہ کو ووٹ نہیں دیں گے" قائداعظم ایک لمحے کے لیے مسکرائے اور اس کے بعد فرمایا " آپ پھر یقیناً گاندھی کو ووٹ دیں گے، کیا گاندھی سنی ہیں؟ " یہ بات سن کر حاضرین ہنس پڑے جب کہ وہ صاحب شرمندہ ہو گئے، قائداعظم شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، دشمن تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی کردار کشی کے لیے دوسرے الزامات کے ساتھ ساتھ ان کے مسلک کا مسئلہ بھی اٹھاتے رہتے تھے، قائداعظم ان الزامات پر ہنس پڑتے تھے کیونکہ وہ خود کو صرف مسلمان کہتے تھے، وہ تفرقہ بازی اور مذہبی تقسیم کو مسلمانوں کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے مگر قائداعظم کو کیا معلوم تھا ان کے بنائے ہوئے ملک میں ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب یہ زہر ملک کی تمام رگوں میں پھیل جائے گا، لوگ صرف مسلک کی بنیاد پر دوسروں کے گلے کاٹیں گے۔
آپ اگر سنی والدین کے گھر پیدا ہو گئے ہیں یا آپ کے والدین اہل تشیع ہیں تو آپ نام اور شناختی کارڈ کی بنیاد پر قاتل یا مقتول بن جائیں گے، ہم آج کے پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ملک ملک کم اور جنگل زیادہ دکھائی دیتا ہے، ایک ایسا جنگل جس میں آپ کی پیدائش یہ طے کرتی ہے آپ شکاری ہوں گے یا شکار۔ آپ شیر کی کھچار میں پیدا ہو گئے تو آپ جنگل کے بادشاہ ہیں اور آپ اگر ہرن ہیں تو پھر آپ بادشاہ سلامت کا نوالہ بنیں گے خواہ آپ کچھ بھی کر لیں، خواہ آپ جس قانون کا چاہیں سہارا لے لیں، دنیا کے کسی معاشرے، کسی ملک میں جب پیدائش انسان کا مستقبل طے کرنے لگے، یہ آپ کو مظلوم یا ظالم بنانے لگے اور آپ کا شناختی کارڈ یا نام آپ کی زندگی یا موت کا ضامن ہو جائے تو پھر اس ملک یا اس معاشرے کو معاشرہ یا ملک کہلانے کا حق نہیں رہتا اور ہم اس فیز میں داخل ہو چکے ہیں جس میں شیعہ پر صرف پیدائش کی وجہ سے کافر اور سنی پر صرف سنی ہونے کی وجہ سے قاتل کا الزام لگ جاتا ہے، جس میں چند تنگ نظر اور نام نہاد علماء کرام کی کتابیں اور تقریریں انسانیت، جذبات، قانون اور آئین کی جگہ لے چکی ہیں، جس میں کوئی نامعلوم شخص عالم کے بھیس میں نامعقول بات کرتا ہے اور پورے ملک میں آگ لگ جاتی ہے، جس میں کوئی ایسا ناعاقبت اندیش شخص جس کے پاس کسی سکہ بند مدرسے کی سند تک نہیں ہوتی وہ اپنے نام کے ساتھ مولانا، مفتی یا علامہ کا لاحقہ لگا کر کوئی زہریلی بات کر دیتا ہے اور ملک نفرت کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔
یہ کتابیں کون لکھ رہا ہے، یہ شایع کہاں ہو رہی ہیں اور کیا ان پر کسی فرقے کے علماء کرام کو اتفاق بھی ہے؟ ہم لوگ یہ تحقیق کیے بغیر نفرت کا کاروبار شروع کر دیتے ہیں اور اسی طرح جو صاحب یہ سب کچھ فرما رہے ہیں کیا ان کی کوئی فقہی اور علمی حیثیت بھی ہے؟ ہم یہ دیکھنا اور سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے، صرف کسی شخص کے نام کے ساتھ فاروقی، صدیقی یا عثمانی اور دوسری طرف نقوی، شیرازی اور حسینی کافی ہو تا ہے، کیا یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کا گلہ کاٹیں، ایک دوسرے کی مسجدوں اور امام بارگاہوں کی بے حرمتی کریں اور (نعوذ باللہ) قرآن مجید کو آگ لگا دیں، اگر یہ آزادی ہے تو پھر غلامی ہی ٹھیک تھی، ہم کم از کم اس غلامی میں ایک تو تھے، ہم سنی اور شیعہ کے بجائے مسلمان تو تھے۔
قوم نے 15 نومبر کو ٹیلی ویژن پرراولپنڈی کا سانحہ دیکھا تو اس کا سر شرم سے جھک گیا، جس ملک میں محرم اور ربیع الاول کے مہینے فوج کے بغیر نہ گزارے جا سکیں یا لوگوں کو جس ملک میں عبادت کے لیے رائفل کی ضرورت پڑ جائے، کیا اس ملک کے ٹوٹنے میں کوئی کسر رہ جاتی ہے؟ ہماری ریاست اگر دس محرم کے جلوس اور بارہ ربیع الاول کے اجتماعات کی حفاظت نہیں کر سکتی تو یہ امریکی، روسی اور بھارتی یلغار کیسے روکے گی؟ یہ طالبان کا مقابلہ کیسے کرے گی، کیا ہمیں مسجدوں اور امام بارگاہوں کو بچانے کے لیے بھی ڈرونز کی مدد لینا ہوگی، کیا ہمیں اس کے لیے بھی سی آئی اے اور پینٹا گان کی سپورٹ درکار ہو گی؟ خدا کی پناہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں درجن بھر افراد قتل کردیے گئے، ڈیڑھ سو دکانوں کو آگ لگا دی گئی، قرآن مجیدکے نسخے جل گئے، اور ریاست منہ دیکھتی رہ گئی، ریاست ہجوم کو قابو کر سکی اور نہ ہی حملہ آور کو روک سکی۔
حملہ آوروں نے پولیس کی رائفلیں چھین لیں، کیا ہماری پولیس اس قدر کمزور ہے اور جو پولیس اپنی رائفلوں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ عام شہریوں کا خاک تحفظ کرے گی، حکومت مذہبی اشتعال روکنے کے لیے کرفیو لگانے پر مجبور ہو گئی، راولپنڈی کے شہری تین دن تک گھروں میں محصور رہے، چوتھے دن کرفیو اٹھایا گیا تو ہزاروں لوگ مسجد کے گرد جمع ہو گئے، فوج واپس آ گئی، کیا فوج کا یہ کام ہے؟ اور یہ فوج کب تک ہماری مسجدوں کی حفاظت کرے گی، ہمیں ماننا پڑے گا، اسلام کے نام پر بننے والا ملک آج اسلام ہی کے نام پرٹوٹ رہا ہے، ہم نے یہ ملک مذہبی آزادی کے لیے بنایا تھا لیکن آج ہمیں یہ ملک بچانے کے لیے مذہب اور آزادی دونوں کو پابند کرنا ہو گا، ہمیں مذہب کی حدود کا تعین بھی کرنا ہوگا اور ان حدوں کو نافذ بھی کرنا ہو گا، ریاست کو فوراً چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، ملک سے تمام متنازعہ کتابیں جمع کر لی جائیں، یہ کتابیں لائبریریوں تک سے اٹھا لی جائیں اور اس کے بعد ان کتابوں کی اشاعت، ان کا حوالہ دینا اور ان کی کاپی رکھنا سنگین جرم قرار دے دیا جائے اور جو شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا جائے۔
ملک میں دس سال کے لیے مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی جائے، کوئی مذہبی جلسہ ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی جلوس یا ریلی نکلنی چاہیے، مذہب سے متعلق تمام رسومات عبادت گاہوں کے اندر ادا کی جائیں، لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگا دی جائے، کوئی شخص لاؤڈ اسپیکر پر تقریر کر سکے گا اور نہ ہی خطبہ دے سکے، شہر کی تمام مساجد کے لیے اذان اور نماز کے اوقات طے کر دیے جائیں، شہر کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت پر اذان ہو تاہم نمازوں میں پانچ دس منٹ کا فرق رکھ دیا جائے تا کہ لوگوں کو سہولت ہو سکے، علماء کرام کی تقریروں کی کیسٹیں اور سی ڈیز پر بھی پابندی لگا دی جائے، آج سے بیس سال قبل اسپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کے اہلکار مسجدوں اور امام بارگاہوں پر نظر رکھتے تھے، حکومت یہ بندوبست دوبارہ شروع کر دے، حکومت کو ایسے نام رکھنے پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے جن سے کسی کے مسلک کا اندازہ ہوتا ہو، کون سنی ہے، کون شیعہ، کون بریلوی، کون وہابی اور کون دیوبندی اس کا اندازہ نام سے نہیں ہونا چاہیے، چھتوں پر مسالک کے جھنڈے لہرانے پر بھی پابندی لگا دی جائے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے اس کے لیے سخت سزا تجویز کی جائے۔
مذہبی رہنما اور مدارس کے طلباء گاؤن اور پگڑی استعمال کر سکیں لیکن گاؤن اور پگڑی کا رنگ پورے ملک میں ایک ہونا چاہیے، پگڑی اور گاؤن سے کسی کے فرقے یا مسلک کا اندازہ نہیں ہونا چاہیے اور کسی مسجد یا مدرسے کا گیٹ بند نہیں ہوگا، ملک کے زیادہ تر مدارس اور مساجد کے سامنے بھاری بھرکم گیٹ لگے ہیں، یہ گیٹ سیکیورٹی کے نام پر بند رہتے ہیں، ان گیٹس کے دوسری طرف کیا ہو رہا ہے؟ وہاں کون کون لوگ موجود ہیں اور وہ کیا کر رہے ہیں، ریاست جانتی ہے اور نہ ہی اردگرد کے لوگ۔ یہ سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے، مدارس کی نصابی کتابیں بھی حکومت کی سرپرستی میں شایع ہونی چاہئیں، مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے، ریاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، مساجد اور امام بارگاہوں کے اندر قائم چھوٹے مدارس کو بھی سسٹم کے اندر لایا جائے، مسجد کے مدرسے کا باقاعدہ بورڈ ہو اور اس بورڈ میں دوسرے فرقوں کے لوگ بھی شامل ہوں اور ملک کی تمام مساجد اور امام بارگاہوں کو فوری طور پر رجسٹر کیا جائے اور حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بن سکے اور نہ ہی امام بارگاہ اور نہ ہی کسی عبادت گاہ میں حکومت کی اجازت کے بغیر امام، خطیب یا مؤذن مقرر ہو سکے، ہمارے ملک میں کسی بھی جگہ کوئی بھی عبادت گاہ بنا دی جاتی ہے اور ریاست کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔
یہ فیصلے انتہائی کٹھن بلکہ مشکل ہیں لیکن ہمیں یہ فیصلے کرنا ہوں گے، ہم نے اگر ان میں دیر کر دی تو پھر ہم یہ فیصلے کرنا بھی چاہیں گے تو بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ آگ ماچس کی تیلی یا موم بتی کے دھاگے تک ہو تو اسے ایک پھونک یا دامن کے ایک پلو سے بجھایا جا سکتا ہے لیکن یہ جب ماچس کی تیلی اور موم بتی کے دھاگے سے نکل جائے، یہ بھانبڑ بن جائے تو پھر سارا شہر مل کر بھی یہ آگ نہیں بجھا سکتا اور ہم ماچس کی جلتی ہوئی تیلی اور بھوسے کے ڈھیر کے درمیان کھڑے ہیں، ہم نے اگر اب بھی تیلی نہ بجھائی تو پھر ہمیں جلنے اور جل جل کر مرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا، ہم برباد ہو جائیں گے۔