ہنزہ کی زیادہ تر آبادی اسماعیلی ہے، پرنس کریم آغا خان ان کے روحانی پیشوا ہیں لہٰذا یہاں آغا خان فاؤنڈیشن نے بے شمار ترقیاتی کام کیے، فاؤنڈیشن نے 35 برس قبل علاقے کی خواتین کو خودمختار بنانا شروع کیا، دیہات میں"کمیٹی سسٹم" شروع ہوا، خواتین ہر ہفتے پانچ پانچ روپے جمع کرتیں، یہ رقم کسی ایک خاتون کو دے دی جاتی اور وہ اس سے اچار، چٹنیاں اور مربعوں کا کاروبار شروع کر لیتی، یہ کوشش کامیاب ہوگئی۔
کامیاب خواتین کو آغا خان فاؤنڈیشن نے بلاسود قرضے دینا شروع کر دیے، یہ قرض دو شرائط پر دیے جاتے تھے، ایک، مقروض شخص یہ قرضہ قسطوں میں واپس کرے گا، دو، قرضہ ادا ہونے کے بعد یہ شخص منافع کا ایک حصہ اس فنڈ میں جمع کرائے گا جس سے ضرورت مندوں کو قرضے دیے جاتے ہیں، یہ اسکیم بھی کامیاب ہوگئی اور یوں لوگ خوشحال ہو گئے، ہنزہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں کوئی شخص غریب نہیں، علاقے کا ہر خاندان، ہر گھرانہ خوشحال ہے، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی یہ ملک کا واحد حصہ ہے جس میں کوئی گداگر، کوئی فقیر نہیں، یہاں آپ کے سامنے کوئی ہاتھ نہیں پھیلاتا۔
علاقے کی بے شمار روایات قابل تقلید ہیں، مثلاً یہ لوگ اپنی کمیونٹی کو روزانہ وقت دیتے ہیں، یہ روایت "نذرانہ"کہلاتی ہے، نذرانہ وقت اور علم کا "کمبی نیشن"ہے، کامیاب لوگ روز چند منٹ نکال کر دوسروں کو اپنے علم، اپنے ہنر اور اپنے تجربات سے مستفید کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے بچوں کو روزانہ جماعت خانہ بھی بھجواتے ہیں، جماعت خانے میں بچوں کو ہاتھ دھونے، کنگھی کرنے، دوسروں کو دیکھ کر مسکرانے، بات کرنے اور کام کی اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں، یہ لوگ تعلیم کو بہت فوقیت دیتے ہیں، فاؤنڈیشن نے پورے علاقے میں شاندار اسکول بنا رکھے ہیں، یہ تمام اسکول "انگلش میڈیم"ہیں، بچوں کو بینچوں پر بٹھا کر عزت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔
فاؤنڈیشن اساتذہ کو باقاعدہ ٹریننگ دیتی ہے، استاد سال سال ٹریننگ لیتے ہیں، بچیوں کی تعلیم لازمی ہے، کوئی اسماعیلی اپنی بچی کو تعلیم نہ دے یہ ممکن ہی نہیں، ہنزہ کی تمام بچیاں تعلیم یافتہ ہیں، یہ ہنر مند بھی ہیں اور ان کی انگریزی کا لیول بھی بہت اونچا ہے، میں نے جتنا اعتماد اور بے خوفی ہنزہ کی خواتین میں دیکھی اتنی ملک کے کسی دوسرے حصے میں نظر نہیں آئی، ہنزہ کی خواتین دن ہو یا رات بے خوفی سے پھرتی ہیں، میں نے کسی عورت کے چہرے پر بے اعتمادی، احساس کمتری یا خوف نہیں دیکھا، یہ مشاہدہ حیران کن تھا، ہنزہ میں شرح خواندگی 97 فیصد ہے۔
بچے ایف اے، ایف ایس سی کے بعد فاؤنڈیشن کے اسکالر شپ پر تعلیم کے لیے بڑے شہروں میں جاتے ہیں، ان میں سے بے شمار نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھی جاتے ہیں لیکن یہ ڈگری کے بعد اپنے ملک میں واپس ضرور آتے ہیں، یہ گلگت کی قراقرم یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں یا پھر پانچ دس سال اپنی کمیونٹی کے لیے کام کرتے ہیں، ہنزہ کے نوجوان بہت محنتی اور اسمارٹ ہیں، یہ لوگ لباس پہننے اور لوگوں سے میل ملاقات کے ایکسپرٹ ہیں، یہ آپ کو دیکھ کر مسکرائیں گے، آپ کو بلاوجہ ڈسٹرب نہیں کریں گے، آپ ان سے ایڈریس پوچھیں گے تو یہ آپ کی باقاعدہ رہنمائی کریں گے، یہ وعدہ بھی پورا کریں گے، آپ نے ڈرائیور کو آٹھ بجے کا وقت دیا ہے تو یہ ٹھیک آٹھ بجے آپ کے دروازے پر ہوگا۔
ہنزہ کے لوگ اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن سمیع کی بہت تعریف کر رہے تھے، پتہ چلا، یہ لوگوں کو اپنے دفتر نہیں بلاتے بلکہ خود ان کے پاس چلے جاتے ہیں، انھوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ہوٹلوں، ریستورانوں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی طے کر دیے ہیں، یہ کرائے نامے تمام ہوٹلوں اور ریستورانوں میں آویزاں ہیں، ٹرانسپورٹ کے ریٹس بھی گاڑیوں اور جیپوں کی اسکرینوں پر چپکا دیے گئے ہیں، مالکان اس دستاویز کا احترام کرتے ہیں، یہ اضافی کرایہ وصول نہیں کرتے، ہنزہ صرف شہر نہیں، یہ ایک لت ہے، ہنزہ کے لوگ بڑے شہروں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں گھر بناتے اور کاروبار کرتے ہیں لیکن یہ اپنا آبائی گاؤں اور گھر نہیں چھوڑتے۔
یہ سال میں چند دن ہنزہ میں ضرور گزارتے ہیں، مجھے یہاں فرحت اللہ بیگ بھی ملے، یہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں لیکن یہ ہنزہ میں ایمبیسی ہوٹل کے نام سے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی "چین" چلا رہے ہیں، کریم آباد میں ان کا بہت خوبصورت ہوٹل ہے، مجھے اس ہوٹل کے ٹیرس پر کھانا کھانے کا موقع ملا، وہ کمال جگہ اور کمال وقت تھا، بیگ صاحب بہت اچھے انسان ہیں، یہ تمام خوبیاں اپنی جگہ لیکن ہنزہ چند مسائل کا شکار بھی ہے، یہ تمام مسائل حکومت کی تھوڑی سی توجہ سے حل ہو سکتے ہیں مثلاً ہنزہ بجلی کے شدید بحران میں مبتلا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے پانی کی بہت بڑی نعمت سے نواز رکھا ہے مگر اس کے باوجود یہاں بجلی نہیں، پورا شہر جنریٹرز پر چل رہا ہے، آپ کسی طرف نکل جائیں آپ جنریٹر کا شور سنیں گے "ایگل نیسٹ"میں بھی 24 گھنٹے جنریٹر کی "ٹھک ٹھک اور ٹھررٹھرر"کی آوازیں آتی رہتی تھیں، یہ آوازیں سیاحوں کی جمالیاتی حسوں کو زخمی کرتی رہتی ہیں، حکومت اگر معمولی سی توجہ دے دے، یہ ہنزہ کے لیے بجلی کا الگ بندوبست کر دے، یہ ہنزہ کے پانیوں سے ہنزہ کے لوگوں کے لیے بجلی بنانا شروع کر دے تو لوگ بھی دعائیں دیں گے اور سیاح بھی سکھ کا سانس لیں گے، ہنزہ کے دیہات میں سڑکوں کی حالت بھی اچھی نہیں۔
"ایگل نیسٹ"ہنزہ کے لیے "ایفل ٹاور"کی حیثیت رکھتا ہے، ہنزہ آنے والا ہر شخص ایگل نیسٹ ضرور جاتا ہے لیکن اس کی سڑک کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے، چڑھائی زیادہ ہے، سڑک چھوٹی ہے، موڑ خطرناک ہیں، حکومت چند کروڑ روپے خرچ کرکے سڑک کھلی کر سکتی ہے، سڑک کی مرمت کے لیے بھی سالانہ بجٹ مختص ہونا چاہیے، حکومت خواہ ٹول ٹیکس طے کر دے لیکن سڑک کی مرمت اور وسعت دونوں ضروری ہیں، سست اور خنجراب روڈ پر واش رومز، چائے خانے اور کچرے کی صفائی کا بندوبست نہیں، حکومت اس پر بھی توجہ دے، آپ یہ ذمے داری بارڈر سیکیورٹی فورس کو بھی سونپ سکتے ہیں۔
گلگت بلتستان کبھی غیر ملکی سیاحوں کا سیاحتی "ویٹی کن"ہوتا تھا، گلگت میں مقامی لوگ کم اور غیر ملکی زیادہ نظر آتے تھے، نائین الیون کے بعد غیر ملکی سیاح غائب ہوگئے ہیں، اگر اب کوئی مقدر کا مارا انگریز ادھر آ نکلتا ہے تو ہمارے خفیہ ادارے اس کی مت مار دیتے ہیں، اسے جگہ جگہ روکا اور ذلیل کیا جاتا ہے چنانچہ وہ بھی واپس چلا جاتا ہے، حکومت کو اس معاملے میں بھی کوئی واضح پالیسی بنانی چاہیے، آپ سیاح سے تمام معلومات اسلام آباد میں لے لیں اور پھر اسے کوئی شخص تنگ نہ کرے، گلگت کے لیے فلائیٹس کم ہیں، یہ فلائیٹس بھی سیاحتی دنوں میں بڑھا دی جائیں۔
پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی چھوٹے جہاز چلانے کی اجازت دے دی جائے، ملک میں پچھلے چند برسوں میں سیاحت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، اس کی تین وجوہات ہیں، ملک میں دہشت گردی میں کمی آئی، لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو سیروسیاحت کی ترغیب دی، لوگ فیس بک کا "اسٹیٹس"دیکھ کر بھی شمالی علاقہ جات کی طرف نکل رہے ہیں، یہ رش عید کے دنوں میں اژدہام بن جاتا ہے، سڑکیں بند ہو جاتی ہیں، ہوٹلوں میں کمرے نہیں ملتے اور خوراک کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔
حکومت کو اس "ٹرینڈ"پر بھی نظر رکھنی چاہیے، یہ ملک میں"سیاحتی اتھارٹی"بنائے، یہ اتھارٹی سیاحتی زون قائم کرے، یہ ہوٹل ڈیزائن کرے، انفرااسٹرکچر پر رقم خرچ کرے، ہوٹلوں، ریستورانوں اور ٹرانسپورٹ کے لیے قرضے دے اور سیاحتی ویب سائیٹس بنوائے، یہ اقدامات سیاحت، انڈسٹری اور ملک کے امیج تینوں کے لیے بہتر ہوں گے، آپ فرض کیجیے ہنزہ میں 40 ہوٹل ہیں، ٹوٹل کمرے 400 ہیں اور فرض کر لیجیے ان کمروں میں کل ہزار بیڈز ہیں، حکومت ہنزہ کی ویب سائیٹ بنائے اور یہ بیڈز، یہ کمرے اور یہ ہوٹل ویب سائیٹ پر چڑھا دے۔
ٹرانسپورٹ بھی ویب سائیٹ پر دے دی جائے اور سڑکوں اور موسم کی صورتحال بھی، سیاح تمام بکنگز ویب سائیٹ پر کریں، اس سے سیاح، خاندان اور ہوٹل انتظامیہ بھی پریشانی سے بچ جائے گی اور حکومت بھی لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے گی، یہ پریکٹس دنیا کے بے شمار ممالک میں ہو رہی ہے، ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہم شاید ملک میں کوئی اچھا کام کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ نہیں ٹھہریئے!ہم شاید سرے سے کام ہی نہیں کرنا چاہتے چنانچہ اسلام آباد ہو یا ہنزہ پورا ملک حکومت کا منتظر ہے، ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔