Sunday, 24 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Imran Khan, Thori Si Isteqamat, Thora Sa Sabr

    Imran Khan, Thori Si Isteqamat, Thora Sa Sabr

    ہمیں عمران خان کی سیاست سمجھنے کے لیے سوات ایشو کا تجزیہ کرنا ہوگا، سوات پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، یہ خطہ سیاحتی صنعت بھی ہے۔ سوات سے ہیرے سے لے کر ماربل تک دنیا کے قیمتی ترین پتھر نکلتے ہیں، یہاں تانبے، سونے اور لوہے کی کانیں بھی ہیں، سوات کے لوگ پرامن اور انسان دوست تھے لیکن پھر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح سوات کا سرکاری سسٹم بھی آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگا، تھانے اور عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو گئیں، گیس کا محکمہ لوگوں کو گیس نہیں دیتا تھا، واپڈا کے دفاتر بجلی فراہم نہیں کرتے تھے اور ٹیلی فون لگانے والے ٹیلی فون نہیں دیتے تھے، کچہریوں میں انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا اور لوگوں کو اسکولوں میں تعلیم اور اسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتی تھیں۔

    لوگ اس سسٹم کی شکایت لے کر سیاستدانوں کے پاس جاتے تھے تو وہاں جا کر معلوم ہوتا تھا اس نظام کی خرابی کے اصل ذمے دار یہ لوگ ہیں، یہ لوگ اپنی مرضی کا ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور ڈی پی او تعینات کراتے ہیں، شہر کا ڈی پی او، اسپتال کے ڈاکٹر، اسکول کے استاد، ٹیلی فون، گیس اور بجلی کے اعلیٰ افسر، سڑک بنانے والے محکمے کے انجینئر اور چھوٹی عدالتوں کے جج یہ تمام اہلکار ان سیاستدانوں کی مرضی سے تعینات ہوتے ہیں چنانچہ علاقے کے سیاستدان افسروں کی تمام تر نااہلی، ظلم اور زیادتی کے ذمے دار ہیں، یہ اس برے نظام کے محافظ ہیں، عوام الیکشنوں کا انتظار کرتے تھے، یہ سوچتے تھے یہ الیکشن میں اپنا نمایندہ بدل دیں گے مگر الیکشن سے قبل ان کا ایم این اے اور ایم پی اے چھلانگ لگا کر اس پارٹی میں چلا جاتا تھا جس نے اگلی بار حکومت بنانی ہوتی تھی، یوں پارٹی بدل جاتی تھی، حکومت بھی تبدیلی ہو جاتی تھی مگر ایم این اے اور ایم پی اے وہی رہتا تھا اور اس کے تعینات شدہ افسر بھی اپنی اپنی کرسی پر قائم رہتے تھے لہٰذا علاقے کے ایشو وہیں کے وہیں رہ جاتے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا، پرانے سیاستدان پارٹی تبدیل نہ کر پاتے تو بھی ان کے نئے ایم این اے اور ایم پی اے کے ساتھ رشتے داری ہوتی یا پھر یہ ایک ہی برادری کے لوگ ہوتے چنانچہ یہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے اور یوں ظلم کا سلسلہ جاری اور ساری رہتا، اس صورتحال کا فائدہ طالبان نے اٹھایا۔

    انھوں نے گلی محلے میں انصاف کی عوامی عدالتیں لگائیں، پولیس، سول انتظامیہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی گوشمالی کی، جرائم پیشہ لوگوں سے نبٹنا شروع کیا اور یوں عام لوگ انھیں قبول کرتے چلے گئے، یہاں تک کہ پورے سوات ڈویژن میں ریاست کی رٹ ختم ہو گئی اور ریاست کو یہ رٹ دوبارہ اسٹیبلش کرنے کے لیے فوجی آپریشن کرنا پڑ گیا، ہمیں ماننا ہوگا اگر ہم پر عالمی برادری کا دبائو نہ ہوتا، اگر امریکا اور یورپ ہمیں سپورٹ نہ کرتا تو ہم نے سوات میں فوجی آپریشن نہیں کرنا تھا اور بقول مولانا فضل الرحمن طالبان اس وقت تک اسلام آباد پر قابض ہو چکے ہوتے، کیوں؟ کیونکہ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا یہ سسٹم نہیں چل رہا، اس سسٹم میں اب ملک کو چلانے کی اہلیت اور طاقت نہیں اور جب کوئی گھر زیادہ عرصے کے لیے خالی رہ جائے تو اس پر قبضہ ہو جاتا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی ناپسندیدہ مالک پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سسٹم خالی اور کھوکھلا ہو چکا ہے اور ہم اب اسے زیادہ عرصے تک بچا کر نہیں رکھ سکیں گے۔

    عمران خان نے بھی اس نظام کے خالی اور کھوکھلے پن سے جنم لیا، عمران خان نوے کی دہائی تک محض ایک کھلاڑی تھا، اس کی واحد اچیومنٹ ورلڈ کپ تھا، دنیا میں اس سے بڑے کھلاڑی اور کرکٹر موجود تھے اور ہم اگر عمران خان کو نوے کی دہائی کے ان کرکٹرز کے درمیان کھڑا کرتے تو یہ شاید دسویں یا بارہویں نمبر پر آتا، شوکت خانم اس کا دوسرا کارنامہ تھا مگر ہم اس کارنامے کی بنیاد پر بھی اسے پاکستان کا چہرہ قرار نہیں دے سکتے تھے کیونکہ شوکت خانم بنانے کے باوجود یہ اس عبدالستار ایدھی کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا جس نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا کر پورے گلوب کو حیران کر دیا، دنیا میں گیارہ سو ایسے منصوبے ہیں جو شوکت خانم سے بڑے تھے اور لوگ ان منصوبوں کے خالقوں کے ہاتھ چومتے ہیں، عمران خان پھر 25اپریل 1996ء کو سیاست میں آ گیا، اس نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے چھوٹی سی سیاسی جماعت بنائی۔

    یہ جماعت عمران خان کی شخصیت اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی وجہ سے میڈیا میں مقبول ہو گئی مگر یہ 2010ء تک عوام میں مذاق بنی رہی، لوگ عمران خان اور اس کی جماعت پر ہنستے تھے، میں عمران خان سے ہمیشہ یہ کہتا تھا "خان صاحب آپ خود کو سیاست میں ضایع کر رہے ہیں، آپ فلاحی کام کریں، لوگ آپ کو سیکڑوں سال تک یاد رکھیں گے" مگر عمران خان کہتا تھا " تم دیکھنا ایک وقت آئے گا جب اس ملک میں صرف ایک جماعت ہو گی اور اس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہو گا" ہم لوگ اس دعوے کو دیوانے کا خواب کہتے تھے مگر عمران خان کا سیاسی بیج آہستہ آہستہ جڑ پکڑنے لگا، اس کی کونپلیں نکلنے لگیں اور آج ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے عمران خان ملک کا بڑا لیڈر بن چکا ہے اور پاکستان تحریک انصاف ملک کی دوسری یا تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور یہ اب وکٹری اسٹینڈ سے زیادہ دور نہیں، اب سوال یہ ہے وہ کون سی طاقت تھی جس نے ایک کھلاڑی، ایک کرکٹر کو ملک کی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت بنا دیا، وہ طاقت اس نظام کی وہ کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے سوات پر قبضہ کر لیا تھا۔

    ملک کے عام لوگ جس طرح اس ظالمانہ نظام کے خلاف ہیں، یہ اسی طرح سیاست کے روایتی کھیل کے خلاف بھی اُبل رہے ہیں، لوگ اب خاندانی سیاست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کو کیوں منتقل ہو جاتی ہے؟ یہ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کوکیوں مل جاتی ہے اور مخدوم امین فہیم، یوسف رضا گیلانی، سید خورشید شاہ اور جہانگیر بدر جیسے بزرگ اور کہنہ مشق سیاستدان بیس سال کے ناپختہ بلاول کو اپنا لیڈر کیوں مان لیتے ہیں؟ یہ سوچتے ہیں میاں نواز شریف کے نائب میاں شہباز شریف اور ان کے وارث حمزہ شہباز کیوں ہوتے ہیں؟ پارٹی کے سارے عہدے خاندان کے چند لوگوں تک محدود کیوں ہیں اور اگر آرمی چیف بھی بنانا ہو تو میاں صاحب پوری فوج سے صرف بٹ جرنیل کیوں منتخب کرتے ہیں؟

    لوگ یہ بھی سوچتے ہیں، ہماری روایتی سیاست کو جب ضرورت پڑتی ہے تو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بھائی بھائی بن جاتے ہیں اور جب ضرورت نہیں رہتی تو یہ " میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا" اور زر بابا چالیس چور ہو جاتے ہیں، جب ضرورت ہوتی ہے زرداری صاحب قاتل لیگ کے لیے اپنی باہیں کھول دیتے ہیں اور میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کو یونی فکیشن اور ہم خیال بنا کر اپنی میز پر بٹھا لیتے ہیں اور جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو یہ دونوں کو چوسی ہوئی گنڈیری کی طرح پھینک دیتے ہیں، پنجاب میں یونی فکیشن بلاک کے 43 ارکان نے پانچ سال تک پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو سہارا دیے رکھا، پارٹی انھیں پانچ سال تک ٹکٹ کا لارا دیتی رہی مگر الیکشن کے قریب پہنچ کر یونی فکیشن بلاک کے چالیس ارکان کو دہلیز سے نیچے دھکیل دیا گیا، ہمایوں اختر پاکستان مسلم لیگ ن کی منشور کمیٹی کا حصہ تھے، انھوں نے ن لیگ کی اقتصادی پالیسی بھی بنائی لیکن عین وقت میں انھیں جھنڈی کرا دی گئی، پاکستان مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف پانچ سال تک اقتدار کی سیاست کا جھنڈا لہراتے رہے لیکن الیکشن کا وقت آیا تو انھوں نے لوٹوں کے لیے سارے دروازے کھول دیے، انھوں نے اقتدار کے لیے ہر قسم کی گندگی اپنی جھولی میں ڈال لی، حقیقت یہ ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس آج میاں شہباز شریف کی گورننس اور پرفارمنس کے علاوہ عوام کو دکھانے کے لیے کچھ موجود نہیں، عوام موٹروے اور ایٹمی دھماکوں کا رونا سن سن کر تنگ آ چکے ہیں اور یہ روایتی سیاست کے وہ رستے ہوئے زخم اور سیاسی نظام کی وہ خرابیاں ہیں جنہوں نے کرکٹر عمران خان کو سیاست دان اور پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی قوت بنا دیا، ہماری پولیٹیکل ایلیٹ اس سسٹم کو بچانے کی جتنی کوشش کرے گی عمران خان اور تحریک انصاف کی قوت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

    عمران خان سیاسی قوت بن چکا ہے، کل انھیں ووٹ بھی ملیں گے اورپارلیمنٹ میں نشستیں بھی مگر حکومت بہرحال میاں نواز شریف ہی بنائیں گے لیکن اس حکومت کے لیے میاں صاحب کو ان لوگوں کو اپنے پہلو میں بٹھانا پڑے گا یہ جن کے خلاف کل تک تقریریں کرتے رہے ہیں یا یہ جنھیں آمر کی باقیات اور ساتھی قرار دیتے تھے، میاں صاحب اقتدار کے لیے جوں ہی ان لوگوں سے ہاتھ ملائیں گے، میاں نواز شریف کی ہر غلطی، ان کی انا کی ہر جست اور ان کے تکبر کا ہر ٹھڈا عمران خان کو مضبوط بنائے گا اور اگر عمران خان نے خود کو ان تمام غلطیوں اور بے وقوفیوں سے دور رکھ لیا جن کی وجہ سے آج روایتی سیاسی جماعتیں عوام کا اعتماد کھو چکی ہیں تو کل یقیناً عمران خان کا ہو گا کیونکہ یہ الیکشن روایتی سیاست کا آخری الیکشن ہے، یہ الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کا آخری الیکشن ثابت ہو گا، بس عمران خان کو تھوڑی سی مزید استقامت اور تھوڑے سے صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اسے تھوڑا سا اور پیدل چلنا ہو گا اور یوں یہ پاکستان کو اس دور میں لے جائے گا جس کی پہلی اینٹ افتخار محمد چوہدری نے رکھی تھی۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.