جنرل یحییٰ خان کا رد عمل بھی یہی تھا، 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا، جنرل یحییٰ خان نے فوجی بغاوت کے خوف سے اقتدار چھوڑ دیا، ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے، صدر کا عہدہ سنبھالا، جنرل یحییٰ خان کو گرفتار کیا اور اس کا ٹرائل شروع ہو گیا، جنرل یحییٰ خان ٹریبونل کے سامنے پیش ہوتا تھا مگر وہ اس کے باوجود خود کو صدر اور آرمی چیف سمجھتا تھا، اس کا دماغ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا، پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے، پاکستان جنگ ہار چکا ہے اور اس شکست اور تقسیم کا وہ ذمے دار ہے۔
جنرل یحییٰ خان کو کھاریاں کے نزدیک بنی بنگلہ ریسٹ ہاؤس میں قید رکھا گیا تھا، وہ ہیلی کاپٹر پر راولپنڈی لایا جاتا، ٹریبونل میں پیش کیا جاتا اور اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس بنی ریسٹ ہاؤس پہنچا دیا جاتا، سرما کی ایک صبح اسے راولپنڈی لایا گیا، جنرل کی واپسی کا وقت ہوا تو وہ ٹریبونل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور اس نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس جانے سے انکار کر دیا، اس کا کہنا تھا " میں کار کے ذریعے بنی بنگلہ جاؤں گا" چوہدری سردار محمد (مرحوم) سیکیورٹی انچارج تھے، بعد ازاں یہ ترقی کرکے پنجاب کے آئی جی بنے، چوہدری سردار نے جنرل یحییٰ خان کو سمجھایا " سر لوگ آپ پر حملہ کر دیں گے، آپ کی جان کو خطرہ ہے" جنرل یحییٰ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور غصے سے کہا " میں نے کیا کیا؟ لوگ مجھ پر کیوں حملہ کریں گے" اس کے بعد وہ پنجابی میں بولا " میں کسی دی کھوتی نوں ہاتھ لایا اے" (میں نے کسی کی گدھی کو چھیڑا ہے) یہ جواب ایک مطلق العنان آمر ہی دے سکتا تھا۔
جنرل یحییٰ خان کی مہربانی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا، پاکستان جنگ ہار چکا تھا، ہمارے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں تھے مگر فوج کا سابق کمانڈر انچیف اور سابق صدر پوچھ رہا تھا " لوگ میرے خلاف کیوں ہیں؟ میں نے کسی کی گدھی کو چھیڑا ہے؟ " پولیس اہلکاروں کا دل چاہا وہ جنرل کو گریبان سے پکڑ لیں مگر ذمے داری نے ہاتھ روک لیے، چوہدری سردار نے جنرل یحییٰ خان کو کار میں بٹھایا اور سیکیورٹی جیپس کے ساتھ کھاریاں کے لیے نکل کھڑے ہوئے، سہالہ کے مقام پر ریلوے کا پھاٹک بند تھا، پولیس کی گاڑیاں پھاٹک پر رک گئیں، پھاٹک کے ساتھ چائے کا کھوکھا تھا، کھوکھے میں بیٹھے کسی شخص نے جنرل یحییٰ خان کو پہچان لیا، اس نے آواز لگائی " وہ دیکھو گاڑی میں یحییٰ خان بیٹھا ہے" یہ آواز لگانے کی دیر تھی، لوگوں نے پتھر اٹھائے اور یحییٰ خان کی گاڑی کی طرف دوڑ پڑے، جنرل لوگوں کی وحشت دیکھ کر ڈر گیا اور مدد طلب نظروں سے پولیس کی طرف دیکھنے لگا، پولیس خاموش بیٹھی رہی، لوگوں نے گاڑی پر پتھر مارنے شروع کر دیے، لوگوں کی وحشت چیخ کر کہہ رہی تھی وہ یحییٰ خان کو گاڑی سے نکالیں گے اور اس کی تکہ بوٹی کر دیں گے، یحییٰ خان دبک کر بیٹھا تھا، اس کی قسمت اچھی تھی ریلوے پھاٹک کھل گیا اور پولیس نے اسے ہجوم سے نکال لیا، یحییٰ خان نے اس کے بعد کبھی گاڑی کے ذریعے ٹریبونل میں جانے کی خواہش نہیں کی۔
دنیا کے ہر آمر کا یہی رد عمل ہوتا ہے، اس کا خیال ہوتا ہے، عوام اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ جب بھی دروازہ کھولے گا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس کی دہلیز پر کھڑا ہو گا مگر حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے، آمر کا تکبر، آمر کا غرور، آمر کی پالیسیاں اور آمر کی غلطیاں اسے عوام میں فرعون بنا چکی ہوتی ہیں اور عوام اس کی پرچھائیوں سے بھی نفرت کررہے ہوتے ہیں اور یہ اپنے زعم میں جب عوام کے سامنے آتا ہے تو عوام بھوکے شیروں کی طرح اس پر پل پڑتے ہیں، آپ روم کے نیرو سے لے کر اٹلی کے میسولینی تک اور چلی کے جنرل پنوشے سے لے کر لیبیا کے کرنل قذافی تک تمام آمروں کا انجام دیکھ لیجیے، آپ کو یہ تمام آمر یحییٰ خان اور پرویز مشرف جیسی نفسیاتی کیفیات کا شکار ملیں گے۔
ہمارے جنرل پرویز مشرف آمروں کے اس دردناک انجام کا تازہ ترین باب ہیں، یہ 24 مارچ 2013ء کو یہ سوچ کر پاکستان آئے، انھوں نے پاکستان کو دس برسوں میں زمین سے آسمان پر پہنچا دیا تھااور لوگ آج تک ان کی کارکردگی کو یاد کرتے ہیں، یہ ان کا راستہ دیکھ رہے ہیں، ان کا خیال تھا "میں جوں ہی پاکستان جاؤں گا لوگ گھروں سے نکل کر میرا استقبال کریں گے"۔
جنرل مشرف کی اس خوش فہمی میں فیس بک، ٹویٹر اور ان کی پبلک ریلیشنز کمپنیاں ہوا بھرتی رہیں، یو اے ای اور سعودی عرب کے دوستوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی، پاک فوج کے چند حاضر اور ریٹائر افسروں نے بھی انھیں باز رہنے کا مشورہ دیا مگر جنرل مشرف نے یہ مشورے رد کر دیے اور یہ پاکستان پہنچ گئے، پاکستان پہنچتے ہی ان کے ساتھ وہ ہوا جو جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ہوا تھا۔
ایم کیو ایم نے سب سے پہلے ان کا ساتھ چھوڑا، عوام نے بھی انھیں مسترد کر دیا، کراچی جیسے لبرل شہر میں ان کی سیکیورٹی مسئلہ بن گئی، عدلیہ نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا اور یوں جنرل مشرف کے تمام مقدمے زندہ ہو گئے، جنرل مشرف یکم اپریل 2013ء کو اسلام آباد پہنچے تو ان کی زندگی مشکل ہو گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منسوخ کر دی، جنرل مشرف کو اپنے فارم ہاؤس سے نکل کر گرفتاری دینا پڑ گئی، جنرل مشرف کو اسلام آباد پولیس لائین کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رات گزارنا پڑی، یہ بارہ بائی سولہ فٹ کا چھوٹا سا کمرہ تھا، یہ وہ کمرہ تھا جس میں رمشا مسیح کو توہین رسالت کے الزام کے بعد پولیس کی حفاظت میں رکھا گیا تھا، اسے آفیسر میس میں بٹھایا گیا تو اس نے چھ گھنٹے ایک صوفے پر گزار دیے، وہ پریشانی میں دائیں بائیں دیکھتا تھا اور اس کے بعد دوبارہ گہری سوچ میں ڈوب جاتا تھا۔
عدالت نے اگلے دن اس پر رحم کھایا اور اس کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا، جنرل مشرف اپنے فارم ہاؤس میں شفٹ ہو گیا مگر اس کی ذلت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، جیل حکام نے اس کے تین کمروں کے گرد خاردار تاریں لگا دیں، جنرل مشرف اپنے گھر کے لان تک میں نہیں جا سکتا اور یہ چھوٹے سے ایریا سے قدم باہر نکالنے کے لیے جیل حکام اور عدالت کی اجازت کا پابند ہے، جنرل مشرف کی سیکیورٹی پر مامور لوگ سوئمنگ پول کے قریب بیٹھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کی خواتین کمروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔
جنرل مشرف روز سیکیورٹی اہلکاروں اور جیل حکام سے درخواست کرتا ہے آپ مہربانی کر کے پول کا علاقہ خالی کر دیں مگر کوئی اس درخواست کا مثبت جواب نہیں دیتا، پولیس کے معمولی آفیسر جنرل مشرف سے ملنے آتے ہیں تو یہ سیلوٹ سے بچنے کے لیے ٹوپیاں گاڑیوں میں چھوڑ آتے ہیں، پولیس کے ایس پی لیول کے آفیسرز جنرل مشرف کے سویٹ تک اپنی گاڑی لے کر جاتے ہیں اور عین اس کے برآمدے کے سامنے اترتے ہیں۔
جنرل مشرف سے تحقیقات کے لیے جو ٹیم بنائی گئی اس کا سینئر ترین رکن تھانہ سیکریٹریٹ کا انسپکٹر ہے جب کہ ایس ایچ او اور اے ایس آئی اس ٹیم کے معزز ممبر ہیں، یہ تینوں " اعلیٰ افسر" جنرل مشرف سے سوال کرتے ہیں اور جنرل مشرف بے چارگی سے ان کی طرف دیکھتا ہے، منگل 23اپریل کو جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونا تھا، جنرل مشرف کپڑے جوتے پہن کر بیٹھ گیا لیکن کوئی ادارہ اسے عدالت تک پہنچانے کے لیے تیار نہیں تھا، سی پی او راولپنڈی نے ایف آئی اے کو جنرل مشرف کو عدالت تک پہنچانے کا ذمے دار ٹھہرا دیا، ایف آئی اے نے جواب دیا "ہمارے پاس مناسب بندوبست نہیں " اس کے بعد اسلام آباد پولیس کو حکم دیا گیا مگر اسلام آباد پولیس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی راولپنڈی ہماری حدود میں نہیں آتا اور یوں جنرل پرویز مشرف دو گھنٹے اپنے برآمدے میں بیٹھا رہا مگر کوئی ادارہ اسے عدالت تک پہنچانے کے لیے تیار نہ ہوا یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ بجے ایلیٹ فورس کا ایک اے ایس آئی اس کے فارم ہاؤس پہنچا، اس نے جنرل مشرف کو "وصول" کیا اور رینجرز کے پہرے میں اسے راولپنڈی پہنچایاگیا۔
دو دن قبل اسلام آباد پولیس کا نوجوان اے ایس پی اس کے کمرے میں داخل ہوا، اس نے جنرل مشرف کو سیلوٹ کیا، جنرل مشرف کے لیے یہ سیلوٹ اس قدر غیر متوقع تھا کہ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، اس نے اے ایس پی سے ہاتھ ملایا اور اسے اپنے پاس بٹھا کر دیر تک گفتگو کرتا رہا، مجھے اس کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام نے بتایا، جنرل پرویز مشرف اندر سے ختم ہو چکا ہے، یہ دیر تک خلاؤں میں گھورتا رہتا ہے، اچانک اس کے خیالات ٹوٹتے ہیں، یہ گھبرا کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اورکپکپانے لگتا ہے، یہ گھنٹوں کھڑکیوں اور دروازوں کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور اس کے بعد دوبارہ خلاؤں میں کھو جاتا ہے، یہ خوف کے شدید گرداب میں پھنس گیا ہے، اسے اپنی موت دکھائی دے رہی ہے، یہ سمجھتا ہے اسے طالبان مار دیں گے، یہ طالبان کے خوف سے نکلتا ہے تو اسے عدالتوں کا خوف گھیر لیتا ہے اور یہ اس سے نکلتا ہے تو یہ پولیس اور جیل کے عملے کو وحشت سے دیکھنے لگتا ہے، یہ ٹیلی فون کے ذریعے دوستوں سے رابطہ کرنا چاہتا ہے مگر کوئی اس سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، جنرل مشرف کی حالت میسولینی کے اس قول کی طرح ہو چکی ہے جس میں اس نے کہا تھا، آمروں کو اقتدار کی کرسی پر مرنا چاہیے کیونکہ اقتدارچلا جائے تو پھر موت بھی آمروں کی لاش اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور جنرل مشرف اس قول کی زندہ مثال بن چکا ہے۔