Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Islamabad Ka Mohsin

Islamabad Ka Mohsin

سید پور اسلام آباد کا قدیم گائوں ہے، اورنگزیب عالمگیر کے دور کے تذکروں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، پاکستان بننے سے پہلے اس گائوں میں مسلمان، ہندو اور سکھ اکٹھے رہتے تھے، 1947ء میں ہندو اور سکھ بھارت شفٹ ہو گئے لیکن اپنا مندر پیچھے چھوڑ گئے، یہ گائوں اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقے میں واقع ہے، یہ مارگلہ روڈ پر چڑیا گھر اور جاپانی پارک کے بالکل ساتھ پہاڑ کی اترائی پر آباد ہے، اس کے سامنے مارگلہ روڈ، ایف سکس اور ایف سیون سیکٹر ہے جب کہ اس کی پشت مارگلہ کی پہاڑیوں سے جڑی ہوئی ہے، یہ گائوں آج سے چھ سات سال پہلے تک اسلام آباد کے چہرے کا گرہن تھا، گائوں کی گلیاں اور عمارتیں افلاس، بے ترتیبی اور گندگی کا خوفناک نمونہ تھیں، آپ مارگلہ روڈ سے سید پور گائوں کی طرف مڑتے تھے تو آپ کو ایک منٹ بعد محسوس ہوتا تھا آپ پانچ سو سال پیچھے چلے گئے ہیں۔

آپ سید پور کے کسی مکان کی چھت سے ایف سکس اور ایف سیون کی طرف دیکھتے تھے یا آپ ایف سیون کے کسی گھر کی بالکونی سے سید پور گائوں کی طرف دیکھتے تھے تو آپ کو آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب اور مشرق کا فرق دکھائی دیتا تھا لیکن پھر اس گائوں کی حالت بدل گئی، گائوں کی درمیانی سڑک، درمیانی دیوار، گائوں کے نالے کا بند، گاؤں کا قدیم مندر، قدیم مسجد، قدیم درگاہ، گاؤں کے مکانوں کے دروازے، کھڑکیاں، بیرونی دیواریں، جھروکے اور گائوں سے مارگلہ کی طرف جانے والی پگڈنڈیاں سب ماڈرن ہو گئیں، گائوں کے درمیان ریستوران، کافی شاپس، ہینڈی کرافٹس کی دکانیں، پینٹنگز کے اسٹوڈیوز اور ہوزری کی دکانیں کھل گئیں اور گائوں سیروتفریح کا مقام بن گیا، آج آپ شام کے وقت سید پور گائوں میں داخل ہوں تو آپ کو محسوس ہوگا آپ 2012ء کی سہولت کے ساتھ 1512ء کے زمانے میں چلے گئے ہیں، آپ کو مارگلہ کی وادیوں میں باقاعدہ مغلوں کی فوجیں مارچ کرتی ہوئی محسوس ہوں گی، میں اکثر سید پور گاؤں جاتا ہوں اور میں جب تک وہاں رہتا ہوں میں کامران لاشاری کو دعائیں دیتا ہوں کیونکہ یہ وہ شخص تھا جس نے سید پور جیسے گرہن کو اسلام آباد کا چمکتا ہوا چاند بنا دیا اور آج یہ گائوں نہ صرف اسلام آباد کے شہریوں کے لیے سکون کی جگہ ہے بلکہ اسلام آباد آنے والے غیر ملکی شہریوں اور سفارت خانوں کے عملے کے لیے بھی زیارت گاہ ہے، یہاں لوگ آتے ہیں اور اچھی شامیں گزار کر جاتے ہیں۔

کامران لاشاری بیوروکریٹ ہیں، معذرت چاہتا ہوں یہ بیوروکریٹ تھے کیونکہ یہ آج 20 دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، مجھ سمیت اس ملک کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگ بیورو کریسی کو برا سمجھتے ہیں، ہمارا خیال ہے یہ دیسی بابو ہیں جن کے تین کام ہیں، انگریزی بولنا، عام شہری پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا اور حکمرانوں کے لیے رکھیل کی خدمات سرانجام دینا، یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے، مجھے آج تک کوئی ایسا سرکاری افسر نہیں ملا جس نے اپنے سینئر یا اپنے حکمران کو تاریخی شخصیت قرار نہ دیا ہو، جس نے یہ نہ کہا ہو "سائیں کی قیادت میں ملک دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے گا" اور جس نے ریٹائر سینئر یا ماضی کی حکومت کو ڈیزاسٹر ثابت نہ کیا ہو، جس نے پہلی پیشی پر کسی عام شخص کا جائز کام کر دیا ہو اور جس نے انگریزی کو اپنا کل اثاثہ نہ سمجھا ہو، یہ درست ہے اس ملک کو مارشل لائوں اور کرپٹ سیاستدانوں نے تباہ کیا ہے مگر اس تباہی کا ستر فیصد کریڈٹ بیورو کریسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اگر ان لوگوں کا ساتھ نہ دیتے تو یہ ملک کبھی تباہی کے اس دہانے پر نہ پہنچتا لیکن بیورو کریسی کی کوئلے کی اس کان میں کامران لاشاری جیسے لوگ بھی ہیں اور ہم اگر ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔ کامران لاشاری ڈیلیور کرنے والے وژنری بیورو کریٹ تھے، یہ لاہور میں تھے تو انھوں نے فوڈ اسٹریٹ بنا کر پورے ملک کی توجہ کھینچ لی، اس دور میں لاہور آنے والا ہر شخص فوڈ اسٹریٹ ضرور جاتا تھا اور گوالمنڈی کا یہ چھوٹا سا علاقہ لاہور کا سیاحتی علاقہ بن گیا تھا، یہ نومبر 2003ء میں سی ڈی اے کے چیئرمین بنے اور انھوں نے پورے اسلام آباد کا نقشہ بدل دیا، مارگلہ کی پہاڑی کا چارج شام کے بعد ڈاکوئوں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا، کامران لاشاری نے نئی سڑک بنائی، اس پر لائٹس لگائیں، دامن کوہ کو خوبصورت بنایا، منال ریسٹورنٹ بنایا اور سڑک پر جگہ جگہ ویو پوائنٹس بنا کر اس پوری سڑک کو تفریح گاہ بنا دیا، یہ سڑک آج رات کے آخری پہر تک آباد رہتی ہے، ریسٹورنٹس اور کافی شاپس میں رات دو دو بجے تک رش رہتا ہے اور لوگ ویو پوائنٹس پر کھڑے ہو کر رات رات بھر اسلام آباد کا نظارہ کرتے ہیں، کامران لاشاری نے راول لیک کو بھی رونق بخش دی، آج سے پانچ سال پہلے لوگ شام کے وقت راول لیک نہیں جاتے تھے لیکن آج یہاں رات گئے تک رونق رہتی ہے، لوگ فیملیز کے ساتھ آتے ہیں، رات دیر تک واک کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور بچوں کے ساتھ بھاگتے دوڑتے ہیں، کامران لاشاری کے دور سے قبل ایف نائین پارک بے ترتیب جنگل تھا اور خواتین اور بچے شام چار بجے کے بعد اس پارک میں پائوں نہیں رکھتے تھے لیکن انھوں نے پارک کی شکل بدل دی اور آج لوگ رات کے دو دو بجے پارک میں چہل قدمی کرتے ہیں، کامران لاشاری نے اسلام آباد کی تمام پرانی سڑکیں دوبارہ تعمیر کروائیں، انڈر پاسز بنوائے، شہر کے مختلف سیکٹرز میں چھوٹے چھوٹے پارکس بنوائے، مارکیٹوں کا حلیہ درست کیا، مارکیٹوں کے اندر بیٹھنے کی جگہیں بنوائیں، واکنگ ٹریکس ٹھیک کرائے اور اسلام آباد کو پھولوں کا شہر بنا دیا، اسلام آباد کے شہری اس شہر کو کامران لاشاری سے پہلے اور کامران لاشاری کے بعد دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں اور لاشاری صاحب کو اپنا محسن سمجھتے ہیں، اسلام آباد کا ہر شہری کامران لاشاری کا قرض دار ہے، انھوں نے اس شہر کے لوگوں پر بے شمار احسانات کیے اور ہم اگر یہ احسانات نہ مانیں تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔

کامران لاشاری پرفارمنس، ڈیلیوری اور حس جمال کا خوبصورت امتزاج ہیں، یہ اس معاشرے میں زندگی کی دلیل بھی ہیں کیونکہ انھوں نے ثابت کردیا آپ اگر اس ملک میں کام کرنا چاہیں تو آپ نہ صرف کام کر سکتے ہیں بلکہ آپ ڈیلیور بھی کر سکتے ہیں اور خرابی کی طرف مائل چیزوں کو ٹھیک بھی کر سکتے ہیں، لاشاری صاحب نوجوان افسروں کے آئیڈیل تھے، آج سے پانچ چھ سال پہلے میں نوجوان افسروں سے پوچھتا تھا "آپ کیا بننا چاہتے ہیں " تو یہ آغا شاہی اور کامران لاشاری کا نام لیتے تھے لیکن جب موجودہ حکومت نے کامران لاشاری کو عہدے سے ہٹایا، ان پر عجیب و غریب مقدمے بنے، یہ او ایس ڈی ہوئے اور انھیں اپنے حق کے لیے عدالتوں کے دھکے کھانا پڑے اور ان کے کولیگز ان سے ہاتھ تک ملانے کے روادار نہیں رہے تو میں نے نوجوان افسروں کو کہتے سنا ہم کامران لاشاری کی جگہ سلمان صدیق، آفتاب معین، خوشنود لاشاری، توقیر صادق اور عدنان خواجہ بننا چاہیں گے، میں وجہ پوچھتا تو یہ لوگ جواب دیتے " یہ ملک کامران لاشاری کو ڈیزرو نہیں کرتا، آپ اگر پاکستان میں عزت اور مال بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو سلمان صدیق ہونا چاہیے" نوجوان افسروں کی بات غلط نہیں کیونکہ ہم کامران لاشاری جیسے لوگوں کی قدر نہیں کر رہے، ہم انھیں تحفظ بھی نہیں دے رہے، عزت بھی نہیں دے رہے اور انھیں کام کرنے کا موقع بھی فراہم نہیں کر رہے چنانچہ پھر بیورو کریسی کے پاس کیا آپشن بچتا ہے، یہ بے چارے اگر خوشامد اور جی حضوری کو اپنا شعار نہ بنائیں اور کرپٹ حکومتوں کا ہراول دستہ بن کر زندگی اور ملازمت کی مدت پوری نہ کریں تو کیا کریں، ہمارے ملک میں اگر کامران لاشاری جیسے لوگوں کو عزت اور تحفظ مل رہا ہوتا تو شاید آدھی بیورو کریسی کامران لاشاری بن جاتی لیکن ہم جب ان جیسے افسروں کو عبرت کا نشانہ بنا دیں گے تو نئے لوگ کام کی کیسے ہمت کریں گے؟

کامران لاشاری آج ریٹائر ہو گئے، ہم ان کے پوٹینشل کا پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے، یہ آرٹسٹ بیورو کریٹ تھے، یہ اداروں کی پوری شکل بدل سکتے تھے، یہ پی آئی اے، ریلوے اورتباہ ہوتی سیاحتی انڈسٹری کو زندگی دے سکتے تھے مگر ہم نے انھیں ضایع کر دیا، قوم حکمران اور ہمارا سسٹم ان کی قدر نہیں کر سکا مگر ہم اسلام آباد کے شہری ان کے احسان مند ہیں کیونکہ ہم میں سے جو بھی شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے یہ لاشاری صاحب کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور شکریہ ادا کرنے کا یہ سلسلہ ہماری زندگیوں تک جاری رہے گا، میں اسلام آباد کے شہریوں سے درخواست کرتا ہوں ہم سب آج سے مارگلہ کی پہاڑی پر جانے والی سڑک کو کامران لاشاری روڈ کا نام دے رہے ہیں، یہ نام اس شہر کے لوگوں کی طرف سے اسلام آباد کے محسن کے لیے حقیر ترین تحفہ ہو گا کیونکہ ان کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں، آئیے آج سے مارگلہ پہاڑی پر جانے والی سڑک کو کامران لاشاری روڈ کہیں اور اس وقت تک کہتے رہیں جب تک سی ڈی اے خود اس سڑک پر کامران لاشاری کا نام نہیں لکھ دیتا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.