Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kashan Ke Gulabon Mein

Kashan Ke Gulabon Mein

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے، یہ سارا علاقہ بنجر اور ویران ہے، ہائی وے کی دونوں سائیڈز پر دور دور تک ویرانی تھی تاہم بعض جگہوں پر سبزہ اور فصلیں تھیں مگر یہ خشک پہاڑ پر گھاس کے چند تنکوں کی طرح محسوس ہوتی تھیں، کاشان شہر گلاب کے کھیتوں، عرق گلاب، گل قند اور جڑی بوٹیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، شہر میں جگہ جگہ عرق گلاب کی بھٹیاں اور پنسار خانے ہیں۔

دکانوں کے سامنے بھی عرق گلاب کشید ہو رہا تھا، اپریل کے مہینے میں کاشان کے گلاب کھلتے ہیں لہٰذا مضافات میں دور دور تک گلاب دکھائی دیتے ہیں، ہم مارچ کے شروع میں کاشان میں داخل ہوئے تھے اس لیے گلاب کے کھیتوں اور مہک سے محروم رہے مگر اس کے باوجود شہر میں گلاب کا احساس موجود تھا شاید یہ صدیوں تک گلاب کی ہمسائیگی کا نتیجہ تھا کہ فضا میں گلاب کی مہک نے مستقل ٹھکانہ بنا لیا تھا یا پھر یہ نفسیاتی اثر تھا لیکن ہمیں شہر کی فضا میں ایک کھلا پن اور فرحت کا احساس ہوا، کاشان کی قدیم فصیل برقرار ہے اور شہر کا قدیم حصہ اس دیوار کے اندر آباد ہے، ایران میں روایت تھی لوگ گھروں کو باہر سے عام سا رکھتے تھے۔

آپ کسی بھی گلی میں داخل ہو جائیں آپ امیر اور غریب کے گھر میں تمیز نہیں کر سکیں گے، آپ کو دونوں گھر ایک جیسے محسوس ہوں گے لیکن آپ جوں ہی ڈیوڑھی کراس کریں گے آپ نئی دنیا میں آ جائیں گے، ایرانی گھر اندر سے مکمل محل یا حویلی ہوتے ہیں، ہم کاشان میں ایک ایسی ہی حویلی میں رہے، یہ 48 کمروں کا بوتیک ہوٹل تھا، ہوٹل کی مالکن آرکی ٹیکٹ تھی، یہ اس کی نانی کا گھر تھا جو اسے ترکے میں ملا اور اس نے اسے رینوویٹ کرکے ہوٹل میں تبدیل کر دیا، وہ باہر سے صرف ایک گیٹ محسوس ہوتا تھا لیکن ہم جوں ہی اندر داخل ہوئے ہم پر حیرت ایٹم بم کی طرح گری، وہ گھر پورا محل تھا اور انتہائی خوب صورت تھا، ایران کے قدیم گھر چار حصوں میں تقسیم ہوتے تھے۔

بیرونی حصہ مردانہ کہلاتا تھا جس میں مرد اور مہمان ٹھہرتے تھے، یہ بیرون کہلاتا تھا، زنانہ حصے کو اندرون کہا جاتا تھا، اہل خانہ گرمیوں میں تہہ خانوں میں شفٹ ہو جاتے تھے، یہ حصہ سردخانہ کہلاتا تھا اور یہ بادگیروں یعنی ہوا کی چمنیوں سے منسلک ہوتا تھا اور پھر سردیوں کا پورشن ہوتا تھاجو عموماً بالائی منزلوں، صحن یا انگیٹھیوں پر مشتمل ہوتا تھا، گھروں کے اندر پانی کا تالاب، فوارے، پھولوں کی کیاریاں، گھنے درخت اور بیلیں بھی ہوتی تھیں، اس گھر میں بھی یہ تمام چیزیں موجود تھیں، پورا گھر صحن کی طرف کھلتا تھا اور صحن میں سوئمنگ پول، فوارے اور کیاریاں تھیں، صحن کی دو سائیڈز پر بلند چوکیوں پر سیٹنگ سپیس تھی اور ان میں صوفے اور کرسیاں لگی تھیں۔

میں اس ہوٹل سے اتنا متاثر ہوا کہ گھنٹہ بھر اس کی راہ داریوں، برآمدوں اور جھروکوں میں پھرتا رہا، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میری روح کا اس گھر سے کوئی کنکشن ہوا اور میں گھوم پھر کر اس کنکشن کو تازہ کر رہا ہوں، اس کے اندرونی پورشن (اندرون) میں بھی سوئمنگ پول تھا اور وہ کمرے مرکزی عمارت سے ذرا سے کٹ کر تھے، پورے گھر کی کھڑکیوں پر رنگین شیشے لگے تھے اور یہ روشنی میں بہت بھلے لگ رہے تھے، ہم شام کے وقت صحن میں بیٹھ گئے اور ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہم صدیوں پیچھے چلے گئے ہیں، ابھی دروازے پر دستک ہوگی اور بو علی سینا اپنی درجن بھر کتابوں کے ساتھ اندر داخل ہو جائے گا اور پھر آدھی رات تک ہم مشاہیر کی گفتگو سنتے رہیں گے، ہوٹل مالکن کا چھوٹا بیٹا چلا رہا تھا اور اس میں ایرانیوں کا روایتی اکھڑ پن اور تکبر تھا۔

ہم نے اگلے دن کاشان کو ڈسکور کرنا شروع کیا، پرانے محلے میں چند پرانی حویلیاں میوزیم بن چکی ہیں، ان میں طبا طبائی حویلی بھی شامل ہے، یہ جعفر طبا طبائی کا گھر تھا جو اس زمانے میں کاشان کا سب سے بڑا قالین فروش تھا، کاشان کے قالین سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں سنٹرل ایشیا میں نمبر ون تھے اور جعفر طباطبائی نے اس شہرت کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اس نے خوب دولت کمائی اور اس سے کاشان میں محل بنایا، ہم نے یہ محل دیکھا، وہ بھی باہر سے سادہ لیکن اندر سے پورا حیرت کدہ تھا، صحنوں میں باغ تھے، تالاب بھی بڑے اور خوب صورت تھے، طبا طبائی کا بیڈروم پورا الحمراء تھا، کمرے میں فوارے تک تھے، ہمیں کاشان میں ایک ریستوران میں بھی چائے کا موقع ملا، ریستوران تک پہنچنے کے لیے مٹی کی تنگ گلی کے آخر تک جانا پڑتا تھا اور اس کے بعد گھر میں داخل ہو کر صحن میں اترنا پڑتا تھا۔

وہ ریستوران بھی دیکھنے لائق تھا، وہ سطح سے بیس فٹ نیچے تھا لیکن چھت کھلی اور صحن میں فوارے اور بیلیں تھیں اور ان بیلوں کے درمیان فوارے کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا واقعی سعادت کی بات تھی اور ہم نے یہ کیا اور اسے انجوائے بھی کیا، کاشان سے واپسی پر ہم فن گارڈن پر رکے، یہ گارڈن شہر کے شروع میں آتا ہے اور یہ قاچار فیملی نے بنوایا تھا، قاچار پہلویوں سے قبل ایران کے حکمران تھے، ان کا دارلحکومت اصفہان تھا لیکن گرمیوں میں یہ کاشان آ جاتے تھے، یہ ان کا گرمائی مرکزتھا، گارڈن فصیل کے اندر تھا، ہم ٹکٹ خرید کر اندر داخل ہوئے تو ایک شالا مار ہمارے سامنے تھا، وہاں درجنوں صحن اور چھوٹے بڑے گارڈن تھے اور ان گارڈنز کے درمیان بارہ دریاں، بیڈ رومز اور دربار بنے ہوئے تھے، پورے گارڈن میں پانی کی ایک بڑی نالی بہہ رہی تھی۔

اس میں میلوں دور سے پہاڑوں سے پانی لایا گیا تھا، وہ پورے باغ کو سیراب کرنے کے بعد شہر کی طرف نکل جاتی تھی اور ماضی میں شہر اس سے اپنی آبی ضرورت پوری کرتا تھا، یہ آبی نظام اس دور کے اعلیٰ دماغوں نے بنایا تھا چناں چہ ہر قسم کے حالات میں اس کا لیول اور درجہ حرارب مستقل رہتا تھا، شدید بارشوں اور سیلابوں میں بھی نالی میں سیلاب نہیں آتا تھا اور برف باری میں بھی پانی کا درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا تھا جو واقعی کمال تھا، اس کی وجہ سے پورے باغ میں جل ترنگ بجتا رہتا تھا، دربار کے سامنے پول تھا اور پول میں بھی فوارے تھے جب کہ پانی دربار کی سیڑھیوں سے آب شار کی طرح نیچے گرتا تھا۔

گارڈن کی ایک دیوار کے ساتھ کاشان کا قدیم شاہی حمام تھا، اس حمام میں قاچار سلطنت کے وزیراعظم امیر کبیر کو ہاتھ کی نس کاٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھاجس کی وجہ سے کاشان اور یہ گارڈن دونوں تاریخی ہو گئے، امیر کبیر کا اصل نام میرزا تقی خان تھا، وہ 1807ء میں پیدا ہوا اور 1852ء میں اسے قتل کر دیا گیا، وہ قاچاری سلطان ناصر الدین شاہ کا اتالیق بھی تھااور وزیراعظم بھی، وہ ایک وجیہہ اور سمجھ دار شخص تھا، ناصر الدین کی والدہ ملکہ جہان خانم اس کی عاشق تھی، امیر کبیر نے اس کی سفلی خواہشات سے انکار کر دیا جس پر ملکہ نے اس کے خلاف بغض پال لیا تاہم ناصر الدین شاہ اور عوام امیر کبیر کو بہت پسند کرتے تھے۔

وہ ایران کا پہلا ریفارمسٹ تھا، اس نے ملک میں یکساں تعلیمی نظام نافذ کیا، ہائیر ایجوکیشن کی بنیاد رکھی، ٹیکس کا منصفانہ نظام متعارف کرایا اور عوام کو سرکاری ظلم وتشدد سے رہائی دلائی، اس نے ملک میں چھاپہ خانے اور اخبارات بھی شروع کرائے تھے، وہ تجارت پسند تھا لہٰذا اس کے زمانے میں ملک میں انڈسٹری اور منڈیوں میں اضافہ ہوا، امن وامان بھی مثالی تھا چناں چہ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، عوام خوش تھے مگر ملکہ اور اس کے رشتے دار پریشان تھے کیوں اس کی وجہ سے ان کی آمدنی میں کمی ہو رہی تھی، ملکہ نے اسے کئی بار ہٹانے کی کوشش کی مگر ناصر الدین راستے میں حائل ہوگیا۔

وہ جانتا تھا اگر امیر کبیر چلا گیا تو اس کے لیے ملک سنبھالنا مشکل ہو جائے گا لیکن جب سازشیں بڑھ گئیں تو اس نے اپنی سولہ سالہ ہمشیرہ کی شادی امیر کبیر سے کر دی، اس کا خیال تھا اس رشتے داری کے بعد شاہی سازشیں کم ہو جائیں گی مگر ملکہ کی انا کو ایک اور ضرب لگ گئی اوروہ تلملا اٹھی، بہرحال قصہ مختصر ایک رات جب ناصر الدین شاہ نشے میں دھت تھا تو اس کی ایک بیوی نے دھوکے سے اس سے امیر کبیر کی سزائے موت کا آرڈر لے لیا، امیر کبیر اس وقت کاشان کے اس محل میں اپنی چھوٹی بیگم کے ساتھ چھٹیاں منا رہا تھا، امیر غصب (جلاد) اور مشیر خاص یہ آرڈر لے کر کاشان آئے، امیر کبیر کو بادشاہ کا تحریری حکم دکھایا، اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا، اس نے ان سے درخواست کی میں حمام چلا جاتا ہوں، آپ لوگ وہاں میری نس کاٹ کر حکم بجا لے آئیں۔

اس کا خیال تھا نس کٹنے کے بعد حمام کی وجہ سے خون رسنے کا عمل آہستہ ہو جائے گا، اسے سات گھنٹے مل جائیں گے اور اس دوران اس کی بیگم اسے ڈھونڈ کر بچا لے گی، جلاد نے اس کی خواہش کا احترام کیا، وہ اسے حمام میں لے گیا اور اس کی کلائی کی نس کاٹ دی، امیر کبیر حمام کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، امیر غصب اور مشیر واپس مڑے لیکن پھر نہ جانے جلاد کے ذہن میں کیا آیا وہ واپس پلٹا اور امیر کبیر کے گلے میں رومال ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیا اور یوں وہ چند لمحوں میں ختم ہوگیا اور اس کے چند برسوں بعد پوری قاچار سلطنت دم توڑ گئی، ملک میں طوائف الملوکی ہوئی اور اس کے بعد پہلوی خاندان نے ایران پر قبضہ کر لیا، مجھے رضا شاہ پہلوی کے محل میں ملبوسات کے سیکشن میں پہلوی خاندان کے علاوہ صرف ایک تصویر نظر آئی اور وہ امیر کبیر کی تھی، یہ تصویر ثابت کرتی ہے ایرانی لوگ اس سے کتنی محبت کرتے تھے۔

ہم حمام میں اس جگہ بھی گئے جہاں امیر کبیر نے آخری سانسیں لی تھیں، نیلی ٹائلوں اور سفید چھت والی اس عمارت میں اداسی آج بھی نوحہ گر تھی، آج بھی اس کمرے سے امیر کبیر کی آخری سسکیوں کی آوازیں آتی ہیں اور روشن دانوں سے چھن کر آنے والی روشنیاں ماتم کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، میں نے لمبی سانس لی اور کاشان سے اصفہان کی طرف روانہ ہوگیا، اس اصفہان کی طرف جسے نصف جہاں کہا جاتا تھا، جو کبھی اس کرہ ارض کی آدھی دنیا ہوتا تھا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.