علامہ محمد اسد عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور تھے، یہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آسٹریا میں 2 جولائی 1900ء میں پیدا ہوئے، ان کے والد یہودیوں کے ربی تھے، والد نے ان کا نام لیوپولڈ وائز رکھا، علامہ اسد نے بھی یہودیت کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی یہودی عالم بننا چاہتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بے چینی، ایک بے قراری پائی جاتی تھی، یہ بے قراری انھیں چشمہ ہدایت کی طرف لے گئی اور یوں 1926ء میں لیو پولڈوائز نے اسلام قبول کر لیا اور یہ محمد اسد بن گئے، علامہ اسد نے عربی بدوئوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا، بدوئوں سے عربی سیکھی، قرآن مجید کو اصلی عربی کے ساتھ پڑھا، صحیح بخاری کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو حیران کر دیا، شاہ عبدالعزیز علامہ محمد اسد سے بہت متاثر تھے، انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا، علامہ صاحب شاہی خاندان کا فرد سمجھے جاتے تھے۔
سعودی شاہی خاندان نے علامہ صاحب کو پوری زندگی عزت بھی دی اور ان کی مالی امداد بھی کی، ان کی طبیعت سیلانی تھی، یہ 1932ء میں سعودی عرب سے نکل آئے اور اس کے بعد سیاح کی طرح پوری دنیا دیکھ ڈالی، یہ برصغیر پاک و ہند پہنچے، علامہ اقبال سے ملے، دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور کئی سال اکٹھے گزار دیے، یہ علامہ اقبال کی رحلت کے بعد قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے، علامہ اسد کا خیال تھا پاکستان وہ اسلامی ملک ہو گا جس کا خواب مسلمان 14 سو سال سے دیکھ رہے ہیں، علامہ صاحب نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیے، اخبار بھی نکالا، کتابیں بھی لکھیں، مضامین بھی تحریر کیے، جیل بھی بھگتی اور بے روزگاری اور غربت بھی دیکھی لیکن یہ مسلم لیگ کے کارکن بن کر کام کرتے رہے، پاکستان بنا تو علامہ اسد کراچی آ گئے، یہ اس وقت تک آسٹریا کے شہری تھے، یہ آسٹریا کے پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے، علامہ اسد نے اپنی آسٹرین شہریت ترک کی، پاکستان کی شہریت اختیار کی اور پاکستان کے پہلے شہری بن گئے، یہ حکومت پاکستان کی طرف سے پہلا پاسپورٹ پانے والے پاکستانی بھی تھے لیکن پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت نے علامہ صاحب کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا، علامہ صاحب کو وزارت خارجہ میں اہم منصب دے کر یو این بھجوایا گیا تھامگر وزارت خارجہ کے بابوئوں نے انھیں اس قدر تنگ کیا کہ علامہ صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا، یہ پاکستان چھوڑنے پر بھی مجبور ہو گئے مگر انھوں نے آخری سانس تک پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی، یہ 23 فروری 1992ء میں 92 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے، غرناطہ میں دفن ہوئے اور مرنے کے بعد بھی پاکستانی شہری رہے۔
علامہ محمد اسد 1952ء میں پاکستان سے نکلے، ان کی جرمن نژاد تیسری بیگم پولا حمیدہ اسد نے مرنے تک ان کا ساتھ دیا، یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں رہے، یہ اسلام کے بارے میں کتابیں لکھتے رہے، لیکچر دیتے رہے، تبلیغ کرتے رہے اور اسلام کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرتے رہے، ان کی ایک کتاب " روڈ ٹو مکہ" نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا، یہ ان کے قبول اسلام سے متعلق کتاب تھی، اس کتاب میں عربوں کے رہن سہن، رسوم و رواج، صحرائی زندگی کی خوبصورتیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں، یہ کسی نو مسلم مغربی اسکالر کی اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی، یہ کتاب امریکی پبلشنگ ادارے سائن اینڈ شسٹر نے 1954ء میں شائع کی اور پوری دنیا میں پڑھی گئی، یہ آج بھی شائع ہوتی ہے، آج بھی پڑھی جاتی ہے اور لوگ آج بھی علامہ صاحب کی خدمات کو سراہتے ہیں۔" روڈ ٹو مکہ" کے حوالے سے دو حقائق بہت دلچسپ ہیں، ایک، یہ کتاب اسلام سے متعلق تھی اور نو مسلم مغربی اسکالر نے لکھی تھی لیکن یہ سب سے پہلے امریکی پبلشر نے شائع کی، بعد ازاں برطانیہ کے ادارے میکس رائن ہارٹ نے اسے شائع کیا اور اس کے بعد اس کے ترجمے جرمن، ولندیزی، سویڈش، فرانسیسی، جاپانی اور کروشین زبانوں میں شائع ہوئے او ریورپ کے تمام پبلشنگ ہومز نے نہ صرف علامہ صاحب کو کتاب کا معاوضہ دیا بلکہ پوری زندگی انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس کی رائلٹی بھی ملتی رہی۔
جرمنی نے تو علامہ صاحب کو تین سال اپنا مہمان بھی رکھا، انھیں جرمن زبان سکھائی، ان سے " روڈ ٹو مکہ" کا ترجمہ کرایا اور پھر یہ کتاب شائع کی، جرمنی نے اس پر فلم بھی بنائی جب کہ ان کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں یہ کتاب چھپی مگر کسی پبلشر نے انھیں معاوضہ دیا اور نہ ہی ان سے اشاعت کے لیے تحریری اجازت لی، علامہ صاحب کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے اپنی یاد داشتوں میں لبنان کے ایک پبلشر کا ذکر کیا جس نے نہ صرف اس کتاب کا بلا اجازت ترجمہ شائع کیا تھا بلکہ اس نے کتاب سے صحرائی حصے بھی ایڈٹ کر دیے، علامہ صاحب نے جب اس سے اس ایڈیٹنگ کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا لبنان کے لوگوں نے کبھی صحرا نہیں دیکھا چنانچہ ان کے لیے یہ حصے فضول تھے، پولا حمیدہ نے اس پر ہنس کر کہا صحرا تو یورپ اور امریکا کے لوگوں نے بھی نہیں دیکھا لیکن انھوں نے کتاب کے اس پورشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا، دوسری حقیقت، علامہ صاحب نے 92 سال کی طویل زندگی پائی، صدی تک پھیلی اس زندگی میں انھیں مسلمان ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کے علم پرور طبقے پالتے رہے جب کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان انھیں اذیت دیتے رہے، ہم نے مرنے کے بعد بھی اپنے پہلے شہری کو عزت نہیں دی، ہم نے ان کے نام سے کوئی ادارہ بنایا اور نہ ہی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا، ہم نے اپنی کوتاہ فہمی، نالائقی، سازشی فطرت اور کنوئیں کے مینڈکوں کی جعلی اکڑ کی وجہ سے دنیا کا بہت بڑا اسکالر کھو دیا، علامہ صاحب پاکستان کے پہلے شہری اور پہلے پاسپورٹ ہولڈر تھے لیکن ہم ان کی قبر پر پھول تک نہیں چڑھاتے، وہ غرناطہ کے گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں پڑے ہیں مگر یہ احسان فراموش قوم ان کا نام تک بھول چکی ہے، علامہ صاحب اپنے اس "انجام" سے واقف بھی تھے، ان کی اہلیہ نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ لکھا، آپ کے یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔
علامہ اسد 1950ء کی گرمیوں میں بیروت میں تھے، ایک شام ڈاکٹر ذاکر حسین ملاقات کے لیے ان کے گھر آئے، ڈاکٹر صاحب بھارت کی معروف علمی اور سیاسی شخصیت تھے، یہ بعد ازاں بھارت کے صدر بھی بنے، ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس ملاقات کے دوران علامہ اسد کو یاد دلایا " میں نے قیام پاکستان سے قبل آپ سے عرض کیا تھا اگر پاکستان میں ان اصولوں پر عمل کیا گیا جن کے بنیاد پر ملک بنایا جا رہا ہے تو میں آپ کے ساتھ پاکستان جائوں گا لیکن مجھے خطرہ ہے، یہ ملک چند لوگوں کے مالی مفادات کے لیے بنایا جا رہا ہے اور آپ کو یہ حقیقت چند برسوں میں معلوم ہو جائے گی" ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کو یہ بات یاد کروائی اور اس کے بعد ان سے پوچھا " کیا میری بات غلط تھی" علامہ صاحب اس پر خاموش رہے مگر تاریخ آج تک بول رہی ہے، ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس ملک پر65 برسوں سے چند مفاد پرستوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے، یہ مفاد پرست اپنے فائدے، اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں خواہ انھیں اس کے لیے ملک تک کیوں نہ توڑنا پڑ جائے، یہ مفاد پرستوں کا ایک کلب ہے جو اس ملک میں ترقی کی ایک خاص حد چھونے والے ہر شخص کو اپنا ممبر بنا لیتا ہے اور یہ بھی مفاد کا ٹوکا لے کر ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں جت جاتا ہے، مفاد کے اس کلب کے ممبرکس قدر سنگ دل ہیں آپ اس کا اندازہ کوئٹہ اور کراچی کی صورتحال سے لگالیجیے، ان کی نظر میں کوئٹہ اور کراچی کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ہزارہ کمیونٹی کی ہزار لاشوں اور کراچی کے ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں کی اموات کی، اگر انھیں کوئی دلچسپی ہے تو وہ پانچ ارب روپے کا محل ہے، اپنی مرضی کی نگران حکومت ہے اور اگلے الیکشنز میں کامیابی ہے اور پیچھے رہ گئے۔
عوام تو یہ ماضی میں بھی ان کی ترجیح نہیں تھے، یہ آج بھی ترجیح نہیں ہیں اور یہ کل بھی ترجیح نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اس ملک کی بنیاد سے لے کر آج کے جمہوری دور تک کبھی ترجیح نہیں رہے، یہ محض ووٹر ہیں یا لاشیں ہیں، مفاد پرست کلب کے ممبر انتخابی نشانوں پر ان سے انگوٹھا لگواتے ہیں، اپنا اقتدار پکا کرتے ہیں، پانچ پانچ سال کی باری لگاتے ہیں، قوم مایوس ہو جاتی ہے تو خفیہ ادارے شہروں میں نعشوں کی کھیتیاں اگا دیتے ہیں، یہ کھیتیاں بو دیتی ہیں تو فوج اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے، سیاسی جماعتیں فوج کو بھگانے کے لیے اپنے ووٹروں کو لاشوں میں تبدیل کرنے لگتی ہیں، یہ لاشیں عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو فوجی آمروں کے سپورٹر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ملک پر مفاد پرست کلب کے سویلین چہرے قابض ہو جاتے ہیں، یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے پانچ سال پورے کرنے میں جت جاتے ہیں اور اس دوران ملک خواہ قبرستان بن جائے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی، یہ صرف اور صرف اپنے اقتدار تک محدود رہتے ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ لیں یا پھر کراچی کی تڑتڑ کی آوازیں اور گرتی ہوئی لاشوں کی چیخیں سن لیں، بلوچستان میں سال بھر سے کوئی حکومت موجود نہیں، کراچی میں ریاست ناکام ہے، وہاں آئی جی پولیس بھی رینجرز کی سیکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا مگر ہمارا مفاد پرست کلب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کر رہا ہے اور نگران وزیراعظم کے نام پر لڑ رہا ہے، آپ صورتحال پر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو محسوس ہو گا، ہم اٹھارہ کروڑ لوگ مفاد پرست کلب کے ممبروں کی آسودگی کے لیے انسانی کھاد ہیں، ہم پیدا ہی ان لوگوں کے انتخابی نشانوں پر انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر فوجی آمروں کی خواہش اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جنم لیتے ہیں، ہم انگوٹھا لگا دیں تو یہ پانچ ارب کے بم پروف محل سے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں نہ لگائیں تو یہ پانچ سال کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی بندوق علی خان اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔
ہم پاکستانیوں کا پاکستان کب بنے گا، ہم کب آزاد ہوں گے۔