آپ کو یاد ہو گا جولائی 2012ء میں برماسے 30 ہزار مسلمانوں کے قتل کی خبریں آنا شروع ہوئیں، مسلمانوں کی نعشوں کی تصویریں انٹرنیٹ تک پہنچیں اور تیزی سے پھیلتی چلی گئیں، پاکستان میں یہ تصویریں ایک ہفتے میں کروڑوں کی تعداد میں دیکھی گئیں، یہ تصویریں اور خبریں جوں جوں پھیلتی رہیں لوگوں کی طرف سے میڈیا پر الزامات کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا گیا، لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر پاکستانی میڈیا کو اس بے حسی، خاموشی اور لاتعلقی پر گالیاں دینے لگے، مجھے روز فیس بک، ای میل اکائونٹ اور موبائل پر لاکھوں پیغام ملتے اور ہر پیغام میں مجھے بے غیرتی اور بے شرمی کا طعنہ دیا جاتا، لوگوں کا اصرار تھا مجھے فوری طور پر اس ظلم کے خلاف قلم اور کیمرہ اٹھانا چاہیے، میں ان سے عرض کرتا تھا ان تصویروں اور ان خبروں کی ابھی تصدیق نہیں ہو سکی، ہم اپنے ذرایع سے تصدیق کی کوشش کررہے ہیں۔
لیکن ہمیں ثبوت نہیں مل رہے چنانچہ میں صرف سنی سنائی بات یا سوشل میڈیا پر گردش کرتی چند تصویروں کی بنیاد پر کیسے لکھ دوں، کیسے پروگرام کر دوں، میں ان سے یہ بھی عرض کرتا تھا دنیا میں 58 اسلامی ملک ہیں، مسلمان ملکوں کی عالمی تنظیمیں بھی ہیں، یہ ملک اور یہ تنظیمیں اس ظلم پر کیوں خاموش ہیں، اگر برما کے مسلمانوں پر واقعی ظلم ہوا اور اس کی تصدیق ہو چکی ہے تو پھر او آئی سی یا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی یا پھر ملائشیا کیوں نہیں بول رہا؟ کیا برما کے مسلمان صرف ہمارے بھائی ہیں؟ کیا ہمارے علاوہ 57 مسلمان ملکوں کا کوئی فرض نہیں؟ اور کیا پاکستانی میڈیا حکومت ہے، یہ ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس یا وزارت خارجہ ہے؟ ہم سے پہلے حکومت کو بولنا چاہیے، میں ان سے یہ بھی عرض کرتا تھا ہمارے ملک میں چالیس ہزار پاکستانی مسلمان دہشت گردی کا شکار ہو گئے، ہمارے ساڑھے تین ہزار جوان اور افسر شہید ہو گئے، ہمارے کراچی شہر میں اوسطاً 15 لوگ روزانہ مارے جاتے ہیں اور اس بدنصیب شہر میں پچھلے چار برسوں میں سات ہزار پاکستانی مسلمان پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
لیکن ہم میں سے کسی نے ان پاکستانی مسلمان بھائیوں کے لیے سوشل میڈیا پر کمپین نہیں کی، کسی نے آج تک ان چالیس ہزار ہلاکتوں پر میڈیا کو غیرت نہیں دلائی لیکن ہم انٹرنیٹ کی چند غیر مصدقہ تصویروں پر سیخ پا ہیں اور وہ لوگ میڈیا کو بے حسی کا طعنہ دے رہے ہیں، جنھیں یہ تک معلوم نہیں دنیا کے نقشے پر برما کہاں واقع ہے اور اس کا دوسرا نام کیا ہے؟ ہماری پہلی ذمے داری ہمارے لوگ ہیں مگر ہم صحن میں نعشیں چھوڑ کر غیر مصدقہ اور پرائی موت کا سیاپا کر رہے ہیں۔
میرے پاکستانی مسلمان بھائیوں نے میری رائے مسترد کر دی اور یہ مجھے مسلسل برما کے مسلمانوں کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے رہے، میری صحافتی تربیت کام آئی اور میں حقائق کی تصدیق کا انتظار کرتا رہا اور یوں غلط حقائق پھیلانے سے بچ گیا مگر میرے چند دوست گالیوں کے سیلاب میں بہہ گئے، یہ سوشل میڈیا کے پریشر میں آئے، انھوں نے پروگرام بھی کیے، کالم بھی لکھے اور سوشل میڈیا کے ذریعے برما کے ظالموں پر تبریٰ بھی کیا لیکن آج وہ ایشو کہاں ہے؟ وہ تصویریں اور برما کے مسلمانوں پر ہونے والا ظلم کہاں چلا گیا؟ یہ میڈیا پر سوشل میڈیا اور عوام کے دبائو کی ایک مثال ہے، یہ مثال ثابت کرتی ہے دنیا ہمیں آزاد بلکہ شتر بے مہار سمجھتی ہے لیکن ہم سوشل میڈیا، ایس ایم ایس اور عوام کے ہاتھوں میں غلام ہیں، عوام روزانہ سوشل میڈیا اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہم پر پریشر ڈالتے ہیں اور ہم لوگ اکثر اوقات اس دبائو میں آ بھی جاتے ہیں۔
میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محسوس کر رہا ہوں میڈیا بری طرح عوامی خواہشات کا غلام بن گیا ہے، لوگ ہم سے جو سننا چاہتے ہیں ہم وہ بولنے یا لکھنے پر مجبور ہیں اور ہم اگر کبھی عوامی رائے کے برعکس ذاتی معلومات اور ضمیر کے مطابق لکھ دیں تو لوگ ہمارے ساتھ شہر میں پھنسے آوارہ گدھے جیسا سلوک کرتے ہیں، آپ عوامی دبائو کا اندازہ لگائیے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے ظلم کی بات نہیں کر سکتے، ہم اولیاء کرام کا ذکر نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ ہمیں مردہ پرست قرار دے کر گالیاں دیتے ہیں، ہم عاصمہ جہانگیر اور ملک ریاض کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ ہمیں بے ایمان اور غدار سمجھنے لگتے ہیں، ہم پرویز مشرف کے اس انٹرویو کی تعریف نہیں کر سکتے جس میں اس نے پورے انڈین میڈیا کو خاموش کرا دیا اور تن تنہا پوری پاکستانی قوم اور فوج کا دفاع کیا، ہم ایم کیو ایم کے ڈسپلن اور کراچی میں مصطفی کمال کے ترقیاتی منصوبوں کی تعریف نہیں کر سکتے، ہم مولانا فضل الرحمن کی سیاسی استقامت کی داد نہیں دے سکتے، ہم چوہدری صاحبان کی عاجزی، محبت اور رواداری کی تعریف نہیں کر سکتے۔
ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے استحکام میں جنرل کیانی اور فوج کے کردار کی تعریف نہیں کر سکتے، ہم 125 ارکان کے ساتھ پانچ سال پورے کرنے پر صدر آصف علی زرداری کو مبارک باد پیش نہیں کر سکتے اور ہم علامہ طاہر القادری کے دھرنے کی تعریف اور عمران خان کی سیاسی حماقتوں کی مذمت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ مائنڈ کر جاتے ہیں او یہ سوشل میڈیا کو میدان جنگ بنا دیتے ہیں، میں روزانہ یہ صورت حال دیکھتا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے دنیا جس میڈیا کو آزاد سمجھتی ہے یہ عوامی رائے اور اس رائے کے پھیلتے ہوئے خوف کا غلام بن چکا ہے اور ہم بھی اب ماضی کی عدالتوں کی طرح کھڑکی سے باہر جھانک کر رائے دیتے ہیں اور یہ رویہ ملک کو مزید بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔
آپ میری احتیاط پسندی اور خوف کا اندازہ لگائیے، میں پچھلے ایک سال سے لاہور کے میٹرو بس منصوبے پر میاں شہباز شریف کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں ہمت پیدا نہیں ہو رہی، یہ حقیقت ہے پچھلے پانچ برسوں میں میاں شہباز شریف واحد وزیراعلیٰ تھا جس نے کام کیا اور پنجاب ملک کا واحد صوبہ تھا جس میں ترقیاتی کام ہوتے ہوئے نظر آئے، یہ درست ہے پنجاب جنت کا ٹکڑا نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے میاں شہباز شریف نے پنجاب کی حالت بدل دی، انھوں نے پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں تعلیم، صحت اور سڑکوں پر بے تحاشہ کام کیا، ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر جتنی چاہیں تنقید کر لیں مگر ہمیں ماننا پڑے گا اس اسکیم سے ان طالب علموں کو لیپ ٹاپ ملے جو شاید زندگی بھر یہ سہولت حاصل نہ کر پاتے، اب طالب علموں کو سولر لیمپس بھی مل رہے ہیں، دانش اسکولوں کی شکل میں غریب بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن بھی ملی اور اگر ان سہولتوں سے پنجاب کے صرف دس فیصد طالب علم فائدہ اٹھا لیں تو یہ انقلاب ہو گا۔
یہ درست ہے پنجاب کے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال آئیڈیل نہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے پنجاب کے کسی شہر میں روزانہ دس پندرہ لوگوں کو سرے عام گولی نہیں ماری جاتی اور ریاستی ادارے اس قتل و غارت گری پر کان لپیٹ کر نہیں بیٹھے رہتے، آج آپ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں نہیں جا سکتے لیکن آپ خواہ پٹھان ہوں، بلوچی ہوں یا سندھی آپ پنجاب کے کسی بھی شہر میں جا سکتے ہیں، آپ وہاں آزادانہ گھوم سکتے ہیں اور کوئی آپ کا راستہ نہیں روکے گا اور ان حالات میں جب سید قائم علی شاہ پانچ برسوں میں وزیراعلیٰ ہائوس کی سڑک نہیں بنوا سکے، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سڑک پر پڑی اسی لاشیں نہیں اٹھا سکے اور وفاقی حکومت پانچ سال میں اسلام آباد میں داخلے کی دو سڑکیں مکمل نہیں کروا سکی، ان میں وزیراعلیٰ پنجاب نے گیارہ ماہ میں لاہور میں میٹروبس چلا دی، یہ منصوبہ استنبول میں اڑھائی سال میں مکمل ہوا لیکن میاں شہباز شریف نے یہ گیارہ ماہ میں مکمل کیا اور اس میں نو کلو میٹر کا پاکستان کا سب سے بڑا پل بھی شامل ہے، یہ واقعی کمال ہے اور اس کمال کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی، یہ بس سروس پاکستان میں ویسا ہی سماجی انقلاب ہے جیسا 1997ء میں موٹروے کی تکمیل کے بعد آیا تھا۔
کاش محترمہ بے نظیر بھٹو موٹروے کا منصوبہ جاری رکھتیں تو آج پورا ملک موٹروے سے جڑا ہوتا اور ہم نہ صرف دس گھنٹوں میں اسلام آباد سے کراچی پہنچ جاتے بلکہ صوبوں کے درمیان دوریاں بھی پیدا نہ ہوتیں، میٹرو بس سے عام لوگوں کا سفر آسان ہو جائے گا اور یہ نیکی بھی ہے اور سیاسی خدمت بھی۔ میں اس پر میاں شہبازشریف کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں میں نے اگر اس مثبت کام کی تعریف کر دی تو پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اسکواڈ میرے اوپر حملہ کر دے گا، یہ مجھے میاں شہباز شریف کا چمچہ قرار دے دے گا اور یوں میرے پاس ان لوگوں کی خواہشوں کے انڈوں سے ہاتھی کے بچے نکالنے کے سوا کوئی چوائس نہیں ہو گی، میں عوامی رائے اور سوشل میڈیا کا ایک ایسا مغوی صحافی ہوں جو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے سیاپے کی نین بن چکا ہے اور اس کا بس ایک ہی کام ہے، دوسروں کی ذات کے کیڑے تلاش کرنا، ان کا پلائو پکانا اور قوم کے سامنے رکھ دینااور قوم کی تالیوں کا انتظار کرنا۔