حضرت علی کرم اللہ وجہہُ مسجد نبوی میں علم بانٹ رہے تھے، خاتون پریشانی میں بھاگتی ہوئی آئی اور عرض کیا " حضور میرا تین سال کا بچہ کنوئیں کے قریب کھڑا ہے، میں اس کی طرف جاتی ہوں تو وہ کنوئیں کی طرف دوڑ پڑتا ہے، آپ میری رہنمائی کریں، میں اپنے بچے کو کیسے بچائوں " حضرت علیؓ مسکرائے اور خاتون کو حکم دیا " تم اس کا کوئی ہم عمر بچہ لے جائو، وہ بچہ تمہارے بیٹے کو کنوئیں سے ہٹا لے گا" عورت نے ہمسائے کا بچہ لیا اور کنوئیں پر پہنچ گئی، بچے نے بچے کو دیکھا تو وہ قہقہے لگاتا ہوا اپنے ہم عمر کے پاس آ گیا اور یوں خاتون بیٹے کو زندہ سلامت لے کر گھر چلی گئی، بچوں کو صرف بچے سمجھ سکتے ہیں، آپ کبھی تجربہ کر کے دیکھ لیں، آپ اپنے دو تین یا چار سال کے بچے کو کسی ایسی جگہ لے جائیں جہاں مختلف قومیتوں کے بچے موجود ہوں، آپ اپنے دیسی بچے کو ان بچوں میں چھوڑ دیں۔
آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے آپ کا بچہ چند لمحوں میں ان اجنبی بچوں میں "مکس اپ" ہو جائے گا، یہ بچے مختلف قومیتوں اور مختلف نسلوں کے مختلف زبانیں بولنے والے بچے ہوں گے لیکن یہ نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ کمیونی کمیشن کر رہے ہوں گے بلکہ یہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے کھیل بھی سکھا رہے ہوں گے، یہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ سیکھنے کی صلاحیت ہے، بچوں میں سیکھنے کی بے تحاشہ صلاحیت ہوتی ہے، یہ صلاحیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک انسان میں لچک نہ ہو اور لچک اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ خود کو تعصبات، رنگ و نسل، ملک و قوم اور خاندان و قبیلے سے بالاتر کر لیتے ہیں، بچے کیونکہ تعصبات سے بالاتر ہوتے ہیں لہٰذا ان میں لچک ہوتی ہے اور یہ لچک انھیں سیکھنے کی صلاحیت، سیکھنے کا فن ودیعت کرتی ہے، آپ اگر بچوں کی اس جبلت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو بچہ بننا پڑتا ہے، آپ بڑے رہ کر کبھی بچوں کی خصلت کو نہیں سمجھ سکتے۔
ہم بزرگ لوگ ملالہ کے معاملے میں یہ غلطی کر رہے ہیں، ملالہ گل مکئی کے نام سے جب بی بی سی اردو میں مضامین لکھتی تھی تو اس وقت اس کی عمر صرف 12 سال تھی، ملالہ نے آج جب دنیا کے 27 بڑے میڈلز اور اعزازات لیے تو یہ فقط 16سال کی بچی ہے اور آپ اگر سولہ سال کی سواتی بچی سے یہ توقع کریں گے، یہ مفتی تقی عثمانی، علامہ طاہر القادری یا پھر اشفاق احمد جتنی ذہین، دانشور اور فطین ہو گی اور اس کی تحریر میں اتنی پختگی ہو گی تو آپ اپنے اور اس بچی دونوں کے ساتھ ظلم کریں گے، آپ اگر اس بچی کو اپنی تیرہ اور سولہ سال کی بچیوں کے درمیان کھڑا کر کے دیکھیں گے تو آپ کو یہ بچی ہزاروں لاکھوں بچیوں سے زیادہ قدر آور دکھائی دے گی، ہماری بچیاں اس عمر میں گڑیوں سے کھیلتی ہیں، یہ خط تک نہیں لکھ سکتیں اور یہ چھوٹے چھوٹے تقریری مقابلوں میں سر ٹیفکیٹ حاصل کرتی ہیں تو ہم اپنے دوستوں کو یہ سر ٹیفکیٹ بڑے فخر سے دکھاتے ہیں مگرملالہ نے اس عمر میں نہ صرف حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ یہ بچوں کی بین الاقوامی سطح کی لیڈر بھی بن گئی، آپ ٹیلی ویژن چینلز سے ملالہ کی تین چار سال پرانی فوٹیج نکلوا کر دیکھ لیجیے۔
یہ اس وقت سوات کی ایک غیر معروف بارہ سالہ بچی تھی، آپ اس پرانی فوٹیج میں اس کا اعتماد، اس کی گفتگو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، آج اس بچی نے اپنے اعتماد سے پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی لیکن ہم سولہ سال کی اس بچی کی لکھی ہوئی کتاب سے اسلام تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مجھے بھی اس کتاب کے بعض اقتباسات پر اعتراض ہے مگر آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے جب ہمارے بچے مذہب، ملک اور سیاسی شخصیات کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کیا ان کے سوال ملالہ کے سوالوں سے زیادہ خطرناک نہیں ہوتے اور کیا ہم انھیں ڈرا دھمکا کر چپ نہیں کرواتے؟ ہم اگر اپنے بچوں کا ایک سوال لکھ دیں یا ہم اپنے بچوں کو یہ سوال دوسروں کے سامنے پوچھنے کی اجازت دے دیں توکیا ہمارے بچوں پر کفر کے فتوے نہیں لگ جائیں گے؟ لیکن کیونکہ یہ بچے ہمارے بچے ہیں چنانچہ ہم ان کے وکیل بن جاتے ہیں اور ملالہ کیونکہ ہماری بچی نہیں لہٰذا ہم اپنی ساری انرجی اسے کافر، غیر محب وطن اور غدار ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں۔
میرے ایک عزیز دوست کل ٹیلی ویژن پر ملالہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے " ملالہ نے اپنی کتاب میں قائداعظم کو قائداعظم کے بجائے جناح لکھا" میں ان کی بات پر حیران رہ گیا کیونکہ قائداعظم کو صرف ہم قائداعظم کہتے ہیں، دنیا قائداعظم کو جناح کہتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستان موہن داس کرم چند گاندھی کو باپو مگر دنیا گاندھی کہتی ہے، کرسٹینا لیمب اس کتاب کی اصل رائیٹر ہے اور یہ رائیٹر پاکستانی نہیں برطانوی ہے چنانچہ یہ جب بھی لکھے گی جناح ہی لکھے گی، آپ سٹینلے والپرٹ سے لے کرجی الانا تک تمام انگریز مصنفوں کی کتابیں پڑھ لیں، ان سب نے قائداعظم کو جناح لکھا۔ ہمیں ملالہ کی پاکستانیت اور مذہب مشکوک نظر آتا ہے مگر ہمیں یہ دکھائی نہیں دیتا، یہ بچی دنیا کے جس فورم پر گئی، یہ پاکستانی لباس میں ملبوس تھی۔
اس نے سواتی قمیض اور شلوار پہن رکھی تھی اور اس کے سر پر دو پٹہ بھی تھا اور اس نے دنیا کے ہر فورم، ہر جگہ پر پاکستان اور پاکستانی بچوں کی بات کی اور یہ اس ملک کی بچی کر رہی ہے جس کے صدور اور وزراء اعظم ملک میں شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ پہن کر پھرتے ہیں مگر اوبامہ اور ڈیوڈ کیمرون سے سوٹ میں ملاقات کرتے ہیں، یہ بچی بڑے بڑے فورمز پر فی البدیہہ بات کرتی ہے مگر ہمارے وزیراعظم صدر اوبامہ کے سامنے دس فقرے بولنے کے لیے بھی کاغذ ساتھ لے جاتے ہیں، ہمارے وزراء اعظم، ہمارے صدور عالمی شخصیات سے ملاقات کے لیے اپنے بچوں کو ساتھ لے جاتے ہیں، یہ بلاول بھٹو، بختاور بھٹو، آصفہ بھٹو، حمزہ شہباز شریف اور سلیمان شہباز شریف کی ان کے ساتھ تصویریں کھینچواتے ہیں، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنے پورے پورے خاندان کو وائیٹ ہائوس، 10 ڈائوننگ اسٹریٹ اور چینی صدر کی رہائش گاہ پر لے جاتے تھے، ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا مگر ہمیں اپنے ٹیلنٹ، اپنے اعتماد اور اپنی سٹرگل کے ذریعے بکنگھم پیلس، وائیٹ ہائوس اور 10ڈائوننگ اسٹریٹ پہنچنے والی بچی پر بہت اعتراضات ہیں۔
آپ ملالہ یوسف زئی پر اعتراض کر رہے ہیں، آپ ہزار بار کریں کیونکہ یہ وہ واحد حق ہے جو اس ملک میں ہر شخص کو منوں کے حساب سے حاصل ہے اور ہم میں سے ہر شخص یہ حق اپنے کوٹے سے زیادہ استعمال کرتا ہے، ہم ایسی قوم ہیں جو دوسروں کے وضو، نماز اور تلاوت تک میں نقص تلاش کر لیتی ہے، ہم میں سے ننانوے فیصد لوگوں کی گفتگو " نہیں " سے شروع ہوتی ہے، آپ کسی شخص سے کچھ پوچھ لیں، یہ پہلے نہیں کہے گا اور اس کے بعد بات شروع کرے گا لہٰذا اعتراضات کی اس زمین پر آپ کو بھی ہر قسم کے اعتراض کی کھلی چھٹی ہے لیکن آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، دنیا نے ملالہ کو جتنے ایوارڈز دیے ہیں، آپ کا نام اگر ان میں سے کسی ایک ایوارڈ کے لیے پیش ہو جاتا تو کیا آپ یہ قبول نہ کرتے، کیا آپ کو خوشی نہ ہوتی اور اگر آپ کے بچے یا بچی کو ملکہ برطانیہ ملاقات کی دعوت دے تو کیا آپ یہ دعوت ٹھکرا دیں گے، آج جو لوگ ملالہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں مجھے یقین ہے ان میں سے اکثریت نے وائیٹ ہائوس، بکنگھم پیلس اور 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کے سامنے تصویر کھینچوائی ہو گی اور اگر یہ سانحہ اب تک نہیں ہوا تو یہ ان ملکوں کی سیر سے صرف لطف اندوز ہوچکے ہیں جو آج ملالہ کو عزت دینے کے بعد ان کی نظر میں برے ہو چکے ہیں۔
ہم مردہ پرست قوم ہیں، ہم تو اس وقت تک ولی کو ولی نہیں مانتے جب تک وہ پانچ من مٹی میں دفن نہیں ہو جاتا، اس کی قبر پر چادر نہیں ڈال دی جاتی اور اس کے مزار کے گرد دس بیس ملنگ نہیں بیٹھ جاتے اور اس ملک میں 16سال کی بچی کی یہ ہمت، یہ جرأت کہ یہ یو این میں خطاب کر جائے، یہ صدر اوبامہ کے سامنے بیٹھ جائے اور صدر اوبامہ اپنی بیگم اور اپنی بیٹیوں کو بلا کر ان کی اس سے ملاقات کرائے، ملکہ برطانیہ اسے دعوت دے اور یہ سولہ سال کی عمر میں بیسٹ سیلر کتاب کی مالک بن جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں، یہ احساس کمتری میں گندھا ہوا ایسا معاشرہ ہے جو دوسروں کی منڈیر پر چراغ تک برداشت نہیں کرتا، ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ ہمارے ہمسائے کی مرغی دو انڈے دے دے تو ہم اسے مغربی سازش قرار دے دیتے ہیں یا پھر اس مرغی کو نیلا تھوتھا کھلا دیتے ہیں، ہم ملالہ کو کیسے برداشت کریں گے؟ ملالہ ایک بے چاری پاکستانی بچی ہے، ہم لوگ اس بچی کا اسکول بچا نہیں سکے مگر ہم اس کے گل مکئی ہونے، نوبل انعام تک پہنچنے اور دنیا کی نوجوان ترین مقبول مصنفہ ہونے پر بہت دکھی ہیں، میں حیران ہوں ہم نے اب تک سولہ سال کی اس بچی پر کفر کا فتویٰ کیوں نہیں لگایا اور ہم نے اسے را کا ایجنٹ قرار کیوں نہیں دیا، مجھے لگتا ہے ہم یہ بھی کر گزریں گے لیکن اس کے باوجود ہمارے جذبہ انتقام کی تسلی نہیں ہو گی کیونکہ دنیا میں نفرت کی آگ بجھائی جا سکتی ہے حسد کی نہیں۔ یہ بچی ہے، آپ اگر اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ اسے اپنے بچوں میں رکھ کر دیکھیں، اسے اپنی انا اور ضد کے گز سے نہ ماپیں۔