ڈاکٹر عبدالسلام نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان تھے، یہ قادیانی مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور یہ پاکستانی آئین کے مطابق اقلیت اور غیر مسلم تھے لیکن یہ غیر مسلم ہونے کے باوجود پاکستانی تھے اور ان کا نوبل انعام پاکستان کا اعزاز تھا، ڈاکٹر صاحب کی کہانی انتہائی دلچسپ تھی، ڈاکٹر عبدالسلام ساہیوال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، والد جھنگ میں معمولی ملازم تھے، ڈاکٹر صاحب کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا، ابتدائی تعلیم جھنگ سے حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوگئے، پنجاب حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے دوران عوام پر وار ٹیکس لگا رکھا تھا، 2 ستمبر1945ء کو جنگ ختم ہو گئی، پنجاب حکومت نے وار ٹیکس ختم کر دیا مگر یہ ٹیکس ختم ہوتے ہوتے بھی صوبائی خزانے میں ٹھیک ٹھاک رقم جمع ہو گئی، اس وقت پنجاب کے وزیراعظم خضر حیات ٹوانہ تھے، ٹوانہ صاحب نے یہ فنڈ انگریز سرکار کے حوالے کرنے کے بجائے یہ رقم پنجاب کے ذہین طالب علموں کی تعلیم پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا، ڈاکٹر عبدالسلام اس وقت گورنمنٹ کالج سے ریاضی میں ایم ایس سی کر رہے تھے اور یہ پنجاب کے ذہین طالب علموں کی فہرست میں شامل تھے، پنجاب حکومت نے انھیں بھی وظیفہ دے دیا، یہ اس وظیفے سے کیمبرج یونیورسٹی گئے، انھوں نے وہاں سے فزکس اور ریاضی میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کی۔
یہ 1951ء میں پاکستان آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت اختیار کر لی، یہ ریسرچ کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے معاشرے کا کمال ہے یہ سینہ ٹھونک کر اہل لوگوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ بھی ڈاکٹر صاحب کے خلاف سینہ سپر ہو گئی، ڈاکٹر صاحب نے پرنسپل سے درخواست کی، آپ مجھے ایک چھوٹی سی لیبارٹری بنا دیں میں وہاں ریسرچ کرنا چاہتا ہوں، پرنسپل نے اس درخواست پر "عمل" کرتے ہوئے انھیں فٹ بال ٹیم کا کوچ بنا دیا، ڈاکٹر صاحب نے احتجاج کیا تو انھیں ہاسٹل کا وارڈن بنا دیا گیا، ڈاکٹر صاحب تنگ آ گئے اور یہ1954ء میں انگلینڈ شفٹ ہو گئے، ہمیں ماننا پڑے گا ہمارے دشمن معاشرے علم، ذہانت، برداشت اور اعلیٰ ظرفی میں ہم سے بہت آگے ہیں، یہ ذہین لوگوں کو مذہب سے بالاتر ہو کر پذیرائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی غیر مسلم برطانیہ نے عزت، نوکری اور ریسرچ کا بھرپور ماحول دیا، ڈاکٹر صاحب نے اس ریسرچ کی بنیاد پر 1979ء میں فزکس کا نوبل انعام حاصل کیا، یہ پاکستان اور سائنس دونوں کے لیے اعزاز کی بات تھی مگر پاکستان میں یہ اعزاز قادیانیت کی نذر ہوگیا، ہم نے اس اعزاز کو مرتد قرار دے کر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یوں ڈاکٹر صاحب جان، عزت اور علم بچانے کے لیے غیر ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، اٹلی نے کروڑوں ڈالر خرچ کر کے ٹرائیسٹ میں نظری طبیعات کا ادارہ بنایا اور ڈاکٹر عبدالسلام کو اس انسٹی ٹیوٹ کا پہلا ڈائریکٹر تعینات کر دیا اور ڈاکٹر صاحب آخری عمر تک اس انسٹی ٹیوٹ میں دنیا بھر کے سائنس دانوں کو فزکس اور نوبل انعام لینے کی ٹریننگ دیتے رہے، شاعر مشرق علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال ایک بار ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے ٹرائیسٹ گئے، ڈاکٹر صاحب نے انھیں گلے لگایا اور رونا شروع کر دیا، ان کا کہنا تھا دنیا بھر سے لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں مگر آپ پہلے پاکستانی ہیں جو مجھ سے ملاقات کے لیے آئے، کاش میں اپنے ملک جا سکتا۔
ہم مسلمان ہیں، ہم نبی اکرمؐ کو آخری نبی مانتے ہیں اور میرے سمیت اس ملک کا ہر شخص دل سے یہ سمجھتا ہے ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کو اپنے آپ، اپنی آل اولاد اور زمین جائیداد سے زیادہ اہمیت نہ دیں، قادیانیوں کو غیر مسلم بھی سمجھتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود پاکستانی شہری ہیں اور انھیں اس ملک کی دوسری اقلیتوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں مگر ہم مذہب، عقائد اور نظریات میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کی شہریت تک سے منحرف ہو جاتے ہیں، ہم انھیں پاکستانی اور بعض اوقات انسان تک ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ صرف چند اقلیتوں تک محدودنہیں بلکہ ہم کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت اپنی نفرت اور حسد کی صلیب پر چڑھا دیتے ہیں اور اس کے بدن میں نفرت کی کیلیں ٹھونک دیتے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی ہمارے اس رویئے کا تازہ ترین نشانہ ہے، یہ بچی انتہائی ذہین، بہادر اور سمجھ دار ہے، آپ اس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر نکال کر دیکھ لیں، آپ کو 16 سال کی بچی میں میاں نوازشریف، من موہن سنگھ اور صدر اوبامہ سے زیادہ اعتماد دکھائی دے گا، دنیا کے عظیم ترین فورم پر اتنے اعتماد کے ساتھ بات کرنا بہادری اور جرأت کا کام ہے اور ملالہ یوسف زئی اس نعمت سے مالا مال ہے، آپ اس کے عالمی ٹیلی ویژن چینلز پر انٹرویوز بھی ملاحظہ کیجیے اور آپ اس کی دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں سے ملاقاتیں بھی دیکھئے، آپ کو یہ بچی اعتماد، بہادری اور عزم کی عظیم تصویر دکھائی دے گی، یہ 2009 سے عالمی فورمز پر پاکستانی بچوں کا کیس لڑ رہی ہے، یہ ہر فورم پر پاکستان کی سچی نمایندگی کر رہی ہے، یہ دنیا کو بتا رہی ہے پاکستان، اصل پاکستان ملالہ یوسف زئی ہے، آل سینٹس چرچ، قصہ خوانی بازار، علمدار روڈ اور پریڈ گراؤنڈ مسجد راولپنڈی میں پڑی نعشیں نہیں، یہ بچی اپنی ہمت، جرأت اور اعتماد کی بنیاد پر اب تک دنیا کے 25 بڑے میڈلز اور اعزازات حاصل کر چکی ہے جب کہ یہ امن کے نوبل انعام کے انتہائی قریب بھی پہنچی، اسے نوبل انعام نہیں ملا اور اس پر "ہم" خوش اور ہمارے "دشمن" اداس ہیں، دنیا کے بڑے بڑے لوگ ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام نہ ملنے پر شرمندہ ہیں، دنیا اداس ہے مگر ہماری سازشی تھیوریز ہی ختم نہیں ہو رہیں۔
ہم نے شروع میں ملالہ یوسف زئی پر حملے کو جھوٹا قرار دے دیا ہم نے یہ کہنا شروع کر دیا ملالہ کو سرے سے گولی ہی نہیں لگی، برطانیہ نے جب اس معصوم بچی کے علاج کی پیش کش کی تو ہم نے اسے بھی یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے دیا، یہ بچی اگر سوات یا راولپنڈی میں علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتی تو شاید یہ عین اسلامی ہوتامگر اس کا کوئین ایلزبتھ ہاسپٹل برمنگھم میں علاج غیر اسلامی ہو گیا اور یہ فتویٰ کون لوگ جاری کر رہے تھے؟ وہ جو اپنے لیے ڈسپرین تک بیرون ملک سے منگواتے ہیں، علاج کے بعد حکومت پاکستان نے اس کے والد کو برمنگھم میں ایجوکیشنل اتاشی بنا دیا، یہ تعیناتی بھی اسلام کے خلاف سازش قرار پا گئی یعنی ملالہ کے والد کو خود کو سچا مسلمان اور کھرا پاکستانی ثابت کرنے کے لیے ملالہ کو پاکستان لانا چاہیے تھا اور کسی خودکش حملے میں خود اور ملالہ دونوں کو شہید کروانا چاہیے تھا، یہ بھی کہا گیا ملالہ کو پاکستانی اور عالمی میڈیا نے بنایا، یہ میڈیااسٹنٹ ہے؟ کیا ملالہ کو جنرل اسمبلی میں تقریر کا اعتماد بھی میڈیا نے دیا تھا؟ اور یہ بھی میڈیا کی سازش ہے جس کے ذریعے ملالہ سی این این اور بی بی سی پر اعتماد کے ساتھ بات کررہی ہے اور پاکستان اور سوات کا نام لے رہی ہے اور کیا ملالہ کے سر پر چادر اور بدن پر پاکستانی شلوار قمیض بھی میڈیا اسٹنٹ ہے، خدا خوفی کریں، یہ بچی سو فیصد جینوئن، بااعتماد اور ذہین ہے اور یہ ہر لحاظ سے نوبل انعام کی حق دار تھی، کاش ملالہ کو یہ انعام مل جاتا تو ہم اقوام عالم میں سرخ رو ہو جاتے، یہ الگ بات ہے اس کے بعد ملالہ یوسف زئی بھی ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح باقی زندگی یورپ یا امریکا میں گزارتی اور دنیا بھر کے لوگ اس سے ملاقات کے لیے آتے مگر یہ اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کا راستہ دیکھتی رہتی۔
ہم خود کو آخر سماجی حسد سے کب آزاد کریں گے، ہم چیزوں، واقعات اور عالمی اعزازات کو ان کی اصل ماہیت میں دیکھنا کب شروع کریں گے، ہم خود کو اس معاشرتی احساس کمتری سے کب باہر نکالیں گے اور ہم کب تک ملک کے ہر کامیاب شخص کو قادیانی، را کا ایجنٹ، یہودی اور عیسائی ٹاؤٹ اور میڈیا اسٹنٹ قرار دیتے رہیں گے اور اگر ہمارے ملک کے تمام کامیاب لوگ برے ہیں، غیر ملکی ایجنٹ ہیں یا میڈیا اسٹنٹ ہیں تو کیا پھر وہ لوگ سچے مسلمان اور کھرے پاکستانی ہیں جو مسجدوں میں نمازیوں پر بم پھاڑتے ہیں، قبرستانوں میں جنازوں کے دوران حملے کرتے ہیں یا پھر جنہوں نے تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتے سیکڑوں ہزاروں سال گزار دیے، ہم آج تک اچھی کوالٹی کا لوٹا نہیں بنا سکے، ہمارے تندورچی دن میں سیکڑوں بار تندور کے اندر جھانکنے کی وجہ سے ٹی بی کے مریض ہو جاتے ہیں، ہم آج تک اپنے پبلک ٹوائلٹس کو قابل استعمال نہیں بنا سکے اور ہم آج تک ایسے وضو خانے نہیں بنا سکے جن میں بیٹھ کر ہم اپنے اور دوسروں کے کپڑے گیلے کیے بغیر وضو کر سکیں مگر ملالہ کی اچیومنٹ بری بھی ہے، غلط بھی اور شعائر اسلام کے خلاف بھی، اگر اس ملک میں ایک بچی کے لیے اپنے اسکول، اپنی تعلیم کے لیے جدوجہد غلط ہے تو پھر اس ملک میں کوئی چیز ٹھیک نہیں، ہمیں پھر اس ملک کو پاکستان نہیں کہنا چاہیے، کیوں؟ کیونکہ ملک اس وقت تک صرف ستان رہتے ہیں جب تک انھیں تعلیم کے وضو کے ذریعے پاک نہ کر دیا جائے اور ملالہ تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم کے ذریعے زمین کے اس ٹکڑے کو پاکستان بنانے کی کوشش کر رہی ہے مگرہم اسے صرف ستان دیکھنا چاہتے ہیں۔