برمنگھم کی سینٹرل لائبریری ماڈرن بھی ہے اور پرکشش بھی۔ لوہے، شیشے اور لکڑی سے بنی یہ عمارت اعلیٰ ذوق کی امین ہے، آپ عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ کسی سیون اسٹار ہوٹل میں آ گئے ہیں، لائبریری کا فرنٹ ڈیسک جدید آرٹ کا نمونہ ہے، فرنٹ ڈیسک کے دائیں جانب تھیٹر روم، کافی شاپس، سوینئر شاپس اور دفاتر ہیں، بائیں جانب برقی زینہ ہے، یہ زینہ آپ کو بالائی اور زیریں منزلوں پر لے جاتا ہے جب کہ آپ برق رفتار لفٹوں کے ذریعے ٹاپ فلور تک جا سکتے ہیں، لائبریری کی مختلف منازل میں کانفرنس رومز، میٹنگ رومز اور مختلف موضوعات کے سیکشن ہیں، بالائی منزل پر ایک طویل ٹیرس ہے، آپ اس ٹیرس سے دور دور تک بکھرا ہوا شہر اور شہر کی سرخ چھتیں دیکھ سکتے ہیں، ہمارے پورے ملک میں اس پائے کی ایک بھی عمارت نہیں، آپ اس عمارت میں پورا دن گزار سکتے ہیں، کتابیں پڑھیں، لیکچر سنیں، تھیٹر دیکھیں، کافی شاپ پر کافی پئیں، سنیکس کھائیں، لائبریری کے فائیو اسٹار واش رومز استعمال کریں، ٹیرس پر کھڑے ہو کر غروب آفتاب کا منظر دیکھیں یا پھر عمارت سے باہر لان کی گیلی گھاس پر لیٹ جائیں، آپ بور نہیں ہوں گے۔
یہ لائبریری ملالہ یوسف زئی اور ضیاء یوسف زئی کے ساتھ ملاقات کا مقام تھا، ملالہ اسکول میں پڑھ رہی ہے، یہ کلاس سے فارغ ہو کر سینٹرل لائبریری پہنچ گئی، میں ان سے پہلے لائبریری پہنچ چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے سولہ سال کی اس بچی کو بین الاقوامی شہرت سے نوازا۔ آپ ملالہ سے ملیں تو آپ کا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے جس میں رب کائنات نے فرمایا "عزت اور ذلت ہم دیتے ہیں " اللہ تعالیٰ نے سولہ سال کی اس پاکستانی بچی کو عزت کے لیے چن لیا، طالبان نے 9 اکتوبر 2012ء کو اس پر گولی چلائی، یہ ایک گولی اسے پوری دنیا میں ہیرو بنا گئی اور وہ شخصیات جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کروڑوں لوگ زندگی بھر انتظار کرتے ہیں، وہ شخصیات اپنے گھروں کے دروازے کھول کر ملالہ کے استقبال کے لیے کھڑی ہو گئیں، ملکہ برطانیہ ہوں یا صدر اوباما، انجیلینا جولی ہوں، اردن کی ملکہ رانیا ہوں یا فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم ہوں یا پھر بان کی مون ہوں یہ تمام لوگ ملالہ یوسف زئی سے ملاقات کو اعزاز سمجھنے لگے، ملالہ اس وقت برمنگھم میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، طالبان کی گولی کی وجہ سے اس کے دماغ کی وہ نس کٹ گئی جو چہرے کے بائیں حصے کے عضلات کو کنٹرول کرتی ہے چنانچہ اس کے چہرے کا بایاں حصہ تقریباً بے حس ہے، اس پر تاثرات نہیں آتے، اس کے نچلے ہونٹ کا بایاں حصہ بھی ذرا سا ٹیڑھا ہو گیا ہے لیکن اس کا اعتماد اس کے باوجود اپنی جگہ قائم ہے۔
ہم آدھ گھنٹہ سینٹرل لائبریری کے ٹیرس پر کھڑے رہے، سورج غروب ہو رہا تھا، ماحول میں خنکی تھی لیکن ملالہ کے لہجے کی گرم جوشی اس خنکی کا مقابلہ کر رہی تھی، اس کے والد ضیاء یوسف زئی سمجھ دار اور مہذب انسان ہیں، وہ بار بار اپنے اسکول کو یاد کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا " میرے اسکول میں گیارہ سو بچے تھے، میں اپنی زندگی سے مطمئن تھا لیکن پھر ہم سے ہماری زمین چھین لی گئی، میرا خاندان پردیس میں بسنے پر مجبور ہوگیا، مجھے میرا سوات سونے نہیں دیتا" وہ پاکستان کے حالات کے بارے میں بھی متفکر تھے، ملالہ اپنے والد سے بہت پیار کرتی ہے، یہ ان کا احترام بھی کرتی ہے لیکن اس کے باوجود اسے ان کے چند خیالات سے اتفاق نہیں، ملالہ سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، یہ دنیا کے تمام موضوعات پر کھل کر بات کرنا چاہتی ہے لیکن والد کی احتیاط پسندی اس کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، یہ پاکستان میں امن چاہتی ہے، یہ امن خواہ مذاکرات کے ذریعے ہو یا جنگ کے ذریعے۔
یہ اپنے سوات لوٹ جانا چاہتی ہے، اس کی خواہش ہے یہ پاکستان واپس جائے اور سوات کی بچیوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھائے، یہ پاکستان کی معصوم بچیوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے، یہ اپنی وین کے اس ڈرائیور عثمان بھائی کے لیے بھی بہت پریشان ہے جو ملالہ، شازیہ اور کائنات کو گولی لگنے کے بعد اسپتال لے کر گیا تھا، وہ اگر اس وقت یہ رسک نہ لیتا تو شاید آج یہ تینوں بچیاں دنیا میں نہ ہوتیں، عثمان بھائی کو اس واقعے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لے لیاتھا، یہ آج بھیان کے قبضے میں ہے، ملالہ عثمان بھائی کے بارے میں بہت متفکر تھی، وہ مجھ سے بار بار پوچھ رہی تھی " سیکیورٹی ادارے عثمان بھائی کو کیوں نہیں چھوڑ رہے، ان کا تو کوئی قصور نہیں تھا" میں نے اس سے وعدہ کیا، میں واپس جا کر اعلیٰ حکام سے عثمان بھائی کے بارے میں بات کروں گا، میری آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے درخواست ہے، ملالہ کا عثمان بھائی 9 اکتوبر 2012ء سے حراست میں ہے، آپ مہربانی فرما کر اسے رہا کرا دیں، ملالہ اس کے بارے میں بہت پریشان ہے، یہ بار بار کہتی ہے، عثمان بھائی بے گناہ ہیں۔
میں نے ملالہ سے اس کی کتاب "آئی ایم ملالہ" کے متنازعہ مواد کے بارے میں پوچھا، وہ اس پر شرمندہ تھی، اس کا کہنا تھا، یہ کتاب کرسٹینا لیمب نے لکھی تھی، اس کا ریسرچ ورک بھی اسی نے کیا تھا، میں نے اس سے درخواست بھی کی تھی، وہ کتاب میں نبی اکرمؐ کا ذکر پورے احترام کے ساتھ کرے لیکن وہ جلدی میں اس کا دھیان نہیں رکھ سکی، مجھے اس پر شرمندگی ہے اور میں اس پر پورے ملک سے معافی مانگتی ہوں، ملالہ نے یقین دلایا، اگلے ایڈیشن میں یہ غلطی درست کر دی جائے گی، اسے گوروں کی سادگی نے بہت متاثر کیا، یہ صدر اوباما اور انجلینا جولی کی سادگی پر بہت حیران ہے، اس کا کہنا ہے" انجلینا جولی دنیا کی سپر اسٹار ہے لیکن میں جب اس سے ملی تو میں اس کی سادگی اور محبت پر حیران رہ گئی، اس کے سوال اور لائف اسٹائل دونوں بہت سادہ تھے، مجھے صدر اوباما اور ان کی فیملی نے بھی بہت متاثر کیا، یہ بھی انتہائی سادہ لوگ ہیں " یہ یو این کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو بہت اہمیت دیتی ہے، اس کا کہنا ہے، میرے لیے دنیا کے بڑے لیڈروں سے مخاطب ہونا اعزاز کی بات تھی، یہ دوسری بار نوبل پیس پرائز کی نامی نیشن پر بھی خوش تھی۔
اس کا کہنا تھا، یہ بھی سوات کی ملالہ کے لیے اعزاز کی بات ہے، یہ سیاست میں آنا چاہتی ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح وزیراعظم بننا چاہتی ہے، میں نے اس سے کہا " آپ جب وزیراعظم بن جائیں تو مجھے ضرور یاد رکھئے گا" اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور بڑی سادگی سے جواب دیا " میں آپ کو ضرور یاد رکھوں گی" یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت سے بھی بہت متاثر ہے، یہ ان کی بیٹیوں کو بھی بہت پسند کرتی ہے، یہ برطانیہ، ملکہ برطانیہ اور گورڈن براؤن کی ممنون ہے جنہوں نے اس کا علاج کرایا، جو اسے تعلیم دے رہے ہیں اور جن کی مدد سے یہ ملالہ فاؤنڈیشن چلا رہی ہے لیکن اسے پاکستان سب سے زیادہ پسند ہے، یہ سوات کی ہواؤں، ندیوں، جنگلوں اور لوگوں کو بہت مس کر رہی ہے، اسے اپنی کلاس فیلوز بھی بہت یاد آتی ہیں اور یہ اپنے اسکول کو بھی بہت یاد کرتی ہے، اس کی شدید خواہش ہے پاکستان میں امن قائم ہو جائے تاکہ یہ پاکستان آ سکے۔
ملالہ یوسف زئی کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، آزاد بلوچستان کے حامی ہربیار مری اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس پر کام کرنے والے لوگ میری اگلی منزل تھے، میں الطاف حسین سے ملاقات کے لیے پاکستان سے کوشش کرتا رہا، میری تین بار مصطفیٰ عزیز آبادی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی، انھوں نے مجھ سے وعدہ بھی کیا، اس کے باوجود الطاف حسین سے ملاقات نہ ہو سکی لیکن میں لندن کے علاقے مل ہل میں الطاف حسین کے گھر تک گیا۔ مل ہل انتہائی خوبصورت اور لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ میں ایجویر میں اس گھر تک بھی گیا جہاں ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010ء کو قتل کر دیا گیا تھا، برطانوی پولیس کا خیال ہے، یہ قتل شاید کراچی کے دو شہریوں محسن علی سید اور محمد کاشف علی کامران نے کیا، یہ پاکستانی اداروں کی حراست میں ہیں۔ برطانیہ میں موجود ماہرین کا خیال ہے پاکستان نے جس دن یہ دو مبینہ ملزم اور ان کے معاونین برطانیہ کے حوالے کر دیے یہ کیس اس دن مکمل ہو جائے گا۔