Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Malala

Malala

دنیا میں معاشروں کو پرکھنے کے تین بڑے ٹیسٹ ہیں، ٹریفک، شراب اور خواتین۔ آپ کسی ملک میں چلے جائیں۔

آپ کو اگر وہاں ٹریفک ترتیب، ضابطے اور تہذیب کے ساتھ چلتی نظر آئے، گاڑیاں اپنی لین میں ہوں، آپ کو سڑک پر افراتفری دکھائی نہ دے، آپ ہر گاڑی کو اسپیڈ لمٹ میں چلتا دیکھیں، گاڑیاں پیلی لائٹ پر رک جائیں اور سبز پر چلنا شروع کریں، لوگ صرف زیبرا کراسنگ پر سڑک عبور کریں، سڑک پر پیدل چلنے، سائیکل چلانے اور موٹر سائیکل سوار کو گاڑی والے سے زیادہ حقوق حاصل ہوں، پیدل چلنے والوں کے لیے باقاعدہ اوور ہیڈ برج اور انڈر گرائونڈ راستے بنے ہوں۔

لوگ گاڑیوں سے بوتلیں، ڈبے، ریپر اور چھلکے سڑکوں پر نہ پھینک رہے ہوں، ٹریفک سارجنٹ قانون کی خلاف ورزی پر گاڑی کے مالک کا تعارف لیے بغیر اس کا چالان کر رہے ہوں اور گاڑی کا ڈرائیور اور مالک چپ چاپ جرمانہ ادا کر دے اور ملک میں لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کا تصور تک نہ ہو تو وہ ملک مہذب بھی ہو گا، ترقی یافتہ بھی اور ڈسپلنڈ بھی اور اس ملک میں ہر چیز قانون اور قاعدے کے تابع ہو گی جب کہ اس کے برعکس اگر ٹریفک کے کسی ایک یا ایک سے زائد ضابطے کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو آپ سمجھ لیں اس میں قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ اور جس ملک میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں آپ کو وہاں آمریت بھی ملے گی، بری جمہوریت بھی، کرپشن بھی، شدت پسندی بھی، فسادات بھی، مذہبی اختلافات بھی، غربت بھی، بیماری بھی اور جہالت بھی چنانچہ سڑکیں ملک کی صورتحال کا پہلا آئینہ ہوتی ہیں۔ معاشرے کا دوسرا ٹیسٹ شراب ہے۔

اگر کسی ملک میں لوگ شراب پی کر گاڑی نہ چلائیں، غل غپاڑہ نہ کریں، شرابی ایک دوسرے کے سر میں بوتلیں نہ ماریں، لوگ زہریلی شراب پی کر جان نہ دیں، نوجوان شادی بیاہ پر شراب نہ پئیں اور مدہوشی میں طوائفوں پر نوٹ نچھاور نہ کریں اور ملک میں پابندی کے بعد شراب نہ ملتی ہو تو وہ معاشرہ مہذب بھی ہوتا ہے اور تعلیم یافتہ بھی اور اس معاشرے میں قانون کا احترام اور ریاست کی رٹ بھی ہوتی ہے اور جس معاشرے میں ریاست کی رٹ اور قانون کا احترام سلامت ہو وہ معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے اور اس میں امن بھی ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس اگر معاشرے میں لوگ شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوں۔

شرابی گلیوں اور محلوں میں سرِعام غل غپاڑہ کرتے ہوں اور پولیس رات کو ناکے لگا کر لوگوں کے منہ سونگھتی ہو تو آپ جان لیجیے اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ اور جس ملک میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں وہ ملک غیر ترقی یافتہ بھی ہوتا ہے، پسماندہ بھی، جاہل بھی، بیمار بھی اور شدت پسند بھی اور معاشرے کا تیسرا ٹیسٹ خواتین ہیں، اگر کسی معاشرے میں خواتین بلا خوف و خطر گھر سے باہر نکلتی ہوں، یہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی جاتی ہوں، یہ دفتروں میں کام کرتی ہوں، اکیلی بسوں، وینوں اور ٹرینوں میں سفر کرتی ہوں، بازاروں میں خریداری کرتی ہوں۔

بچوں کو ساتھ لے کر پارک جاتی ہوں اور رات کے بارہ ایک بجے بھی اگر کوئی جوان لڑکی سڑک یا گلی میں اکیلی جا رہی ہو اورکسی کو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہو تو آپ جان لیں وہ معاشرہ محفوظ ہے، اس میں قانون اور ریاست دونوں جاگ رہی ہیں لیکن اس کے برعکس اگر خواتین گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتی ہوں، انھیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے کسی مردانہ سپورٹ کی ضرورت ہو، یہ خوف کی وجہ سے جاب نہ کر سکیں اور یہ بھائی، والد، بیٹے اور خاوند کے بغیر خریداری نہ کر سکیں اور والدین بچیوں کے جوان ہونے کے ساتھ گھروں تک محدود ہو جاتے ہوں تو آپ سمجھ لیں وہ معاشرہ، معاشرہ نہیں جنگل ہے جس میں مرد درندے اور خواتین مظلوم ہرن ہیں اور قانون اور ریاست مظلوم ہرنوں کو درندوں سے بچانے میں ناکام ہو چکی ہے۔

اور آپ کو بدقسمتی سے یہ تینوں خرابیاں اس ملک میں نظر آئیں گی، ہمارے ملک میں سڑکیں موت کا کنواں ہیں، پولیس موٹروے پر بھی " اووراسپیڈنگ" پر صرف جرمانہ کرتی ہے، یہ گاڑی بند کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی کا لائسنس ضبط کر سکتی ہے اور اگر لائسنس ضبط ہو بھی جائے تو بھی ہم اس شخص کو گاڑی چلانے سے نہیں روک سکتے، ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن ہماری سڑکیں رات کے وقت شرابیوں کی سرکس بن جاتی ہیں، ملک کے تمام بڑے شہروں میں غل غپاڑہ بھی ہوتا ہے، شرابی شرابیوں کے سر بھی پھاڑتے ہیں۔

شراب پی کر طوائفوں پر نوٹ بھی برسائے جاتے ہیں اور بعض اوقات غریب شرابی کو گرفتار کرنے والا پولیس اہلکار بھی نشے میں دھت ہوتا ہے، اس کا معائنہ کرنے والا ڈاکٹر بھی، اس کے خلاف کارروائی کی اجازت دینے والا مجسٹریٹ بھی اور اسے سزا سنانے والا جج بھی اور پیچھے رہ گئیں خواتین تو یہ معاشرہ خواتین کے معاملے میں بارہویں صدی سے آگے نہیں بڑھ سکا، ہماری خواتین امام مسجد، پولیس کانسٹیبل، مجسٹریٹ، جج حتیٰ کہ قانون سازوں تک سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ وہ سچ ہے ہم جب تک جس کا سامنا نہیں کریں گے یہ معاشرہ اس وقت تک ملالہ یوسف زئی جیسی بچیوں کے لیے محفوظ نہیں بنے گا۔

ملالہ یوسف زئی پاکستانی معاشرے میں زنانہ جرأت، بہادری اور حوصلے کی علامت ہے، یہ 2009ء میں طالبان کے دور میں گیارہ سال کی بچی تھی، طالبان نے لڑکیوں کے اسکول بند کر دیئے تو آٹھویں جماعت کی اس بچی نے علم کے لیے جہادیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیا، یہ گل مکئی کے نام سے سوات کی ڈائری لکھنے لگی، ملالہ کی ڈائری بی بی سی میں شائع ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے عالمی شخصیت بن گئی، ملالہ ملٹری آپریشن کے دوران بھی ڈائری لکھتی رہی، یہ آپریشن کے بعد پاکستانی بچیوں کی ہیروئن بن گئی، انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا اس کی طرف متوجہ ہوا، اس کے انٹرویوز بھی ہوئے اور چینلز نے اس پر پیکیج بھی بنائے۔

یہ ڈائری اور میڈیا کے ذریعے "کڈز رائٹس فائونڈیشن" جیسی بین الاقوامی تنظیم کی نظر میں آئی، فائونڈیشن نے 2011ء میں اسے انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کر دیا، اس ایوارڈ کے لیے 245 ممالک سے صرف پانچ بچیاں چنی گئیں اور ملالہ ان پانچ بچیوں میں شامل تھی، ملالہ بدقسمتی سے انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ حاصل نہ کر سکی تاہم یہ بین الاقوامی شخصیت بن گئی، حکومت پاکستان نے 19 دسمبر 2011ء کو اسے پاکستان کا پہلا امن ایوارڈ دیا، یہ بچی ملک میں تبدیلی کا نشان تھی لیکن 9 اکتوبر کو طالبان نے اسے اسکول وین میں گولی مار دی، اس کی گردن اور سر میں دو گولیاں لگیں، پورا ملک اس واقعے پر غمزدہ ہے، ملک کے زیادہ تر اسکولوں میں ملالہ کی صحت کے لیے دعائیں ہو رہی ہیں۔

کل پارلیمنٹ میں بھی ملالہ کے لیے قرار داد پاس ہوئی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، کیاپاکستان کی ہر گلی میں روزانہ ملالہ جیسی بچیاں بے عزت نہیں ہوتیں، کیا یہ جنسی درندگی سے لے کر قتل تک کی سزا نہیں بھگتتیں اور ریاست اعداد و شمار تک جمع کرنے کی روادار نہیں ہوتی، کیا اس ملک میں غیرت کے نام پر بچیاں قتل نہیں ہو رہیں، کیا اس ملک میں چار چار سال کی بچیوں کو ونی نہیں کیا جاتا، کیا اس ملک میں آج بھی بچیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں، کیا اس ملک میں آج بھی عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاتا، کیا اس ملک میں آج بھی عورتوں کے منہ پر تیزاب نہیں پھینکا جاتا اور کیا اس ملک میں عورت آج بھی بنیادی حقوق سے محروم نہیں؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہماری ریاست مفلوج ہو چکی ہے اور ہم ملالہ کا رونا رو کر اپنا ریاستی فالج چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرریاست اور ریاست کی پارلیمنٹ بلال کھر جیسے سیاستدان کے ہاتھوں فاخرہ یونس کے منہ پر تیزاب پھینکنے کے واقعے پر خاموش رہے گی تو کیا پھر طالبان کو ملالہ یوسف زئی کو گولی مارنے کا حق حاصل نہیں ہوگا؟ کیا ان دونوں واقعات میں صرف کراچی اور سوات اور کلین شیو اور داڑھی کا فرق نہیں؟ ہم اگر کراچی یا مظفر گڑھ کے بلال کھروں کو عورت کی تذلیل اور قتل کی پوری پوری اجازت دے دیتے ہیں یا پھر ہم قبائلی روایات کی آڑ میں وزراء اور سیاستدانوں کو عورتوں پر کتے چھوڑنے اور پانچ پانچ سال کی بچیوں کو ونی کرنے کا موقع دے دیتے ہیں تو پھر ہم طالبان کے ہاتھوں ملالہ کے زخمی ہونے پر کیوں چیخ رہے ہیں۔

اگر ہمیں معصوم بچیاں اتنی ہی عزیز ہیں تو پھر ہماری پارلیمنٹ نے اس شازیہ کے حق میں قرارداد پاس کیوں نہیں کی اور وزیراعظم نے اس کے لیے ہیلی کاپٹر کیوں نہیں بھجوایا، ہمارے آرمی چیف اس کی عیادت کے لیے مینگورہ کیوں نہیں گئے اور ہم نے اس کو طبی امداد کیوں نہیں دی جو وین میں ملالہ کے ساتھ بیٹھی تھی اور طالبان نے اسے بھی گولی مار دی، ہم ملالہ کے لیے چیخ رہے ہیں لیکن ہم نے دوسری بچی کو مرنے کے لیے سیدو شریف کے اسپتال میں چھوڑ دیا، کیوں؟ کیونکہ وہ ملالہ کی طرح انٹرنیشنل فگر نہیں، وہ صرف پاکستانی بچی ہے انٹرنیشنل فیم پاکستانی بچی نہیں، کیا یہ ہے انصاف؟ کیا یہ ہے خواتین کے بارے میں ہمارا رویہ؟

حقیقت تو یہ ہے اس ملک میں عورت اس وقت تک محفوظ نہیں ہوتی جب تک وہ مختاراں مائی نہ بن جائے یا پھر کوئی یورپی ملک اس کی سپورٹ میں آگے نہ آجائے اورجب تک ہمارا یہ رویہ قائم رہے گا ملک میں اس وقت تک مختاراں مائی محفوظ رہے گی اور نہ ہی ملالہ یوسف زئی اورہم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو ہمیں کفر کے اس دور میں واپس جاتے دیر نہیں لگے گی جس میں ہر شخص کے کندھے پر کسی معصوم بچی کی نعش تھی اور زندہ درگور ہونے والی ان بچیوں کی داستانیں سن کر نبی رحمتؐ اپنی سسکیاں نہیں روک پاتے تھے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.