Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mian Sahab Bhi

Mian Sahab Bhi

سید عبدالودود شاہ دو مارچ 2013ء کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل بنے، میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات اپریل کے آخر میں اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہوئی، میں لاہور جا رہا تھا، راول لائونج میں اچانک افراتفری مچی، سول ڈریس میں چار پانچ لوگ دائیں بائیں دوڑے اور اس کے بعد سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص لائونج میں داخل ہو گیا، وہ باریش بھی تھا، اس کے ماتھے پر محراب کانشان بھی تھا اور اس کے کندھے بھی عاجزی سے جھکے ہوئے تھے، اس نے دائیں بائیں دیکھا اور سیدھا میری طرف آ گیا، میں کھڑا ہو گیا، اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور بھاری آواز میں بولا " ودود شاہ" میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، ان کے پیچھے کھڑا نوجوان فوراً بولا " ڈی جی آئی بی" میں نے انھیں خوش آمدید کہا اور وہ میرے ساتھ بیٹھ گئے، ملک میں الیکشن جوں جوں قریب آ رہے تھے۔

الیکشنوں کے بارے میں خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا، سینیٹر اسلام الدین شیخ میرے دوست ہیں، یہ ان چند شاندار سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی شرافت اور وضع داری کی ضمانت دی جا سکتی ہے، انھوں نے میرے ساتھ شرط لگا لی تھی الیکشن نہیں ہوں گے، ایم کیو ایم کے زیادہ تر ایم این ایز اور سینیٹرزبھی یہ دعویٰ کر رہے تھے، نگران وزراء بھی میڈیا سے پوچھتے پھرتے تھے، کیا الیکشن ہو جائیں گے؟ اے این پی اور جے یو آئی کو بھی الیکشنوں کا یقین نہیں تھا، صرف میاں نواز شریف اور عمران خان دو لیڈر تھے جنھیں نہ صرف الیکشنوں کا یقین تھا بلکہ یہ بھرپور طریقے سے مہم بھی چلا رہے تھے، اس فضا میں ڈی جی آئی بی اہم ترین شخص تھا کیونکہ ملک کی سیکیورٹی کی نوے فیصد اطلاعات اس سے ہو کر وزیراعظم اور کابینہ تک پہنچتی ہیں، یہ بنیادی طور پر حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتا ہے اور اس کی بات کو اعلیٰ سطح پر حتمی سمجھا جاتا ہے۔

میں نے ودود شاہ سے پوچھا " سر الیکشن ہو جائیں گے" انھوں نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور پورے یقین کے ساتھ جواب دیا " ناممکن، کبھی نہیں ہو سکتے" میں پریشان ہو گیا، میں نے ان سے وجہ پوچھی" وہ ابھی وجہ بتانے لگے تھے کہ فلائیٹ انائونس ہو گئی اور ہم دونوں اٹھ کر جہاز میں آ گئے، جہاز میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہماری نشست ساتھ ساتھ تھی، میں نے فلائیٹ کے دوران اپنا سوال دہرا دیا، اس کے جواب میں انھوں نے ایک خوفناک تصویر پینٹ کی، ودود شاہ کا کہنا تھا، ملک میں بڑے پیمانے پر فسادات ہونے والے ہیں، طالبان جنوبی پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں، یہ ڈیرہ غازی خان، بہاولپور اور ملتان میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی پلاننگ کر رہے ہیں، ملک کے تیس بڑے سیاستدان ہٹ لسٹ پر ہیں، ان سیاستدانوں میں میاں نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، چوہدری نثار علی خان، خواجہ آصف، حمزہ شہباز شریف، اسفند یار ولی، ڈاکٹر فاروق ستار، امین فہیم، سید خورشید شاہ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی اور بلاول زرداری بھٹو بھی شامل ہیں۔

طالبان ایک ہی وقت میں ان سب پر حملہ کریں گے اور یوں سارا سیاسی نظام تتربتر ہو جائے گا اور الیکشن ملتوی ہو جائیں گے، یہ سن کر میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا، میں نے ان سے پوچھا " اس کے بعد کیا ہو گا" ان کا کہنا تھا " نگران حکومت دو سال تک چلے گی اور اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ملک کس کے حوالے کرنا ہے" سید عبدالودود شاہ پورے سفر کے دوران میرے ساتھ اس قسم کی خوفناک اطلاعات شیئر کرتے رہے، مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے آج کوئی عار نہیں، میں نے ان کی زیادہ تر باتوں پر یقین کر لیا تھا کیونکہ وہ ایک ذمے دار عہدیدار تھے اور ان کی آبزرویشن کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی، ودود شاہ کے ساتھ اس ملاقات کے بعد میں بڑی حد تک الیکشنوں کے بارے میں شک کا شکار ہو گیا، میں اس شک کا برملا اظہار بھی کرتا رہا مگر پھر الیکشن ہو گئے، یہ الیکشن پرامن بھی تھے اور بڑی حد تک شفاف بھی اور ان الیکشنوں میں دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات بھی نہیں ہوئی، میں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ سید عبدالودود شاہ کو بھی تلاش کرتا رہا مگر وہ اپنا وقت گزار کر ریٹائر ہو گئے۔

ڈاکٹر احمر بلال صوفی نگران حکومت میں وفاقی وزیر قانون تھے، میں نے ان سے ڈی جی آئی بی کی آبزرویشن شیئر کی تو انھوں نے ایک نئی کہانی سنا دی، انھوں نے آئی بی کے ساتھ دوسرے دو خفیہ اداروں کے نام لیے اور انکشاف کیا، ان اداروں کی رپورٹس آئی بی سے بھی زیادہ خطرناک، تشویش ناک اور خوفناک تھیں، وزیراعظم کھوسو سمیت پوری کابینہ ان رپورٹس کو سیریس لے رہی تھی، ہم پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہم نے ان رپورٹس کی بنیاد پر نئی اسٹرٹیجی بنانا شروع کر دی، وزیراعظم نے مجھے آئینی راستہ نکالنے کی ذمے داری سونپی، ان کا خیال تھا ملک کے حالات کیسے بھی ہوں الیکشن ملتوی نہیں ہونے چاہئیں، ہم نے آئین کا جائزہ لیا اور سوچا اگر الیکشن کمشنر تھوڑی سی لچک دکھائیں تو ہم صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشن رولز میں تبدیلی کر سکتے ہیں، ہم عارضی قانون بنا سکتے ہیں اگر کوئی امیدوار الیکشن سے قبل انتقال کر جائے یا دہشت گردی کا شکار ہو جائے تو الیکشن کمیشن " کورنگ امیدوار" کو اس کی جگہ الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے۔

ہم آئین میں اس تبدیلی سے بڑے لیڈروں کی ہلاکت کے بعد بھی الیکشن ممکن بنا سکتے تھے، وزیراعظم کھوسو نے یہ تجویز مان لی اور مجھے الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو قائل کرنے کی ذمے داری سونپ دی، میں نے فخرو بھائی سے رابطہ کیا مگر یہ نہ مانے، ان کا خیال تھا ہم نے اگر الیکشن سے قبل رولز میں کسی قسم کی تبدیلی کی تو اس سے الیکشن کی ساکھ متاثر ہوجائے گی، فخرو بھائی کے انکار کے بعد ہمارے پاس دعائوں کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا، ہم گیارہ مئی کی رات تک دعائیں کرتے رہے، احمر بلال صوفی کے اس انکشاف نے بھی خفیہ اداروں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی، یہ انکشاف ان اداروں کی " مہارت" ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا، ملک کے خفیہ ادارے حکومت کی آنکھ، ناک اور کان ہوتے ہیں، یہ ادارے وزیراعظم اور صدر کو جو رپورٹ بھجواتے ہیں حکومت اس کی روشنی میں پالیسیاں بناتی ہے لیکن اگر ان اداروں کی یہ حالت ہو گی؟ اگر ڈی جی آئی بی حکومت کو پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ بتائے گا طالبان الیکشن سے قبل تیس لیڈروں کو اڑا دیں گے تو اس کے بعد کیا بچتا ہے؟

ہمیں ماننا پڑے گا پچھلے دس پندرہ بیس برسوں میں ملک کے تمام ادارے تباہ ہو چکے ہیں، اداروں کی تباہی صرف ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور او جی ڈی سی ایل تک محدود نہیں بلکہ خفیہ ادارے بھی اس فہرست میں شامل ہیں، یہ ان اداروں کا کمال ہے یہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کو اس سطح تک لے آئے کہ دونوں ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگے، انھوں نے 2008ء میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اتحاد بھی تڑوا دیا اور انھوں نے چیف جسٹس اور صدر کے درمیان شکوک و شبہات کا اتنا بڑا جنگل بھی بو دیا کہ دونوں کو ایک دوسرے کی شکل تک دکھائی نہیں دیتی، ان اداروں کی تمام تر مہارت ٹیلی فون ٹیپنگ، صحافیوں کی خبروں اور گھریلو ملازموں کی دی ہوئی اطلاعات تک محدود ہے اور یہ ان کی بنیاد پر خوف کے بڑے بڑے ہوائی قلعے تعمیر کر لیتے ہیں، حکومت ان قلعوں میں رہنا شروع کر دیتی ہے اور یوں حالات بدتر سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

میاں نواز شریف ایک نئے دور کا آغاز کر چکے ہیں، یہ اب تک بڑی مہارت اور ایمانداری سے کھیل رہے ہیں، میاں صاحب اگر چاہتے تو یہ مولانا فضل الرحمن کی مدد سے خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت بنا سکتے تھے، بلوچستان میں ہر زاویے سے ان کی حکومت بنتی تھی اور یہ اگر آج ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملا لیں تو پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں حکومت کرنا مشکل ہو جائے لیکن میاں نواز شریف نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے خیبر پختونخوا پاکستان تحریک انصاف کے حوالے کر دیا، سندھ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر چھوڑ دیا اور بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک جیسے شاندار اور غیر متنازعہ شخص کو وزارت اعلیٰ اور محمود اچکزئی کی پارٹی کو گورنر شپ دے کر ہم جیسے سطحی دانشوروں کو حیران کر دیا اور ہم نہ صرف تالیاں بجانے بلکہ میاں نواز شریف کی تعریف پر مجبور ہو گئے، میاں نواز شریف اگر اسی اسپرٹ سے آگے بڑھتے رہے۔

یہ ریاستی اداروں میں بھی ڈاکٹر عبدالمالک جیسے لوگ لاتے رہے، یہ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل، واپڈا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی اچھے لوگ لے آئے، یہ خفیہ اداروں میں بھی ایسے لوگ لے آئے جو حکومت کو ڈرانے کے بجائے اصلی انٹیلی جنس کریں تو ملک ٹریک پر آ جائے گاورنہ دوسری صورت میں تباہی روکے نہیں رکے گی، پاکستان مسلم لیگ ن میں ٹیلنٹ اور مہارت کی کمی نہیں، ہم چوہدری نثار، خواجہ آصف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی اور جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ سے سو اختلاف کر سکتے ہیں مگر ہمیں یہ ماننا ہو گا یہ لوگ بے ایمان نہیں ہیں، یہ لوگ نالائق بھی نہیں ہیں، یہ ماہر بھی ہیں اور ایماندار بھی اور اگر میاں نواز شریف نے انھیں سپورٹ کیا اور یہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے اداروں میں ماہر اور ایماندار لوگ لے آئے تو ملک بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں عبدالودود شاہ جیسے لوگ میاں صاحب کو گھیر لیں گے، خوف حکومت کی پالیسی بن جائے گا اور میاں صاحب بھی صدر زرداری کی طرح اقتدار کی گیند سنبھالتے تاریخ میں گم ہو جائیں گے، یہ ماضی کا قصہ بن جائیں گے چنانچہ اختیاط ضروری ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.