کرمان آج کے ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، یہ جنوب مشرق میں واقع ہے، پورے صوبے کی آبادی تیس لاکھ ہے، یہ پرامن، خوش حال اور مطمئن لوگوں کا صوبہ ہے، کرمان شہر صوبے کا دارالحکومت اور بڑا شہر ہے، یہ شہر دو ہزار سال کی تاریخ کا امین ہے، شاہراہ ریشم شہر کو چوم کر آگے بڑھتی ہے، مارکو پولو نے یہ شہر اور یہ صوبہ یورپ میں متعارف کرایا، وہ 1250ء سے 1260ء کے درمیان کرمان سے گزرا، شہر اور شہر کے لوگوں سے متاثر ہوا اور اپنی کتاب میں بڑی محبت سے ان کا ذکر کیا، کرمان اس وقت ملک ہوتا تھا، ملک پر بادشاہت تھی، بادشاہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔
کرمان کے دائیں بائیں سات ایرانی سلطنتیں تھیں، ساتوں ریاستوں میں اس وقت جنگیں چل رہی تھیں، صرف کرمان میں امن تھا، مارکو پولو نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں کرمان کے بادشاہ کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا، مارکو پولو نے لکھا، کرمان کے لوگ معزز، پرامن اور سادہ تھے، وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے، کرمان کے بادشاہ نے ایک دن اپنے مشیر جمع کیے اور ان سے پوچھا " میں حیران ہوں، ہمارے لوگ پرامن، صلح جو اور ایمان دار ہیں جب کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے لوگ مکار، خونخوار اور جھگڑالو ہیں، یہ ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہمسائے ہم سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟" ایک مشیر نے جواب دیا " یہ مٹی کا فرق ہے، ان کی مٹی ہماری مٹی سے مختلف ہے" بادشاہ نے اس رائے کو جانچنے کا فیصلہ کیا، اصفہان کرمان کے ہمسائے میں واقع ہے، یہ ملک ہمہ وقت جنگوں کا شکار رہتا تھا، اصفہان کے لوگ تند خو، لڑاکے، ظالم اور جنگ جو بھی تھے، کرمان کے بادشاہ نے اپنے سفیر اصفہان بھجوائے، انھیں ہدایت کی، یہ اصفہان کے سات مختلف مقامات کی مٹی بوریوں میں بھریں اور کرمان لے آئیں۔
سفیر گئے اور اصفہان کی مٹی کرمان لے آئے، بادشاہ نے وہ مٹی محل کے سات کمروں میں بچھائی اور اس پر قالین بچھا دیے، بادشاہ نے اس کے بعد شاندار ضیافت کا اہتمام کیا، مہمان آئے، بادشاہ نے انھیں ان سات کمروں میں بٹھا دیا، کھانا شروع ہوا اور کرمان کے وہ سردار جن کی شرافت، نرمی اور برداشت کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ چند لمحوں میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو گئے، وہ ایک دوسرے کے گلے تک کاٹنے پر تل گئے، بادشاہ مشیر کی آبزرویشن کا قائل ہو گیا، وہ مان گیا "مٹی انسان کے مزاج پر اثر کرتی ہے"۔
ہم اگر چند لمحوں کے لیے مارکوپولو کے اس واقعے کو سچ مان لیں اور تاریخ اور دنیا کو مٹی کے ریفرنس سے دیکھیں تو ہمیں اسلامی دنیا کے مسائل، افراتفری، ہنگاموں اور قتل و غارت گری کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی اور ہم یورپ، امریکا اور مشرق بعید کی ترقی کی وجوہات بھی سمجھ جائیں گے، آپ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو تاریخ کے ہر دور میں مکہ شہر میں شدت، انا اور سختی ملے گی جب کہ آپ اگر مکہ سے ساڑھے چارسو کلومیٹر دور مدینہ چلے جائیں تو آپ کو اس شہر کا امن، سکون، وسعت اور مہمان نوازی حیران کر دے گی۔
مکہ اور مدینہ دونوں ایک ہی ملک کے شہر ہیں لیکن دونوں میں اتنا فرق کیوں؟ ہم یقینا رسول اللہ ﷺ، خلفاء راشدین اور صحابہؓ کو اس کی وجہ قرار دیں گے، یہ درست بھی ہے کیونکہ جس زمین نے نبی اکرم ؐ کے قدم چومے ہوں اس کی تاثیر نے بہرحال تبدیل ہونا ہی تھا، یہ ہمارے رسولؐ کا اعجاز تھا لیکن سوال یہ ہے نبی اکرم ؐ نے مدینہ میں صرف دس سال گزارے جب کہ آپؐ نے حیات مبارکہ کے 53 سال مکہ میں بسر کیے، آپؐ کی ولادت بھی مدینہ کے بجائے مکہ میں ہوئی تھی، خلفائے راشدین کی زندگیوں کا بڑا حصہ بھی اسی شہر میں گزرا تھا اور ہزاروں صحابہ کرامؓ بھی مکہ ہی میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں جوان ہوئے لیکن اس کے باوجود مکہ اور مدینہ کی فضاؤں میں فرق ہے۔
کیوں؟ آپ اس کیوں کے جواب کے لیے کرمان کے بادشاہ کا واقعہ دوبارہ پڑھیں اور آپ اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام ملکوں، خطوں اور شہروں کی تاریخ بھی دیکھیں جن میں اس وقت جنگیں چل رہی ہیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ تمام شہر، یہ تمام خطے اور یہ تمام ملک تاریخ کے تمام ادوار میں جنگوں، افراتفری اور قتل و غارت گری کا شکار رہے، یہ شہر اسلام کے ظہور سے پہلے بھی جنگوں کا شکار تھے، اسلامی دور میں بھی جنگوں کا شکار رہے اور آج بھی افراتفری اور قتل و غارت گری کا نشانہ ہیں، آپ لبنان، فلسطین اور یوروشلم کی تاریخ دیکھ لیں، آپ شام، یمن، مصر، عراق اور ایران کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں اور آپ پاکستان اور بھارت کے ان علاقوں کا پروفائل بھی نکال لیں جہاں آج لڑائیاں چل رہی ہیں۔
آپ کو وجہ سمجھ آ جائے گی، آپ اس کے بعد یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد آج یورپ کے ان ملکوں، ان خطوں اور ان علاقوں میں ایک بار پھر افراتفری نظر آئے گی جو ہزاروں سال میدان جنگ یا جنگوں کی وجہ رہے، آپ یونان کی تاریخ پڑھیں اور اس کے بعد یونان کی موجودہ صورتحال دیکھیں، آپ رومن ہسٹری پڑھیں اور اس کے بعد موجودہ اٹلی کو دیکھیں اور آپ اسپین، جرمنی اور آسٹریا کی تاریخ پڑھیں اور اس کے بعد موجودہ صورتحال کا تجزیہ کریں، آپ کو مستقبل، حال اور ماضی تینوں میز پر رکھے نظر آئیں گے۔
آپ اس کے بعد اس نقطہ نظر سے امریکا اور روس کو بھی دیکھیں، آپ کو ان دونوں ملکوں کے متحارب خطوں اور ان خطوں کے لوگوں کی نفسیات بھی سمجھ آ جائے گی، آپ کو آج بھی امریکا کے ان شہروں میں لاء اینڈ آرڈر، قتل و غارت گری اور لوٹ مار دکھائی دے گی جن میں مایا سولائزیشن، ریڈ انڈینز اور گوروں کے دور میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور آپ کو آج بھی روس کے ان علاقوں میں آگ، بارود اور لاشیں نظر آئیں گی جن میں ماضی میں جنگیں ہوتی تھیں، یہ کیا ہے؟ یہ مٹی کا اثر ہے اور آپ اگر چند لمحوں کے لیے اس اثر کو حقیقت مان لیں تو آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا "پاکستانی اپنے ائیرپورٹس پر دوسرے مسافروں کو کہنیاں اور ٹھڈے کیوں مارتے ہیں اور یہ یورپی ائیر پورٹس پر اترتے ہی چپ چاپ لائن میں کیوں لگ جاتے ہیں؟" اور آپ یہ بھی جان لیں گے حج کے دوران ہر سال مکہ میں بھگدڑ کیوں مچتی ہے؟ لوگ کیوں مرتے ہیں؟ آپ بس چند لمحوں کے لیے کرمان کے بادشاہ کا فلسفہ مان لیں۔
آپ بس چند لمحوں کے لیے مکہ مکرمہ کی تاریخ پڑھ لیں، آپ جان جائیں گے مکہ کی مٹی میں سختی بھی ہے اور شدت بھی۔ یہ سخت مٹی ہے، اس مٹی نے فتح مکہ تک نبی اکرم ؐ کو نبی نہیں مانا تھا، اس مٹی کی شدت دیکھ کر نبی اکرم ؐ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ ہجرت فرما گئے مگر مٹی کو قرار نہ آیا اور یہ مسلمانوں کے خلاف مدینہ کی طرف لشکر بھجواتی رہی، یہ اس شہر کی مٹی کی شدت تھی جس کی وجہ سے شاید نبی اکرم ؐ فتح مکہ کے بعد واپس مدینہ لوٹ گئے اور یہ بھی اس شہر کی مٹی کی شدت ہے جس کے ہاتھوں ہر سال حاجی تکلیف بھی اٹھاتے ہیں، زخمی بھی ہوتے ہیں اور شہید بھی۔ مکہ مکرمہ کی مٹی میں شدت اور تکلیف دونوں ہیں چنانچہ ہم مسلمان اگر سہولت اور آسانی کے ساتھ حج کرنا چاہتے ہیں۔
ہم اگر اپنے آپ اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان 800 لوگوں جیسے انجام سے بچانا چاہتے ہیں جو 2015ء میں حج کی تکمیل سے پہلے منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حبس اور بھگدڑ کے ہاتھوں شہادت پا گئے تو پھر ہمیں کچھ اصول، کچھ ضابطے اور کچھ نظام وضع کرنا ہوں گے، یہ نظام، یہ ضابطے اور یہ اصول مٹی کی شدت تبدیل نہیں کر سکیں گے لیکن یہ حاجیوں کا حج ضرور آسان بنا دیں گے، یہ ہزاروں جانیں ضرور بچا لیں گے، میری سعودی عرب کی حکومت سے درخواست ہے، یہ تخمینہ لگائے منیٰ میں ایک وقت میں کتنے حاجی رمی کر سکتے ہیں، یہ اس تخمینے کے بعد حاجیوں کے مختلف گروپوں کو وقت الاٹ کر دے، ہر گروپ صرف اپنے مقررہ وقت پر رمی کے لیے کیمپ سے نکلے، رمی کے راستے میں آٹو میٹک بیریئر لگا دیے جائیں۔
یہ بیریئر سیکیورٹی گیٹس کی طرح ہوں، آپ ان میں صرف داخل ہو سکیں، واپس نہ آ سکیں، آپ مشین میں کارڈ ڈالیں، بیریئر کھلے اور آپ رمی کے پل پر چڑھ جائیں، یہ بیریئر پل پر ہر آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں، آپ ان کے ذریعے تعداد بھی مانیٹر کر لیں گے اور لوگ بھی ڈسپلن میں رہیں گے، آپ اس سلسلے میں ویٹی کن سٹی اور آرلینڈو (امریکا) کے ڈزنی ورلڈ کا سسٹم بھی دیکھ سکتے ہیں، ڈزنی ورلڈ میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ آتے ہیں لیکن وہاں کسی قسم کی افراتفری نہیں مچتی، کیوں؟ ان کا بیریئر سسٹم۔ یہ سسٹم ہر پارک میں صرف اتنے لوگوں کو داخل ہونے دیتا ہے جتنی اس میں گنجائش ہوتی ہے، رمی کے مقام پر سایہ بھی نہیں اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے وہاں آکسیجن بھی کم ہو جاتی ہے۔
سعودی حکومت شیاطین کے مقامات تک سائے کا بندوبست کر دے، راستے میں آکسیجن بھی پھینکی جائے، حاجیوں کے لیے پانی کی بوتل بھی لازمی قرار دے دی جائے، حاجی اس وقت تک پل پر نہ چڑھ سکیں جب تک ان کے ہاتھ میں پانی کی بوتل نہ ہو، حاجیوں کے لیے ٹریننگ بھی ضروری قرار دے دی جائے، حکومتیں ملک بھر میں پرائیویٹ ٹریننگ کمپنیاں بنوائیں، یہ کمپنیاں اپنے اپنے شہر کے عازمین کو ٹریننگ دیں، حاجیوں کے پاس جب تک ٹریننگ کا کارڈ نہ ہو، انھیں اس وقت تک جہاز پر سوار نہ ہونے دیا جائے۔
میری حکومت پاکستان سے بھی درخواست ہے، آپ نادرا کی مدد سے ایسی "چپ" تیار کروائیں جس میں حاجی سے متعلقہ تمام معلومات موجود ہوں، یہ چپ "ربڑ بین" کے ذریعے حاجی کے بازو پر کہنی سے اوپر اس جگہ باندھ دی جائے جہاں وضو کا پانی نہیں جاتا، یہ چپ ہر قسم کے حادثے کے بعد وزارت حج، پاکستانی سفارت خانے اور حج گروپ کی مدد بھی کرے گی اور حاجیوں کے لواحقین بھی اس پریشانی سے بچ جائیں گے جس میں یہ اس وقت مبتلا ہیں، منیٰ کے حادثے کو پانچ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک68 لوگ مسنگ ہیں۔
یہ بے چارے زخمی حالت میں کسی اسپتال میں پڑے ہوں گے یا پھر کسی مردہ خانے میں۔ زخمی عربی نہیں جانتے ہوں گے اور شہید کے جسم پر احرام کے سوا کوئی نشانی نہیں ہو گی چنانچہ پہچان کیسے ہو گی اور آخر میں ان مسلمان بھائیوں سے بھی درخواست ہے جو ایک بار حج کر چکے ہیں، مسلمان پر صرف ایک بار حج فرض ہے، آپ یہ فرض ادا کر چکے ہیں، آپ اب دوسرے مسلمان بھائیوں کے فرض میں رکاوٹ نہ بنیں، اللہ رکاوٹ بننے اور تکلیف دینے والوں کو پسند نہیں کرتا، ایسا نہ ہو، آپ کے پاؤں، آپ کی کہنی سے حج کے دوران دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچ جائے اور آپ زندگی بھر کی نیکیوں سے محروم ہو جائیں۔