مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں 8 اورسینیٹ میں 5سیٹیں ہیں، آپ سیاسی کمال دیکھیے، مولانا نے ان 13 سیٹوں کے ساتھ پورے حکومتی اتحاد، پی ٹی آئی، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو اپنی دہلیز پر بٹھا رکھا ہے، یہ جمہوریت کے چیمپیئن بھی بن گئے ہیں، یہ اس وقت منہ سے جو بھی لفظ نکالیں گے وہ آدھ گھنٹے میں پورا ہو چکا ہوگا جب کہ ان کے مقابلے میں عمران خان کے پاس قومی اسمبلی میں 90 اور سینیٹ میں 17نشستیں ہیں اور کے پی میں ان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ تاریخ کی مضبوط ترین حکومت ہے اور انھیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف سے زیادہ عدلیہ کی سپورٹ حاصل ہے لیکن یہ اس کے باوجود جیل میں پڑے ہیں لہٰذا پھر سیاست دان کون ہوا؟
وہ مولانا فضل الرحمن جو پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنی امامت میں نماز پڑھا رہے ہیں یا پھر وہ عمران خان جن کی تمام امیدوں کا مرکز اس وقت مولانا ہیں، میرا خیال ہے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر مولانا کے نام سے ملک میں سیاسیات کی پہلی یونیورسٹی قائم کر دینی چاہیے اور اس یونیورسٹی میں داخلہ لے لینا چاہیے، عمران خان کو بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کے بجائے مولانا کی یونیورسٹی کی کلرکی کے لیے اپلائی کرنا چاہیے، کیوں؟ کیوں کہ ملک میں اس وقت سیاست دان صرف مولانا ہیں باقی سب ریلو کٹے ثابت ہو رہے ہیں۔
یہ ایشو اس وقت اسٹارٹ ہوا جب عمران خان نے جیل میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی سے امیدیں وابستہ کر لیں، انھوں نے جولائی میں کہا، اکتوبر کے آخر میں جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو جائیں گے اور جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جائیں گے تو 8 فروری کے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن بن جائے گا، کمیشن فارم 45 اور فارم 47 منگوائے گا اور یہ حکومت ختم ہو جائے گی لہٰذا پارٹی نئے الیکشن کی تیاری کر لے، عمران خان کے اس دعوے کے دو نتائج نکلے، جسٹس منصور علی شاہ جیسا دبنگ جج بھی متنازع ہوگیا، یہ اب اگر چیف جسٹس بنتے ہیں تو آپ خود سوچیے کیا یہ چاہتے ہوئے بھی جوڈیشل کمیشن بنا سکیں گے؟ کیا یہ عمران خان کو ریلیف دے سکیں گے اور اگر ایسا ہوا تو آج کی حکومت اور مستقبل کی اپوزیشن یہ بیان قوم کے سامنے رکھ کر بار بار سوال کرے گی عمران خان کو جولائی اور اگست میں کیسے پتا چل گیا تھا نومبر 2024میں جوڈیشل کمیشن بنے گا اور حکومت چلی جائے گی؟
لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا عمران خان نے جسٹس منصور کی پوزیشن نازک بنا دی، دوسرا نتیجہ حکومت ڈر گئی اور یہ اب آئینی ترامیم کا ایک ایسا پیکیج لے کر پھر رہی ہے جس کا مقصد جسٹس منصور علی شاہ کو روکنا اور عدلیہ کو حکومت یا پارلیمنٹ کے ماتحت بنانا ہے اور حکومت اس کوشش میں آئین، اخلاقیات اور دماغ تینوں کا توازن کھو بیٹھی ہے اور یہ اس ٹارگٹ کے لیے اب کیا کیا نہیں کر رہی؟ اس سیناریو میں ہمیں ایک اور حقیقت ماننا ہوگی، ملک میں سیاست دان صرف ایک ہی ہے اور اس کا نام مولانا فضل الرحمن ہے، عمران خان دس سال مولانا کو ڈیزل کہتا رہا، یہ اسٹیج پر کھڑا ہو کر مولانا کی نقلیں اتارتا تھا، اس نے دس سال مولانا سے ہاتھ نہیں ملایا لیکن آج پی ٹی آئی بار بار مولانا کے در پر جاتی ہے، مولانا ہنس کران کی درخواست سنتے ہیں اور آخر میں اپنی امامت میں انھیں نماز پڑھاتے ہیں، تصویر بنواتے ہیں اور اسے میڈیا میں ریلیز کر دیتے ہیں۔
آج عارف علوی، اسد قیصر، گوہر خان، عمران خان اور سلمان اکرم راجہ دن رات مولانا کی جمہوریت پسندی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور آپ کمال دیکھیں، مولانا نے ابھی تک پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا، یہ بس انھیں چارہ بنا کر، انھیں دکھا کر روز حکومت کو ڈرا دیتے ہیں اور حکومت دوڑ کر ان کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے، مولانا کو شکوہ تھا آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف انھیں استعمال کر گئے، پی ڈی ایم میں نے بنائی، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد میں لے کر آیا اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی عمران خان سے دور میں نے کیا لیکن الیکشنز کے تمام فوائد ان دونوں نے سمیٹ لیے، مجھے ان دونوں نے پوچھا تک نہیں لہٰذا یہ زرداری صاحب اور میاں صاحب دونوں سے ناراض تھے لیکن آج انھوں نے قومی اسمبلی میں 8 اور سینیٹ کی 5سیٹوں کے ساتھ پورے سیاسی اتحاد کو اپنے پیچھے لگا لیا اور آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو بار بار ان کے دروازے پر آنے پر مجبور ہو گئے۔
اتوار 15 ستمبر کی رات میاں نواز شریف بھی مولانا کے گھر آنے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن مولانا پی ٹی آئی کی امامت میں مصروف تھے، دوسرا میاں صاحب کو پارٹی نے سمجھایا مولانا آپ کو بھی انکار کر دیں گے جس کے بعد ہم مزید ڈائیلاگ نہیں کر سکیں گے چناں چہ آپ ابھی نہ جائیں، اس وقت جائیں جب مولانا نرم پڑ جائیں ورنہ آپ کو بھی انکار ہو جائے گا، آپ اب صورت حال دیکھیں، پی ٹی آئی کی ساری امیدیں مولانا سے وابستہ ہیں اور حکومت بھی مولانا کی محتاج ہے جب کہ مولانا انکار کر رہے ہیں اور نہ وعدہ کر رہے ہیں، یہ سب سے مل رہے ہیں، سب کو چائے پلا رہے ہیں اور سب کے لیے دعائے خیر کر رہے ہیں اور کھل کر مسکرا رہے ہیں، آج سے ایک ماہ پہلے تک مولانا کی گلی سونی ہوتی تھی، گھر میں بھی رونق نہیں تھی لیکن اب پوری گلی میں ڈی ایس این جیز کھڑی ہیں اور ایک کے بعد دوسرا وفد آ رہا ہے اور مولانا اس میلے کو طول دیتے جا رہے ہیں۔
مولانا یہ بھی جانتے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت 25 اکتوبر کو پوری ہو جائے گی، حکومت کے پاس صرف 37 دن ہیں اور یہ دن جوں جوں کم ہوتے چلے جائیں گے ان کی اینگزائٹی میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ آخر میں میرا ہر مطالبہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے، عمران خان کے پاس بھی باہر آنے کا یہ آخری موقع ہے، یہ بھی اگلے ہفتے تک میرا ہر مطالبہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے، جے یو آئی کو سینیٹ کی دو سیٹیں چاہییں، یہ مولانا کے سمدھی حاجی غلام علی اور سابق سینیٹر دلاور خان (ان کی مدت مارچ 2024 میں پوری ہوگئی) کو سینیٹر بنانا چاہتی ہے، کے پی اسمبلی میں ان کے کل 9ایم پی ایز ہیں، یہ ان کے ساتھ ایک بھی سیٹ نہیں نکال سکتے، انھیں پی ٹی آئی کی ضرورت ہے۔
عمران خان انھیں ایک سیٹ دینے کے لیے تیار ہے مگر یہ دو مانگ رہے ہیں اور میرا خیال ہے خان اگلے ہفتے تک دو سیٹیں دینے کے لیے بھی رضا مند ہو جائیں گے، دوسری طرف پارٹی حکومت سے کے پی کی گورنر شپ چاہتی ہے، پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار نہیں، مولانا کا خیال ہے حکومت ستمبر کے آخر تک یہ مطالبہ بھی مان جائے گی اور مولانا سیاسی لحاظ سے اس قدر سمجھ دار ہیں کہ عین ممکن ہے یہ دونوں کی آفرز قبول کر لیں اور اپنا گورنر بھی لے آئیں اور پی ٹی آئی سے سینیٹ کی دو سیٹیں بھی لے لیں اور اگر یہ ہوگیا تو پھر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو واقعی مولانا کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے، انھیں مولانا کو پیر سیاست یا سیاسیات کا چانسلر مان لینا چاہیے۔
ہم اب آتے ہیں آئینی ترامیم کی طرف، حکومت کی شاپنگ لسٹ بہت طویل ہے، یہ اول ایک اسٹروک سے تمام مہربانوں کو ایکسٹینشن دینا چاہتی ہے، یہ تمام سرکاری ملازمین کی "ریٹائرمنٹ ایج" میں تین سال کا اضافہ کرنا چاہتی ہے، اس سے چیف جسٹس آف پاکستان، ہائی کورٹ کے تمام چیف جسٹس، ججز، بیوروکریٹس اور افواج پاکستان کے تمام سربراہوں کی مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ ہو جائے گا، عمران خان اس کے لیے راضی نہیں ہیں، یہ سمجھتے ہیں اس سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جنرل عاصم منیر کو مزید تین سال مل جائیں گے اور ان کے ہوتے ہوئے میں جیل سے باہر نہیں آ سکوں گا، مولانا بھی یہ کارڈ کھیل رہے ہیں لیکن ان کا مقصد ایکسٹینشن روکنا نہیں، یہ ملک کی دونوں اعلیٰ شخصیات سے براہ راست رابطہ چاہتے ہیں۔
ان کی خواہش ہے مجھے براہ راست کہا جائے اور جس دن یہ ہوگیا مولانا اس دن ترامیم کے لیے راضی ہو جائیں گے، دوسری طرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سینئر ججز کو بھی یہ ترامیم قبول نہیں ہیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ ان ترامیم کے بعد چیف جسٹس نہیں بن سکیں گے یا پھر لیٹ بنیں گے اور اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوگا، دوسرا حکومت ایک ایسی آئینی عدالت بنانا چاہتی ہے جس میں تمام آئینی مقدمات شفٹ کر دیے جائیں اور یہ عدالت سپریم کورٹ کے ماتحت بھی نہ ہو یعنی کہ یہ اپنی ہیت میں سپریم کورٹ ہو، اس کے نتیجے میں وہ تمام آئینی مقدمات سپریم کورٹ سے نکل جائیں گے جن کا عمران خان کو فائدہ ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس وقت ان ججز کی تعداد زیادہ ہے جن سے عمران خان کو فائدہ ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے اور حکومت ان ججز کا زور نہیں توڑ پا رہی، اس زور کو توڑنے کا واحد طریقہ آئینی عدالت ہے اور یہ اسے ہر صورت بنانا چاہتی ہے، حکومت آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی تبدیلی کرنا چاہتی ہے تاکہ یہ عمران خان کے ایم این اے اور سینیٹرز توڑ کر ترامیم منظور کرا سکے، حکومت ججز کے تقرر کا طریقہ کار بھی بدلنا چاہتی ہے۔
یہ ججز کی تقرری کا اختیار چیف جسٹس حضرات کے ہاتھ سے نکال کر حکومت یا پارلیمنٹ کے ہاتھ میں دینا چاہتی ہے تاکہ یہ اپنی مرضی کے ججز لا سکے اور یہ ہائی کورٹس کے ججز کو روٹیشن پر دوسرے صوبوں میں بھی بھجوانا چاہتی ہے تاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججز کو کوئٹہ اور سندھ بھجوایا جا سکے جن کی وجہ سے عمران خان کو روزانہ ریلیف مل رہا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت مولانا فضل الرحمن کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا حکومت بھی مولانا کی امامت میں نماز ادا کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ جاتی ہے اور پی ٹی آئی بھی اور عن قریب اسٹیبلٹمنٹ اور عدلیہ کو بھی وضو کرنا پڑ جائے گا لہٰذا سوال یہ ہے پھر اس ملک میں اصل سیاست دان کون ہے؟ کیا اس کا نام مولانا فضل الرحمن نہیں؟