میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صدر آصف علی زرداری کا " فین" ہوتا جا رہا ہوں، ہم مانیں نہ مانیں لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں۔
انھوں نے ساڑھے چار سال میں پاکستان اور عالمی سیاست کے مہروں کو ماہر شطرنج باز کی طرح کھیلا اور انھیں ایسی صورتحال میں لے گئے جہاں سے نکلنا شاید اب ان کے لیے ممکن نہ ہو، صدر آصف علی زرداری نے پاکستان مسلم لیگ ن کے گلے میں پنجاب کا ڈھول باندھ دیا، اس ڈھول کی وجہ سے یہ آج تک کھل کر پیپلز پارٹی کی مخالفت نہیں کر سکی، اے این پی کو خیبر پختونخواہ دے دیا گیا، بلوچستان کی حکومت بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں تھوڑی تھوڑی تقسیم کر دی گئی، بلوچستان اسمبلی میں 65 ارکان ہیں،
صدر نے 41 کو وزیر بنا دیا جب کہ باقی مشیروں کے عہدوں پر فائز ہیں چنانچہ وہاں حکومت کا کوئی مخالف نہیں رہا، ایم کیو ایم کا کراچی اور حیدر آباد میں ہولڈ ہے، اسے سندھ اور وفاق کی حکومتوں میں شامل کر لیا گیا، جے یو آئی خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے چند علاقوں میں مضبوط ہے، صدر نے اسے وفاق اور بلوچستان کے اقتدار میں شامل رکھا، مولانا فضل الرحمان 14 دسمبر 2010ء کو اتحاد سے الگ ہو گئے لیکن انھیں آج بھی سرکاری سیکیورٹی اور بلوچستان حکومت میں حصہ مل رہا ہے،
پاکستان مسلم لیگ ق گو زرداری گو کے نعرے لگاتی تھی صدر نے اس کی ساری "مانگیں " پوری کر کے اس کو بھی اتحاد میں شامل کر لیا اور آج پاکستان کی نائب وزارت عظمیٰ سے لے کر 15 وفاقی وزارتیں اور مشاورتیں ان کے پاس ہیں، صدر نے مسلم لیگ فنگشنل، فاٹا کے اراکین اسمبلی اور آزاد ارکان اسمبلی کو بھی اقتدار میں شامل کر رکھا ہے، پاکستان میں ہر جمہوری حکومت کو فوج اور امریکا سے خطرہ رہتا ہے لیکن صدر نے انھیں بھی اپنا پارٹنر بنا لیا،
یہ فوج کا ہر مطالبہ مان لیتے ہیں، یہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ان کی مرضی کے مطابق ایکسٹینشن تک دے دیتے ہیں چنانچہ فوج بھی ان کی پارٹنر ہے، یہ امریکا کو پورے ملک میں کھل کھیلنے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں، امریکا اگر ایبٹ آباد میں اپنے فوجی اتارنا چاہے تو بھی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لہٰذا امریکا بھی صدر کے ساتھ اقتدار میں شامل ہے۔
صدر نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو صرف راضی نہیں رکھا بلکہ انھوں نے ان تمام کے سروں پر ایک ایک تلوار بھی لٹکا رکھی ہے، یہ تلوار کمزور دھاگے سے بندھی ہے اور یہ لوگ جانتے ہیں جس دن انھوں نے صدر کو زیادہ تنگ کیا یہ دھاگہ توڑ دیں گے اور یوں ان کی گردن ماری جائے گی مثلاً پاکستان مسلم لیگ ن کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کا آرا لگا دیا گیا ہے اور یہ آرا بڑی تیزی سے ن لیگ کی شاخیں اور تنے کاٹ رہا ہے،
پاکستان تحریک انصاف کی ٹانگ پر ایجنسیوں اور ملک ریاض کا پٹاخہ باندھ دیا گیا ہے، عمران خان جب بھی صدر آصف علی زرداری کے قلعے میں نقب لگانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی ٹانگ پر بندھا کوئی نہ کوئی پٹاخہ پھٹ جاتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف چھلانگیں لگانے لگتی ہے، ایم کیو ایم کے سر پر ذوالفقار مرزا کی تلوار لٹک رہی ہے، ایم کیو ایم جوں ہی حکومت کو آنکھیں دکھاتی ہے، ذوالفقار مرزا ٹیلی ویژن اسکرین پر آجاتے ہیں، یوسف رضا گیلانی مضبوط ہونے لگے تو ان کے گلے میں حج اور ایفی ڈرین کے استرے باندھ دیے گئے،
پاکستان مسلم لیگ ق کے لیے پنجاب بینک سکینڈل اور این آئی سی ایل کافی تھے، میاں برادران جب بھی صدر کی کرپشن کا معاملہ اٹھاتے ہیں، رحمان ملک میاں برادران کی فائلیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور پیچھے رہ گیا امریکا، فوج اور عدلیہ تو صدر نے ان کا بھی ٹھیک ٹھاک بندوبست کر رکھا ہے۔ امریکا اور فوج کو آمنے سامنے بٹھا کر میز پر ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن، سلالہ چیک پوسٹ حملہ، نیٹو سپلائی اور شمالی وزیرستان آپریشن کی چھریاں اور کانٹے رکھ دیے گئے اور یہ ان چھری کانٹوں سے ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں،
عدلیہ کو بیک فُٹ پر لانے کے لیے ڈاکٹر ارسلان کیس میدان میں آ گیا اور اب میڈیا کو لگام ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کیا جا رہا ہے، حکومت عنقریب کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کے بارے میں ایسی ایسی معلومات "لیک" کرے گی کہ بیچارے باقی زندگی وضاحت کرتے کرتے گزار دیں گے اور رہ گئے میڈیا مالکان تو ان کے لیے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کافی ہو گا چنانچہ صدر نے تمام خطرات کو مفادات اور تلواروں میں الجھا کر اپنی اپنی جگہ " فکس" کر دیا ہے اور سیاست کا مطلب اگر بلاشرکت غیرے اقتدار ہے تو صدر آصف علی زرداری تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں اور ہمیں یہ ماننا پڑے گا۔
یہ حقیقت ہے ملک کا کوئی طبقہ ان سے خوش نہیں لیکن کوئی انھیں ہٹا نہیں سکتا اور یہ آج بھی ملک کے مضبوط ترین شخص ہیں اور اگر آج بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو ان کی حکومت بمشکل دو سال نکال پاتی اور یہ آج جیل میں ہوتیں یا پھر دوبارہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہوتیں، یہ صدر آصف علی زرداری ہیں جو پارٹی کو بھی چلا رہے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو پانچویں سال تک بھی لے آئے ہیں لیکن، لیکن اور لیکن! یہ بھی حقیقت ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے ساڑھے چار برسوں میں اس ملک کو چلنے کے قابل نہیں چھوڑا، یہ ملک تباہی کے اس گڑھے تک پہنچ گیا ہے جہاں سے اب شاید فرشتے بھی اسے واپس نہ لا سکیں، ہمیں دوبارہ ٹریک پر آنے کے لیے یہ ملک ایک بار پھر بنانا پڑے گا، اس کے تمام ادارے توڑنا پڑیں گے اور اس کے بعد ان اداروں کی نئی بنیاد رکھنا پڑے گی اور یہ شاید خونی انقلاب یا ایٹمی جنگ کے بغیر ممکن نہ ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایسا کیوں کر رہی ہے اور کیا یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے یا پھر کوئی مجبوری ہے؟ میرا خیال ہے یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے اور یہ مجبوری ایک المیہ ہے اور اس المیے کا نام این آر او اور سوئس اکائونٹس ہیں، یہ ایڑی کا وہ تیر ہے جو پوری یونانی سلطنت کو تباہی کے دھانے پر لے آیا ہے اور ہم روزانہ اس گڑھے کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں، صدر آصف علی زرداری کی سب سے بڑی مجبوری سوئس اکائونٹس ہیں اور یہ اس مجبوری کی وجہ سے اہل لوگوں کو بڑے عہدوں پر تعینات کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔
لہٰذا یہ ہر اس شخص کو وزیر اعظم بنا دیں گے جو صدر کے سوئس اکائونٹس بچانے کے لیے تن، من اور عزت کی قربانی دے دے گا، آپ جب وفاداری کو اہلیت پر فوقیت دیں گے تو آپ کو اٹھارہ کروڑ لوگوں میں اہل وزیراعظم کہاں سے ملے گا، صدر کراچی کے حالات بھی ٹھیک نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے لیے آپ کو اپنے اتحادی ناراض کرنا پڑیں گے اور یہ اتحادی اتحاد سے نکل کر آپ کے لیے مسائل پیدا کر دیں گے چنانچہ آپ لوگوں کو کراچی میں مرتے دیکھیں گے اور دیکھتے چلے جائیں گے،
آپ پاکستان مسلم لیگ ق اور اے این پی کو ان کی مرضی کی وزارتیں دیں گے اور یہ لوگ جس نااہل شخص کو کہیں گے آپ اسے وزیر بنائیں گے کیونکہ دوسری صورت میں یہ ناراض ہو جائیں گے اور یوں آپ کے سوئس اکائونٹس کھل جائیں گے چنانچہ ریلوے تباہ ہو جائے یا انڈسٹری بیٹھ جائے یا اوورسیز پاکستان کی وزارت سسکنے لگے آپ اتحادیوں کے وزیر نہیں ہٹا سکتے، آپ اپنی پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے کی ناراضگی سے بچنے کے لیے ان کے سی این جی اسٹیشن بھی بند نہیں کرا سکتے،
آپ نوید قمر کو دفاعی پیداوار بڑھانے، احمد مختار کو بجلی پیدا کرنے اور مخدوم امین فہیم کو صنعتی پیداوار میں اضافے کا حکم نہیں دے سکتے، آپ ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق، فاٹا اور آزاد ارکان کے پریشر گروپس سے بھی وزارتوں کا حساب نہیں مانگ سکتے، آپ فوج کو دائرے میں بھی نہیں رکھ سکتے، آپ امریکا کو ملکی سیاست سے باہر بھی نہیں نکال سکتے، آپ اپنے دوستوں کو بھی لوٹ مار سے باز نہیں رکھ سکتے اور آپ راجہ پرویز اشرف کے رشتے داروں کو بھی سی ڈی اے کے پلاٹس میں مار دھاڑ سے نہیں روک سکتے کیونکہ آپ جہاں سختی کریں گے،
آپ کے سیاسی اور ذاتی ساتھی آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور یوں آپ کا احتساب شروع ہو جائے گا چنانچہ آصف زرداری صدر رہنے اور اپنے اکائونٹس بچانے کے لیے ہر قسم کا سمجھوتہ کر جاتے ہیں اور یہ مجبوری پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے، کاش آصف علی زرداری اس مجبوری سے چھٹکارہ پا سکتے، کاش یہ 60 ملین ڈالر کی قربانی دے دیتے تو آج ان کی ذہانت اس ملک کے کام آ رہی ہوتی، یہ ملک بچ جاتا لیکن صدر صاحب اپنے 60 ملین ڈالر بچانے کے لیے ملک اور جمہوریت دونوں قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان دونوں کے لیے بڑا المیہ ہے۔